تجزیہ کار کے مطابق یہ ثابت ہو چکا ہے کہ صرف فوجی دباؤ کے ذریعے قیدیوں کی رہائی کا نیتن یاہو کا دعویٰ بے بنیاد تھا۔ وائٹ ہاؤس کی نئی انتظامیہ کے سامنے اپنی گھبراہٹ کو ظاہر کرتے ہوئے، بنجمن نیتن یاہو اور صیہونی حکومت کے سخت گیر حکمرانوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے سرطانی ٹیومر کا اپنا آزاد سیاسی، قومی، ادارہ جاتی یا حتیٰ سماجی شناخت سمیت کوئی مستقل وجود نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ کے خلاف جنگ کے حوالے سے صیہونی حکومت کے اعلان کردہ اہداف اور نتن یاہو کی جانب سے ٹرمپ کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے، عبرانی اخبار ھارتز نے لکھا ہے کہ اگر حماس کے ساتھ معاہدے کی اسرائیل کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ کئی مہینوں تک غزہ کی پٹی میں مکمل فتح کے دعویے کرنیکے بعد یہ معاہدہ اسرائیل کو حماس کے خاتمے سمیت جنگ کے اہداف کو ترک کرنے کا سبب بنے گا، اور حماس ایک بار پھر فلسطینیوں کے درمیان اپنی پوزیشن مضبوط کر سکے گی۔ 

اخبار کے تجزیہ کار نے زور دے کر کہا ہے کہ نتن یاہو نے پہلے بھی غزہ کی پٹی، مصر سرحد پر واقع فلاڈیلفیا (صلاح الدین) محور سے دستبرداری کی مخالفت کی تھی، لیکن موجودہ معاہدے میں اس کراسنگ سے دستبرداری پر زور دیا گیا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ صرف فوجی دباؤ کے ذریعے قیدیوں کی رہائی کا نیتن یاہو کا دعویٰ بے بنیاد تھا۔ وائٹ ہاؤس کی نئی انتظامیہ کے سامنے اپنی گھبراہٹ کو ظاہر کرتے ہوئے، بنجمن نیتن یاہو اور صیہونی حکومت کے سخت گیر حکمرانوں نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے سرطانی ٹیومر کا اپنا آزاد سیاسی، قومی، ادارہ جاتی یا حتیٰ سماجی شناخت سمیت کوئی مستقل وجود نہیں ہے۔

حماس کے ساتھ جنگ ​​بندی کے معاہدے کے بارے میں بیت عقیون کے دیوانے کا لہجہ سنجیدہ ہوتے ہی صیہونی حکومت کو بیک وقت 5 محاذوں پر رسوائی کا سامنا ہے:
1۔ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کے خلاف 16 ماہ تک جاری رہنے والی نسل کشی کی جنگ کے بعد معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ 8 دہائیوں میں پہلی طویل فوجی مہم کی ناکام ہوئی ہے۔
2۔ لیکود پارٹی کا رہنما نیتن یاہو اے آئی پی اے سی لابی میں ایک طاقتور امیج رکھنے کے باوجود عملی طور پر ایک مغربی سیاسی پیادے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور معاریف کے مشہور اسرائیلی تجزیہ کار بین کاسپیت کے مطابق وہ امریکی طاقت کے مرکز سے بے حد خوفزدہ ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص پر اعتماد کر رہے ہیں۔
3۔ غاصب حکومت خطے میں امریکہ کے پاگل کتے کے سوا کچھ نہیں ہے اور جیسے ہی واشنگٹن سے اسرائیل کی لگام کھینچنے کا فیصلہ کیا جائے گا، وہ جنگ میں جتنی جلدی داخل ہو گی اتنی جلدی سے اسے ختم بھی کر دے گی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی استعمار امریکہ کے نزدیک غاصب اسرائیلی ریاست صرف ان کی ایک کالونی ہے۔
4۔ نیتن یاہو کے ساتھ اتحاد کرنے والے انتہا پسند یا اپوکیلیپٹک صیہونیوں نے، جن کا اقتدار میں رہنا غزہ کی جنگ کے تسلسل سے جڑا ہوا ہے، نے واضح طور پر واشنگٹن کی طرف سے جنگ بندی کے حکم کی مخالفت کی ہے، جو کہ کنیسیٹ میں کمزور حکمران اتحاد میں دراڑ ہے۔ ان دھڑوں کے درمیان یہ شگاف واضح کرتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین پر غاصب رجیم اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔
5۔ محاصرے شدہ ایک چھوٹی سی پٹی میں فلسطینیوں کیخلاف جارحیت، نسل کشی اور اسے کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے مغربی شراکت داروں کی بھرپور حمایت کے باوجود بھی صیہونی اپنے حتمی مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ جس کا مقصد نہ صرف عرب دنیا بلکہ پوری عالمی برادری میں مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا تھا۔ فطری طور پر مسئلہ فلسطین برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ اس مغربی استعماری کٹھ پتلی حکومت کے خلاف مزاحمت بھی مضبوط ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، قابض حکومت کے خلاف مزاحمت کے طویل المدت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صیہونی حکومت نیتن یاہو حکومت کے کے ساتھ ظاہر کر نہیں ہے کے خلاف جنگ کے

