Express News:
2025-04-28@20:27:56 GMT

اسپیشل انسان!

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

نیویارک کا ہسٹری سنہری میوزیم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کمال وسعت اور محنت سے ترتیب دیا ہوا شہکار جسے دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے ان گنت لوگ آتے ہیں۔ وہاں جا کر لگتا ہے کہ آپ کسی اور دنیا میں پہنچ چکے ہیں۔ ایسے ایسے نوادرات اور تاریخی اشیاء جنھیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ جب بھی نیویارک جانے کا موقع ملتا ہے تو یہ میوزیم ضرور دیکھتا ہوں۔ اور ہر مرتبہ‘ ایک نئے جہان ِحیرت سے واسطہ پڑتا ہے۔ مگر آج میں جس واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

اس کا تعلق اس عجائب گھر سے صرف اتنا ہے کہ وہاں صرف وقوع پذیر ہوا تھا۔ 1992 میں پہلی مرتبہ اس عجائب گھر میں جانے کا موقع ملا تو ایک گائیڈڈ ٹور میں شامل ہو گیا۔ ویسے یہ میری عادت کے متضاد ہے۔ کیونکہ اپنے پسندیدہ نایاب شاہ پاروں کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں صرف کرتا ہوں۔ جب کہ گائیڈ آپ سے پیسہ لے کرجلدازجلد‘ اس ٹور کواختتام پر پہنچا کر اپنے گھر جانا چاہتا ہے۔ یاد ہے کہ پیرس میں لو میوزیم دیکھنے کے لیے چند گھنٹے نہیں کئی دن درکار ہیں۔ مگر مجبوری میں صرف ایک دن میں دیکھنا پڑا۔ مشکل بات یہ ہے کہ اتنا وقت میسر نہیں ہوتا۔ خیر نیویارک کے عجائب گھر میں ایک ٹور کے ساتھ منسلک ہونا پڑا۔ کوئی دو سے تین گھنٹے کے دورانیہ کا معلوم ہوتا تھا۔

ایک حد درجہ مہذب خاتون‘ بڑے اعتماد سے ہر فن پارہ کے متعلق تفصیل سے بتا رہی تھی۔ ہاں۔ ایک بات اور۔ اس ٹور کی فیس کوئی دس ڈالر کے قریب تھی۔ آرام سے بارہ سے پندرہ لوگوں کاگروہ ‘ عجائب گھر میں موجود تاریخی شہکاروں کو دیکھ رہا تھا۔ ٹور میں ہر قومیت کے لوگ شامل تھے۔ میوزیم کے درمیان میں واقعہ بہت بڑا کیفے تھا۔ گائیڈ نے کہا کہ اس ریسٹورنٹ میں آدھا گھنٹہ قیام ہو گا۔ خیر جب اس کیفے میں داخل ہوا‘ تو گائیڈ اتفاق سے میرے ساتھ تھی۔ ریسٹورنٹ کے عین وسط میں ایک سفید فام والدہ ‘ بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہی تھی۔

بچی معذور تھی۔ اور اس سے خوراک چبائی نہیں جا رہی تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے‘ آدھے سے زیادہ کھانا منہ سے باہر نکل آتا تھا۔ والدہ کے ہاتھ میں ایک نیپکن تھا۔ وہ بڑے تحمل سے‘ باہر گرا ہوا کھانا‘ نیپکن سے صاف کرتی تھی۔ اور دوسرا لقمہ تیار کرنا شروع کر دیتی تھی۔ میری زبان سے بے اختیار ایک جملہ نکلا کہ یہ لڑکی تو معذور لگتی ہے ۔she appears to be disabled child یہ جملہ بہر حال گائیڈ نے ضرور سن لیا۔

گائیڈ انتہائی تہذیب سے مجھے کہنے لگی کہ یہ لڑکی بالکل معذور نہیں ہے۔ یہ ایک اسپیشل بچی ہے۔ اسے معذور کہنا بہت زیادتی والی بات ہے۔ پھر اس نے مجھے شائستگی سے دس ڈالر واپس کیے۔ کہنے لگی کہ یہ آپ نے گائیڈڈ ٹور کے لیے جمع کروائے تھے۔ معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو اس فقرے کے بعد‘ گروپ سے علیحدہ کر رہی ہوں۔ یقین فرمائیے کہ شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ دراصل اندازہ ہی نہیں تھا کہ معذور انسان کو معذور کہنا‘ ایک توہین آمیز لفظ ہے۔ اس کے لیے Special Child کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دن سے لے کر آج تک میں نے یہ لفظی غلطی دوبارہ نہیں کی۔

