علاقائی و عالمی سطح پر ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون مزید مستحکم ہوگا، جنرل محمد باقری
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
صحافیوں سے اپنی ایک گفتگو میں ایرانی مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف کا کہنا تھا کہ جغرافیائی طور پر پاکستان و ایران کو عالم اسلام کے دو اہم ممالک کی حیثیت سے جنوبی اور مغربی ایشیاء میں نازک صورتحال کا سامنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف، جنرل "محمد باقری" نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان عسکری و سیکورٹی عمل میں تعاون کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ دونوں ممالک اکثر مسائل میں مشترکہ موقف رکھتے ہیں۔ یہ ہم آہنگی علاقائی و عالمی سطح پر مزید مستحکم ہو گی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار آج شام اسلام آباد ائیرپورٹ پر پہنچنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔ جنرل محمد باقری نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال خطے میں بہت اہم مسائل کا مشاہدہ کیا۔ جغرافیائی طور پر پاکستان و ایران کو عالم اسلام کے دو اہم ممالک کی حیثیت سے جنوبی اور مغربی ایشیاء میں نازک صورت حال کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہران و اسلام آباد کے درمیان نہایت وسیع تعلقات ہیں۔ اکثر مسائل پر ہمارا نکتہ نظر ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے۔ نیز اس سفر کے دوران بھی علاقائی مسائل پر ہم خیالی ہمارا ہدف ہے تا کہ ہم عالمی فورمز پر ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں۔
جنرل محمد باقری نے کہا کہ خوش قسمتی سے حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ ہم نے آپس میں اچھے معاہدے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد موجود ہے۔ دونوں ممالک ہر وقت سیکورٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں تاکہ سرحدوں پر ایک دوسرے کے تعاون سے دونوں ممالک کی عوام کے اقتصادی مفاد کو وسعت دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے اس دورے کے اہم ترین موضوعات میں بارڈرز، دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں اور مسلح افواج کے درمیان تعلقات میں وسعت شامل ہے۔ واضح رہے کہ آرمی چیف کی باضابطہ دعوت پر جنرل محمد باقری ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد کے ہمراہ اپنے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ جہاں وہ بری و فضائی افواج کے سربراہان، صدر، وزیراعظم اور وزیر دفاع سے جدا جدا ملاقات کریں گے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جنرل محمد باقری کا اپنی تعیناتی کے دوران یہ تیسرا دورہ پاکستان ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان نے کہا کہ افواج کے انہوں نے ممالک کی
پڑھیں:
تاریخی اور حال: پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی اہمیت
اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا کہ ’’مسائل کا حل مفاہمت اور تعاون میں ہے، نہ کہ تصادم میں‘‘۔ یہ قول پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان1971ء کی جنگ کے بعد تعلقات میں کشیدگی کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ تاہم موجودہ بدلتی صورتحال یہ ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہوجانے کے بعد پھر سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحال کرنے کی تیز رفتار کوششیں جاری ہیں۔ بنگلا دیش کی جغرافیائی حیثیت، جو اسے خلیج بنگال کے قریب ہونے کے باعث ایک اہم اسٹرٹیجک اہمیت فراہم کرتی ہے، وہیں جنوبی ایشیا میں پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے، جو جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، ان دونوں کو اس خطے میں اقتصادی اور تجارتی مواقع کے لیے قدرتی شراکت دار بناتا ہے۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط روابط نہ صرف ان کی اپنی ترقی کے ضامن ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان تجارتی حجم اگرچہ محدود ہے تاہم حالیہ چند ماہ میں اس میں تیز رفتار اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
