’’ ارجنٹائنی حکومت نے سب کچھ چھین لیا ‘‘
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
بیونس آئرس، ارجنٹائن کی 24 سالہ رہائشی ماریانیلا اباسٹو پہلے کبھی مفت خدمات مہیا کرنے والی سماجی تنظیم کے پاس نہیں گئی تھی۔ لیکن آج وہ تنظیم کے بھرے پُرے صحن میں پرانی کرسی پر بیٹھی پلاسٹک کے ڈسپوزایبل کنٹینر سے کھانا کھا رہی ہے۔وہ اور اس کی چار سالہ بیٹی، الما 37 سالہ سربراہ خاندان، ساؤل کا انتظار کر رہی ہیں جو کھانا لینے گیا ہوا ہے۔
پچھلے ایک سال کے دوران اباسٹو اپنا گھر کھو بیٹھی ہے اور وہ ارجنٹائن کی حکومت کو اپنے موجودہ پریشان کن حالات کا ذمے دار ٹھہراتی ہے۔وہ کہتی ہے ’’اب گزاراہ کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ پہلے ہمارا گھر تھا۔ ہمیں سبسڈی تک رسائی حاصل تھی۔ لیکن حکومت نے اچانک سب کچھ چھین لیا۔‘‘ اس کے چہرے پر اداسی اور مایوسی کا امتزاج چھایا ہے۔ "مجھے نہیں معلوم کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں۔‘‘
اباسٹو ارجنٹائنی باشندوں کی ان بڑھتی تعداد میں سے ایک ہے جو جاویر میلی کی صدارت کے پہلے سال کے دوران غربت کی گہرائیوں میں گر چکے۔تقریباً ۴۰ برس سے ارجنٹائن میں غربت کی سطح مسلسل 25 فیصد سے اوپر تھی۔ لیکن دسمبر 2023ء سے انتہائی دائیں بازو کے میلی نے عہدہ سنبھالا ہے، تو یہ سطح آسمان کو چھو رہی ہے۔ارجنٹائن کیتھولک یونیورسٹی کی ایک تحقیقی ٹیم کے مطابق جس نے اہم اقتصادی اشاریوں پر نظر رکھی ہے، گزشتہ ایک سال کے دوران غربت کی شرح تقریباً 53فیصد تک پہنچ گئی جو چالیس برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔
جاویر میلی نے صدر بننے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ سرکاری اخراجات کم کرنے لیے ’’آرا‘‘چلائیں گے۔ انھوں نے یہ عمل اپنایا بھی مگر اس سے مملکت میں غریبوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا۔اسی لیے اب ماہرین اس حکمت عملی پر تنقید کر رہے ہیں۔ ماہرین میں سے ایک، ایڈورڈو ڈونزا نے خبردار کیا ہے کہ رواں سال غربت کی لکیر سے نیچے آنے والوں میں اعلیٰ تعلیم کے حامل افراد بھی شامل ہوں گے۔
ڈونزا کہتا ہے ’’ متعدد سرکاری اقدامات کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوا۔ مثلاً صدر نے کرنسی پیسو کی قدر میںزبردست کمی کر دی جو میلی کے ’’صدمہ انگیز‘‘ اقتصادی منصوبے کا حصہ تھا۔ مگرارجنٹائن ایک بہت ہی خاص ملک ہے جہاں کرنسی کی قدر میں کمی براہ راست قیمتوں کو متاثر کرتی ہے۔"ڈونزا صدر مائلی کی معاشی پالیسیوں کا ناقد ہے۔ کہتا ہے ’’ حکومت کا خیال ہے کہ میکرو اکنامک متغیرات درست کرکے وہ مجموعی معیشت ٹھیک کر سکتی ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ عملی طور پر ان کا منصوبہ کام بھی کرے۔‘‘
فائدے اور نقصانات
کچھ عرصہ پہلے تک اباسٹو اور اس کا خاندان ایک محلے میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے جو ارجنٹائنی دارالحکومت کی بڑی کچی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ساؤل ایک الیکٹریشن ہے۔پہلے وہ اپنے خرچ پورے کر لیتے تھے مگر اب اخراجات میں دگنا اضافہ ہو چکا۔ اب میاں بیوی دونوں کام کرتے ہیں۔ مگر کام بھی آسانی سے نہیں ملتا۔ دو مہینے پہلے ان کا کرایہ ۹۰ ہزار پیسو سے بڑھ کر ڈیرھ لاکھ پیسو ہو گیا ۔اب یہ ان کی استطاعت سے باہر تھا۔تب سے، یہ خاندان سڑکوں پر رہ رہا ہے۔ بیچنے کے لیے گتے جمع کر رہا ہے، ریستوراں سے بچا ہوا کھانا مانگتا ہے اور کام کی تلاش کر رہا ہے۔ ساؤل ہمیشہ چھوٹے سے سیاہ بیگ میں اپنے اوزار لیے پھرتا ہے تاکہ جب بھی کام مل جائے تو وہ اسے انجام دے سکے۔