اس واقعہ کو تقریباً چالیس برس ہو چکے ہیں۔ مگر یہ سبق میرے ذہن پر آج بھی نقش ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً نصف صدی پہلے سے اب تک‘ معذور انسان کو اسپیشل کہنے کا قطعاً رجحان نہیں ہے۔ مجھے یہ سبق مغرب نے دیا کہ وہ بچے یا بزرگ جو زندگی میں کسی بھی قدرتی وجہ سے نامکمل رہتے ہیں۔ ان کو مخاطب کرنے کا طریقہ حد درجہ رحم دلانہ ہونا چاہیے۔ معذور کا لفظ کہنا یا بولنا ایک گالی کے مترادف شمار کیا جاتا ہے۔

یہ سبق مجھے اچھی طرح ازبر ہے۔ پوری دنیا میں پندرہ فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح کی جسمانی معذوری کا شکار ہے۔ یہ المیہ تین مختلف اقسام کا ہو سکتا ہے۔ -Mild, moderate, severe اردو ترجمہ کرنا کم از کم اس وقت میرے لیے ممکن نہیں۔ یہ تعداد تقریباً ایک ارب سے اوپر تک پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کا اندازہ لگانا حد درجہ مشکل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ غور فرمایئے۔ کہ پاکستان میں اسپیشل انسانوں کی تعداد‘ مغرب کے کئی ممالک کی مکمل آبادی سے زیادہ ہے۔ ویسے مجھے گمان ہے کہ یہ تعداد تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

بدقسمتی کی انتہا دیکھیے کہ ان معذوروں میں 43فیصد معصوم نوخیز بچے اور بچیاں ہیں۔ 58فیصد بچے اور 41 فیصد بچیاں اس مشکل کا شکار ہیں۔ حکومت پاکستان نے اسپیشل افراد کے متعلق 2011ء میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ جسے United Nations Convention on Rights of Persons with Disabilitiesکہا جاتا ہے۔

اس معاہدے کی پاسداری کے لیے کئی حکومتی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ این جی اوز بھی مصروف کار ہیں۔ یہ ایک قابل ستائش بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسپیشل افراد کی تعداد کے مطابق حکومتی یا نجی شعبے کی کاوش ‘ واقعی معیاری ہے۔ اس حد درجہ مشکل سوال کا جواب مکمل طور پر نفی میں ہے۔ صوبائی اور مرکزی حکومتیں اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا سا کام کر تو رہی ہیں۔ مگر یہ حد درجہ ناکافی ہے۔ دیکھنے کو تو سرکاری اسکول بھی ہیں‘ ٹرانسپورٹ کا معمولی سا نظام بھی نظر آتا ہے۔ مگر یہ ادھورا سا ہے۔ بلکہ سطحی سا معلوم ہوتا ہے۔ کم از کم‘ اسے بین الاقوامی معیار کے حساب سے صرف اور صرف غیر معتبر ہی کہا جاسکتا ہے۔ غیر معیاری کہنے سے شاید ان اداروں کے ساتھ منسلک سرکاری ملازم ناراض ہو جائیں۔

اعداد و شمار کو ایک طرف رکھیے۔ حکومتی اقدامات سے بھی صرف نظر فرمائیے۔ سب سے پہلے تو اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے سماجی رویہ کو پرکھیں جو عمومی طور پر اسپیشل افراد کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ یعنی اپنے معاشرے کا تنقیدی جائزہ لیں۔ کم از کم مجھے تو یہ کہتے بلکہ لکھتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ ہمارا رویہ کسی بھی طرح کی معذوروں کی جانب ‘ حد درجہ ظالمانہ اور عامی ہے۔ پیدائش پر اگر معلوم پڑ جائے کہ نوزائیدہ بچہ کسی بھی قسم کی جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہے تو وہ اکثر اوقات والدین کی بے اعتنائی کا شکار ہوجاتا ہے۔

