Express News:
2025-01-19@23:22:48 GMT

اسپیشل انسان!

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

نیویارک کا ہسٹری سنہری میوزیم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کمال وسعت اور محنت سے ترتیب دیا ہوا شہکار جسے دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے ان گنت لوگ آتے ہیں۔ وہاں جا کر لگتا ہے کہ آپ کسی اور دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ ایسے ایسے نوادرات اور تاریخی اشیاء جنھیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ جب بھی نیویارک جانے کا موقع ملتا ہے تو یہ میوزیم ضرور دیکھتا ہوں۔ اور ہر مرتبہ‘ ایک نئے جہان ِحیرت سے واسطہ پڑتا ہے۔ مگر آج میں جس واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

اس کا تعلق اس عجائب گھر سے صرف اتنا ہے کہ وہاں صرف وقوع پذیر ہوا تھا۔ 1992 میں پہلی مرتبہ اس عجائب گھر میں جانے کا موقع ملا تو ایک گائیڈڈ ٹور میں شامل ہو گیا۔ ویسے یہ میری عادت کے متضاد ہے۔ کیونکہ اپنے پسندیدہ نایاب شاہ پاروں کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں صرف کرتا ہوں۔ جب کہ گائیڈ آپ سے پیسہ لے کرجلدازجلد‘ اس ٹور کواختتام پر پہنچا کر اپنے گھر جانا چاہتا ہے۔ یاد ہے کہ پیرس میں لو میوزیم دیکھنے کے لیے چند گھنٹے نہیں کئی دن درکار ہیں۔ مگر مجبوری میں صرف ایک دن میں دیکھنا پڑا۔ مشکل بات یہ ہے کہ اتنا وقت میسر نہیں ہوتا۔ خیر نیویارک کے عجائب گھر میں ایک ٹور کے ساتھ منسلک ہونا پڑا۔ کوئی دو سے تین گھنٹے کے دورانیہ کا معلوم ہوتا تھا۔

ایک حد درجہ مہذب خاتون‘ بڑے اعتماد سے ہر فن پارہ کے متعلق تفصیل سے بتا رہی تھی۔ ہاں۔ ایک بات اور۔ اس ٹور کی فیس کوئی دس ڈالر کے قریب تھی۔ آرام سے بارہ سے پندرہ لوگوں کاگروہ ‘ عجائب گھر میں موجود تاریخی شہکاروں کو دیکھ رہا تھا۔ ٹور میں ہر قومیت کے لوگ شامل تھے۔ میوزیم کے درمیان میں واقعہ بہت بڑا کیفے تھا۔ گائیڈ نے کہا کہ اس ریسٹورنٹ میں آدھا گھنٹہ قیام ہو گا۔ خیر جب اس کیفے میں داخل ہوا‘ تو گائیڈ اتفاق سے میرے ساتھ تھی۔ ریسٹورنٹ کے عین وسط میں ایک سفید فام والدہ ‘ بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہی تھی۔

بچی معذور تھی۔ اور اس سے خوراک چبائی نہیں جا رہی تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے‘ آدھے سے زیادہ کھانا منہ سے باہر نکل آتا تھا۔ والدہ کے ہاتھ میں ایک نیپکن تھا۔ وہ بڑے تحمل سے‘ باہر گرا ہوا کھانا‘ نیپکن سے صاف کرتی تھی۔ اور دوسرا لقمہ تیار کرنا شروع کر دیتی تھی۔ میری زبان سے بے اختیار ایک جملہ نکلا کہ یہ لڑکی تو معذور لگتی ہے ۔she appears to be disabled child یہ جملہ بہر حال گائیڈ نے ضرور سن لیا۔

گائیڈ انتہائی تہذیب سے مجھے کہنے لگی کہ یہ لڑکی بالکل معذور نہیں ہے۔ یہ ایک اسپیشل بچی ہے۔ اسے معذور کہنا بہت زیادتی والی بات ہے۔ پھر اس نے مجھے شائستگی سے دس ڈالر واپس کیے۔ کہنے لگی کہ یہ آپ نے گائیڈڈ ٹور کے لیے جمع کروائے تھے۔ معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو اس فقرے کے بعد‘ گروپ سے علیحدہ کر رہی ہوں۔ یقین فرمائیے کہ شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ دراصل اندازہ ہی نہیں تھا کہ معذور انسان کو معذور کہنا‘ ایک توہین آمیز لفظ ہے۔ اس کے لیے Special Child کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دن سے لے کر آج تک میں نے یہ لفظی غلطی دوبارہ نہیں کی۔

