سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا امریکہ میں سیاسی تبدیلی پر تجزیہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
’ا یکسپریس‘ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے نتیجے میں دنیا اور بالخصوص پاکستان پر اس کے اثرات کے حوالے سے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور عالمی امور کے ماہر خورشید محمود قصوری سے بات چیت کی جس میں انہوں نے کہا،سب سے پہلے تو یہ دیکھ لیں کہ نئی صدارتی مدت کے آغاز سے پہلے ہی بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔
مثال کے طور پر یہ جو غزہ میں جنگ بندی ہوئی ہے یہ محض اس لئے نہیں ہوئی کہ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ میں مشرق وسطیٰ کو تباہ کر کے رکھ دوں گا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے ا سرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کوکہہ دیا تھا کہ میرے آنے سے پہلے یہ سب ختم ہو جانا چاہیے۔ نتین یاہو پر اسرائیل کے اندر سے یہ دباؤ تھا کہ وہاں رائے عامہ ٹرمپ کے حق میں ہے۔ صدر جوبائیڈن تو اسرائیل کی مدد کے لئے تمام حدیں پھلانگ گئے تھے۔
یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ تمام بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ امریکہ اسرائیل کو ہر طرح کے ہتھیار دے رہا تھا جو فلسطینیوں پر استعمال ہو رہے تھے۔ حالانکہ برطانیہ نے کئی اقسام کا مہلک اسلحہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اتنی کُھل کر مدد کرنے کے باوجود بائیڈن کی نسبت ٹرمپ کو اسرائیل میں زیادہ پسند کیاجا تا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوںنے اسرائیل کی دیرینہ خواہش پوری کرتے ہوئے تل ابیب سے دارالحکومت یورشلم منتقل کرنے کوممکن بنایا ‘ ٹرمپ نے ہی گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کیا اور ہر جگہ پر اسرائیل کی پشت پناہی کی تھی۔
اسرائیلی وزیراعظم کے لئے اپنے لوگوں کو مطمئن کرنا اس لئے آسان ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کے کہنے پر فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں روک رہے ہیں جو ا سرائیل کا بڑا حمایتی ہے۔ امریکہ میں یہ بحث چل رہی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا کریڈٹ کس کو ملنا چاہیے۔ اصل میں جو معاملہ اب طے ہوا ہے، بالکل یہی ڈیل مئی کے مہینے میں طے پا گئی تھی اور یہ سب صدر بائیڈن نے طے کرایا تھا۔ بائیڈن نے یہ کہا تھا کہ پیش کش خود اسرائیل کی طرف سے آئی ہے۔ لیکن پھر وعدہ کرنے کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم پیچھے ہٹ گیا کیونکہ اسے اپنی حکومت کے گرنے کا خطرہ نظر آ رہا تھا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جانے والی حکومت اور آنے والی حکومت نے کسی بین الاقوامی معاملے پر مل کر کام کیا ہے۔ ہمیشہ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ سیاسی مخالف جماعت کی حکومت کو کسی اہم کام کرنے کا کریڈٹ نہ جائے۔
مثال کے طور پر جب صدرجمی کارٹر کے دورمیں امریکی ایران کی قید میں تھے توصدر کارٹر نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ اپنے دور حکومت میں ان قیدیوں کو آزاد کرا سکیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے حالانکہ معاملہ طے پا گیا تھا۔ ایرانیوں نے قیدی اس وقت چھوڑے جب ریگن اقتدار میں آ گئے۔ اس وقت یہ باتیں بھی ہوئیں کہ خود ریگن انتظامیہ نے ایران سے کہا تھا کہ قیدی ہمارے وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد رہا کئے جائیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں پس پردہ سیاسی تصفیہ کی باتیں ہو رہی ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سب امریکی دباوء پر ہو رہا ہے تو اُن کا کہنا تھا، میں اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ امریکی دباوء ہے یا نہیں لیکن اگر پاکستان میں سیاسی تصفیہ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ میں خوش ہوں گا۔ میں نے تو اپنی کتاب میں بھی اس پر لکھا ہے کہ ہم اس لئے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہمارے ہاں پالیسی کا تسلسل نہیں ہے۔
