مذاکرات کہیں اور ہوں گے حکومتی کمیٹی اس کی توثیق کرے گی، مفتاح اسماعیل
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ سمجھتا ہوں ہمیں ایک ڈیڑھ سال میں الیکشن کی طرف جانا ہوگا، پی ٹی آئی آئین کی حکمرانی کی بات کرے تو مناسب ہوگا لیکن صرف عمران خان کی رہائی کی بات کرے تو یہ مناسب نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ عوام پاکستان پارٹی (اے پی پی) کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ مذاکرات کہیں اور ہوں گے حکومتی مذاکراتی کمیٹی اس کی توثیق کرے گی۔ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنی سیاست اقتدار کیلئے گروی رکھ دی ہے جبکہ بانی پی ٹی آئی کی غلطی یہ ہے کہ اقتدار چھوڑنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے لڑ پڑے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آئین کی بالادستی کیلیے جدوجہد کرنی چاہیئے، موجودہ حکومت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، یہ ایک میٹنگ تک نہیں کروا سکتی تو مینڈیٹ کا اندازہ لگا لیں۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں پاکستان کی سمت بدلنی ہے اور عوام سے پوچھے بغیر ممکن نہیں، سمجھتا ہوں ہمیں ایک ڈیڑھ سال میں الیکشن کی طرف جانا ہوگا، پی ٹی آئی آئین کی حکمرانی کی بات کرے تو مناسب ہوگا لیکن صرف عمران خان کی رہائی کی بات کرے تو یہ مناسب نہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی بات کرے تو نے کہا کہ
پڑھیں:
مذاکرات کمیٹی ڈرامہ
سچی بات یہ ہے کہ جب تک رانا ثناء اللہ اور عرفان صدیقی صاحب موجود ہیں اور سیاسی صورت حال کا حصہ ہیں اس وقت تک پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی ، جتنی مرضی کمیٹیاں بنالیں ،جتنے مرضی وفد تیار کر لیں ،ایسا ممکن ہی نہیں ۔
یہی معاملہ پی ٹی آئی کا ہے کہ جب تک بانی تحریک انصاف خو د کو عقل کل سمجھنے کے غرے سے نہیں نکلتے ،کسی اور پر اعتبار کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا نہیں کرتے ،اس حوالے سے سب پانی میں مدھانی مارنے کے مترادف ہے۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ ن لیگ سمجھتی ہے اس کے پاس عرفان صدیقی سے بڑا دماغ نہیں ہے اور رانا ثنااللہ سے زیادہ بصیرت کا حامل کوئی سیاستدان نہیں ہے ۔اس وقت تک ملک میں سیاسی تنائو ایسا ہی رہے گا جیسا موجود ہے اور پی ٹی آئی والے جب تک کپتان کوکسی پروہت کے درجے سے نیچے کا انسان نہیں گردانتے، ملک اسی طرح سیاسی انتشار کی دلدل میں پھنسا رہے گا۔
کانوں کا کچا کپتان کچھ عرصے کے لئے شیر افضل مروت اور بیرسٹر گوہر کو کشادہ دست بنا نہیں دیتا توامکان کے سب در بند رہیں گے، اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ شہباز حکومت نے اب کسی نہ کسی طور معیشت کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈال ہی لی ہے۔ان دنوں آٹا دال اور گھی نہ سہی سبزیوں اور پھلوں کو تو بگھیاڑوں کے پنجوں سے نجات کی راہ نکال ہی لی ہے ،ٹماٹر جو تین سو روپے کل تک پہنچ گئے تھے جنوبی پنجاب میں ایک سو روپے کلو سے بھی نیچے آگئے ہیں ،اسی طرح دوسری سبزیوں کا حال ہے ،گویاکہ مہنگائی کے جن کو کسی حد تک بوتل میں بند کرلیا ہے ۔