اس واقعہ کو تقریباً چالیس برس ہو چکے ہیں۔ مگر یہ سبق میرے ذہن پر آج بھی نقش ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً نصف صدی پہلے سے اب تک‘ معذور انسان کو اسپیشل کہنے کا قطعاً رجحان نہیں ہے۔ مجھے یہ سبق مغرب نے دیا کہ وہ بچے یا بزرگ جو زندگی میں کسی بھی قدرتی وجہ سے نامکمل رہتے ہیں۔ ان کو مخاطب کرنے کا طریقہ حد درجہ رحم دلانہ ہونا چاہیے۔ معذور کا لفظ کہنا یا بولنا ایک گالی کے مترادف شمار کیا جاتا ہے۔

یہ سبق مجھے اچھی طرح ازبر ہے۔ پوری دنیا میں پندرہ فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح کی جسمانی معذوری کا شکار ہے۔ یہ المیہ تین مختلف اقسام کا ہو سکتا ہے۔ -Mild, moderate, severe اردو ترجمہ کرنا کم از کم اس وقت میرے لیے ممکن نہیں۔ یہ تعداد تقریباً ایک ارب سے اوپر تک پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کا اندازہ لگانا حد درجہ مشکل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ غور فرمایئے۔ کہ پاکستان میں اسپیشل انسانوں کی تعداد‘ مغرب کے کئی ممالک کی مکمل آبادی سے زیادہ ہے۔ ویسے مجھے گمان ہے کہ یہ تعداد تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

بدقسمتی کی انتہا دیکھیے کہ ان معذوروں میں 43فیصد معصوم نوخیز بچے اور بچیاں ہیں۔ 58فیصد بچے اور 41 فیصد بچیاں اس مشکل کا شکار ہیں۔ حکومت پاکستان نے اسپیشل افراد کے متعلق 2011ء میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ جسے United Nations Convention on Rights of Persons with Disabilitiesکہا جاتا ہے۔

اس معاہدے کی پاسداری کے لیے کئی حکومتی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ این جی اوز بھی مصروف کار ہیں۔ یہ ایک قابل ستائش بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسپیشل افراد کی تعداد کے مطابق حکومتی یا نجی شعبے کی کاوش ‘ واقعی معیاری ہے۔ اس حد درجہ مشکل سوال کا جواب مکمل طور پر نفی میں ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتیں اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا سا کام کر تو رہی ہیں۔ مگر یہ حد درجہ ناکافی ہے۔ دیکھنے کو تو سرکاری اسکول بھی ہیں‘ ٹرانسپورٹ کا معمولی سا نظام بھی نظر آتا ہے۔ مگر یہ ادھورا سا ہے۔ بلکہ سطحی سا معلوم ہوتا ہے۔ کم از کم‘ اسے بین الاقوامی معیار کے حساب سے صرف اور صرف غیر معتبر ہی کہا جاسکتا ہے۔ غیر معیاری کہنے سے شاید ان اداروں کے ساتھ منسلک سرکاری ملازم ناراض ہو جائیں۔

اعداد و شمار کو ایک طرف رکھیے۔ حکومتی اقدامات سے بھی صرف نظر فرمائیے۔ سب سے پہلے تو اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے سماجی رویہ کو پرکھیں جو عمومی طور پر اسپیشل افراد کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ یعنی اپنے معاشرے کا تنقیدی جائزہ لیں۔ کم از کم مجھے تو یہ کہتے بلکہ لکھتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ ہمارا رویہ کسی بھی طرح کی معذوروں کی جانب ‘ حد درجہ ظالمانہ اور عامی ہے۔ پیدائش پر اگر معلوم پڑ جائے کہ نوزائیدہ بچہ کسی بھی قسم کی جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہے تو وہ اکثر اوقات والدین کی بے اعتنائی کا شکار ہوجاتا ہے۔