اس بے زاری کو تمام والدین کے متعلق ہرگز ہرگز کہا نہیں جا سکتا۔ بلکہ ایسے ماںباپ بھی ہیں ‘ جو اپنے اسپیشل بچوں کی نگہداشت حد درجہ عمدہ طریقے سے کرتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات اپنے مالی وسائل سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ مگر ایسی بہتر صورتحال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ واضح اکثریت ‘ اسپیشل بچوں کو ایک بوجھ گردانتی ہے۔ والدین کی بات تو رہنے دیجیے۔ وہ تو پھر بھی اپنے لخت جگر کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔ مگر اردگرد کے لوگوں کا رویہ‘ حد درجہ ناپختہ اور ناانصافی پر مبنی ہوتاہے۔ بچپن سے شروع کیجیے۔ اگر اسپیشل بچہ یا بچی‘ عام اسکول میں پڑھنے کے لیے داخل ہو جا ئیں تو نارمل بچے‘ ان کی معذوری کو ازراہ مذاق ضرور استعمال کرتے ہیں۔ ان کی چھیڑ بنا لی جاتی ہے۔

مزاحیہ نام دے دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ یا بچی چل پھر نہیں سکتے‘ تو انھیں‘ لنگا‘ لنگڑی یا لنگڑا کہہ کر ٹھٹھہ اڑایا جاتا ہے۔ اسکول کی بات کر رہا ہوں۔ ذرا سوچیے کہ ان معصوم اسپیشل بچوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جو اپنی کسی غلطی کے بغیر تختہ ستم بنتے رہتے ہیں۔

اب یہ نارمل بچوں کے والدین اور اسکول کی انتظامیہ کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کو سمجھائیںکہ اسپیشل بچوں کے ساتھ حد درجہ محبت اور احسن سلوک روا رکھیں۔ انھیں بتائیں کہ یہ خدا کی مرضی سے ہے۔ ان کو بھی کسی مصیبت میں ڈالا جا سکتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں والدین اور اساتذہ بھی اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے جو مہذب اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تحت ہونا چاہے۔ دراصل ہمارے سماج میں شعور کی سطح اس قدر کمتر ہے کہ ہم صحیح سمت میں سوچنے اور عمل کرنے سے کافی حد تک قاصر ہیں۔

یہاں میں پولیو سے معذوری کے معاملے پر ضرور بات کروں گا۔ پولیو کی ویکسین کے دو قطرے‘ کسی بھی معصوم کو زندگی بھر کی محرومی سے محفوظ کر سکتے ہیں۔ یہ ایک بیماری ہے جس سے بچنا ہی اصل کام ہے۔ مگر ہمارے شدت پسند ظالم طبقہ‘ پولیو ورکرز کو شہید کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ کیا یہ جہالت اور ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ وہ سرکاری ملازم جو پولیو ویکسین پلانے کے نیک اور عظیم کام کو احسن طریقے سے کرنا چاہتے ہیں۔

دہشت گرد تنظیموں کے بھیڑیے نما انسان‘ ان ملازمین پر حملے کرتے ہیں۔ انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے‘ کہ یہ دہشت گرد بالآخر دین کی کونسی اور کس طرح کی خدمت کر رہے ہیں۔ پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور افراد کو مارنا‘ سو فیصد قتلِ ناحق ہے۔ خدا کے حضور اس کی لازم بڑی سخت باز پرس ہو گی۔ ویسے کیا یہ قیامت نہیں کہ جہاں پولیو جیسے موذی مرض سے معصوم بچوں کو محفوظ رکھنا‘ چند علاقوں میں قابل تعزیر ہے، وہاں عام آدمی کی کیا بات کرنی۔ ویسے کیا عجیب مضمون لکھ رہا ہوں۔ جہاں پچیس کروڑ افراد ‘ حیوانی سطح پر سانس لے رہے ہوں‘ وہاں اسپیشل افراد کا کیا ذکر کروں۔ ان کے حقوق اور حفاظت کی کیا بات کروں!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسپیشل افراد اسپیشل بچوں عجائب گھر کرتے ہیں جاتا ہے کے ساتھ کسی بھی کا شکار بات کر کے لیے

