انسانی آنکھ کتنے میگا پکسلز کی ہوتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
کیمروں آج کے دور میں ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے جس میں سب کو زیادہ سے زیادہ میگا پکسلز چاہیے ہوتے ہیں۔
لیکن کیا آپ نے کبھی اپنی آنکھ کے بارے میں سوچا ہے کہ اس میں کتنے میگا پکسل پائے جاتے ہیں؟
انسانی آنکھ تقریباً 576 میگا پکسلز (ایم پی) کے برابر ہے۔ مطلب دنیا و آسمان کے نظاروں کو ان کے اصل رنگ اور شفافیت سے دیکھنے کیلئے انسانی آنکھ کو 576 ایم پی درکار ہوتے ہیں۔
میگا پکسلز دراصل کسی بھی تصویر میں پکسلز کی تعداد کی پیمائش ہوتی ہے۔ ایک میگا پکسل ایک ملین پکسلز کے برابر ہوتا ہے۔
انسانی آنکھ کی ریزولیوشن کا تخمینہ مقامی تفصیلات کی مقدار سے لگایا جاتا ہے جو انسان آنکھ میں سمانے والے منظر میں دیکھ سکتا ہے۔
انسانی آنکھ کی ریزولوشن اس وقت سب سے زیادہ ہوتی ہے جب منظر تبدیل ہورہا ہوتا ہے۔
لیکن اگر وہ ایک ہی منظر میں ہو تو ریزولوشن بہت کم ہوتی ہے، تقریباً 5 سے 15 میگا پکسلز۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ترین کیمرے بھی پوری طرح سے انسانی آنکھ کی بصری صلاحیتوں کی نقل نہیں کر سکتے ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتی ہے
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