اس بے زاری کو تمام والدین کے متعلق ہرگز ہرگز کہا نہیں جا سکتا۔ بلکہ ایسے ماںباپ بھی ہیں ‘ جو اپنے اسپیشل بچوں کی نگہداشت حد درجہ عمدہ طریقے سے کرتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات اپنے مالی وسائل سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ مگر ایسی بہتر صورتحال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ واضح اکثریت ‘ اسپیشل بچوں کو ایک بوجھ گردانتی ہے۔ والدین کی بات تو رہنے دیجیے۔ وہ تو پھر بھی اپنے لخت جگر کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔ مگر اردگرد کے لوگوں کا رویہ‘ حد درجہ ناپختہ اور ناانصافی پر مبنی ہوتاہے۔ بچپن سے شروع کیجیے۔ اگر اسپیشل بچہ یا بچی‘ عام اسکول میں پڑھنے کے لیے داخل ہو جا ئیں تو نارمل بچے‘ ان کی معذوری کو ازراہ مذاق ضرور استعمال کرتے ہیں۔ ان کی چھیڑ بنا لی جاتی ہے۔

مزاحیہ نام دے دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ یا بچی چل پھر نہیں سکتے‘ تو انھیں‘ لنگا‘ لنگڑی یا لنگڑا کہہ کر ٹھٹھہ اڑایا جاتا ہے۔ اسکول کی بات کر رہا ہوں۔ ذرا سوچیے کہ ان معصوم اسپیشل بچوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جو اپنی کسی غلطی کے بغیر تختہ ستم بنتے رہتے ہیں۔

اب یہ نارمل بچوں کے والدین اور اسکول کی انتظامیہ کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کو سمجھائیںکہ اسپیشل بچوں کے ساتھ حد درجہ محبت اور احسن سلوک روا رکھیں۔ انھیں بتائیں کہ یہ خدا کی مرضی سے ہے۔ ان کو بھی کسی مصیبت میں ڈالا جا سکتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں والدین اور اساتذہ بھی اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو مہذب اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تحت ہونا چاہے۔ دراصل ہمارے سماج میں شعور کی سطح اس قدر کمتر ہے کہ ہم صحیح سمت میں سوچنے اور عمل کرنے سے کافی حد تک قاصر ہیں۔

یہاں میں پولیو سے معذوری کے معاملے پر ضرور بات کروں گا۔ پولیو کی ویکسین کے دو قطرے‘ کسی بھی معصوم کو زندگی بھر کی محرومی سے محفوظ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک بیماری ہے جس سے بچنا ہی اصل کام ہے۔ مگر ہمارے شدت پسند ظالم طبقہ‘ پولیو ورکرز کو شہید کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ کیا یہ جہالت اور ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ وہ سرکاری ملازم جو پولیو ویکسین پلانے کے نیک اور عظیم کام کو احسن طریقے سے کرنا چاہتے ہیں۔

دہشت گرد تنظیموں کے بھیڑیے نما انسان‘ ان ملازمین پر حملے کرتے ہیں۔ انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے‘ کہ یہ دہشت گرد بالآخر دین کی کونسی اور کس طرح کی خدمت کر رہے ہیں۔ پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور افراد کو مارنا‘ سو فیصد قتلِ ناحق ہے۔ خدا کے حضور اس کی لازم بڑی سخت باز پرس ہو گی۔ ویسے کیا یہ قیامت نہیں کہ جہاں پولیو جیسے موذی مرض سے معصوم بچوں کو محفوظ رکھنا‘ چند علاقوں میں قابل تعزیر ہے، وہاں عام آدمی کی کیا بات کرنی۔ ویسے کیا عجیب مضمون لکھ رہا ہوں۔ جہاں پچیس کروڑ افراد ‘ حیوانی سطح پر سانس لے رہے ہوں‘ وہاں اسپیشل افراد کا کیا ذکر کروں۔ ان کے حقوق اور حفاظت کی کیا بات کروں!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسپیشل افراد اسپیشل بچوں عجائب گھر کرتے ہیں جاتا ہے کے ساتھ کسی بھی کا شکار بات کر کے لیے

پڑھیں:

خدا خیر کرے

آتشزدگی سے تباہ ہونے والا شہر لاس اینجلس دنیا کے متمول ترین افراد کی بستیوں میں سے ایک ہے، اسے فرشتوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ دنیائے فلم کا سب سے بڑا مرکز ہالی وڈ بھی یہیں ہے جہاں اداکار، موسیقار، ہدایتکار اور فن کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والے تخلیق کار بڑی تعداد میں مقیم ہیں، یہاں کے باسی اپنے آپ کو دیگر دنیا میں بسنے والوں سے ایک درجہ اوپر سمجھتے ہیں، ان کا طرز زندگی نمائشی ہے۔ یہاں کم سے کم مالیت کا چھوٹا سے چھوٹا گھر بھی کئی ملین ڈالر کا ہے جبکہ بڑے گھر کروڑوں ڈالر مالیت کے ہیں۔ یہ خواب بیچنے والا شہر ہے، تباہ کن آگ کے حوالے سے مختلف تھیوریاں سامنے آ رہی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ برسوں قبل یہاں سمارٹ سٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جہاں ہر وہ چیز میسر ہو جو اس وقت دنیا میں ایجاد ہو چکی ہے اور انسان کے کام آ سکتی ہے۔ اس شہر کی تعمیر 2030ء میں مکمل ہونا تھی لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آگ کا کھیل رچایا گیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایسا تھا بھی تو موجودہ شہر کو تباہ کرنے اور عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنانے کی ضرورت کیا تھی۔ نیا شہر اور سمارٹ سٹی تو ایسا نہ کرنے کے باوجود تعمیر ہو سکتا ہے۔

