عالمی سطح پر دو اہم خبریں موضوع بحث ہیں۔ اول ، امریکا، مصر اور قطر کی زیر نگرانی ہونے والے جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت 19 جنوری سے مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی آتش و آہن کا سلسلہ رک گیا۔ معاہدے کی رو سے پہلے مرحلے میں ڈیڑھ ماہ کے لیے فائر بندی کی گئی ہے، اس دوران حماس 33 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی پابند ہے تو بدلے میں اسرائیل بھی 250 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دے گا۔
ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے گی اور کنٹرول واپس حماس کو مل جائے گا۔ دوسری اہم خبر امریکا میں قیادت کی تبدیلی ہے۔ جوبائیڈن حکومت رخصت ہو گئی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو امریکا کی صدارت کا منصب سنبھال لیا ہے۔ وہ دوسری مرتبہ امریکا کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔
سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے دور میں شروع ہونے والی اسرائیل فلسطین جنگ انھی کے دور کے آخری دنوں میں جس دو طرفہ معاہدے کے تحت بند ہوئی ہے، اب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذمے داری ہے کہ وہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اسرائیل کو پابند کریں کہ وہ غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی سے گریز اور جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کرے۔
حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر جہاں ایک طرف عالمی رہنماؤں کی جانب سے اظہار اطمینان کیا جا رہا ہے اور اسے اچھی و مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری طرف یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اسرائیل کے ماضی کے کردار کو دیکھتے ہوئے اس کا امن معاہدے پر اخلاص نیت کے ساتھ تادیر عمل درآمد کرنا مشکل ہے جیساکہ معاہدے کے اعلان کے باوجود دوسرے ہی دن فلسطینیوں پر بمباری کرکے 60 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق دنیا میں امن کے قیام اور جنگوں کے خاتمے میں اپنا عالمی کردار ادا کریں۔ ایک زمانہ جانتا ہے کہ امریکا ہی وہ طاقت ہے جو صیہونی ریاست کی ہر طرح سے پشت پناہی کرتی ہے۔ ڈالر سے لے کر اسلحے کی فراہمی تک امریکا کی مددگاری اسرائیل کے حوصلے بلند کرتی ہے اور وہ نہتے مظلوم فلسطینیوں کو آگ و خون میں نہلا دیتا ہے۔ امریکا اسرائیل کو سالانہ بنیادوں پر تقریباً تین ارب ڈالر کی دفاعی، معاشی اور تجارتی امداد دیتا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی امریکا اسرائیل کے حق میں اس کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔ نتیجتاً چند کروڑ آبادی کا حامل اسرائیل ایک چھوٹی سی ریاست ہونے کے باوجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں پر حاوی ہے، جب کہ مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آج تک ایک موثر اور طاقت ور آواز نہ بن سکے۔ مسلم امہ کے 57 ملکوں کی نمایندہ تنظیم او آئی سی کی کاوشیں صرف زبانی کلامی جمع خرچ سے آگے کچھ نہیں، او آئی سی کے سربراہ اجلاسوں سے لے کر وزرائے خارجہ اجلاسوں تک کے جتنے بھی اعلامیے آج تک جاری ہوئے ان میں امریکا و اسرائیل کے اقدامات اور جارحیت کی مذمت سے آگے کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔ مسلم امہ کی اسی کمزوری کے باعث اسرائیل کے حوصلے مزید بلند ہوتے جا رہے ہیں۔
اس کے قدم گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صیہونی حکومت نے گریٹر اسرائیل کا جو نقشہ جاری کیا ہے اس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے علاوہ اردن، شام، لبنان اور دیگر عرب ممالک کو بھی اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ عرب دنیا میں اسرائیل کے اس مذموم ارادے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
سعودی عرب، اردن، قطر اور یو اے ای نے پرزور الفاظ میں اسرائیلی اقدام پر احتجاج کیا ہے۔ اس مرحلے پر ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران خواب غفلت سے بیدار ہوں۔ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر باہمی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
بعض مسلم ممالک جو پس پردہ صیہونی ریاست سے اپنی پینگیں بڑھا رہے ہیں وہ ہوش کے ناخن لیں۔ یاد رکھیں کہ ان کی بے حسی، بے بسی، مجرمانہ خاموشی ہی کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل نہتے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ معصوم فلسطینی بچوں، عورتوں، نوجوانوں اور بزرگوں کا لہو مسلم حکمرانوں کی آستینوں پر لگا ہوا ہے جو ان کے بے حس اور مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ رہا ہے اور چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ اگر متحد و منظم ہو کر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم نہ روکے تو مستقبل قریب میں ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک صیہونیوں کی دام غلامی کا شکار ہو جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیل کے رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی توثیق کردی
اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی توثیق کردی WhatsAppFacebookTwitter 0 17 January, 2025 سب نیوز
تل ابیب(آئی پی ایس ) اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی توثیق کردی۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سکیورٹی کابینہ نے حکومت کو جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے کی سفارش کردی ہے۔خبررساں ایجنسی کے مطابق جنگ بندی معاہدے کی حکومتی منظوری کے لیے مکمل کابینہ کا اجلاس آج ہی طلب کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ بدھ کے روز قطری وزیر اعظم نے اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا اعلان کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کا آغاز 19 جنوری سے ہوگا۔تاہم اسرائیل کی جانب سے اب تک جنگ بندی کے حوالے کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا گیا۔
جنگ بندی اعلان کے بعد اسرائیلی حکومتی اتحاد میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے اور نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دی ہے۔غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے میں نیتن یاہو کی حیران کن لچک سے اسرائیل کے دائیں بازو کے حلقوں کو پریشانی لاحق ہوگئی تھی۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدہ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطی کیلیے نمائندے اسٹیون وٹکوف کے نیتن یاہو پر براہ راست دبا کے بعد ممکن ہوا۔