اگر سیاسی تصفیہ ہوتا ہے تو میں اس پر حیران نہیں ہوں گا کیونکہ پاک آرمی کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ پی ٹی آئی کو بڑی عوامی حمایت حاصل ہے اور عمران خان پاپولر لیڈر ہے۔ جہاں تک تعلق ہے امریکہ کے اثر انداز ہونے کا تو وہی ملک کسی دوسرے ملک پر اثر انداز ہو سکتا ہے جس کا کچھ لینا دینا ہو۔ کبھی امریکہ کا پاکستان میں اتنا اثر و رسوخ تھا کہ یہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں تین اے’Three A's‘ کا دوردورا ہے۔ اللہ، امریکہ اور آرمی ۔ خیر میں تو اس سے اتفاق نہیں کرتا تھا کیونکہ کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کربیان کرنیوالی بات ہے۔
جہاں پر کوئی بنیادی مفادکی بات آ جائے تو فوج اپنا فیصلہ خود کرتی ہے جیسے کہ ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ہم نے دیکھا۔ اگر آپ آج مجھ سے پوچھیں تو پاکستان پر اثر انداز ہونے والے اہم ترین ملکوں میں سعودی عرب ‘ چین‘ یو اے ای اور کسی حد تک قطر شامل ہیں جبکہ اخلاقی اعتبار سے ترکی کا بڑا اثر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جب کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ اس کا اثر نہیں لیتی۔ آپ دیکھ لیں بھٹو صاحب کے لئے عربوں سمیت ساری دنیا نے کہا لیکن بھٹو کو پھانسی دیدی گئی۔ کیونکہ ضیاء الحق نے طے کر لیا تھا کہ اسے نہیں چھوڑنا ۔ اس میں شک نہیں کہ امریکہ ایک سپر پاور ہے اوردنیا میں اس کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے لیکن وہ اس طرح براہ راست اثر انداز نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کے بنیادی مفادات میں امریکہ سمیت کوئی بھی ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ ان بنیادی مفادات میں چین سے تعلقات ‘ ایٹمی پروگرام اورکشمیر کا معاملہ سرفہرست ہیں۔
حکومت خواہ فوجی ہو یا سول ہر کسی نے ان مفادات کا تحفظ کیا ہے۔میں یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان میں سیاسی تصفیے کی جو کوشش ہو رہی ہے وہ امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر سیاسی ا ستحکام لانے کی واقعی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے تو اس کی وجہ کچھ بھی ہو، یہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور میں اس پر بہت خوش ہوں گا اور میری خواہش ہو گی کہ یہ کوشش کامیاب ہو۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری کلچر ہی پروان نہیںچڑھ سکا۔ جمہوری کلچر کی روح جو ہے وہ برداشت ہے لیکن ہمارے ہاں برداشت سرے سے موجود ہی نہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے نتیجے میں پاکستان کے پاس کھونے کو کچھ ہے ہی نہیں‘ پاکستان کا اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ بائیڈن کے دور میں امریکہ کے ساتھ تعلقات جس قدر خراب ہو چکے تھے اس سے زیادہ خراب ہو ہی نہیں سکتے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کچھ بہتری ہی آ جائے۔
اصل بات یہ ہے کہ ملکوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ امریکہ کا چین کے ساتھ تناؤ چل رہا ہے۔ امریکہ چینی درآمدات پر مزید محصولات لگانے کا سوچ رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان چین کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن ہی نہیں سکتا، یہ ناممکنات میں سے ہے۔ اس بات کا امریکہ کو بھی پتہ ہے‘ بھارت ا مریکہ کا بھاگ بھاگ کر اتحادی جا بنا ہے۔کیونکہ بھارت چاہتا ہے کہ چین کو محدود کیا جا ئے، اس کی طاقت کو توڑا جائے۔
لہٰذا امریکہ کے نزدیک پاکستان کی وہ اہمیت ہو ہی نہیں سکتی جو بھارت کی ہو چکی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی کامیابی یہ ہو گی کہ ہم امریکہ اور یورپ کے ساتھ اچھے تعلقات بنائیں اور چین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات چلتے رہیں۔ ہماری زیادہ تر تجارت یورپ اور امریکہ کے ساتھ ہے۔ اگر ہم ان سے بگاڑ لیں تو ہماری تجارت ہی بیٹھ جائے گی۔ آئی ا یم ایف اگلے دس سال کے لئے غربت کے خاتمے اور بچوں کی بہتر صحت کے منصوبوں میں ہماری مدد کر رہا ہے۔