ایک تصور یہ بھی موجود ہے کہ کبوتر کی سی معصومیت اور مور پنکھ کے رنگوں کے سنگھار سے آراستہ طوطے کی تیزی و طراری کا حامل اسی سائز کا ایک پرندہ ہے جو انتہائی جارحانہ مزاج رکھتا ہے۔ یہ پرندہ اگر کہیں آگ جلتی ہوئی دیکھ لے تو جلتی ہوئی ٹہنیاں اپنی چونچ میں پکڑ کر انہیں کہیں دور پھینک آتا ہے۔ وہ یہ عمل اس وقت تک جاری رکھتا ہے جب تک وہ تھک نہیں جاتا۔ عین ممکن ہے یہ پرندہ اپنی دانست میں جلتی ہوئی ٹہنیوں کو دور اس لئے پھینک آتا ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار میں آگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوششیں تو کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے اس عمل سے آگ دیگر علاقوں میں پھیل جاتی ہے۔ لاس اینجلس اور اس سے ملحقہ علاقوں میں یہ پرندہ ایسے کام کرتے اکثر پایا جاتا ہے، اسے پرندوں میں دہشت گرد یا تخریب کار سمجھا جاتا ہے۔ آگ لگنے سے ایک رات قبل ہالی ووڈ میں گولڈن ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد ہوا جس میں فلمی دنیا کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں جمع تھے، نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ایوارڈ دیئے گئے۔ سٹیج پر آنے والے فنکاروں نے اپنے فنی سفر کے حوالے سے مختصر گفتگو کی۔ مبینہ طور پر ایوارڈ شو کی اینکر نے کہا جس شخصیت کو بھی ایوارڈ ملا ہے کسی نے اسے اپنی محنت کا صلہ کہا ہے۔ کسی نے اسے اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔ کسی نے اسے اہل خانہ کی دعائوں کا سبب قرار دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں پروگرام کی ہوسٹ نے کہا کہ کوئی ایک بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے خدا کی مہربانی سمجھتے ہوئے خدا کا شکریہ ادا کیا ہو۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ یوں لگتا ہے جیسے ’’نعوذ باللہ‘‘ یہاں خدا ہے ہی نہیں۔ ان کلمات کفر کا اس وقت کسی نے کوئی نوٹس نہ لیا کیونکہ اس تقریب میں زیادہ تر ایسے لوگ تھے جو خدا اور اس کی وحدانیت پر یقین نہ رکھتے تھے نہ ہی وہ اسے خالق کائنات سمجھتے تھے۔ غالباً زیادہ تر ایسے تھے جو ڈارون کی تھیوری کے مطابق بندر سے انسان بنے تھے، انہیں بندر سے انسان بننے میں لاکھوں برس لگ گئے۔ اب بندے سے بندے کا پتر بننے میں صرف ایک رات لگی۔ اگلے روز جب سب کچھ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہا تھا تو درجنوں افراد مرد و زن، بچے، بوڑھے آسمان کی طرف دیکھ کر آہ و بکا کرتے اور التجا کرتے نظر آئے کہ یاخدا ہم پر رحم فرما، اے خدا ہمیں اس آگ سے بچا لے۔ اے خدا ہماری غلطیوں کو معاف کر دے لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ خدا کی لاٹھی بے آواز تھی لیکن اس نے ہر راہ میں آنے والی چیز کو سرمہ بنا ڈالا۔

ہالی ووڈ کی تقریب میں اس شہر کو ’’گاڈ لیس ٹائون‘‘ کہنے والی آج کہاں ہے اور کس حال میں ہے، کوئی نہیں جانتا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا خدا کے حضور پہنچ چکی ہے۔ خدا کو اس موقع پر یاد کرنے والے خدا سے بارش کی دعائیں کر رہے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات جاری تھی، خدا نے خوب یاد دلایا، وہی قادر مطلق ہے۔