صدر میلی کے تحت ہونے والی تبدیلیوں نے سب سے پہلے کرایہ ادا کرنے کی ان کی صلاحیت ہی کو متاثر کیا ۔ اس نے کرائے منجمند رکھنے والا قانون ختم کر دیا۔ اس کے فوراً بعد مکانوں کے مالک کرائے میں اضافہ کرنے لگے۔ حتی کہ اب ہر تین ماہ بعد کرائے بڑھ جاتے ہیں۔ اس قانون کے خاتمے نے اباسٹو جیسے غریب اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو متاثر کیا ۔ وہ زائد کرایہ دینے کی قوت کھو بیٹھے اور سڑک پر آ گئے۔ اب سماجی تنظیموں کی فراہم کردہ سہولیات ہی ان کا سب سے بڑا سہارا بن چکیں۔
نئے صدر کی دیگر اقتصادی پالیسیوں نے بھی ملے جلے نتائج برآمد کیے۔ میلی نے سرکاری اخرجات گھٹانے کے لیے ٹرانسپورٹ، تعلیم ، صحت اور دیگر فلاحی شعبوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دی۔ ان اقدامات سے بجٹ متوازن ہوا اور مہنگائی گھٹ گئی۔ لیکن اقتصادی سرگرمیوں میں بھی کمی آئی ۔ سپر مارکیٹوں میں فروخت کم ہو گئی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ۔ میلی نے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بھی آزاد چھوڑ دیں ۔یوں یوٹیلیٹی ریٹس میں بھی اضافہ ہو گیا۔مثال کے طور پر پچھلے دس ماہ کے دوران پٹرول کی قیمت 715 فیصد بڑھ گئی۔ آج کئی سماجی تنظیمیں لکڑیوں پر کھانا پکاتی ہیں تاکہ ایندھن کے بھاری خرچ سے بچ سکیں۔
کسی کے پاس پیسہ نہیں
غربت اور مہنگائی بڑھنے کے باوجود عوام نے اب بھی یہ آس لگا رکھی ہے کہ صدر میلی معاشی حالات درست کر دے گا۔ لیکن محقق ڈونزا کہتا ہے ’’ قلیل مدتی فوائد زیادہ عرصے کے لیے آگے کی پریشانیوں کو نہیں چھپا سکتے جو خاص طور پر ارجنٹائن کے سب سے زیادہ کمزور گروہوں کو نشانہ بنائیں گی۔ عوام سمجھتے ہیں کہ معیشت بہتر ہونے والی ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے طویل مدتی پالیسیاں اور ارجنٹائن کی صنعت کو طویل مدت تک ترقی دینے کے اقدامات۔‘‘
بیونس آئرس میں امدادی اور سماجی تنظیموں سے سہولیات پانے والے عوام اب صدر میلی سے بیزار بلکہ اس سے ناراض نظر آتے ہیں۔ ہر عمارت کے باہر کھانے کے لیے خالی ڈبے، پین اور بالٹیاں اٹھائے لوگوں کی ایک لمبی قطار دسمبر کی چلچلاتی دھوپ میں کھانے کا انتظار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ان میں چھوٹے بچوں کو لیے خواتین ہیں اور پنشنر بھی۔ کھانا ملنے میں تین گھنٹے باقی ہیں مگر ضروت مند پہلے ہی پہنچ گئے۔
’’یہ ایک سال تباہی کا عرصہ رہا ہے۔اب کسی کے پاس پیسہ نہیں ہے۔‘‘ 80 سالہ تاجر، انیس فرنانڈیز کہتی ہے جو بازار میں ٹشوز کے پیکٹ فروخت کرتی ہے۔ وہ بھی کھانے کے لیے قطار میں کھڑی تھی۔وہ اور اس کی بیٹی ایک گندے ہوٹل کے کمرے میں رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ کرایہ مکان کی قیمتیں ان کی پہنچ سے باہر ہو چکیں۔اب تو ٹماٹر جیسی بنیادی اشیائے خورونوش بھی لگژری بن چکی ہیں۔وہ کہتی ہے:’’پچھلے سال ہم اپنا سلاد لیٹش، ٹماٹر اور گاجر سے بناتے تھے۔ ہم ہر بڑے سلاد کے لیے ایک کلو ٹماٹر خریدتے تھے۔ اب ہم بمشکل ایک ٹماٹر ڈال پاتے ہیں۔ پیسے کی بہت تنگی ہے۔‘‘
