کیا عمران خان 190پاؤنڈ کیس سے نکل پائیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
ایک 190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ آچکا ہے جس کے تحت بانی پی ٹی آئی کو 14 سال کی سزا سنائی گئی ہے اور 10لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ جبکہ بشریٰ بی بی کو 7 سال سزا اور 5 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس جسے القادر ٹرسٹ کیس بھی کہا جاتا ہے، پہلا کیس تھا جس میں 9مئی 2023 کو عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا اور اور بعد ازاں 27 فروری 2024 کو ان پر فردِجرم عائد کی گئی تھی۔
یہ فیصلہ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں جسٹس ناصر جاوید رانا کی سربراہی میں سنایا گیا ہے جو کہ 18 دسمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔ فیصلے کے دوران بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے علاؤہ تحریک انصاف کے دیگر کئی اہم رہنما بھی موجود تھے۔ فیصلہ سنائے جانے کے بعد بشری بی بی کو بھی گرفتار کر لیا گیا جو کہ ضمانت پر رِہا تھیں۔ جبکہ فیصلے کے مطابق القادر یونیورسٹی کو بھی سرکاری تحویل میں دے دیا گیا۔
آخر یہ ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس ہے کیا؟
پاکستان کے مرکزی احتسابی ادارے نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی بیورو کے تحت چلنے والا یہ کیسں دراصل برطانیہ سے موصول ہونے والے 190 ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ کے بارے میں ہے جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان کو خفیہ طور پر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منگوایا گیا۔
نیب ریفرنس میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ رقم بانی پی ٹی آئی کے زیر نگرانی موصول کی گئی جو کہ بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک ملک ریاض حسین کی امانت تھی جسے جرمانے کی مد میں ایڈجسٹ کیا گیا اور اس فیور کے عوض عمران خان نے مالی فائدہ حاصل کیا۔
نیب حکام کے دعوے کے مطابق اس تصفیے کے بدلے میں القادر ٹرسٹ کی 460 کنال سے زیادہ اراضی عطیے کے طور پر حاصل کی گئی۔
اس کیس میں عمران خان اور بشری بی بی سمیت 8افراد کو نامزد کیا گیا تھا جن میں بیرسٹر شہزاد اکبر، زلفی بخاری، ملک ریاض اور ان کے صاحب زادے علی ریاض، فرح گوگی اور ڈاکٹر بابر اعوان شامل ہیں۔ ان میں سے 5ملزمان کو عدالت کی جانب سے اشتہاری قرار دیدیا گیا تھا اور ان کے دائمی وارنٹ بھی جاری کیے گئے تھے۔
اس کیس میں عمران خان پر یہ الزامات عائد کیے گئے تھے کہ اکتوبر 2019 میں انہوں نے ایک خفیہ میٹنگ کی، جس میں ایک برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ طے پانے والے ایک خُفیہ معاہدے پر کابینہ کی منظوری لی۔ جبکہ اس سے متعلق ان کی کابینہ میں سے بھی کسی کو کوئی معلومات نہ تھی اور نہ ہی کابینہ کے اصولوں کے مطابق اس معاملے کو پہلے سرکولیٹ کیا گیا۔ الزامات میں یہ بھی کہا گیا کہ اس معاملے میں کابینہ کے ارکان کو پریشرائز کیا گیا تھا اور یہ معاہدہ ایک بند لفافے میں طے پایا۔
نیب حکام کا ریفرینس میں یہ بھی دعوٰی تھا کہ یہ معاملہ کافی پہلے سے زیرِ غور تھا یعنی اس معاہدے کے متعلق این سی اے اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے مابین بات چیت جاری تھی اور یہ منظوری معاہدہ طے پا جانے کے کافی بعد لی گئی اور اسے خفیہ رکھنے کی شق بھی درج کی گئی جبکہ ایسے کسی معاہدے کو خفیہ رکھنے کا کوئی اصول یا قانون موجود نہیں ہے۔