پنجاب کی مہارانی مریم نواز پنجاب کے عوام کو رام کرنے میں زینہ زینہ کامیابی کی اور روانہ ہیں ۔اچھا ہے کہ وہ رانا ثناء اللہ اور عرفان صدیقی جیسے مشیر نہیں رکھتیں بھلے ان کے منصوبوں کی غلط تشریح کرنے کے لئے عظمی بخاری ہی کافی ہیں جو مبالغہ آرائی میں مہارت رکھتی ہیں اور اچھی بھلی خبط عظمت کا شکار بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ وزیراعلیٰ اگر انہیں کے مشورں کے حصار میں ہوتیں تو بہت سارے کرنے کے کام رہ جاتے جو مریم بی بی بہت عمدہ طریقے سے انجام دے رہی ہیں۔
ایک بات جو سمجھ میں نہیں آنے والی ہے وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہو یا پی ایم ایل این دونوں جانب کے سفارتکار سیاسی تدبرسے زیادہ سیاسی زعم میں ہی مبتلا ہیں اور لفظوں کے بیوپاری کا کاروبار تو افغان امریکہ جنگ میں چل نکلا تھا انہیں زیبا نہ تھا کہ فارم سینتالیس والوں کی حکومتوں کو الفاظ کے تاج محلوں کی زینت بنانے کی ہررت میں طلسماتی کردار اداکر کے فسطائیت کے راستے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ،مگر میں نے بہت قریب سے دیکھا کہ ان کی بھی بہت مجبوریاں ہیں انہیں مجبوریوں کے بیچ دبئی اور سعودی عرب کے ایک مجرم نے اپنا راستہ کیا بنایا کہ قومی اسمبلی کا رکن بن بیٹھااور جن کامعاشی قتل کیا وہ آج تک اسے بددعائیں دے رہے ہیں۔
یقینا ان بد دعائوں کا اثر اس پر بھی تو پڑتا ہوگا جو سونے کا چمچ لے کر تو پیدا نہیں ہوا تھا مگر سیم زر اگلتے عہدوں پر تو رہ چکا اور ابھی تک انہیں مناصب کے سحر میں ہے جو اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتا اور رانا ثناء اللہ کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ مذاکراتی کمیٹی تشکیل نہیں دی جا سکتی ،کیونکر تشکیل کے عمل سے آشنا ہوجائے ؟ ایسا ہوگا تو ان کی اور بہت سے دوسرے لوگوں کی سیاست کی کتاب بند ہوجائے گی۔ان کی معیشت تنگ ہوجائے گی۔معاشرت تہہ و بالا ہوجائے گی۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ دونوں طرف سے مذاکرات کمیٹی کا ڈرامہ چلتے رہنا چاہیئے ،یہ رک گیا تو عالمی سطح پر کپتان کی شہرت کا جادو پھر سے جاگنے لگ جائے گا۔
اور وہ جنہیں یہ خطرہ لاحق ہے کہ ٹرپ کوئی طوفان لے آئے گا ان کی ذہنی اذیت بڑھ جائے گی ،حالانکہ ٹرمپ بھی جانتا ہے کہ کپتان نے اسے ہی للکار کر کہا تھا’’ ہم کوئی غلام ہیں ‘‘ یہ الگ بات ہے کہ اب اس نعرے کو حرز جاں بنانے والے سب ایرے غیرے مراجعت پر تلے ہوئے ہیں اور وہ جن کی مظاہروں کے وقت ہوا نکل جاتی ہے وہ بھی اس خوش فہمی میں برے طریقے سے پھنسے ہوئے ہیں کہ ان کی تبدیلی کا خواب اب ٹرمپ ہی پورا کرے گا۔ان سے کوئی پوچھے پھر تمہارے بڑے جس مذاکرات کمیٹی کا ڈرامہ رچائے ہوئے ہیں اس کا کیا بنے گا ،جبکہ بیرسٹر گوہر تو اب بھی مصر ہیں کہ’’ اسٹیبلشمنٹ ڈائریکٹ ان سے بات کرے‘‘ اور اسٹیبلشمنٹ جانتی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے یو ٹرن لیتے دیر ہیں لگتی ۔