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
اُس خوش قدم نے بڑھ کے سنبھالی زمین تھی 
دل اک عذابِ نوح میں ڈالی زمین تھی 
اُس نے بدن پہ ریشمی ہونٹوں سے ہل چلائے 
ورنہ یہ گلستان تو خالی زمین تھی 
نکلا تھا یومِ ہجر کا سورج اور اُس کے بعد 
بس سرخ آسمان تھا، کالی زمین تھی 
اپنے وطن سی بات سکردو میں اب کہاں 
لیکن یہ ہے کہ دیکھنے والی زمین تھی 
دو بھائیوں کو پیار سے سینے لگا لیا 
دونوں میں وجہِ جنگ بھی سالی زمین تھی 
ہم نے غزل میں آگ بھری، دل جلا دیے 
مضموں تھا عشق، آنکھ کی لالی زمین تھی 
وہ تو زبیرؔ چوم لیے میں نے ماں کے پاؤں 
جنت وگرنہ صرف خیالی زمین تھی 
(زبیرحمزہ ۔قلعہ دیدار سنگھ)

...
غزل
ندیم شام کی ہوا اداس ہو گئی ہے کیا؟
گلی میں بیکسی کے ساتھ پھر وہ سو گئی ہے کیا
بڑے تپاک سے مجھے بھی مل رہے ہو راہ میں
خیال و خواب میں نحیف سوچ کھو گئی ہے کیا؟
کھڑے ہو یوں گلی میں جیسے کوئی جانتا نہیں
کسی کی آنکھ نور سا بدن بھگو گئی ہے کیا؟
میں جانتا ہوں جس کا منتظر ہے دوست اجنبی 
نظر کا تیر جسم و جاں میں وہ چھبو گئی ہے کیا؟
مجھے یقین تو نہیں میں پھر بھی پوچھ لیتا ہوں 
میں جیسا چاہتا تھا پھر وہ ویسی ہو گئی ہے کیا؟
تمھارے نظم و ضبط کا کوئی وسیلہ ہی نہیں 
ندیم ؔـاس نگاہ میں یہ جاں سمو گئی ہے کیا؟
(ندیم ملک ۔کنجروڑ، نارووال)

...
غزل
پژمردگی میں ڈوبی بے جان زندگی کا 
اشکوں نے لکھ دیا ہے عنوان زندگی کا 
اب کیا بچا ہے جس کے کھونے سے ہم ڈریں گے
پہلے ہی کر چکے ہیں نقصان زندگی کا
اے بے خبر! خبر لے اپنے مریضِ غم کی
یہ مانتا ہے تجھ کو لقمان زندگی کا
جب سے دیا ہے اس نے ملنے کا اک اشارہ
بڑھنے لگا ہے تب سے امکان زندگی کا
اس نے گدا گری کی ہر حد عبور کر دی 
جانا تھا جس کو ہم نے سلطان زندگی کا
غافل بنا ہوا ہے یہ جانتے ہوئے بھی
لے گا حساب تجھ سے رحمان زندگی کا
ازبر ہیں اس کو سارے مضمون عاشقی کے
بھولا ہوا ہے مقصد انسان زندگی کا 
کس کی مجال لوٹے سانسوں کا یہ خزانہ
ہے موت کا فرشتہ نگران زندگی کا
تائبؔ ہنوز ہے وہ خود کی ہی جستجو میں
جو شخص پا چکا ہے عرفان زندگی کا
(رمضان تائب۔ قلعہ دیدار سنگھ)

...
غزل
کب تک سینے میں رکھے گا یہ اَسرار فقیر
دھوپ سہیں اورچھاؤں بانٹیں، سب اشجار فقیر
اُس وجدانی منظر میں ہے کچھ لمحوں کی دیر
جس کی خاطر چھوڑ کے آیا ہے گھربار فقیر
اُس کی آنکھیں کرتی ہیں بس اک چہرے کا ورد
اپنی ہستی سے کرتا ہے جب انکار فقیر
پتّوں سے شبنم ٹپکے اور پانی حمد پڑھے
جھوم رہا ہے قدرت کا سن کر ملہار فقیر
جب سے والضُحٰی کی صورت من میں آن بسی
روز بہ روز ہُوا جاتا ہے خوشبو دار فقیر
میں سوچوں کی گدڑی اوڑھے اپنے حال میں مست
شعر مرے مالا کے منکے اور افکار فقیر
اپنے من کی غار میں آصفؔ جا بسرام کرے
اِس دنیا سے ہو جاتا ہے جب بیزار فقیر
(یاسررضاآصفؔ ۔پاک پتن)