غربت مخالف گروہوں کے ساتھ تصادم
ایک ’’سوپ کچن‘‘ یونین آف انفارمل اکانومی ورکرز (UTEP)نامی سماجی تنظیم چلاتی ہے۔ یہ تنظیم بغیر معاہدوں یا غیر منظم صنعتوں میں کام کرتے ملازمین کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ملازمین ارجنٹائن کی افرادی قوت کا تقریباً نصف بنتے ہیں۔ اور اس گروپ میں غربت بہت زیادہ ہے: تقریباً 66 فیصد کو غریب سمجھا جاتا ہے۔
یونین آف انفارمل اکانومی ورکرز جیسی فلاحی تنظیموں کا گزشتہ ایک سال کے دوران بار بار میلی حکومت کے ساتھ تصادم ہوا ہے کیونکہ حکومتی فنڈز کم ہو چکے۔ تنظیم کا کہنا ہے، میلی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس کے سوپ کچن میں کھانے کا سامان بھیجنا بند کر دیا جو اس سے پہلے معیاری عمل تھا۔ وفاقی حکومت کی مدد کے بغیر تنظیم اب سوپ کچن چلانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ وہ مقامی حکومتوں اور مخیر حضرات سے چندے لیتی ہے۔
تنظیم کی ایک کارکن ، لورا کہتی ہے:’’عطیات تلاش کرنا کڑی جدوجہد بن چکا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں اسی مقدار میں اجزا کے ساتھ مزید لوگوں کے لیے کھانا پکانے کی خاطر جادو کرنا پڑے گا۔ آج تو کوویڈ وبا سے بھی بدتر حالات ہیں۔ ‘‘لورا کا کہنا ہے کہ عوامی مانگ سپلائی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال، ہم ہفتے میں تین بار کھانے کے 13 بڑے برتن بناتے تھے۔ اب ہم 23 پکاتے ہیں، اور یہ بھی کافی نہیںر ہے۔
پچھلے سال ماہ فروری میں تنظیم نے میلی حکومت پر یہ مقدمہ دائر کیا تھا کہ وہ اسے سرکاری گوداموں میں ذخیرہ 6 ہزار ٹن خوراک میں سے اشیائے خور ونوش فراہم کرے۔ماہ اکتوبر میں ایک وفاقی جج نے تنظیم کے حق میں فیصلہ سنایا، لیکن خوراک کی فراہمی ابھی باقی ہے کیونکہ حکومت نے فیصلے کے خلاف اپیل کر دی۔
میلی اور اس کے اتحادیوں نے اس دوران بغیر ثبوت پیش کیے سوپ کچن پر کرپشن کا الزام لگا دیا۔ ماہرین کہتے ہیں، صدر میلی نے سماجی تنظیموں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ حتی کہ غربت میں اضافہ بھی اس جنگ کی شدت کم نہیں کر پایا۔ حالانکہ اس عالم میں حکومت کو عوام تک زیادہ خدمات فراہم کرنا چاہیں۔بیونس آئرس کے علاقے لا کاوا سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی لیڈر، 49 سالہ فرنینڈا مینو کہتی ہے’’یہ حکومت سماجی تنظیموں اور خاص طور پر خواتین کو شیطان بنا کر پیش کرنے لگی ہے۔‘‘
صدر میلی سے قبل فرنینڈا مینو پسماندہ علاقوں میں انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لیے وفاقی فنڈ سے چلنے والے ایک پروگرام کی انچارج تھی۔ اس کے کام میں گھر بنانا، سڑکیں پختہ کرنا اور پانی، بجلی اور سیوریج سروس کی تنصیب شامل تھی۔ لیکن پچھلے سال میلی نے اس پر بدعنوانی کا الزام لگایا اور پروگرام کے لیے فنڈز کم کر دئیے حالانکہ حکومتی تحقیقات میں اس کے کام میں کوئی بے ضابطگی نہیں پائی گئی۔ اس کے باوجود ماہ اکتوبر میں مسلح وفاقی پولیس مبینہ طور پر چوری شدہ گاڑی کی تلاش میںفرنینڈا مینو کے گھر داخل ہوئی۔ مینو کہتی ہے’’ یہ چھاپہ جاری حکومتی ہراسانی کا حصہ تھا۔حکومت ہم پر حملہ اس لیے کرتی ہے کیونکہ ہم خواتین ہیں اور غریب بھی۔ وہ سوچتی ہے کہ چونکہ ہم خواتین ہیں لہذا ہم کھانا تو پکا سکتی ہیں مگر پروجیکٹس کی قیادت نہیں کرسکتیں۔‘‘
