سیسی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن SOWA کے قائم مقام صدر جاوید عمرانی، جوائنٹ سیکرٹری احمر شیخ اور دیگر مرکزی عہدیداران نے سابق سوشل سیکورٹی آفیسر عمران جیلانی، فیڈرل بی ایریا ڈائریکٹوریٹ کے آفیسر عامر ارشاد کے والد محترم اور اسٹاف ممبر زبیر علی کے والد محترم کے انتقال پر نماز جنازہ و تدفین میں شرکت کی اور مرحومین کی مغفرت کے لیے دعا کی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
والد کی ڈانٹ میٹرک کے طالب علم کی خود کشی
کورنگی کے علاقے میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ ہمارے معاشرتی اور گھریلو رویے نوجوانوں کی ذہنی صحت پر کس قدر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ میٹرک کے طالب علم فیضیاب کی خودکشی محض ایک ذاتی فعل نہیں بلکہ ہماری اجتماعی سوچ اور گھریلو ماحول کے مسائل کا آئینہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، پاکستان میں 15 سے 30 سال کے نوجوانوں میں خودکشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ والدین کا بچوں کی تربیت میں اہم کردار ہے، مگر بعض اوقات سختی، ڈانٹ ڈپٹ، اور بے جا توقعات بچوں کی ذہنی اور جذباتی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق، مسلسل تنقید یا سخت رویہ بچوں کو مایوسی اور احساس کمتری کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہ رویے ان کے لیے زندگی کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتے ہیں اور بعض اوقات وہ ایسے انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں جو ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔ فیضیاب کی خودکشی ظاہر ہے پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں ایک 17 سالہ طالب علم نے والدین کی طرف سے تعلیمی کارکردگی پر ڈانٹنے کے بعد خودکشی کر لی۔ تھی، اہل ِ خانہ کے مطابق، وہ امتحانات میں کم نمبر حاصل کرنے کی وجہ سے مایوس تھا اور والدین کی تنقید نے اس کی مایوسی کو بڑھا دیا، اسی طرح ماضی میں ایک خبر اخبارات کی زینت بنی تھی کہ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کی طالبہ نے ہاسٹل کے کمرے میں پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی تھی پولیس کے مطابق، طالبہ پر والدین کی جانب سے اچھے گریڈز لانے کا دباؤ تھا۔ اس طرح کے اور بھی درجنوں واقعات ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہیں اور بچوں کے اچھے نتائج ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ بات یہ ہے کہ والد کی ڈانٹ ایک عام سی بات ہو سکتی ہے، مگر اس کے اثرات ہر بچے پر یکساں نہیں ہوتے۔ ہر بچے کی نفسیات مختلف ہوتی ہے اور ان کے جذبات کو سمجھنا اور ان کا احترام کرنا والدین کی ذمے داری ہے۔ اس جیسے المیے سے سبق لیتے ہوئے والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمیں اپنے بچوں سے دوستی والا رویہ رکھنا ہوگا مکالمے کی فضا قائم کریں بچوں سے ان کے مسائل اور جذبات پر بات کریں۔ سخت رویے کے بجائے رہنمائی اور محبت سے بچوں کی اصلاح کریں۔ اسی لیے بچوں میں ڈپریشن یا مایوسی کے آثار کو سمجھیں اور ماہرین سے مدد لینے میں ہچکچائیں نہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ اونچ نیچ، اچھا برا، جھوٹ، سچ کی تعلیم کے ساتھ بچوں کو صبر، برداشت، اور مشکلات کا سامنا کرنے کی تربیت دیں۔ والدین کی سختی، تنقید، اور جذباتی لاتعلقی نوجوانوں میں مایوسی اور ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔ جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں بچوں کے ساتھ اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی، بچوں کو محبت، اعتماد اور تحفظ دینا نہ صرف ان کی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے بلکہ ان کے کامیاب مستقبل کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بے جا جبر بچوں کی کارکردگی میں اضافہ نہیں کرسکتا اس میں اعتدال کی ضرورت ہے، اپنے بچے کا مطالعہ کریں اسے سمجھیں تاکہ ہم مزید ایسے المناک واقعات سے بچ سکیں۔