تجارتی حجم بڑھانے کے لیے مشترکہ منصوبے اور تجارتی معاہدے کرنے کی اشدضرورت ہے۔ تجارت کو فروغ دینے کے لیے آزاد تجارتی معاہدے (Free Trade Agreements) کیے جائیں۔ دونوں ممالک کے کاروباری افراد کے لیے تجارتی نمائشیں اورسرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ دونوں ممالک ’’بینکنگ نیٹ ورک‘‘ کو مضبوط کر سکتے ہیں تاکہ سرمایہ کاروں اور کاروباری حضرات کے لیے مالی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ اسلامی بینکنگ کے فروغ میں پاکستان اور بنگلا دیش دونوں کی مہارت اور خدمات قابل ِ ذکر ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں دونوں ممالک عالمی مارکیٹ پر خوشگوار اثرات مرتب کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔ مشترکہ منصوبے اور تجارتی راستوں کی بحالی سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور غربت میں کمی ممکن ہوسکی گی۔ خیال رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی اور فرانس کے درمیان شدید دشمنی رہی، لیکن جنگ کے بعد انہوں نے امن، استحکام، اور اقتصادی ترقی کے لیے باہمی تعاون کا راستہ اپنایا۔ جرمنی اور فرانس کے باہمی تعاون کے نتیجے میں مشہور ِزمانہ اتحاد ’’یورپی یونین‘‘ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج یورپی یونین دنیا کا سب سے کامیاب اقتصادی تعاون کا ماڈل ہے۔
پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان مضبوط تعلقات، مسلم دنیا میں اتحاد کو فروغ دینے کا باعث بنیں گے۔ ان تعلقات کی بہتری سے او آئی سی میں اثر رسوخ بڑھے گا، جس سے عالمی سطح پر بھی مسلم ممالک کے مسائل پر بہتر حکمت عملی وضع کرنے میں مدد مل سکے گی۔ دونوں ممالک کے بہتر تعلقات نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو فروغ دے سکتے ہیں بلکہ بھارت اور چین سمیت دیگر علاقائی طاقتوں کے درمیان توازن قائم کرنے میں مؤثر مدد ملے گی۔ ان تعلقات اور اتحاد سے علاقائی تعاون کے نئے امکانات روشن ہوں گے۔ دونوں ممالک کو SAARC اور BIMSTEC جیسے علاقائی فورمز میں مشترکہ مقاصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ جبکہ اقوام متحدہ، OIC، اور دیگر عالمی تنظیموں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے سے مثبت پیش رفت ممکن ہوسکے گی۔ دونوں ممالک کے سربراہانِ مملکت کے درمیان مستقل دورے اور ملاقاتیں ترتیب دی جائیں۔ سربراہان کے علاوہ وزراء خارجہ، وزراء تجارت، اور دیگر اعلیٰ عہدے داران کے دوروں کو معمول بنایا جائے۔ سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں اور مشترکہ فورمز پر مثبت بات چیت کے ذریعے تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل مشترکہ وزارتی کمیشن (Joint Commissions) قائم کیا جاسکتا ہے جو نہ صرف دوطرفہ مسائل حل کرے بلکہ تنازعات کے پرامن حل کے لیے مل کر کام کرے۔ علاوہ ازیں یہ ترقیاتی منصوبے بھی بنائے۔ اس کمیشن کے اجلاسوں کو باقاعدگی سے منعقد کیا جائے۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان مشترکہ تاریخی تعلقات، ثقافتی روابط، مشترکہ فلمی منصوبے، ڈرامے، کھیل، ادبی مقابلے، مشترکہ تہوار وتقریبات اور تاریخی ورثہ یقینا ایک پل کا کام انجام دے سکتا ہے۔ اس سے عوامی سطح پر دونوں ممالک میں زبردست ہم آہنگی اور یگانگت پیدا ہوگی۔ جبکہ میڈیا کے ذریعے مثبت اور دوستانہ بیانیے کو فروغ دیا جاسکتاہے، جونہ صرف محبت اور بھائی چارے کو بڑھانے میں معاون ومددگار ثابت ہوگا بلکہ آپس کے تعلقات کو نئی جہت دینا بھی ممکن ہوسکے گا۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں اسکالرشپ کا آغاز، طلبہ کے تبادلے کے پروگرام اور جامعات کے درمیان تحقیقی منصوبوں پر باہمی تعاون سے منصوبے ترتیب دیے جائیں ان امور سے نہ صرف تعلقات بہتر ہو سکیں گے بلکہ دونوں ممالک میں عوام کے دل بھی جیتے جا سکتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان آسان ویزا پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کے تناظر میں بھارت کے منفی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں 3 ماہ تک مقیم رہی۔ اس دوران بھارتی فوج بطور قبضہ گیر قوت کے لوٹ مار اور ظلم وستم میں مصروف رہی، بھارتی فوج نے بنگلا دیش میں بنیادی ڈھانچے، قیمتی اشیاء، مشینری وصنعتی آلات اور فیکٹریوں سے دیگر تجارتی سامان لوٹ لیا۔ مقامی وسائل، قیمتی دھاتیں ومعدنیات، لکڑی اور مصنوعات اس کے علاوہ تاریخی اور ثقافتی نوادرات جنہیں جنگ کے بعد بھارتی فوج کی موجودگی کے دوران بھارت منتقل کیا گیا۔ بھارتی فوج نے عوام کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں کیں، جبکہ اس دوران مکتی باہنی کے تمام گروپس نے شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے کارکنوں کے ساتھ مل کر وسائل کی لوٹ مار کی۔ اگرچہ ان پر وسیع پیمانے پر تحقیقات ہونا اب بھی باقی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان مظالم پر کھل کر بات کی جائے۔ جو مظالم بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان میں کیے اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کیا گیا۔
بنگلا دیش کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات مالی، اخلاقی اور تاریخی اب تک غیرحل شدہ ہیں۔ خاص طور پر مالی تصفیہ اور بہارکے مسلمانوں کی آبادکاری جنہوں نے 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ بنگلا دیش کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ 1971ء کے دوران کی گئی زیادتیوں پر باضابطہ معافی مانگے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ 1971ء کے سہ فریقی معاہدے (پاکستان، بھارت، اور بنگلا دیش کے درمیان) کے تحت تمام معاملات حل کر دیے گئے تھے۔ اس معاہدے میں معافیاں اور قیدیوں کی رہائی شامل تھی۔ خیال رہے کہ2011ء میں پاکستان کے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے پاکستان کے جنگی جرائم پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور بنگلا دیش کے عوام کے لیے اپنی ہمدردی کا پیغام بھیجا تھا۔ یہ ایک بڑا قدم تھا جس سے بنگلا دیش میں پاکستانی عوام کے لیے محبت کا جذبہ ابھرا، کیونکہ اس معذرت نے بنگلا دیشیوں کے دلوں میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کیا۔ واضح رہے کہ جنوبی افریقا نے نسلی امتیاز کے خاتمے کے بعد معافی اور مصالحتی کمیشن قائم کرکے ماضی کے زخموں کو مندمل کیا۔ اسی طرح نیلسن منڈیلا کی مفاہمت اور
معافی کی پالیسی بھی پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کے لیے مشعل ِ راہ بن سکتی ہے۔ اگر کسی معاملے میں دونوں ممالک کے درمیان ڈیڈلاک ہو، تو بین الاقوامی ثالثی یا مدد حاصل کی جائے۔ جیسا کہ ناروے نے سری لنکا کے تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کر کے قابل ِ ذکر مثبت پیش رفت کی۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے اتحاد کی راہ میں حائل چیلنجز اور خطرات کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا انتہائی ضروری اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے، اقتصادی تعاون کو فروغ دینے، سفارتی تعلقات مضبوط کرنے، اور عوامی سطح پر اعتماد بحال کرنے کی خاص ضرورت ہے۔ اگر دونوں ممالک ان مسائل پر توجہ دیں، تو وہ نہ صرف اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ خطے میں ایک مضبوط اور مستحکم اتحاد کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا:
’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