انفرادی نقطہ نظر
کمیونٹی پروگراموں کے ذریعے غربت سے نمٹنے کے بدلے میلی حکومت نے تجویز کیا کہ فرداً فرداً ہر غریب کی مالی مدد کی جائے ۔ اس کا دعوی ہے، تنظیموں کے راہنما حکومت سے ملا پیسا کھا جاتے ہیں۔ لیکن کمیونٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مسئلے کی وسعت دیکھتے ہوئے یہ نیا نظام ناقابل عمل ہے۔ آخرکار ارجنٹائن کی آبادی ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ ہے اور جن میں سے نصف سے زیادہ غریب تصور ہوتے ہیں۔
لا کاوا میں مقیم 32 سالہ ماں، ڈائیانا ایکینو کہتی ہے’’ انفرادی طور پر ہر ایک کو تھوڑی تھوڑی مالی مدد دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اصل کام تب ہوتا ہے جب ہم منظم طریقے سے مل جل کر اسے انجام دیں۔ مل کر ایسے کام کریں جن کی ہماری کمیونٹی کو ضرورت ہے اور ایسی جگہوں پر کام کریں جہاں کبھی کوئی حکومت نہیں آتی ۔‘‘
ڈائیانا ایکینو ایک مقامی کوآپریٹو ادارے کا حصہ ہے جو گلیوں کی صفائی، کوڑا کرکٹ جمع کرنے اور برقی رابطے برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن دوپہر کے کھانے کے وقفے پر وہ کہتی ہے، میلی دور میں فنڈنگ کی کٹوتیوں کے نتیجے میں اب آمدن اتنی کم ہو چکی کہ اس کے سہارے وہ بمشکل زندہ بچ پاتی ہے۔‘‘ وہ سمجھتی ہے کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ مجموعی طور پر کمیونٹی میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔کہتی ہے:
"یہ حکومت چاہتی ہے کہ لوگ خود کو بچانے کے لیے صرف اپنے بارے میں سوچیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ مل جل کر کام کرنا ہے۔ ایک ساتھ مل کر کام کرنے سے ہم ہمیشہ مضبوط ہوجاتے ہیں۔‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سال کے دوران ارجنٹائن کی میں اضافہ سے زیادہ حکومت نے صدر میلی اضافہ ہو کھانے کے غربت کی کرتی ہے ایک سال میلی نے اور اس ہے اور کے لیے رہی ہے رہا ہے ہو گیا
پڑھیں:
عدالت کا فیصلہ اورمذاکرات
القادر یونیورسٹی کیس کا فیصلہ تین بار مؤخر ہونے کے بعد بالآخر سنادیا گیاجس میں بانی پی ٹی آئی کو چودہ سال قید کی سزااوراُن کی زوجہ بشریٰ بی بی کوسات سال قید کی سزا سنادی گئی۔اس کیس سے متعلق حکومت اورپی ٹی آئی دونوں کا مؤقف ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔
پی ٹی آئی والوں کی نظر میں یہ ایک سیدھاسادہ کیس ہے اوراس معاملے میں کوئی کرپشن نہیں کی گئی ہے۔ ان کے مطابق برطانوی ایجنسی نے فیصلہ کرتے ہوئے اسے خفیہ رکھنے کو کہاتھااور190 ملین پاؤنڈز حکومت پاکستان کے حوالے کردیے تھے ۔ اس کے بعد یہ اب اس وقت کی حکومت کی صوابدید تھی کہ وہ اس پیسے کو کہاں کہاں استعمال کرے۔ اس وقت کی بھولی بھالی حکومت نے یہ سارا کاسارا پیسہ سپریم کورٹ میں جمع کروادیا۔پی ٹی آئی والوں کے خیال میں یہ کوئی بددیانتی نہیں ہے۔
مگر دوسرے فریق یعنی موجودہ حکومت نے اس کیس میں مؤقف یہ اختیار کیاہے کہ یہ پیسہ پاکستان کے عوام کا ہے اوراسے پاکستان کی حکومت کو ملنا چاہیے۔کہنے کو یہ رقم سپریم کورٹ یعنی پاکستان کو ہی ملی ہے لیکن عملاً اس کا فائدہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی اور ان کے ساتھیوں نے اٹھایا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے یہ کام کیوں کیا۔ حالانکہ وہ حکومت جو دن رات کرپشن کے خلاف بیانات دیاکرتی تھی ، اس نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی قوم سے چھپاکربلکہ اپنی کابینہ سے بھی چھپاکریہ کام کیا۔