نیب حکام کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اس معاہدے کے کابینہ میں طے پانے سے پہلے ہی رقم کا کچھ حصہ وصول کرلیا گیا تھا جو کہ وفاقی حکومت کے اکاؤنٹ کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں موصول ہوا تھا۔
ریفرینس میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک ریاض کی جانب سے القادر ٹرسٹ کی زمین کوئی ڈونیشن نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایڈجسٹمنٹ ہے۔ وہ رقم جو برطانیہ سے آئی وہ بحریہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے ذمے سپریم کورٹ کو واجب الادا جرمانے میں ایڈجسٹ کی گئی۔ اور اس کے عوض ملک ریاض نے القادر ٹرسٹ کے لیے سوہاوہ ضلع جہلم میں زمین خرید کرعطیے کے طور پر دی۔
الزام کے مطابق یہ معاہدہ ملک ریاض اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان طے پایا۔ کیونکہ رقم کے اس سارے معاملے کے دوران ہی عمران خان نے القادر ٹرسٹ کا اعلان کیا تھا۔ اور خود عمران خان اور بشری بی بی اس یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ہیں۔ ان کے علاؤہ زلفی بخاری اور ڈاکٹر بابر اعوان بھی اس پراجیکٹ میں سربراہان کے طور پر شامل تھے جو بعد میں اس سے الگ ہو گئے۔
اس کے علاؤہ بشریٰ بی بی پر بھی یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی دیرینہ دوست فرح گوگی کے ذریعے 400کنال اراضی حاصل کی۔ جبکہ فرح گوگی کے نام بھی 240کنال اراضی منتقل کی گئی اور زلفی بخاری کے نام بھی ایسی ہی کوئی منتقلی کی گئی تھی۔
پی ٹی آئی قیادت اور خود بانی پی ٹی آئی نے بھی ان الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ رقم حکومت پاکستان کی نہیں تھی اور تین دسمبر کو کابینہ کا جو فیصلہ ہوا اس سے اس منی ٹرانسفر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے بھی ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے ایک سیاسی مقدمہ قرار دیا تھا۔ جبکہ موجودہ حکومت کی جانب سے اس مقدمے کو ‘میگا کرپشن اسکینڈل ‘ کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ القادر ٹرسٹ کی ساری گیم برطانیہ سے پیسہ آنے پر ہی شروع ہوئی تھی۔
کیا یہ ایک فیئر ٹرائل تھا ؟
کئی ہفتے مؤخر ہونے کے بعد سنائے جانے والے اس فیصلے کو فری اور فیئر ٹرائل کہا تو جا رہا ہے مگر سمجھ کوئی نہیں رہا۔ بلکہ اس کرپشن کے الزام کو ن لیگ پہ لگے کرپشن کے بے شمار داغوں کے جواب میں ایک انتقامی کارروائی کہا جا رہا ہے۔
دوسری طرف جسٹس ناصر جاوید رانا جنہوں نے یہ فیصلہ سنایا ان کی اپنی کریڈیبیلیٹی پہ بھی سوالیہ نشان ہیں۔ انہیں 2004 میں عدالتی کارروائیوں اور پریکٹس سے خارج کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں جوڈیشل پریکٹس کے لیے ان فٹ قرار دیا گیا تھا۔
لہذا سوال یہ ہے کہ انہیں دوبارہ تعینات کیوں کیا گیا اور ان سے ایک اہم فیصلہ کیسے کروایا گیا۔ اور پھر اس پہ فری اور فیئر ٹرائل کا دعویٰ کرنا بھی ایک مضحکہ خیز با ت ہے۔ جبکہ واقعے کے اصلی کردار ملک ریاض کے خلاف کوئی کارروائی تاحال نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کی امید ہے۔
پی ٹی آئی اور عوامی ردعمل:
اطلاعات کے مطابق اس فیصلے کے بارے میں بانی پی ٹی آئی کو پہلے سے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا اور ان سے بات چیت بھی جاری تھی اور یہ خبر اڈیالا جیل سے باہر بھی آ چکی تھی۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اور صحافیوں تک کو بھی یہ فیصلہ پہلے سے معلوم تھا جس کا اظہار بھی وہ اپنے ٹوئٹس میں کر چکے تھے۔ لہذا اس خبر پہ کوئی حیرانی کا اظہار کسی بھی جانب سے نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی کی قیادت نے اس فیصلے اور اس مقدمے کو سراسر بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے کہ اس سے عمران خان کو نہ تو کوئی فائدہ حاصل ہوا ہے نا ہی ریاست کو کوئی نقصان پہنچا ہے۔ اور فیصلے کے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت پر عزم ہے۔ دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات بھی شروع ہو چکے ہیں۔
بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے کافی تفصیلی ملاقات اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔ جبکہ ہائیکورٹ میں اپیل کے لیے بھی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔
فیصلے کے بعد سے عوام کا پرزور احتجاج بھی سامنے آ رہا ہے۔ اس فیصلے نے عوام کی نظر میں عدلیہ کی ساکھ کو مزید خراب کر دیا ہے۔ جبکہ عوام کا یہ بھی ردعمل سامنے آرہا ہے کہ القادر یونیورسٹی جو کہ سیرتِ نبی کی تعلیم کے لیے بنائی گئی اور یہ ایک مذہبی مقصد تھا جس کے خلاف سازش کرکے اسے ایک جرم ثابت کیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی ایک پاپولر جماعت ہے اور عوام کا ردِعمل بھی ایک یقینی بات ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کو کئی ہفتوں تک محفوظ بھی اسلیے رکھا گیا تھا کہ سوشل میڈیا کیمپین اور عوامی ردعمل کو قابو کیا جاسکے اور بانی پی ٹی آئی سے بھی اس کی درخواست کی گئی کہ جہاں تک ہوسکے، حالات کو قابو میں رکھا جاسکے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی کئی مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل کیا گیا تھا جن میں کچھ مقدمات میں وہ بری ہو گئے اور کچھ میں ان کی سزا معطل ہو گئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کی یہ سزا برقرار رہے گی یا یہ سزا بھی پچھلے مقدمات کی طرح معطل ہو جائے گی؟ یا پھر ان کا آگے کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔
حالات اور مذاکرات تو اس جانب ہی اشارہ کر رہے ہیں کہ اس فیصلے پہ جلد ہی کوئی یو ٹرن آ جائے گا ۔ یا تو عارضی طور پہ عمران خان کو ضمانت پر رہائی مل جائے گی یا پھر اس فیصلے کو بھی پچھلے کئی فیصلوں کی طرح معطل کر دیا جائے گا۔
اس سے آگے اب پی ٹی آئی کے پاس اسلام آباد ہائیکورٹ کا راستہ تو موجود ہے۔ اور اپیل بھی ضرور کی جائے گی۔ مگر یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ سزا کی معطلی یا پھر ضمانت میں کتنا وقت لگ سکتا ہے، اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیا رنگ لائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سعدیہ سویرا 190 ملین پاؤنڈ بانی پی ٹی آئی عمران خان بشریٰ بی بی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190 ملین پاؤنڈ بانی پی ٹی ا ئی عمران خان القادر ٹرسٹ کی بانی پی ٹی آئی دیا گیا تھا کیا گیا تھا گیا تھا اور ملین پاؤنڈ کہا گیا ہے پاؤنڈ کیس کے مطابق اس فیصلے اور بشری ملک ریاض فیصلے کے عائد کی بھی کہا گئی اور تھی اور یہ بھی کو بھی تھا کہ کر دیا کہا جا یہ ایک رہا ہے اور ان کے لیے کی گئی اور اس اور یہ
پڑھیں:
کام شیطانی بیانیہ اسلامی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے اپنی تیسری بیوی بشریٰ بی بی کے ساتھ مل کر مذہبی تقدیس کے لبادے میں لوٹ مار کا صدیوں پرانا شاطرانہ کھیل کھیلتے ہوئے اربوں روپے کی لوٹ مار سے جس عظیم مالیاتی سلطنت کی تعمیر شروع کر رکھی تھی 190 ملین پاؤنڈ کیس کے عدالتی فیصلے میں سنائی گئی سزا نے اسے ناقابل تلافی دھچکا پہنچایا ہے۔ قید اور جرمانے کی سزاؤں کے ساتھ القادر یونیورسٹی ضبط کر لیے جانے سے نہ صرف اس بہروپیا جوڑے کی بڑی واردات ناکام ہوگئی ہے، بلکہ ریاست مدینہ سے پاک پتن اور بغداد شریف تک کے مختلف روحانی سلسلوں کا جو لبادہ ان بہروپیوں نے اوڑھ رکھا تھا وہ بھی اتر گیا ہے، احتساب عدالت نے سزا دے کر ان کی عیاری و مکاری کے جس طرح کپڑے اتارے ہیں اس سے پی ٹی آئی کا مرشد اب عملاً ’نانگا مرشد‘ بن کررہ گیا ہے اور دنیا کے سامنے عیاں ہوگیا ہے کہ سیاسی مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگانے والے نے خود کس طرح اربوں روپے کی کرپشن کی اور اسے چھپانے کے لیے مقدس مذہبی شخصیات کے ناموں کو بطور آڑ استعمال کرکے یہ پورا گینگ کس طرح توہین اولیا کا مرتکب ہوا۔
عدالت نے جو سزا سنائی ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ ملک کا عدالتی نظام اب مذہبی حوالوں اور اسلامی ٹچ سے مرعوب ہوکر ملزموں کو ریلیف دینے پر تیار نہیں، پی ٹی آئی کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ مذاکرات کا جو چورن بیچا جارہا تھا اس کی حقیقت بھی سامنے آگئی ہے کہ ریاست کا کوئی ستون اور کوئی ریاستی ادارہ اب انہیں منہ لگانے کے لیے تیار نہیں اور ان کی طرف سے کیے جارہے کسی بھی پروپیگنڈے اور بیانیے کی اب کوئی وقعت اور حقیقت نہیں۔
احتساب عدالت کا فیصلہ عمران خان کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا کیونکہ ملکی تاریخ میں ایک ہی کیس میں اتنی بڑی کرپشن پر آج تک کبھی کسی کو سزا نہیں ہوئی، بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپنی پوری سیاست اینٹی کرپشن بیانیہ کی بنیاد پر استوار کی اور عوام میں سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف غم و غصہ کو پروان چڑھایا، آج جب عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ دوسروں کی کرپشن کے خلاف شور مچانے والا خود کرپشن کا سب سے بڑا ریکارڈ قائم کرچکا ہے تو اس سے بانی پی ٹی آئی کی سیاست کو ناقابل تلافی دھچکا بھی لگے گا، یہ فیصلہ مجموعی طور پر سیاست کے لیے بھی نقصان دہ ہے کہ عوام کہیں سیاست و جمہوریت سے ہی متنفر نہ ہو جائیں کہ جب وہ دیکھ رہے ہیں کہ جو بھی نیا سیاستدان حکومت میں آتا ہے وہ اپنے سے پہلے حکمرانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر کرپشن شروع کر دیتا ہے۔ اور اس بار تو عوام کو ذہنی طور پر دوہرا جھٹکا لگا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے اس میگا کرپشن کے لیے مذہبی تقدیس کو بطور آڑ استعمال کیا۔
اپنے مالیاتی جرائم کو مذہبی تقدس کا کور دینے کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، ہندوستان میں ہزاروں سال یہ واردات جاری رہنے سے بنیا برہمن سامراج وجود میں آیا، یورپ میں کلیسا نے اسی آڑ میں ہزاروں سال پورے سسٹم کو یرغمال بنائے رکھا، مسلمانوں میں بھی نام نہاد پارسائی کے دعوؤں کی آڑ میں خود کو مقدس گائے قرار دے کر یار لوگوں نے اپنی اقتدار اور پیسے کی ہوس کو پورا کیا۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بھی صوفیا اور بزرگان دین سے عوامی عقیدت کو استعمال کرتے ہوئے مذہبی تقدیس کے اسی شاطرانہ کھیل کی آڑ لی اور پاک پتن کی بزرگ روحانی شخصیت حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے دربار سے عقیدت کو اپنے نیٹ ورک کو فروغ دینے ذریعہ بنایا اور پنکی پیرنی بشریٰ بی بی کے ساتھ مل کر پیری مریدی کا لبادہ اوڑھ کر خود ساختہ مرشد بن بیٹھے۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کے غالباً واحد لیڈر ہیں جنہوں نے اپنے کارکنوں میں خود کو مرشد مشہور کروایا، انہی مقدس دینی استعاروں کو استعمال کرتے ہوئے اگلے مرحلے میں پیران پیر دستگیر حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نام نامی کو استعمال کرتے ہوئے ملک کے بڑے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے رشوت میں اربوں روپے کی زمین حاصل کی اور وہاں القادر یونیورسٹی کے نام سے اپنی ایک نئی مالیاتی سلطنت قائم کرلی، اس نئی مالیاتی سلطنت نے بظاہر ٹرسٹ کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا لیکن اس ٹرسٹ کے تمام کلیدی عہدے عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور قریبی رشتے داروں و ساتھیوں کے پاس تھے۔ پیری مریدی کا یہ شاہانہ کھیل برصغیر پاک و ہند میں بھی صدیوں سے کھیلا جا رہا ہے، شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نظم باغی مرید میں اس کا نقشہ بڑے دلچسپ انداز میں کھینچا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔
ہم کو تو میسّر نہیں مٹّی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دیہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سُود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصّرف میں عقابوں کے نشیمن!
مذہب اور روحانیت کا مقدس لبادہ اوڑھ کر جو ’مسند ارشاد‘ تشکیل پاتی ہے، پھر وہ اپنے وقت کی پنکی پیرنیوں اور عمرانی مرشدوں کی میراث بن جاتی ہے، کیونکہ اس سلسلے میں جو ٹرسٹ بنائے جاتے ہیں ان کے تمام کلیدی عہدے اور اختیارات ان کی اپنی ذات اور اپنے گھرانوں کے لیے مختص ہوتے ہیں۔
مذہبی تقدیس کے اس سارے گھناؤنے کھیل میں ملوث کرداروں کے لیے شاعر مشرق نے ’خرقہ سالوس‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں دھوکے، ریاکاری، مکر و فریب کا لباس، یعنی بظاہر مقدس برہمن لیکن اندر سے مہاجن یعنی سود خور، اور ان نذرانوں اور عطیات کی حقیقت کو اقبال نے یوں بےنقاب کیا کہ اسے سود خوری (حرام خوری) قرار دیا، اور آخری شعر میں فرمایا کہ دینی و روحانی حوالے سے عظیم ہستیوں (یعنی عقابوں) کے نشیمن زاغوں یعنی کوؤں کے تصرف میں ہیں، کوا چونکہ گند کھاتا ہے اس لیے شاعر مشرق نے ان نذرانہ خوروں کو کوے سے تشبیہ دی ہے۔
190 ملین پاؤنڈ کیس بھی کسی کوے کی طرح گند کھانے والا ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، مقدمے کی سماعت کے دوران عمران خان اور بشریٰ بی بی اس حوالے سے ایک بھی دلیل نہیں دے سکے کہ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض پر اچانک روحانیت کا غلبہ کیسے ہوا؟ کہ جس کی وجہ سے اس نے غوث الاعظم پیران پیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے اربوں روپے مالیت کی زمین عمران خان اور ان کی اہلیہ کے ذریعے اس مشن کے لیے عطیہ کردی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ایک واقعے کے سوا پراپرٹی ٹائیکون کی زندگی میں صوفیا کرام کے مشن سے وابستگی کا کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی کبھی رپورٹ نہیں ہوا، حتیٰ کہ انہوں نے شاید کبھی حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات پر مبنی کوئی کتاب بھی نہیں پڑھی نہ کبھی ان کے مزار کا کوئی سفر کیا اور نہ ہی اپنی پوری زندگی میں ان کی تعلیمات کے فروغ کے حوالے سے کبھی کسی سیمینار یا دیگر روحانی اجتماعات میں کبھی شرکت کی۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی کے شریک 6 ملزمان بیرسٹر شہزاد اکبر، ذلفی بخاری اور فرحت شہزادی عرف فرح گوگی کی اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی اولیا کرام، صوفیا کرام اور پیران پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی اور القادر ٹرسٹ کے مرکزی عہدوں پر کوئی ایسی شخصیات نامزد نہیں کی گئیں کہ جنہوں نے حضرت عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات پر پی ایچ ڈی