انگریزی زبان ایک اہم پل ہے ہمارے اور یورپ کے درمیان۔ ہمارے بچے زیادہ تر وہاں پڑھ رہے ہیں۔ یورپ میں 30 لاکھ سے زیادہ پاکستانی ہیں‘ ہمارے تو بچے یورپ پہنچنے کے لئے سمندر میں ڈوبنے کو تیار ہیں تو کوئی تو وجہ ہے جو نوجوان وہاں جانا چاہتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم انہیں پاکستان میں روزگار نہیں دے پا رہے۔ امریکہ ہم سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی ایک کا چناؤ کرو کیونکہ امریکہ نے تو پہلے خود ہی ہمارے مقابلے میں بھارت کو چُن لیا ہے۔
یوکرین کے معاملے پر اُن کا کہنا تھا کہ، یوکرین کے حوالے سے صدر ٹرمپ پوری کوشش کریں گے کہ جنگ ختم ہو کیونکہ یہ بات وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں اور جنگ ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ جہاں پر ہے وہیں رک جائے، جو کہ روس کے مفاد میں ہوگا۔ اس وقت یوکرین کا بیس پچیس فیصد علاقہ روس کے قبضے میں ہے۔ مجھے یہی لگتا ہے کہ اسی طرح کا کوئی تصفیہ ہو گا یقینا اس میں اور کئی نقاط بھی ہوں گے کیونکہ امریکہ کی رائے عامہ کو بھی مطمئن کرنا ہو گا جبکہ نیٹو اور یورپی یونین ٹرمپ کی پالیسی سے خوش نہیں ہوں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ،
جب سوویت یونین ٹوٹا ہے، اسوقت ساتھ ہی ورسا پیکٹ بھی ختم ہو گیا تھا۔ تب یہ سوچا جا رہا تھا کہ اب نیٹو کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ اس لئے ختم نہیں ہوا تھا کہ روس کو کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں اور اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیٹو روس کی سرحدوں تک نہیں آئے گا۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد کئی ملک جو پہلے وارسا پیکٹ میں شائل تھے اب نیٹو کا حصہ بن چکے تھے۔ یورپی ملک چاہتے تھے کہ یوکرین کو بھی نیٹو میں شامل کر لیا جائے، جس سے سارا مسلہ پیدا ہوا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ بھارت سے بنگلہ دیش سے نکل گیا لیکن افغانستان پر بھارت کا اثر بڑھ رہا ہے اور دہشت گردی بہت بڑھ رہی ہے، دوسری جانب واخان پر چین اور پاکستان کے کنٹرول کی باتیں ہو رہی ہیں تو انہوں نے کہا، ہمارے لئے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بہت مسائل ہیں۔
میرا نہیں خیال کہ ہمیںکوئی اس طرح کا قدم اٹھانا چاہیے کہ واخان میں شروع ہو جائیں۔ پہلے ہی ہم سیاچن پر بیٹھے ہیں ایک اور سیاچن کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس کوئی اطلاع تو نہیں یہ میری ذاتی رائے ہے۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ نے افغانستان سے دشمنی بڑھانی ہے اور بھات کو افغانستان کے مزید قریب لانا ہے تو ضرور اس طرح کے کام کریں ۔ مجھے اس میں کوئی تزویراتی فائدہ نظر نہیں آتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کوئی بات سمجھنے کو تیار نہیں کہ وہاںسے ہم پر حملے ہو رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان فوجی ا فسر جوان اور شہری شہید ہو رہے ہیں تومجبوراً ہمیں جواب دینا پڑا اور ہماری فضائیہ نے وہاں دہشت گردو ں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا اور افغانوں نے بھی اس پر جواب دیا جو کہ ایک فطری سی بات ہے۔ افغانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی سوچ عجیب ہے۔ امریکہ نے ان سے کہا کہ اُسامہ کو ملک سے نکال دو تو تمہاری جان چھوٹ جائے گی لیکن انہوں نے ملک برباد کر ا لیا لیکن اسامہ کو نہیں نکالا۔ حتیٰ کہ امریکہ نے ملک پر قبضہ کر لیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا مہمان ہے ہم اسے نہیں نکالیں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے۔
اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ آسان نہیں لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں نے کیونکہ بھارت اور افغانستان دونوں سے معاملہ کیا ہے میں یہ کہوں گا کہ بھارت افغانستان کے لئے کبھی بھی پاکستان کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ۔ پاکستان کے ساتھ ان کے خونی رشتے ہیں‘ دونوں جانب ان کے قبیلے اور برادریاں موجود ہیں۔ ان کی تجارت پاکستان کے راستے ہوتی ہے‘ پاکستان ہی ان کی بڑی منڈی ہے۔
جب میں وزیر خارجہ تھا تو افغانستان کے ساتھ تجارت 20 ملین ڈالر سے بڑھ کر ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ میں یہ کہوں گا کہ افغانستان سے سفارتی میل جول کسی صورت نہ چھوڑا جائے ۔ جرگوں اور پشتون برادریوں کے ذریعے طالبان پر اثر انداز ہونا چاہیے۔ چین کو بھی کہنا چاہیے کہ افغانستان کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانے میں مد د کرے۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ آئندہ افغانستان میں فوجی کارروائی کی ضرورت نہ پڑے۔
اگر میں وزیر خارجہ ہوتا، تو ہمیں غصے کا اظہار تو کرنا چاہیے تھا کیونکہ ہمارے لوگ شہید ہو رہے ہیں لیکن ہمیں ایسا تاثر نہیں دینا چاہیے تھا کہ ہم افغانوں کے خلاف ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر افغانوں کو نکالتے ہوئے یہ تو خیال کرنا چاہیے تھا کہ جو بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں انہیںیہاں کی شہریت دی جاتی جیسے ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ طاقت صرف اسوقت استعمال ہونی چاہیے جب اور کوئی راستہ باقی نہ رہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مذاکرات تو ہو رہے ہیں، حکومت کا اعتراض غلط نہیں
لاہور:تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ ہم نے کل بھی یہ بات کی تھی کہ مذاکرات کے دو فریق ہمیں نظر آ رہے ہیں، پس پردہ بھی دوفریق ہیں ایک پاکستان میں ہوگا ایک شاید پاکستان سے باہر ہوگا، مذاکرات تو بہرحال ہو رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت کا جو اعتراض ہے وہ غلط نہیں ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کی بینیفشری تو تحریک انصاف ہوگی، قیمت (ن) لیگ نے چکانی ہے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ دونوں اطراف اپنی طرف سے بہتر کام کر رہے ہیں، پی ٹی آئی کا حق ہے کہ چاہے وہ مطالبات ہیں یا الزامات ہیں وہ میز پر آکر بیٹھ گئے ہیں، حکومت نے ہی تحریری مطالبات کا کہا تھا، حکومت کی ڈکٹیشن تو پی ٹی آ ئی نہیں لے سکتی کہ جو گورنمنٹ چاہتی ہے وہ وش لسٹ میں بھیجیں، وہ 8 فروری کے الیکشن، مینڈیٹ وغیرہ سب کچھ بھلا چکے، وہ آ رہے ہیں ادھر کمیشن پے۔
تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کا شروع ہو جانا ہی ایک بڑی پیش رفت تھی، آج اس حوالے سے مزید پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پی ٹی آئی جو اس سے پہلے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کرنے سے گریز کر رہی تھی نے تحریری چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا ہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی نے موجودہ صورتحال میں کچھ مثبت یوٹرن لیے ہیں۔
تجزیہ کار شکیل انجم نے کہا کہ جب سے یہ مذاکرات شروع ہوئے ہیں تو ہم کافی دفعہ اس پر بات کر چکے ہیں، میں نے پہلے بھی بات کی تھی آج پھر اس بات کو دہراؤں گا کہ مجھے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے ون اسٹیپ ڈاؤن کیا ہے، آج کے ان کے جو مطالبات ہیں ان میں 8 فروری کے انتخابات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی، اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی نے 8 فروری کے انتخابات کو تسلیم کر لیا ہے اور بات آگے کی طرف بڑھائی ہے۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ جب مذاکرات شروع ہوئے تو مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کو بٹھانے میں جو سب سے بڑا کردار تھا وہ دیکھیں اب ان سے پی ٹی آئی کے مذاکرات جو ہیں وہ کہہ رہے ہیں جس طرح بھی کہہ رہے ہیں کہ بات چیت ہوگئی، واضح ہو گئی، سامنے آگئی تو ظاہر ہے (ن) لیگ کو اس لیے لیکر آیا گیا تھا، (ن) لیگ مذاکرات کرنے کے لیے نہیں آ رہی تھی، اب دیکھ لیں مذاکرات کے