ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری، کن عالمی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا، کن کو نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کل پیر 20 جنوری کو دوسری مدت کے لیے اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
تقریبات سے بھرپور دن، جس میں میوزیکل پرفارمنس اور پریڈ شامل ہوگی۔ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس دونوں ہی اپنے عہدے کا حلف اٹھانے اور ایک نئی انتظامیہ کا آغاز کرنے والے ہیں۔
تاہم اس روز امریکی صدور کی روایتی افتتاحی تقریب کے برعکس، اس میں ٹرمپ کے قریبی اتحادیوں اور یہاں تک کہ ان کے کچھ حریفوں سمیت غیر ملکی رہنما بھی شامل مدعو کیے گئے ہیں۔
اس تقریب میں کم از کم 7 موجودہ سربراہان مملکت اور 2 سابق رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اس تقریب میں مجموعی طور پر 5 لاکھ مہمانوں کی آمد متوقع ہے۔
حلف برداری کی یہ تقریب جس میں افتتاحی تقریر، پریڈ، میوزیکل پرفارمنس وغیرہ شامل ہوگی ایک بین الاقوامی تقریب بن گئی ہے۔ اس میں ایک درجن کے قریب عالمی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے، جن میں سے زیادہ تر قدامت پسند اور دائیں بازو کے ہیں۔
غیر ملکی رہنما عموماً امریکی صدارتی تقریب میں شرکت نہیں کرتے، بلکہ سفارت کار جیسے کہ امریکا میں ملک کے سفیر، یا وزرائے خارجہ، نمائندے کے طور پر اس تقریب کا حصہ ہوتے ہیں۔
کون مدعو ہے؟تقریب میں متعدد سربراہان مملکت، خاص طور پر ٹرمپ کے ساتھ اتحاد کرنے والے دائیں بازو یا پاپولسٹ رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے، لیکن اس تقریب میں ٹرمپ کے درج ذیل کچھ حریف بھی مدعو ہیں ہیں:
ارجنٹائن کے صدر جاویر میلی:جاویر میلی نے اپنی حاضری کی تصدیق کر دی ہے۔ ٹرمپ نے انتہائی دائیں بازو کے رہنما کو ایک ایسے شخص کے طور پر سراہا ہے جو ’ارجنٹینا کو دوبارہ عظیم بنا سکتا ہے‘۔ انہوں ماہ دسمبر میں، فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر میلی کا خیرم قدم بھی کیا تھا۔
چینی صدر ژی جن پنگ:ٹرمپ نے ژی جن پنگ کو دسمبر میں اس تقریب کے لیے مدعو کیا تھا، یہ ایک ایسا اقدام جس کے بارے میں ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہونے کا اشارہ دیا ہے۔
تاہم اطلاعات یہی ہیں کہ چینی صدر کے بجائے اس تقریب میں نائب صدر ہان زینگ شرکت کریں گے۔
اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی:انتہائی دائیں بازو کی ’برادرز آف اٹلی‘ پارٹی کی رہنما جارجیا میلونی نے جنوری میں ٹرمپ کے گھر کا دورہ کیا تھا۔ ان کے دفتر کا کہنا ہے کہ اگر ان کا شیڈول اجازت دیتا ہے تو وہ اس میں شرکت کر سکتی ہیں۔
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان:پاپولسٹ رہنما اوربان، ٹرمپ کے قریبی اتحادی ہیں۔اوربان کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ نو منتخب امریکی صدر، یوکرین روس جنگ کو ختم کر دیں گے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی:ٹرمپ کی پہلی صدارت کے بعد سے مودی اور ٹرمپ نے ایک ’برومینس‘ کا اشتراک کیا ہے۔ دسمبر میں اپنی انتخابی کامیابی کے بعد مودی، ٹرمپ کو فون کرنے اور مبارکباد دینے والوں میں سب سے پہلے تھے۔ تاہم اس تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بجائے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر ان کی نمائندگی کریں گے۔
ایکواڈور کے صدر ڈینیئل نوبوا:نوبوا نے ٹرمپ کی دسمبر کی فتح کو لاطینی امریکا کی بھی فتح قرار دیا۔ ان کے دفتر نے تصدیق کی کہ وہ افتتاح کے لیے واشنگٹن جانے کے لیے اپنی انتخابی مہم روک دیں گے۔
ایل سلواڈور کے صدر نائیب بوکیل:بوکیل کے دفتر نے ابھی تک ان کی حاضری کی تصدیق نہیں کی ہے۔ ٹرمپ کے بیٹے، ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر، بوکیل کے دوست ہیں۔
برازیل کے سابق صدر جیر بولسونارو:انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان کو ’ٹرمپ آف دی ٹراپکس‘ کے نام سے پکارا گیا ہے، لیکن وہ شرکت نہیں کریں گے کیونکہ ان پر سفری پر پابندی ہے۔ ان کا پاسپورٹ ملک کی سپریم کورٹ نے کئی تحقیقات کے دوران ضبط کر لیا تھا، جس میں 2022 کے عام انتخابات کے نتائج کو الٹنے کی مبینہ کوششیں بھی شامل تھیں، جس میں وہ ہارگئے تھے۔
میٹیوز موراویک:پولینڈ کے سابق وزیر اعظم میٹیوز موراویک ، جو حال ہی میں یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی یورپی کنزرویٹو اور ریفارمسٹ پارٹی کے رہنما بنے ہیں، بھی شرکت کریں گے۔
