Jasarat News:
2025-01-20@03:57:26 GMT

محنت کشوں کے مسائل پر مزدور فیڈریشنز کی ریلی

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

محنت کشوں کے مسائل پر مزدور فیڈریشنز کی ریلی

ٹھیکہ داری نظام کو قانونی شکل دینے کی ہر سازش کو ناکام بنا یا جائے گا‘ سرکاری اعلان کر دہ اجرتوں کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے‘ سندھ لیبر من کردہ منسٹری مزدور دشمن روش ترک کرے‘مزدور ریلی سے رہنماؤں کا خطاب نیشنل ٹریڈ یو نین فیڈریشن پاکستان (این ٹی یو ایف) اور حوم بیسڈوو من ورکرز فیڈریشن پاکستان (ایچ بی ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے زیر اہتمام اجرتوں کی ادائیگی کے لیے ٹھیکہ داری نظام، بین الا قومی فیشن برانڈز کے جرائم، اداروں کی نجکاری اور ماحول و مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف مشترکہ ریلی ریگل چوک سے کراچی پریس کلب تک نکالی گئی۔ جس کی قیادت کا مریڈ زہر اخان اور ریاض عباسی کر رہے تھے۔ محنت کشوں کی بڑی تعداد جن میں خواتین بھی شامل تھیں نے لال جھنڈوں اور اپنے مطالبات پر مبنی بینرز اور پلے کارڈز لیے شرکت کی۔ ریلی کے اختتام پر اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے ساتھ مل کر غیر قانونی ٹھیکہ داری نظام کو قانون کا درجہ دینے کی مزدور دشمن سازش میں ملوث ہیں۔ آئی ایل او اپنے کنونشن 144 کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے جو کہ سہ فریقی مشاورت کو فروغ دینے کی بات کرتا ہے۔ ٹھیکہ داری نظام مزدوروں کو بے شناخت اور ہر بنیادی حق سے محروم کرنے کا باعث بنے گا۔ صوبائی حکومتوں اور آئی ایل او کے مزدور دشمن اقدامات کے خلاف نا صرف ملکی سطح بلکہ بین الا قوامی طور پر خصوصاً سوئٹزر لینڈ میں بھی قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں سائوتھ ایشیا کی دیگر مزدور تنظیموں سے بھی رابطہ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

مزدور رہنماؤں نے کہا کہ سندھ میں سرکاری طور پر اعلان کردہ اجرتوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے میں لیبر مسٹری اپنا کر دار ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ناہلی کی وجہ سے سندھ کے 90فی صد مزد در کم از کم اجرت سے محروم ہیں۔ اداروں کو اجرتوں کی ادائیگی کا پابند بنانے کے بجائے لیبر منسٹری عضو معطل بنی ہوتی ہے۔ صنعتی اداروں سے مزدوروں کی جبری چھانٹی کی جارہی ہے۔ پی پی پی کے چیئر پر سن بلاول بھٹو زرداری اس بگڑتی صورت حال کے تدارک کے لیے فی الفور اپنا کردار ادا کریں، کیوں کہ لیبر منسٹری کے کرتا دھرتا ان کی حکومت کی ساکھ کے لیے زہر قاتل ثابت رہے ہیں۔
مزدور ر ہنماؤں نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں بین الا قوامی مالیاتی اداروں کی ایما پر مزدور دشمن پالیسیاں مسلط کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں بے روز گاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ترقی کے حکومتی دعوئوں کے برعکس اس وقت بے روزگاری اور غربت کی شرح میں ریکار ڈاضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 45 لاکھ سے زائد افراد بے روز گار اور ساڑھے 9 کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جو کہ کل آبادی کا 40فی صد ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں تیزی اور افراط زر میں کمی کے دعویٰ باوجود سوا کروڑ سے زائد افراد پچھلے ایک سال میں خط افلاس سے نیچے چلے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی میں کمی کے اعلانات کے باوجود محنت کشوں کی قوت خرید دم توڑ چکی ہے، فی کس آمدنی خطہ کے ممالک کے مقابلے میں سب سے کم اور اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکمرانوں کے ترقی کے کھوکھلے دعوئوں کی اصلیت یہ ہے کہ اپنے مستقبل سے مایوس نوجوان ملک چھوڑ کر جانے کے ہر قانونی و غیر قانونی راستوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے غیر قانونی طور پر ملک سے جانے والے نوجوانوں میں سے 400 سے زائد نو جوان سالانہ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ دیار غیر روزگار کی تلاش میں آئے روز کشتی حادثات میں زندگی کی بازی ہارنے والے نوجوانوں کی المناک موت کی ذمہ داری براہ راست حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے مزدوروں کے ابتر ہوتے حالات کار پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 27 لاکھ سے زائد مزدور کام کے دوران حادثات کا شکار ہوتے جبکہ کان کنی کے شعبہ کی ناگفتہ بہ صورت حال کی وجہ سے ہر سال 200سے زائد کان کن کام کے دوران جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
مزدور رہنماؤں نے کہا کہ حکومت بالا دست طبقات کی مراعات ختم کرنے کے بجائے نچلے درجے کے لاکھوں سرکاری ملازمین کو بے روز گار اور پنشن اسکیم ختم کرنے کی عوام دشمن پالیسی پر عمل درآمد کے درپے ہے۔ جبکہ نجکاری کے نام پر پبلک اداروں کو من پسند گروہوں کے ہاتھوں اونے پونے بیچ کر لاکھوں مزدور خاندانوں کا معاشی قتل کرنا چاہتی ہے۔
مزدور نما ئندوں نے اپنے خطاب میں بین الاقوامی فیشن برانڈز کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریوں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور اجرتی غلام بنے ہوئے ہیں۔ یہ برانڈز ملکی و بین الا قوامی لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
مزدور رہنماؤں نے کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر زرعی زمینوں پر قبضہ، ماحول دشمن آبی منصوبوں خصو صاً دریائے سندھ سے کنال نکالنے کو بھی کڑی تنقید کانشانہ بنایا اور کہا کہ عوام اور مزدور دشمن منصوبوں کی مزاحمت کی جائے گی۔

