ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے حماس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کے فریڈم فائٹرز اور عالم اسلام کو مبارک باد دیتے ہیں، پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام کی حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد القدومی کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کے جو بھی اہداف بتائے تھے، وہ ان تمام میں ناکام ہوا، اسرائیل بطور ریاست ناقابل اعتماد ہے، وہ مذاکرات پر مجبور ہوا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے حماس کے ترجمان خالد القدومی نے کہا کہ پوری دنیا کے فریڈم فائٹرز اور عالم اسلام کو مبارک باد دیتے ہیں، پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام کی حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ دوسری جانب بالآخر 15 ماہ بعد غزہ کے محصور اور مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ تھم گیا۔

پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر دو بج کر پندرہ منٹ پر غزہ میں جنگ بندی کا آغاز ہوچکا ہے، جنگ بندی معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ آج ہی کیا جائے گا۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے جنگ بندی پر عملدرآمد سوا تین گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا، اسرائیل نے آخری لمحے تک غزہ پر فضائی حملے کرکے آج مزید 19 فلسطینیوں کو شہید کیا۔ 7 اکتوبر 2023ء سے آج 19 جنوری 2025ء کے دوران 46 ہزار 899 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ فلسطینی حکام کے مطابق شہید فلسطینیوں میں 30 ہزار سے زائد بچے اور خواتین شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عالم اسلام پوری دنیا

پڑھیں:

اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافی کی ہے،حماس کیساتھ معاہدے پر کار بند نہیں رہے گا

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافی کی ہے‘ حماس کیساتھ معاہدے پر کار بند نہیں رہے گا‘غالباًنیتن یاہوعالمی دبائو کی وجہ سے معاہدے کی پاسداری پر مجبور ہوںگے ‘صیہونی فوج میں بغاوت ہوسکتی ہے ‘حماس کو شکست نہیں دی جاسکی‘ طاقتور جب چاہے سمجھوتا توڑ سکتا ہے‘ یہودیوں ،عیسائیوںنے اپنی توانائی کومجتمع کرنے کے لیے سمجھوتا کیا، مسلم ممالک بھی فائدہ اٹھائیں۔ان خیالات کا اظہار تحریک حماس پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما، چترال سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی‘اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد زبیر‘ معروف صحافی، سینئر تجزیہ کار میاں منیر احمد‘ معروف تجزیہ کار اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اور ویمن اسلامک لائرز فورم کی سابق چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا اسرائیل حماس سے معاہدے پر کاربند رہے گا؟‘‘ ڈاکٹر خالد قدومی نے کہا کہ دیکھیں اسرائیل کی ایک لمبی داستان ہے کہ وہ کبھی ا فہام و تفہیم یا مذاکرات پر عمل نہیں کرتا‘ اگرچہ اس نے معاہدے پر دستخط بھی کردیے ہیں‘ حماس کو معاہدے سے 2،3 دن پہلے اس کی تیاری کرنے کے لیے وقت دیاگیا تھا اور اسرائیل نے بھی اسے قبول کیا اور اس معاہدے کی شرائط کی قطر، مصر اور امریکا نے بھی گارنٹی دی ہے ‘ معاہدے سے پہلے حماس نے بتادیا تھا کہ کوئی نسل کشی اورکوئی حملہ نہیں ہوگا لیکن ہوا یہ کہ جس دن حماس نے پریس کانفرنس کی اور معاہدہ کا اعلان کیا اس روز حماس کے 82 افراد کو اسرائیل نے بمبارمنٹ میں شہید کردیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی نیت خراب ہے‘ اسرائیل پر عالمی دباؤ اور مجاہدین کی کامیابی اور فلسطینیوں کے ثابت قدم رہنے کی وجہ سے شاید اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں ہوگا کہ وہ معاہدے کے مطابق خاص طور پر اپنے اس پہلے مرحلے پر مکمل طور پر عمل درآمد کریں‘ فلسطین القدس کے وقت مطابق اتوار کے روز 4بجے دوپہر کو معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوگا اب دیکھیں گے کہ یہ اپنے وعدے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں‘ اگر اسرائیل معاہدے عمل نہیں کرے گا تو اسرائیلی یرغمالی کبھی رہا نہیں ہوں گے‘ عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس مقام پر جہاں اسرائیل نے ہمارے 