GAZA:

حماس نے قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی معاہدے کے تحت ابتدائی طور پر 3 اسرائیلی خواتین قیدیوں کے نام جاری کیے  ہیں اورایک اسرائیلی فوج تک پہنچ گئی ہیں۔

غیرملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حکومت نے آخری وقت تک رہائی پانے والی تینوں خواتین کے ناموں کی تصدیق نہیں کی کیونکہ انہیں حماس کی جانب مذکورہ قیدیوں کی حوالگی تک یقین نہیں ہے۔

دوسری جانب قیدیوں کے اہل خانہ کی جانب سے ان افراد کے نام بتائے گئے ہیں۔

رومی گونین

حماس نے 23 سالہ اسرائیلی ڈانسر کو 7 اکتوبر 2023 کو نووا میوزک فیسٹول سے حراست میں لیا تھا تاہم گونین نے قید میں جانے سے چند لمحے پہلے فون پر اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ مسلح افراد کی آمد تک اپنے متعدد دوستوں کے ہمراہ چھپ کر بیٹھی رہیں۔

انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے نتیجے میں ان کے ہاتھ میں گولی لگی ہے۔

رومی گونین جب اپنے گھروالوں سے بات کر رہی تھی تو اسی دوران انہیں کہتے ہوئے سنا گیا کہ میں آج مرنے جا رہی ہوں تاہم گھروالوں کو حملہ آوروں کی آواز سنائی دی کہ جو عربی میں بات کر رہے تھے کہ یہ زندہ ہیں انہیں اٹھا لو۔

رپورٹ کے مطابق بعد ازاں جب ان کے موبائل کو ٹریس کیا گیا تو لوکیشن غزہ کی پٹی کی آئی تھی۔

ڈورون اسٹینبریشر

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ڈورون اسٹینبریشر 30 سالہ ویٹرنری نرس ہیں جنہیں غزہ سے اٹھالیا گیا تھا۔

انہوں نے حملے کے چند گھنٹے بعد اپنے والدین کو فون کیا اور بتایا کہ وہ خوف زدہ ہیں اور مسلح افراد ان کی عمارت میں داخل ہوگئے ہیں۔

اس کے بعد انہوں نے اپنے دوستوں کو پیغام بھیجا کہ وہ پہنچ گئے ہیں اور ہمیں گرفتار کرلیا ہے۔

ایملی داماری

برطانوی نژاد 28 سالہ اسرائیلی کو بھی غزہ سے گرفتار کرلیا گیا تھا، ایملی لندن میں پیدا ہوئی، وہی پلی بڑھی اور انگلش پریمیئر لیگ کی ٹیم ٹوٹنہم ہوٹسپر کی مداح ہیں۔

ایملی داماری کی والدہ نے بتایا کہ ان کے ہاتھ میں گولی لگی تھی اور پاؤں میں چھرے لگنے سے زخم آگئےتھے تاہم ان کی آنکھوں میں پٹی باندھ کر ان کی کار میں غزہ پہنچا دیا گیا تھا۔

حماس نے اب تینوں قیدیوں کو اسرائیلی حکومت کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں رہا کردیا ہے اور ریڈکراس نے تینوں خواتین کو اسرائیل فوج کے ذریعے ان کے اہل خانہ تک پہنچا دیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

غزہ جنگ بندی معاہدے پر تاخیر سے لیکن عمل درآمد شروع ہو گیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جنوری 2025ء) امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی کوششوں سے غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے مابین گزشتہ پندرہ ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں جس فائر بندی پر عمل درآمد آج اتوار 19 دسمبر کی صبح عالمی وقت کے مطابق صبح ساڑھے چھ بجے اور مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہونا تھا، وہ سیزفائر ڈیل بروقت نافذ نہ ہو سکی۔

اسرائیلی حکومت کا اصرار تھا کہ پہلے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اپنے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کے ناموں کی فہرست مہیا کرے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کا کہنا تھا کہ جب تک حماس یہ فہرست مہیا نہیں کرتی، تب تک فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع نہیں ہو گا۔

حماس نے تین یرغمالی خواتین کے نام مہیا کر دیے

اتوار کی صبح غزہ کے مقامی وقت کے مطابق قبل از دوپہر ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حماس نے تین ایسی اسرائیلی یرغمالی خواتین کے نام اسرائیل کو مہیا کر دیے ہیں، جنہیں اس سیزفائر ڈیل پر عمل درآمد کے اولین مرحلے میں سب سے پہلے رہا کیا جانا ہے۔

(جاری ہے)

غزہ سیزفائر: جنگ کے بعد یورپی یونین کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اس کی طرف سے یرغمالیوں کے ناموں کی فہرست مہیا کیے جانے میں تاخیر غزہ کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ''تکنیکی وجوہات‘‘ کی بنا پر ہوئی۔

ساتھ ہی حماس کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ان تین اسرائیلی یرغمالی خواتین کو آج اتوار کی سہ پہر رہا کر دیا جائے گا، جس کے بعد معاہدے کے مطابق اسرائیل کو غزہ پٹی کے کچھ علاقوں سے اپنے فوجیوں کی واپسی کا عمل شرع کرنا ہو گا۔

تین مراحل پر مشتمل فائر بندی معاہدہ

اسرائیل اور حماس کے مابین مجموعی طور پر تین مراحل پر مشتمل یہ فائر بندی معاہدہ امریکہ، قطر اور مصر کے ثالثی مندوبین کی ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوا۔