پڑھیں:

غزہ میں جنگ بندی سے صیہونیوں کی حتمی شکست

اسلام ٹائمز: دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر دینا بذات خود اس کی بہت بڑی شکست ہے کیونکہ غزہ جنگ کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد ہی حماس کو نابود کر دینا تھا۔ لیکن اب حماس سے جنگ بندی معاہدہ طے پانا اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ حماس کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ وہ اس پوزیشن میں بھی ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے لیے امریکہ اور اسرائیل سے اپنی شرطیں منوا سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک تاجر ہے اور وہ محسوس کر رہا ہے کہ غزہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں امریکہ کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف ریاست کیلی فورنیا میں جنگل کی آگ نے بھی امریکہ کی اندرونی صورتحال انتہائی کشیدہ اور بحرانی کر دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں اس بحران کا بھی گہرا اثر ہے۔ تحریر: رسول سنائی
 
غزہ میں حماس اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان جنگ بندی کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ سی بی ایس نیوز چینل نے رپورٹ دی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے لیے کچھ بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے ہو چکا ہے اور اگر سب کچھ ٹھیک سے آگے بڑھے تو اسی ہفتے جنگ بندی کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔ اسی طرح ایسی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت جنگ بندی کے بعد غزہ کے انتظامی امور چلانے کے لیے ایک منصوبہ بھی تیار کر رہی ہے جسے البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت عملی جامہ پہنائے گی۔ مزید برآں، میدان جنگ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ صیہونی فوج غزہ کی پٹی سے پیچھے ہٹ رہی ہے اور غزہ کے شمالی حصے کو جنوبی حصے سے جدا کرنے والے نیتساریم بفر زون میں بھی اپنی فوجی تنصیبات ختم کرنے میں مصروف ہے۔
 
غزہ میں موجودہ جنگ بندی کو مذاکرات میں "عظیم کامیابی" قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ جنگ بندی صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے حماس کی دو بنیادی شرطیں یعنی جنگ بند کرنا اور غزہ سے فوجی انخلاء، قبول کرنے کے بعد امکان پذیر ہوئی ہے۔ یہ بذات خود حماس کی فتح اور غاصب صیہونی رژیم کی شکست ہے۔ البتہ غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں نے اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا ہے اور میدان جنگ میں ہونے والی شکست کا ازالہ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ میں اپنی مرضی کا تاثر دے کر کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف امریکی حکمران غزہ میں جنگ بندی کو اپنا کارنامہ ظاہر کر رہے ہیں اور اسے جو بائیڈن کے کامیاب منصوبے کے طور پر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔
 
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے والے اصل اسباب اسلامی مزاحمتی گروہوں کی عظیم استقامت اور مزاحمت کی جانب پلٹتے ہیں۔ وہ اسباب جنہوں نے بے رحم اور قاتل صیہونی حکمرانوں کو غزہ میں نسل کشی روک دینے پر مجبور کیا ہے درج ذیل ہیں:
1۔ غاصب صیہونی رژیم کو پہنچنے والا عظیم نقصان جو صیہونی فوج اور صیہونی معاشرے کی برداشت سے باہر تھا۔ اس نقصان کے نتیجے میں صیہونی فوج افرادی قوت کی قلت کا شکار ہو گئی لہذا وہ جنگ مزید جاری رکھنے سے عاجز آ چکی تھی۔
2۔ صیہونی فوجی تمام تر فوجی اور ٹیکنالوجی برتری ہونے کے باوجود غزہ کی پٹی جانے اور وہاں رہنے سے شدید خوفزدہ تھے کیونکہ حماس مسلسل گھات لگا کر حملے کرتی اور انہیں جانی نقصان پہنچا رہی تھی۔ حالیہ کچھ ہفتوں میں حماس کے مجاہدین اسرائیل کے ناکارہ بموں اور میزائلوں سے ہی دھماکہ خیز مواد جمع کر کے صیہونی فوجیوں کے خلاف کاروائیاں کرنے میں مصروف تھے۔
 