کی ہو یا ان کی تعلیمات کے فروغ کے لیے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس مشن میں گزارا ہو۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ نہ اس شخص کا حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مشن سے زندگی بھر کوئی تعلق رہا نہ ان کی زندگیوں میں جنہیں اربوں روپے کی زمین عطیہ کی گئی۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو بھی صاف واضح ہو جاتا ہے کہ القادر ٹرسٹ کا نام بھی صرف اپنی کرپشن اور لوٹ مار کو ’کور‘ دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایک اور دلچسپ پہلو اس واردات کا یہ ہے کہ سیاسی پشت پناہی اور زبردست تشہیر کے باوجود اربوں روپے کی اس قیمتی ’مالیاتی سلطنت‘ میں تعلیمی سرگرمیاں محض ایک آڑ کے طور پر شروع کی گئیں اور آج جب عدالتی فیصلے کے تحت اسے بحق سرکار ضبط کرکے وفاقی حکومت کی تحویل میں دیا گیا ہے تو انکشاف ہوا ہے کہ 4 برسوں سے فنکشنل اربوں روپے مالیت کے اس بہت بڑے ادارے میں صرف 200 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
راولپنڈی کی احتساب عدالت نے تین بار مؤخر کیا جانے والا 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 14 سال جب کہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا دی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں القادر یونیورسٹی کو وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کا حکم بھی دیا اور کہاکہ حکومت یونیورسٹی کا انتظام سنبھالے۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کیس کے مرکزی مجرموں عمران خان پر 10 لاکھ روپے اور بشریٰ بی بی پر 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، جرمانے کی عدم ادائیگی پر عمران خان کو مزید 6 ماہ جب کہ بشریٰ بی بی کو 3 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔
قانونی ماہر اشتر اوصاف نے اس فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے کیس میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہیں، مرکزی ملزم عمران خان کا ایک بڑا جرم یہ بھی ہے کہ ان کی طرف سے کابینہ ارکان سے بھی حقائق چھپائے گئے، عمران خان پر بطور وزیراعظم اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات بھی تھے، انہوں نے وزیراعظم ہوتے ہوئے ٹرسٹ بنایا، شہزاد اکبر ان کے معاون خصوصی تھے، برطانوی ادارے کو بھی گمراہ کیا گیا، یہ سارا معاملہ براہِ راست سابق وزیراعظم خود دیکھ رہے تھے۔
ماہر قانون راجا خالد نے فیصلے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، برطانوی کرائم ایجنسی کی جانب سے قومی خزانے میں جمع کروانے کے لیے دیے جانے والے 190 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کے جرمانے کی ادائیگی کے لیے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی، اور بدلے میں مالی فوائد حاصل کیے گئے، عمران خان نے بطور وزیراعظم کابینہ سے بھی جھوٹ بولا، حقائق چھپائے، بند لفافے میں تفصیلات رکھ کر کابینہ کی منظوری لی گئی۔
190 ملین پاؤنڈ کے اس میگا کرپشن اسکینڈل کے حوالے سے نیب نے جو ریفرنس دائر کیا اس کے کل 8 ملزمان تھے، جن میں سے 6 بیرون ملک فرار ہیں، صرف بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ٹرائل کا سامنا کیا، 6 جنوری 2024 کو عدالت نے فرحت شہزادی عرف فرح گوگی، ذلفی بخاری اور شہزاد اکبر سمیت 6 ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد منصور 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس wenews احتساب عدالت بشریٰ بی بی عمران خان کام شیطانی بیانیہ اسلامی لوٹ مار مذہب وی نیوز