...
غزل
جو بات کرنے چلا تھا وہ بات بھول گیا 
عجیب شخص ہے عمرِ حیات بھول گیا
تھکا تھکا سا بدن کام سے گھر آتے ہوئے 
نظامِ غم میں سبھی خواہشات بھول گیا
کسی کے ترکِ تعلق کو دیکھ کر یکدم
دلِ تباہ ترے حادثات بھول گیا
شکستہ جسم کو اس کارگاہِ دنیا میں 
ہوئی تھی کیسے یہاں مجھ سے مات بھول گیا
ہمارا عہدِ محبت تو یاد تھا اس کو
حریف وعدۂ وصلت کی رات بھول گیا
ستم تو یہ ہے مجھے یاد ہی نہیں آیا
لگائی کس نے یہاں مجھ پہ گھات بھول گیا
خدا کی اتنی بڑی کائنات میں وہ عمودؔ
تکلفات میں اپنی ہی ذات بھول گیا
(عمود ابرار احمد ۔کراچی)

...
غزل
اپنے دل و دماغ سے اس کو نکال کر
بیٹھے ہیں جان اپنی اذیت میں ڈال کر
وہ بھی خزانہ لٹ گیا ہے اس کی یاد میں 
آنکھوں میں جس کو رکھا تھا میں نے سنبھال کر 
رب کے علاوہ کام میں آتا نہیں کوئی 
دیکھا ہے میں نے خود کو مصیبت میں ڈال کر 
تجھ سے حسین کوئی نہیں ہے جہان میں 
کل کائنات دیکھی ہے میں نے کھنگال کر
تیرے بغیر میرا نکلنے لگا ہے دم 
اے  یار میرے تھوڑا تو میرا خیال کر
مجبور تھا سو بیچ دیا اس  ہنر سے آج
میں نے ہوا کو ایک غبارے میں ڈال کر 
(محمد عامرسہیل پٹیل۔ موہالہ تعلقہ آکوٹ ، مہاراشٹر ،بھارت)

...
غزل
کسی کو دیکھ نہ پائے تھے پاس ہوتے ہوئے
ترے رجوع کی چاہت یا آس ہوتے ہوئے 
اسی سہارے تھے زندہ اسے تو پالنا تھا
امید پل نہیں سکتی تھی یاس ہوتے ہوئے
ہزار رنگ ہیں میرے میں کوئی گرگٹ ہوں
میں خوش دکھائی دیا ہوں اداس ہوتے ہوئے
ہماری پیاس کا کیا ہے خدا بجھا دے گا
کسی کی پیاس بجھائیں گے پیاس ہوتے ہوئے
وہ آپ اپنی تباہی کا خواب دیکھ چکا
نہ دیکھ پاؤں گا جاناں کا ناس ہوتے ہوئے
مقام اس کا اسی میں ہے دب کے رہنا ہے
دبی رہے گی ہمیشہ اساس ہوتے ہوئے
وہ زہر تھے تو مجھے پھر مٹھاس کیسے لگے
وہ زہر لگتے ہیں کیسے مٹھاس ہوتے ہوئے
اترنا چاہا تو کانٹوں کا روپ دھار لیا
مرے لباس نے کیسے کپاس ہوتے ہوئے
حواس کھونا ضروری ہے عشق میں احسنؔ
کسی سے عشق نہ ہوگا حواس ہوتے ہوئے
(احسن خلیل احسن ۔ ڈیرہ اسماعیل خان)

...
غزل
آپ سے دل لگا لیا میں نے 
گویا سب کچھ ہی پا لیا میں نے
صلح کرلی ہے بچوں کی خاطر
گھر اجڑتا، بسا لیا میں نے
کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں
دیکھ اُس کو منا لیا میں نے
میری ہمت کو داد تو دو یار
یہ بھی رشتہ، نبھا لیا  میں نے
شاید  اُس کو یقین آ جائے 
خون اپنا، بہا لیا میں نے
سمجھا جانے لگا گِرا ہوا میں
خود کو اتنا جھکا لیا میں نے
سرپرستوں کی زندگی ہو بس 
خواہشوں کو دبا لیا میں نے
جانے والا ٹھہر نہیں رہا دوست
ہر طرح  آزما  لیا میں نے
یہ نہیں دکھ، مری نہیں ہوئی وہ
دکھ ہے، خود کو تھکا لیا میں نے
 (عمر فدا۔ؔ بہاولنگر)