3۔ غزہ میں فلسطینی مجاہدین کے بے مثال استقامت اور مزاحمت نے مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں میں رہنے والے فلسطینیوں کو بھی متاثر کیا تھا اور مغربی کنارے میں بھی اسلامی مزاحمت کی شدید لہر معرض وجود میں آ چکی تھی۔ مزید برآں، آئے دن مقبوضہ بیت المقدس اور دیگر مرکزی حصوں میں بھی انفرادی طور پر فلسطینی شہری غاصب صیہونیوں کے خلاف مزاحمتی کاروائیاں انجام دینے میں مصروف تھے۔
4۔ عالمی سطح پر غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بربریت اور معصوم بچوں اور خواتین کے قتل عام کا نتیجہ عالمی رائے عامہ میں اسرائیل سے نفرت میں شدید اضافے کی صورت میں ظاہر ہو رہا تھا۔ دوسری طرف عالمی قانونی اداروں کی جانب سے صیہونی حکمرانوں پر نسل کشی کا جرم ثابت ہو جانے کے بعد دنیا کے اکثر ممالک میں صیہونیوں کی آمدورفت خطرے میں پڑ چکی تھی۔
 
ایسی صورتحال میں غاصب صیہونی رژیم نے خود کو جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے پر مجبور محسوس کیا ہے اور بے بسی کے عالم میں جنگ بندی قبول کی ہے۔ البتہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بنجمن نیتن یاہو پر جنگ بندی کے لیے دباو نے بھی اثر دکھایا ہے۔ لیکن صیہونی وزیراعظم کی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزیر اب بھی مستعفی ہو جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جن کے باعث نیتن یاہو حکومت متزلزل ہو چکی ہے۔ نیتن یاہو کے انتہاپسند وزیروں کا مطالبہ ہے کہ غزہ سے فوجی انخلاء نہ کیا جائے، نیتساریم بفر زون برقرار رکھا جائے اور مصر اور غزہ کی سرحد پر فیلاڈیلفیا پٹی پر بھی فوجی قبضہ برقرار رکھا جائے۔ لہذا اب جنگ بندی کے بعد صیہونی کابینہ میں ایک نیا طوفان برپا ہونے والا ہے۔
 
دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر دینا بذات خود اس کی بہت بڑی شکست ہے کیونکہ غزہ جنگ کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد ہی حماس کو نابود کر دینا تھا۔ لیکن اب حماس سے جنگ بندی معاہدہ طے پانا اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ حماس کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ وہ اس پوزیشن میں بھی ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے لیے امریکہ اور اسرائیل سے اپنی شرطیں منوا سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک تاجر ہے اور وہ محسوس کر رہا ہے کہ غزہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں امریکہ کو بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف ریاست کیلی فورنیا میں جنگل کی آگ نے بھی امریکہ کی اندرونی صورتحال انتہائی کشیدہ اور بحرانی کر دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں اس بحران کا بھی گہرا اثر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کے ساتھ معاہدے پر اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر سمیت 3 وزرا مستعفی
  • نیتن یاہو جنگ بندی معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے
  • غزہ میں جنگ بندی معاہدہ آج سے نافذ العمل ہوگا، ٹرمپ نے نیتن یاہو کو خبردار کر دیا
  • جنگ دوبارہ شروع کرنے کے بارے نیتن یاہو کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں، حماس
  • اگر اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تو ہم بھی اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دینگے، انصاراللہ یمن
  • اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی توثیق کردی
  • اسرائیلی کابینہ سے جنگ بندی ڈیل کی منظوری نہ لی جاسکی،نیتن یاہو کے حماس پر الزامات ۔غزہ پر بڑے حملے،13 فلسطینی شہید
  • غزہ میں جنگ بندی سے صیہونیوں کی حتمی شکست
  • غزہ جنگ بندی معاہدے پر ایرانی وزارت خارجہ کا بیان