مزدور ر ہنما نے اعلان کیا کہ اگلے ہفتے ملک بھر سے مزدور تنظیموں کے نمائندوں کا اجلاس منعقد کیا جارہا ہے جس میں مزدوردشمن پالیسیوں کے خلاف مشترکہ جد وجہد کا اعلان کیا جائے گا۔
ریلی میں مطالبہ کیا گیا کہ
ا۔ ٹھیکہ داری نظام کی ہر شکل کو جرم قرار دیا جائے اور اس کے خاتمے کو یقینی بنا یا جائے۔۲۔ مزدور کو مستقل ملازمت اور تحریر کی تقرر نامہ جاری کیے جائیں۔ ۳۔اعلان کردہ سر کاری اجرتوں کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔۴۔اجرتوں کی ادائیگی بینک اکائونٹ کے ذریعے کی جائے۔۵۔ کار گاہوں میں لیبر قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ ۶۔ تمام محنت کشوں کو سوشل سیکورٹی اور پنشن کے اداروں سے رجسٹر کیا جائے۔۷۔ یونین سازی کے حق کو تسلیم کیا جائے۔۸۔ اداروں کی نجکاری فی الفور رو کی جائے۔ ۹۔ نجی و سرکاری اداروں میں بر طرفیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ ۱۰۔ کام کی جگہوں کو ہراسگی سے پاک کیا جائے۔ ہر ادارے میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی تشکیل دی جائے۔۱۱۔ ماحول اور عوام دشمن آبی منصوبوں
بشمول دریائے سندھ سے کنال نکالنے کے منصوبے کو ختم کیا جائے۔۱۲۔ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر زرعی زمینوں پر قبضہ کا سلسلہ بند کیا جائے۔ ۱۳۔بین الا قوامی فیشن برانڈز مقامی لیبر قوانین اور یورپی پارلیمنٹ کے پاس کردہ کانوں کی عملداری کو یقینی بنائیں۔