اس معاہدے کے لیے عین آخری دنوں میں ثالثی کوششیں اس لیے بھی بہت تیز کر دی گئی تھیں کہ کسی نہ کسی طرح یہ ڈیل 20 جنوری کے اس دن سے پہلے پہلے طے پا جائے، جب امریکہ میں صدر جو بائیڈن کے جانشین کے طور پر نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

حماس سیزفائر معاہدے کا احترام نہیں کر رہی، اسرائیل

اس معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتے دورانیے کا ہو گا، جس دوران حماس کی طرف سے اس کے زیر قبضہ باقی ماندہ 98 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے 33 کو رہا کیا جائے گا۔ ان یرغمالیوں میں خواتین، بچے، 50 سال سے زائد عمر کے مرد اور بیمار اور زخمی یرغمالی شامل ہوں گے۔

ان کے بدلے میں اسرائیل اپنے ہاں جیلوں میں بند تقریباﹰ دو ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔

ان میں 737 ایسے فلسطینی لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہوں گے، جن کی عمریں بیس سال سے کم ہیں۔ رفح سے اسرائیلی دستوں کا انخلا

غزہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حماس کے حامی فلسطینی میڈیا نے بتایا کہ اسرائیلی دفاعی افواج نے اتوار کی صبح غزہ پٹی میں مصر کے ساتھ سرحد کے قریب رفح کے کچھ علاقوں سے اپنے دستے نکال کر واپس فلاڈیلفی کوریڈور کی طرف بھیجنا شروع کر دیے تھے۔

غزہ میں فائر بندی کی عالمی سطح پر پذیرائی

قبل ازیں گزشتہ رات غزہ میں مسلسل دھماکوں کی آوازیں بھی سنی جاتی رہیں۔ غزہ کے شہری دفاع کے ادارے اور امدادی کارکنوں نے بتایا کہ گزشتہ رات نصف شب کے بعد بھی جاری رہنے والے اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ پٹی میں مزید کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور 25 سے زائد زخمی ہو گئے۔

غزہ سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے بتایا کہ اتوار کے روز مرنے والوں میں سے تین افراد شمالی غزہ میں اور باقی پانچ غزہ سٹی میں مارے گئے۔

انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کا اسرائیلی مخلوط حکومت سے نکلنے کا اعلان

آج اتوار ہی کے روز، جب غزہ سیزفائر ڈیل کا نفاذ تاخیر کا شکار ہو رہا تھا، اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قوم پسند سیاستدان اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر کی پارٹی نے اعلان کر دیا کہ وہ وزیر اعظنم نیتن یاہو کی مخلوط حکومت سے علیحدہ ہو رہی ہے۔

درجنوں اسرائیلی فوجیوں کا غزہ میں لڑنے سے مشروط انکار

'جیوئش پاور‘ نامی اس پارٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس نے مخلوط حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ غزہ میں سیزفائر کے اس معاہدے کے خلاف احتجاج کے طور کیا، جو کسی ''بہت بڑے اسکینڈل‘‘ سے کم نہیں۔

غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ، لینسیٹ

ساتھ ہی انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل اس اسرائیلی سیاسی پارٹی نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کا حماس کے ساتھ فائر بندی معاہدہ کرنا ''حماس کے آگے ہتھیار ڈال دینے کے مترادف‘‘ ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف اسرائیلی جیلوں سے ''سینکڑوں قاتل‘‘ رہا کر دیے جائیں گے، بلکہ ساتھ ہی ''غزہ کی جنگ میں اسرائیلی فوج کی اب تک کی کامیابیاں بھی پس پشت ڈال‘‘ دی جائیں گی۔

غزہ میں اب تک ہونے والی ہلاکتیں

غزہ کی جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023ء کے روز فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل میں اس بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہوا تھا، جس میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے اور فلسطینی جنگجو واپس غزہ پٹی جاتے ہوئے تقریباﹰ ڈھائی سو اسرائیلیوں کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔

اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے خلاف وسیع تر زمینی، بحری اور فضائی حملے شروع کر دیے تھے۔

غزہ جنگ کے بعد کی صورتحال: یو اے ای پس پردہ مذاکرات کا حصہ

غزہ کی 15 ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں، جس میں ایک سیزفائر ڈیل اب بالآخر نافذ ہو گئی ہے، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک تقریباﹰ 47 ہزار فلسطینی ہلاک اور ایک لاکھ دس ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت فلسطینی خواتین اور بچوں کی ہے۔

م م / ا ا، ع ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل : بڑی اسکرینوں پر حماس کی جانب سے رہا خواتین قیدیوں کا تبادلہ براہ راست دکھایا گیا
  • غزہ جنگ بندی کا آغاز ہوگیا، حماس نے اسرائیلی یرغمالی ریڈ کراس کے حوالے کردیئے
  • جنگ بندی معاہدہ، حماس نے 3 یرغمالی، اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدی رہا کر دیے
  • غزہ جنگ بندی معاہدہ ، حماس نے 3 اسرائیلی قیدی  ریڈ کراس کے حوالے کردیے
  • جنگ بندی: حماس نے 3 اسرائیلی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کردیا
  • غزہ جنگ بندی معاہدے پر تاخیر سے لیکن عمل درآمد شروع ہو گیا
  • حماس نے رہائی کیلیے اسرائیلی یرغمالیوں کی فہرست دیدی؛ جنگ بندی کا آغاز ہوگیا
  • اسرائیل اور حماس کے درمیان آج سے جنگ بندی کا آغاز، غزہ میں امن کی امید
  • ہم کسی ایک قیدی کو بھی زندہ رہا نہیں کروا پائے، غاصب اسرائیلی وزیر خارجہ کا برملا اعتراف