کون مدعو نہیں ہے؟اس تقریب میں شرکت کے لیے برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔تاہم انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان، ریفارم یو کے پارٹی کے نائجل فاریج کو مدعو کیا گیا ہے۔
یوروپی کمیشن کی سربراہ ارسولا وان ڈیر لیین اور زیادہ تر یورپی یونین اور نیٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) کے ممبران، جن میں زیادہ تر مرکزی حکومتیں ہیں، کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
جرمنی کے صدر اولاف شولز:یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت کی قیادت کرنے والے جرمنی کے صدر اولاف شولز کو اس تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا، جبکہ ایک دعوت نامہ انتہائی دائیں بازو کی آلٹرنیٹو فار جرمنی پارٹی (اے ایف ڈی) کی رہنما ایلس ویڈل کو دیا گیا ہے، جن کی نمائندگی شریک رہنما ٹینو کروپلا کریں گے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون:فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کو مدعو نہیں کیا گیا تھا، حالانکہ میکرون اور ٹرمپ کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اس کے بجائے فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان ایرک زیمور اس تقریب میں موجود ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: رہنماؤں کو مدعو کیا گیا انتہائی دائیں بازو کے کو مدعو کیا گیا ہے مدعو نہیں کی رہنما نہیں کی ٹرمپ کے کریں گے کے صدر کے لیے
پڑھیں:
حلف برداری تقریب سے قبل ٹرمپ کی چینی ہم منصب شی سے فون پربات چیت
ویب ڈیسک —
امریکہ کےمنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ فون پر بات کی جسے انہوں نے "بہت عمدہ” قرار دیا۔
واضح رہے کہ ٹرمپ اور شی کے درمیان فون پر ہونے والی یہ گفتگو بیجنگ کے اس اعلان کے چند گھنٹے بعد ہوئی جس کے مطابق چین کے نائب صدر ہان زینگ ٹرمپ کی 20 جنوری کو منعقد ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے واشنگٹن آرہے ہیں۔
اب سے ایک ماہ قبل ٹرمپ نے شی سمیت دوسرے بیرونی رہنماؤں کو اس ا تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم، ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے اس کال کو امریکہ اور چین کے لیے "بہت عمدہ”قرار دیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ دونوں نے گفتگو کے دوران تجارت میں توازن، فینٹینیل، ٹک ٹاک اور "کئی دیگر موضوعات” پر تبادلہ خیال کیا۔
نو منتخب امریکی صدر نے اپنی پوسٹ میں لکھا، "یہ میری توقع ہے کہ ہم مل کر بہت سے مسائل کو حل کریں گے، اور فوری طور پر (اس جانب کام) شروع کریں گے۔”
انہوں نے مزید کہا،”صدر شی اور میں دنیا کو مزید پرامن اور محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔”
ادھر چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق شی نے گفتگو کے دوران ٹرمپ کو الیکشن میں انکی کامیابی پر مبارک باد دی۔
اس موقع پر شی نے کہا کہ وہ اور ٹرمپ دونوں ہی اگلے چار سالوں میں امریکہ اور چین کے تعلقات کی ترقی کے لیے بلند عزائم رکھتے ہیں۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق صدر شی نے کہا "ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اپنی بات چیت کو بہت اہمیت دیتے ہیں، ہم دونوں امید کرتے ہیں کہ امریکی صدر کے نئے دور میں امریکہ اور چین کے تعلقات ایک اچھی شروعات کریں گے۔”
سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے رپورٹ کردہ بیان میں کہا گیا کہ شی نے کہا کہ دونوں رہنما چین اور امریکہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں تاکہ ایک نئے نقطہ آغاز سے زیادہ ترقی کی جائے۔”
شی نے کہا کہ جب بھی بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات ہوں گے،وہاں اس معاملے پر "ایک دوسرے کے بنیادی مفادات اور اہم خدشات کا احترام کرنا اور مسئلے کا مناسب حل تلاش کرنا” کلیدی حیثیت ہو گا۔
چینی صدر نے ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ تائیوان کے معاملے پر "احتیاط سے” کام لیں۔ بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اس کی سرزمین کا حصہ ہے اور اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اس جزیرے کو چین کے ساتھ ملانے کے لیے طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔
بیان کے مطابق شی اور ٹرمپ نے یوکرین جنگ، اسرائیلی فلسطینی تنازع اور دیگر اہم بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