مزدوروں کے احتجاجی اجتماع سے خطاب کرنے والوں میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ناصر منصور، رفیق بلوچ، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے اسد اقبال بٹ، پیپلز لیبر بیورو کے حبیب الدین، ڈاکٹر اصغر علی دشتی، پاکستان فشرفورک فورم کے سعید بلوچ، موومنٹ فار لیبر رائٹس کے گل رحمن، سائٹ لیبر فورم کے بخت زمین، ایچ آر سی پی قاضی خضر ، ہوم بیسڈ وومن ورکرز کی زہرا خان، پاکستان یونائٹیڈ ورکرز فیڈریشن کے مختار اعوان، پاکستان فارما اینڈ کیمیکل کے محمد بچل، PC ہوٹل یونین کے غلام محبوب، واپڈا یونین کے محبوب خان، کوکا کولا یونین کے خائستہ رحمن، میر ذوالفقار، محمد عثمان، کامریڈ سلطان اور کامریڈ جنت، رمضان میمن، وسیم جمال، کامی چوہدری، امر مگسی، خالق زرداری، منظور رضی، یونائٹیڈ ایچ بی ورکرز یونین کی سائرہ فیروز، مزدور رہنما ظاہر شاہ، نور زمان، عاقب حسین، بلاول شاہ، شہزاد مغل، وقاص قریشی، ایڈووکیٹ احسن محمود، اقبال ابڑو، ندرت بلند اقبال اور دیگر شریک تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مزدور رہنماو ں نے بین الا قوامی ں نے کہا کہ کو یقینی کیا جائے کی جائے کے لیے

پڑھیں:

پیارا دشمن                           

آج مجھے دفتر سے گھر کے لیے نکلتے ہوئے دیر ہو گئی تھی، عین چھٹی سے آدھ گھنٹے پہلے سیٹھ صاحب کو مہینوں سے فائلوں میں دبے کچھ ضروری کاغذات اچانک لاہور بھجوانے یاد آگئے، تو چار و ناچار مجھے گھر کے بجائے ڈاک خانے کا رخ کرنا پڑا۔ سردیوں میں شامیں 6 بجے ہی تاریکی کی چادر لپیٹ لیتی ہیں، اسی لیے مَیں سردیوں میں وقت سے تھوڑا پہلے ہی دفتر سے نکل جاتا ہوں اور رستے سے دودھ، ڈبل روٹی اور روزمرہ کا سامانِ ضرورت خریدتا ہوا اندھیرا پھیلنے سے قبل ہی گھر پہنچ جاتا ہوں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا اندھیرے سے پہلے ہی کیوں؟  دراصل کئی سال سے ہماری زندگی گینگ وار اور لسانی فسادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ غنڈہ گردی، اغوا کی وارداتیں، بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم کر دیا گیا ہے کہ سورج کے ڈھلتے ہی علاقوں میں ایسا سناٹا ہو جاتا جیسے یہاں برسوں سے کوئی آدم زاد پیدا نہ ہوا ہو۔ گلیوں کے مکینوں نے بچاؤ کی خاطر خود ساختہ کرفیو بھی نافذ کر لیا تھا اور بنا سائرن کے گھروں میں محصور ہونے کے اوقات بھی متعین کر لیے تھے۔  زندگی دائروں میں مقید ہو کر رہ گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:علی چوہدری کا 2060 کا اسلام آباد   

’آج سودا سلف نہیں لے پاؤں گا، پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے‘۔میں نے سوچا، اور سرعت سے کاغذات ڈاک خانے میں جمع کروا کر موٹر سائیکل کو ہوا کے دوش پر اڑنے کے لیے چھوڑ دیا۔

خیر سے وقت پر گھر پہنچ گیا۔

میرے دونوں بچے ’بابا آگئے، بابا آگئے‘ چلاتے ہوئے میرے اردگرد منڈلانے لگے کہ میں روزانہ کی طرح  اپنی جیب سے چاکلیٹ نکال کر ہوا میں لہرا لہرا کر پہلے انہیں ستاؤں گا پھر ان کو گود میں بھر کر اتنی گدگدی کروں گا کہ وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جائیں گے۔ پھر دونوں کو ایک ایک چاکلیٹ تھما کر زور کی چپت لگا کر، بیوی کو کھانا گرم کرنے کا کہہ کر خود غسل خانے کا رخ کروں گا۔

لیکن آج میرے ہاتھ اور جیب دونوں خالی تھے، نہ ہی میں چائے کا سامان لے پایا نہ بچوں کی دل پشوری کے لوازمات۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخر میں ہوں کون؟