82 افراد شہید کیے تھے‘ اس بمباری میں ایک یہودی یرغمالی خاتون بھی ہلاک ہو گئی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت کو اپنی عوام کی بھی کوئی فکرنہیں ہے وہ اپنے شہریوں کو بھی قتل کر سکتے ہیں اور کرے بھی رہے ہیں‘ ہم اچھی نیت سے معاہدے کے لیے گئے تھے تاکہ حماس فلسطینیوں کو جو اسرائیلی کی قید میں ہیں انہیں واپس لا سکے‘ حماس تحریک مزاحمت اور جدوجہد کو جاری رکھے گا‘ اسرائیل قابل شکست ہے‘ ان تمام افراد کو سلام پیش کرتے ہیں جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے ۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ یہ اسرائیل کی اب مجبوری ہے کہ وہ حماس سے معاہدے پر کاربند رہے کیونکہ وہ حماس کو شکست نہیں دے سکے اور 15ماہ تک انہوں نے جنگ لڑی اور انہوں نے حماس کے خلاف ہر قسم کے ہتھیار استعمال کیے‘ فضائی اور زمینی حملے کیے اور ان کے گھروں کو تباہ کیا ان کے اسپتالوں کو جس طرح نست ونابود کیا اس کے باوجود بھی حماس کے لوگوں کی ہمت اور جرأت کسی صورت کم نہ ہو سکی ہے‘ ایک تو وجہ یہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی کچھ بغاوت کی خبریں آ رہی ہیں اگر یہ مصدقہ ہیں تو یہ اسرائیل کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ جنگ کا آغاز کرتا ہے تو اس کی فوج میں بغاوت ہو سکتی ہے ‘ تیسری بات یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونے کے بعد پھر اس کو توڑنا ان کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا۔مفتی محمد زبیر نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کا معاہدہ اس اعتبار سے تو قابل تحسین ہے کہ ایک لمبے عرصے سے حماس اور بالخصوص غزہ کے عوام پر جس طرح آگ کی بمباری جاری تھی اس میں کمی آئے گی لیکن لگتا نہیں ہے کہ اسرائیل اس معاہدے پر کاربند رہ سکے کیونکہ اسرائیل کی تاریخ ہمیشہ وعدے توڑنے کی رہی ہے‘ پوری اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے ان سے کوئی زیادہ خوشگمانی کرنا مناسب نہیں ہوگا‘ جنگ کے محاذ پر غزہ کے لوگوں نے بھرپور فتح کے جھنڈے گاڑے اور خوب داد تحسین پائی ہے‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے تاہم اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر عرب ممالک کی کانفرنس اور او آئی سی کانفرنس بلائی جائے اور وزرائے خارجہ کی سطح پر مستقل اور پائیدار حل کی طرف جایا جائے‘ القد س کو دارالحکومت قرار دیا جائے ‘ فلسطین میں حماس کی حکومت کو حقیقی طور پر تسلیم کیا جائے۔میاں منیر احمد نے کہا کہ اسرائیل، حماس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے امریکا کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جہاں اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ آچکا ہے اور 4سالہ میعاد پوری کرکے رخصتی کی تیاری کرنے والے صدر جوبائیڈن اور نومنتخبڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی تشویش کا باعث بننے والی صورتحال کے خاتمے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اسرائیل امن معاہدے کی پاسداری کے وعدے پر کس حد تک اور کتنی مدت تک قائم رہے گا؟ اس کے ماضی کے کردار کی روشنی میں حتمی طور پر کچھ کہنا آسان نہیں تاہم واشنگٹن کو عالمی امن کے مفاد میں کردار کرنا چاہے گا تو معاہدہ موثر ہوسکتا ہے‘ اس معاہدے سے 15 سے زاید عرصہ سے جاری جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ محمد عارف صدیقی نے کہا کہ اسرائیل میں بنیادی طور پر 2 طرح کے صیہونی آباد ہیں ان میں سے ایک گروہ جس کی تعداد نسبتاً کم ہے وہ تو الٹرا آرتھو ڈوکس یہودی ہیں جن کا تعلق یہود کے 12 قبائل کی جو شاخیں ہیں ان سے ہے دوسرے وہ غیر یہود جو بنیادی طور پر صیہونی ہیں‘ یہ اشک نازی یہود یا وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ یہود کہلاتے ہیں یہ دونوں قبائل وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ یا اشک نازی بنیادی شیطان کی پوجا کرنے والے قبائل تھے جنہوں نے صیہون کا مذہب اوڑھا اور یہودیوں میں آ ملے دوسری طرف آرتھوڈوکس یہودی ہیں‘ اب اگر آپ ان دونوں یہودیوں و صیہونیوں کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ اس قوم نے ہمیشہ بد عہدی کی، انہوں نے پیغمبروں تک سے بد عہدی اور بے وفائی کی یہ وہ قوم ہے جن کی تاریخ اس بات سے عبارت ہے کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جانا چاہیے‘ آپ کو یاد ہوگا کہ مدینہ میں موجود قبائل بھی رسول کریم ؐ کے ساتھ معاہدے پر قائم نہیں رہ سکے تھے اور مسلمانوں کے خلاف اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے انہوں نے بارہا عہد شکنی کی جس کے نتیجے میں رسول اللہ کے دور میں بھی ان کی سرزش و تعدیب کی گئی‘ اس کے بعد کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب اس قوم نے کسی دوسری قوم کے ساتھ معاہدہ کیا تو یہ صرف اس وقت تک اس معاہدے پر کاربند رہے جب تک وہ معاہدہ ان کے حق میں بہتر رہا اور جب ذرا سی بھی ان کے مفادات پر ضرب پڑی تو اس معاہدے کو یہ لوگ بلا جھجک توڑ ڈالتے تھے‘ اس کی وجہ ان کی مذہبی کتب ہیں اگر آپ ان کی مذہبی کتب کا مطالعہ کریں تو وہاں غیر یہودیوں کو جنٹائل اور گوئم کے نام سے پکارا گیا ہے یعنی 2 ٹانگوں والے جانور اور ان کی مذہبی کتب کے مطابق غیر یہود کا خون، جان مال سب کچھ ان پر حلال ہے اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ‘ یہ وہ بدبخت قوم ہے جو پیغمبروں تک سے بے وفائی اور عہد شکنی کر چکی ہے تو ہمارے ساتھ بھی یہی کرے گی‘ ہم دوسری بات عہد حاضر میں دیکھتے ہیں اس کے مطابق طاقتور اور کمزور کے درمیان جب معاہدہ ہوتا ہے تو طاقتور جب چاہے معاہدہ اس لیے توڑ ڈالتا ہے‘ اس سے اس پر عمل درآمد کروانے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی‘ اب اس معاہدے پر عمل درآمد کروانے کی طاقت کیا مسلم حکمرانوںمیں ہے‘ توجواب ہے کہ وہ تو صرف اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف ہیں‘ انہیں فلسطین اہل فلسطین یا غزہ کے شہدا و مظلوموں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ اس کے بعد اگر آپ بین الاقوامی اداروں کو دیکھیں تو وہ ہمیشہ سے صیہونی اور صلیب کی لونڈی بنے نظر آتے ہیں‘ اقوام متحدہ کے معاملات اور قراردادیں سب کے سامنے ہیں‘ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے ردی کی ٹوکری میں پڑے ہیں‘ اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کی کسی میں جرأت نہیں ہے‘ اگر آپ اسی تناظر میں اس معاہدے کو دیکھیں تو یہ معاہدہ صرف وقتی طور پر جنگ بندی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ دشمن یعنی صیہون اور صلیب ایک مرتبہ پھر سے اکٹھے اور اپنی توانائی کو مجتمع کر سکیں‘ غزہ میں موجود سرنگوں کے جال کو توڑنے کی کوئی تدبیر سوچ سکیں‘ مسلم ممالک پر دباؤ ڈال کر انہیں فرنٹ مین کے طور پر اسرائیل کے حق میں اور اہل غزہ کے خلاف استعمال کرنے کی پلاننگ کر سکیں یہ معاہدہ اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ اسرائیل وقت لینے کے لیے یہ معاہدہ کر رہا ہے اور بہت جلد اس معاہدے سے پھر جائے گا اب یہ ہم مسلمانوں پر ہے کہ وہ بھی اس وقفے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اپنی طاقت کو مجتمع کریں‘ مسلم حکمرانوں کو غیرت دلوائیں اور ایک اور بات بہت اہم ہے کہ جنگ بندی کے بعد ہمیں اہل غزہ کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد اکٹھی کرنی چاہیے۔ طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جہاں تک اسرائیل کی تاریخ ہے تو اسرائیل حماس سے معاہدے پر بالکل بھی کار بند نہیں رہے گا‘ کوئی نہ کوئی بہانہ وہ ڈھونڈے گا‘ بلاشبہ وعدہ خلافی اور کہہ مکرنی کی تاریخ اسرائیل سے زیادہ اچھی کس کی ہو گی ۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کےنوجوان ملک کا مستقبل ہیں، ماہرتعلیم ڈاکٹرعطاالرحمان کا خطاب
  • گریڈ 20کے سنیئر افسر ڈاکٹر خالد کوتین ماہ کیلئے چیئرمین پی اے آر سی کے عہدے کا عبوری چارج ملنے کا امکان
  • غزہ جنگ بندی معاہدے پر تاخیر سے لیکن عمل درآمد شروع ہو گیا
  • اسرائیل اور حماس کے درمیان آج سے جنگ بندی کا آغاز، غزہ میں امن کی امید
  • اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافی کی ہے،حماس کیساتھ معاہدے پر کار بند نہیں رہے گا
  • حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
  • حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدہ، جماعت اسلامی نے یوم تشکر منایا، ریلیاں
  • اسلام آباد: وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم آئی آر سی کے تحت منعقدہ تقریب سے خطاب کررہی ہیں
  • طاقتیں تمہاری ہیں، اور خدا ہمارا ہے!