کیتھ ایزمنٹ نے پرائیویٹ فائر فائٹر کی خدمت کرکے اپنے گھر کو جلنے سے بچایا اور خدا کا شکر ادا کیا، سیکڑوں فلمی ستاروں، ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں اور تیکنیک کاروں کے گھر ان کی نظروں کے سامنے ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ یہاں ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ آپ اسے محل بھی کہہ سکتے ہیں جس میں بہترین انداز میں آراستہ بیڈ رومز تھے، بہت بڑی بار تھی جہاں سیکڑوں افراد کے لئے سامان مے نوشی موجود رہتا تھا، بہت بڑا ڈانسنگ فلور وسیع اور عریض لان تھے جہاں ہزاروں افراد پر مشتمل تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا کئی گھروں سے بڑا ایسا ڈرائنگ روم بھی تھا کہ تاروں بھری رات کا وہیں بیٹھے ہوئے لطف اٹھانا چاہتے تو ایک بٹن دبانے سے اس کی چھت کھل جاتی تھی۔ اسی جگہ بارش میں نہانے، لپٹنے، جھپٹنے کے شغل بھی ہوتے تھے، ہزاروں گاڑیوں کی پارکنگ اور ملازمین کی رہائش گاہیں بھی تھیں، بہت بڑے کئی سوئمنگ پول تھے جہاں پارٹیاں منعقد ہوتی تھیں، سب کچھ اس طرح جل کر راکھ ہوا جیسے کچھ تھا ہی نہیں، ان عمارتوں کی راکھ کو بھی ہوا اپنے ساتھ اڑا کر جانے کہاں لے گئی۔
جدید ترین مشینری، ٹینکر، جہاز اور ہزاروں فائر فائٹر آگ پر تاحال قابو نہیں پا سکے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے تک لگنے والی آگ کے فقط سترہ فیصد حصے پر اسے بجھانے میں کامیابی ہوئی ہے۔

ایک شخص کو آگ لگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد ازاں اسے عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔ وہ خوش قسمت تھا، امریکہ میں تھا، پاکستان میں نہیں تھا ورنہ دنیا بھر میں ہر جگہ آگ لگانے کا جرم قبول کرکے پورے نظام کو سرخرو کر سکتا تھا۔ لاس اینجلس حکومت اور انتظامیہ نے پہلے ریلیف پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے 7070ڈالر فی کس دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہمارے سیلاب کے زمانوں میں دیئے گئے امداد پیکیج سے ملتا جلتا ہے، لاکھ ڈالر کے گھر اور املاک تباہ ہو گئیں تو اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس بات کا ذکر بھی سننے میں آ رہا ہے کہ جب فلسطین پر بم برسائے جا رہے تھے، بے گناہوں کا قتل عام ہو رہا تھا تو دنیا کے کونے کونے سے آواز اٹھی، ان کے حق میں احتجاج ہوئے لیکن اس شہر سے مظلوموں کے لئے کوئی آواز بلند نہ ہوئی بلکہ ایک آواز تو ایسی تھی جس نے کہا فلسطینیوں کو جلد سے جلد ملیامیٹ کر دو۔ یہ جیمز وڈ تھا جس کا اپنا گھر ملیا میٹ ہو گیا، غلطیوں اور غفلت کی سزا پوری بستی پر بانٹ دی جاتی ہے پھر سب کو اس میں اس کا حصہ بقدر جثہ ملتا ہے۔ لاس اینجلس کی آگ میں تباہی تو ہے ہی کچھ سبق بھی پوشیدہ ہیں۔
ہم بھی صداقت، امانت اور دیانت کا سبق بھولے ہوئے ہیں۔ خدا خیر کرے، آگ ہم سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کوہلو جسے بیل نہیں انسان چلاتے ہیں
  • ٹنڈوجام: مرکز فیضان مدینہ میں دعوت اسلامی کے زیر اہتمام اجتماع
  • دھابیجی اسپیشل اکنامک زون منصوبہ غیرملکی سرمایہ کاری لائیگا، وزیراعلیٰ سندھ
  • دو راستے، فیصلہ آپ کا
  • دھابیجی اسپشل اکنامک زون منصوبہ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری لانے کی صلاحیت رکھتا ہے، وزیراعلیٰ سندھ
  • ولایت تکوینی
  • خدا خیر کرے
  • اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید
  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