تو جناب میں اس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک قدیم بستی لیاری کے علاقے گھاس منڈی میں رہنے والا ایک عام سا انسان ہوں، جو روزمرہ کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے مسلسل بھاگ رہا ہے،  دوڑ رہا ہے۔

میرا نام کیا ہے؟

بھئی نام میں کیا رکھا ہے آپ مجھے کوئی بھی نام دیں لیں، ہم جیسے متوسط طبقے کے لوگوں کی کہانی کم وبیش ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔

گھاس منڈی کی مین سڑک پر میرا ایک چھوٹا سا گھر ہے جس میں چار نفوس کا ایک کنبہ راضی خوشی قیام پذیر ہے۔ میں،  میری بیوی،  میرا 5 سالہ بیٹا اور 3 سال کی میری ننھی پری۔

یہ بھی پڑھیں:روبی مسیح

ویسے تو میں ایک بلوچ ہوں لیکن گھاس منڈی چونکہ  لیاری کا وہ علاقہ ہے جہاں اردو بولنے والے مہاجروں کی اکثریت ہے، دوسری بڑی آبادی کچھی میمنوں اور مارواڑیوں کی ہے جبکہ تیسری آبادی بلوچوں کی ہے۔ چونکہ بچپن مختلف زبانیں بولنے والوں کی صحبت میں گزرا تو بلوچی کے علاوہ مجھے بیک وقت دیگر زبانوں پر بھی عبور حاصل ہوتا گیا، تاہم اردو ادب اور شاعری سے رغبت نے میری اردو  کو شُستہ ، لہجہ شگفتہ اور بیاں گلفشاں

کردیا تھا۔ اسی لیے اکثر لوگ میرے اہل زبان ہونے پر دھوکا کھا جایا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے وقت نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ مہاجروں اور بلوچوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئیں، بلکہ پیدا کر دی گئیں تھیں۔ جن کے ساتھ برسوں سے محلہ داریاں، دوستی یاریاں تھی،ں وہ آج ایک دوسرے کے دشمن بن چکے تھے۔ برسوں سے رواداری کی میراث سے بھرپور علاقہ عجب نفسانفسی اور تعصبات سے آلودہ ہو چکا تھا۔

جہاں تک میری نوکری کا تعلق ہے تو اپنے میمن سیٹھ کے ایکسپورٹ امپورٹ کے کاروبار میں میری دلچسپی صرف اس حد تک تھی کہ یہ میرے کنبے کی بقا کا ضامن تھا۔ دفتر سے واپس آنے کے بعد چھت پر بنا چھوٹا سا کمرہ میرا گوشہ سکون تھا، جہاں میں ایک سگریٹ سلگا کر کچھ گھنٹے گوشہ نشینی کے گزارتا اور ادبی شہ پاروں اور شاعری سے محظوظ ہوا کرتا تھا۔ کچھ دیر کے لیے ہی سہی زندگی کے بے مقصد جھمیلوں اور بے مصرف بکھیڑوں سے فرار روح کی تسکین کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا دل کے لیے خون کی روانی۔

رات کے 8 بجنے کو آئے تھے، لیکن کھانا کھانے کا من نہیں ہو رہا تھا،  گھر کا ماحول بہت بوجھل تھا اور گھر سے باہر ہُو کا عالم تھا۔ نہ جانے مجھے کیا سوجھی کہ بیٹے کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور بیگم کو آواز لگائی:

’دروازہ لاک کر لو میں سولجر بازار سے بہاری کباب اور پراٹھے لینے جارہا ہوں پھر کھانا کھاتے ہیں ـ بس یوں گیا اور یوں آیا‘۔

یہ بھی پڑھیں:نقاب

پیچھے سے بیگم کی غصے اور خوف کی ملی جلی آوازیں آتی رہیں لیکن میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے بیٹے کو بائیک کی ٹنکی پر بٹھایا اور موٹر سائیکل کو ہوا سے باتیں کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

گھاس منڈی سے نشتر روڈ کا رستہ پکڑا، ہر جا ویرانی کے ڈیرے تھے۔ نشتر روڈ کراس کرکے چڑیا گھر کے عقب والی سڑک پر ہو لیا کہ یہ شارٹ کٹ راستہ جلدی سولجر بازار پہنچا دے گا۔ سڑک سنسان پڑی تھی اور ماحول پر ایک عجیب وحشت طاری تھی۔