خاص طور پر بانی پی ٹی آئی کا نعرہ ہی کرپشن کے خلاف ہے اور وہ اب تک اس قسم کی ہی باتیں کرتے ہیں۔ اب اس معاملے میں وہ براہ راست فریق بنے ہوئے ہیں اور آخرکار فیصلے کا نتیجہ سب کے سامنے آ ہی گیا ہے اور انھیں سزا سنا دی گئی ہے جو کہ واضح ہے۔ یہ کیس بالکل صاف اورواضح ہے۔اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے،مگر جس طرح کوئی ملزم یامجرم مرتے دم تک اپنی غلطی یاجرم تسلیم نہیں کرتا یہاں بھی ویسے ہی ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگ آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ انھوں نے کوئی بددیانتی نہیںکی۔ یہ پی ٹی آئی کی پرانی پالیسی ہے کہ جو کچھ بھی ہو جائے، انھوں نے سچ کو تسلیم نہیں کرنا اور پراپیگنڈے کے محاذ پر سرگرم رہنا ہے۔
190 پاؤنڈز ملین کوئی معمولی رقم نہ تھی ۔ساٹھ ستر ارب پاکستانی روپے ایک بہت بڑی رقم تھی جو اگر قومی خزانے میں ڈالی جاتی تو اس قوم کی مالی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوسکتی تھی۔ ریاست مدینہ کے دعویداروں نے یہاں بھی مذہبی اوراسلامک ٹچ کا سہارا لیا اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے نام پر القادرٹرسٹ بناکر خود کو اور اپنی شریک حیات کو اس کاٹرسٹی نامزد کردیا۔پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ناجائز طریقوں اور پیسوں سے حاصل کر کے لوگ فلاحی کام شروع کر دیتے ہیں۔
اب اس معاملے میں بہتر فیصلہ تو اللہ کی ذات ہی کر سکتی ہے لیکن سچائی یہی ہے کہ اگر کوئی اچھا کام ناجائز طریقے سے کیا جائے تو اسے بھی اچھا کہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص ساری زندگی ناجائز کام کرتارہے اورہرسال عمرہ اورحج پراسی پیسوں سے جاتارہے۔کیا وہ خود کو نیک اورپارسا یا صادق اورامین کہلانے کا حقدار سمجھ سکتا ہے۔
یہ فیصلہ اب اگلی کورٹ یعنی ہائیکورٹ میں پیش کیاجائے گا،اس کے بعد سپریم کورٹ میں، یعنی حتمی فیصلہ ہونے تک دوسے ڈھائی سال بھی لگ سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس دوران سیاسی صورتحال تبدیل ہوجائے اورآج کے ملزم یا مجرم معصوم اوربے گناہ قراردے دیے جائیں۔ اس ملک میں ایسا ہونا ہرگز ناممکن یابعید از قیاس نہیں ہے۔
ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے لیکن فی الحال جسے سزا سنائی گئی ہے وہ اس وقت حکومتی تحویل اورقید میںہے۔صورتحال کے بدلے جانے کاامکان اُن مقتدر حلقوں پر ہے جن سے بات چیت کے لیے بانی پی ٹی آئی پہلے دن سے متمنی ہیں اورخواہش مند ہیں۔ وہ آج بھی حکومت سے مذاکرات کرنے کے بجائے اسی فریق سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
ویسے بھی سیاسی فریقوں کے بیچ ہونے والے مذاکرات تو لگتا ہے صرف دکھاؤا ہے۔ دونوں فریق جانتے بوجھتے ہوئے کہ ان مذاکرات سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں دکھاؤے کے طورپر وہ یہ کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے حالات سے پوری طرح واقف ہیں۔ اندرون خانہ تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عدالت نے تو فیصلہ حقائق اور ثبوت کی بنیاد پر دینا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دونوں فریقوں کے کچھ لوگ ان مذاکرات کے حوالے سے نا اُمیدی پرمبنی اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ جب تک بانی پی ٹی آئی پابند سلاسل رہیں گے وہ سکون واطمینان کے ساتھ حکومت کرتی رہے گی، وہ اگر آزاد ہوگئے تو پھروہ یقینا مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔
یہ فیکٹر پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی اس حکومت کاساتھ نبھانے پرمجبور کیے ہوئے ہے۔بانی کی رہائی کے بعد ملک میںفساد اورانتشار کا بھی قوی امکان ہے۔ جن معاشی کامیابیوں کاذکر آج ہورہا ہے وہ سب کچھ معدوم ہوجائے گا اگر خان صاحب باہرآگئے۔ رہائی کے فوراً بعد وہی ہنگامہ آرائی پھرسے شروع ہوجائے گی جو اس ملک میںگزشتہ چار سالوں سے ہورہی تھی۔ ایک دن اورایک لمحہ بھی سکون سے نہیں گزرے گا۔
سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کابموجب بن جائے گااور قوم ایک بار پھرڈیفالٹ اوردیوالیہ ہوجانے کا خوف کھانے لگے گی۔جو تھوڑی بہت اُمید معیشت کے حوالے سے آج بنی ہوئی ہے وہ ختم اورناپید ہوجائے گی ۔ ایسی صورت میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے معاملے میں کسی لچک کا مظاہرہ نہ کرے اور قانون کو اپنا راستہ بنانے دیا جائے۔
بانی پی ٹی آئی کے بارے میں ہم وثوق اوریقین سے کہہ سکتے ہیں کہ رہاہوکر وہ چین سے ہرگز نہیں بیٹھے گا۔ان کی ماضی کی سیاست اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں نے ہر معاملے میں یو ٹرن لیا ہے۔انھوں نے پہلے نواز شریف حکومت کی ناک میں دم کیے رکھا اور اس کے بعد جب خود حکومت میں آئے تب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے ناک میں دم کیے رکھا۔ اب بھی اگر وہ رہا ہوئے تو ماضی کی روایت پر عمل کریں گے اور اس حکومت کی ناک میں دم کر دیں گے۔ جس روز سے وہ سیاست میں مشہور اورمعروف ہوئے ہیں یعنی 2011 سے انھوں نے نے ایک دن بھی آرام سے نہیں گزارا۔ ہرروز کوئی بیان یا تقریر، کوئی لانگ مارچ یاجلوس اور ریلی ان کا مشغلہ رہا ہے۔
مسلسل احتجاجی سیاست ان کاوطیرہ رہا ہے، وہ اگر حکومت ہو یا حکومت میں نہ ہو، ڈی چوک ہی ان کا اصل ٹارگٹ ہے۔ 126دنوں کے کامیاب دھرنے کی وجہ سے وہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی اس ملک میں احتجاجی سیاست کرسکتے ہیں۔لہٰذا حکومت بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ اگرباہر آگئے تو وہ اس کاجینا دوبھر کردیں گے۔اب اگر مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں کسی کو غلط فہمی ہے تو اس سے باہر نکل آئے۔
نہ حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات کی میز پروہ ساری بازی ہارجائے اورنہ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ صورتحال جوں کی توں رہے۔ اس کے تمام مطالبات اگر مان بھی لیے جائیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت ازخود رخصت ہوجائے اورخان صاحب دوبارہ برسراقتدار آجائیں۔ ایساصرف اسی وقت ہوسکتا ہے جب پس پردہ تیسرا فریق اس پرراضی اوررضامند ہوجائے جو فی الحال دکھائی نہیںدیتا۔آنے والے دنوں یا حالات کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ویسے بھی اس ملک میں سیاست سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا یا پیش گوئی کرنا قطعاً ناممکن ہے۔