...
غزل
اس آنکھ سے اب اتنی شناسائی تو ہے نا 
محفل میں مجھے دیکھ کے شرمائی تو ہے نا 
میں کاٹ نہیں سکتا ہوں تنہائی تو کیا ہے
مدت سے  مجھے کاٹتی تنہائی تو ہے نا 
بے خوف نکل سکتا ہوں میں دشت کی جانب 
اپنا بھی علاقہ کوئی آبائی تو ہے نا 
پچیس برس رہنا مرا زندہ سلامت 
دنیائے جگر خور کی پسپائی تو ہے نا 
ان غم زدہ لوگوں کو کسی طور ہنسانا 
اک طرح کا یہ کارِ مسیحائی تو ہے نا 
حیرت سے سہی اس نے مجھے دیکھ لیا ہے 
اک لمحے کو دیوانگی کام آئی تو ہے نا
(عبید آکاش۔ گلگت)

...
غزل
چھینا جھپٹی نہ کر دل دیا ہے تجھے 
اپنی مرضی نہ کر  دل دیا ہے تجھے 
میرے آگے کسی اور کو مت پکار 
اے منادی نہ کر دل دیا ہے تجھے 
پاس تو بیٹھ جا بات کر یا نہ کر 
اتنی جلدی نہ کر دل دیا ہے تجھے 
شان و شوکت پہ رتبے پہ مت کر غرور 
 شاہ زادی نہ کر دل دیا ہے تجھے
کچھ تو نرمی بھی اپنے روئے میں لا 
اتنی سختی نہ کر دل دیا تجھے
گل کی تکلیف تھوڑی ہے کٹ جائے گی 
آنکھ بھردی؟ نہ کر دل دیا ہے تجھے
(فاروق سلطان گل۔ گلگت)

...
غزل
دم توڑتی ہیں حسرتیں پل پل مرے دل میں 
ہر لمحہ مچی رہتی ہے ہلچل مرے دل میں
اس کا کوئی حل ہے تو بتاؤ مجھے للہ 
کرتا ہے کوئی شور مسلسل مرے دل میں 
بے تاب و تواں ہوں تو کوئی وجہ بھی ہوگی 
آباد ہے جذبات کا مقتل مرے دل میں 
آزاد ہوں آزاد ہی رکھتا ہوں سبھی کو 
رہتا ہے مگر کوئی مقفل مرے دل میں 
کوشش تو بہت کی اسے ویران کروں پر 
آباد رہا ہجر کا جنگل مرے دل میں
مخلوق کا ٹھکرایا ہوا شخص ہوں گر چہ 
کھلتا ہے مگر اک گل مخمل مرے دل میں
کہتے ہیں کسے روشنی میں تجھ کو بتاؤں؟
خورشید جہاں تاب کبھی ڈھل مرے دل میں
(لئیق انصاری۔ ٹنڈو آدم)

...
غزل
سنو کہ بیٹھ کے دونوں کہیں پہ بات کریں
پر اس سے پہلے مراسم سے احتیاط کریں
تمہارے بعد یہ واجب ہوا ہے ہم پہ کہ ہم
خراب اپنا نظامِ سکونیات کریں 
نظامِ دہر بھلا کر تمنا ہے دونوں 
سکوں سے بیٹھ کے باتیں تمام رات کریں 
علی نے جیت کے اعلاں کیا تھا آبِ فرات  
یہ جچتا ہم پہ نہیں بندشِ فرات کریں 
کوئی بھی نفع نہیں ہوگا مجھ پہ غیبت کا
اگر ہے مسئلہ کوئی تو منہ پہ بات کریں
سو کارِ عشق میں تقسیم کا جواز نہیں 
  لڑائی بھی کریں تو بس ہمارے ساتھ کریں 
حسب نسب میں نہیں ہے حماز ؔیہ شامل
محبتوں میں کوئی کام واہیات کریں 
(رانا حمزہ حماز۔ حافظ آباد)

شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
 

متعلقہ مضامین

  • قوم پرستی کی حقیقت
  • برصغیر کی جنگِ آزادی اور فلسطین کی جنگِ آزادی
  • فکر ناٹ
  • کینال منصوبہ
  • بُک شیلف
  • کوچۂ سخن
  • یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟
  • کچھ باتیں عام سی
  • انسان اب انسان کیوں نہیں لگتا؟
  • اسپیشل سروس گروپ کے کمانڈوز کی چراٹ میں پاسنگ آؤٹ پریڈ