ارے یہ کیا ہوا، بائیک چلتے چلتے جھٹکے لینے لگی۔ میں بار بار کک لگاتا لیکن کچھ دور چل کر وہ پھر جھٹکے لے کر رک جاتی۔ بائیک کا پٹرول خاتمے کے قریب تھا، میں نے بیٹے کو فوراً نیچے اتارا اور  بائیک کو زمین پر پورا لٹا دیا تاکہ بچا کچھا پٹرول بائیک کے حلق کو کم از کم  اتنا تر کر دے کہ میں اور میرا بچہ بحفاظت سولجر بازار پہنچ سکیں۔

دور دور تک نہ بندہ نہ بندہ ذات۔ اب کفِ افسوس مل رہا تھا کہ اپنے چٹورے پن کی خاطر  ناحق اپنی اور اپنی اولاد کی جان کو خطرے میں ڈالا۔ میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے ناگ کی طرح پھن پھیلائے مجھے ڈرا رہے تھے۔

اگر کسی نے اغوا کر لیا تو؟

یا گولی مار دی؟

گھر پر پیچھے رہ جانے والی دو جانوں کا پرسان حال کون ہوگا؟

میرے پرووڈنٹ فنڈز کا کیا بنے گا؟

میرا کھڑوس سیٹھ کہیں میرے پیسے ہی نہ ہڑپ کر جائے۔  میری بیوی کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ میرے بینک اکاؤنٹ کا نمبر کیا ہے؟ اور اس میں  کتنے پیسے ہیں؟

میں مستقبل کی منظر کشی کرتے ہوئے لرز سا گیا۔

ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ دور سے ایک رکشے کی پھٹ پھٹی سی آواز سنائی دی۔ مجھ پر خوشی اور خوف، دونوں جذبات غالب آگئے۔ رکشہ ایک گلی سے نکل کر اب سڑک پر ہماری جانب آ رہا تھا۔

میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ رکشہ والا کوئی بلوچ ہی ہو ورنہ تو مارے گئے آج۔

رکشہ پھڑپھڑاتے ہوئے پرندے کی طرح لہراتا ہوا ہمارے پاس آ کر رک گیا۔

’ہاں بھائی اتنی رات کو کیا ہوریا ہے؟  پھٹپھٹیا بند ہو گئی ہے کیا؟‘

یہ بھی پڑھیں:مادر ملت کی جمہوری جدوجہد

میں سمجھ گیا کہ اگلا اردو اسپیکنگ ہے۔ میں نے شستہ اور رواں اردو میں مدعا بیان کیا۔

’ہاں بھائی گھر میں دودھ ختم تھا اور بچے کی دوا بھی لینی تھی اسی لیے رات کو اس سناٹے میں نکلنا پڑا۔ پتا نہ تھا کہ بائیک میں پٹرول کم ہے۔ بس یہاں پہنچ کر بائیک نے جواب دے دیا‘۔

’او بھیا حالات بہت خراب چل رییے ہیں اور تم کو بچے کے ساتھ رات کو مستی سوجھ رہی ہے۔ یہ کنجر سالے بلوچ چن چن کر مہاجروں کو اغوا کر رہے ہیں۔ کتنوں کو تو مار مور کے ادھر ادھر لڑھکا دیا ہے۔ ان کم بخت بلوچوں نے تو اَپُن کی سالی بینڈ بجا دی ہے‘۔

کشہ ڈرائیور نے پورا زور لگا کر منہ سے پان کی پچکاری ماری۔

’بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو بھائی، مجھے پتا ہے کہ ان حالات میں باہر نکلنا موت کے منہ میں جانا ہے۔ بس آپ ایک مہربانی کریں کہ 2-3 کلومیٹر دور پٹرول پمپ سے مجھے تھوڑا پٹرول لا دیں، میں آپ کو پیسے دیے دیتا ہوں‘۔

 یہ کہہ کر میں جیب سے بٹوہ نکالنے لگا۔

’نہیں بھیا حالات مافق نہیں چل رہے۔  ایسے سناٹے میں اکیلے دیکھ کر یہ حرام جادے بلوچ تم دونوں کا ایسا تیا پانچا کریں گے کہ چیل کوے کو بھی  ماس نہ ملینگا۔ چلو تم رکشے کے پیچھے راڈ کو پکڑ لیو میں تمہیں سولجر بازار کے کسی پٹرول پمپ تک چھوڑ دیتا ہوں‘۔

یہ کہہ کر رکشے والے نے ایک ہاتھ سے رکشہ اسٹارٹ کیا اور دوسرے ہاتھ سے مجھے رکشے کی پشت پکڑنے کا اشارہ کیا۔

’سالا کب یہ مار کاٹ رُکے گی؟ فالتو میں جانیں لے ریئیں ایک دوسرے کی۔ اندھی مچا رکھی ہے سالے بلوچوں نے‘ ۔۔۔ میں دم سادھے رکشے کے سہارے اپنی بائیک گھسیٹتا رہا، جبکہ رکشے والا پورا رستہ بے نقط بکتا اور لعن طعن کرتا رہا۔ اور بالآخر اس نے بحفاظت مجھے منزل مقصود پر پہنچا دیا اور میں نے سُکھ کا سانس لیا۔

’بھیا احتیاط کریو ورنہ کسی دن فالتو میں بلوچوں کے ہاتھوں جان سے جائیو گے‘۔

میں نے ممنونیت سے اپنے محسن اور اس کے پھٹیچر رکشے کو دیکھا اور جیب سے پیسے نکال کر اس کی جانب بڑھائے۔

’ارے بھیا،  پیسے رکھیو اپنے بٹوے میں۔ جلدی سے کام بھگتائیو اور نکل لیو فوراً گھر کی طرف۔ حالات مافق نہیں چل رہے اَپُن لوگوں کے لیے‘۔

رکشے والے نے پان کا بیڑا اپنے کلّے میں دباتے ہوئے تنبیہہ کی اور دوسرے ہی لمحے اپنا رکشہ موڑا اور پھٹ پھٹاتا ہوا اپنے رستے ہو لیا۔

میں نے آناً فاناً بائیک میں پٹرول بھروایا، کھانا پیک کروایا، چند ضرورت کی چیزیں خریدیں اور موٹر سائیکل ایسی دوڑائی کہ گھر پہنچ کر ہی دم لیا۔

یہ بھی پڑھیں:خبردار! بھولنے نہ پائیں

بچے چاکلیٹ مزے لے کر کھانے لگے۔ کھانا کھاتے ہوئے میرے ذہن میں اس رکشے والے کی بدزبانیاں سر اٹھنانے لگیں تو وہیں اس کا میری اور میرے بچے کی جان بچانے کا احسان بھی یاد آنے لگا۔ میں سوچنے لگا کہ مختلف قومیتوں کے لوگ کم و بیش ایسی ہی کڑوی کسیلی زبان دوسروں کے خلاف بھی استعمال کرتے رہتے ہیں۔ خصلتیں تو ایک ہی ہیں۔

رکشے والے کی گالیاں اس کے احسان تلے دب چکی تھیں۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ مَیں ہڑبونگ میں اپنے دوست نما دشمن کا نام بھی نہیں پوچھ سکا، جو آج رات رکشہ لیے ہمارے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا۔ اسی لمحے میرے دل سے آواز آئی

‘پیارا دشمن’

میں بہاری کباب کا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے زیر لب مسکرانے لگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

بلوچ بہاری سولجر بازار گھاس منڈی گینگ وار لیاری میمن

متعلقہ مضامین

  • پنشن کو کم از کم اجرت کے برابرکیاجائے‘ خالد خان
  • حیدرآباد چوڑی صنعت کے محنت کشوں کے مسائل
  • بلوچستان کے مسائل: حکمرانوں واسٹیبلشمنٹ کو اپنی پالیسی تبدیل کرنی ہوگی، حافظ نعیم
  • پیارا دشمن                           
  • حساسیت ہی معاشرتی مسائل اجاگر کرنے میں مدد دیتی ہے
  • کراچی: کام کے دوران چھت سے گر کر محنت کش جاں بحق
  • معاملہ دل کا ہے
  • چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت آبی مسائل کے حوالے سے اجلاس ،واٹر فلٹر یشن پلانٹس کی بحالی اور سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب کے حوالے سے بریفننگ
  • پرتگال کو 50 ہزار اسکلڈ لیبر کی فوری ضرورت، پاکستانیوں کے لیے کیا مواقع ہیں؟