اسلام ٹائمز: آج پاڑہ چنار کی صورت حال بھی 2006ء کے جنوبی لبنان اور حزب اللہ کی صورت حال سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج اس خطے کے باسی بھی چاروں طرف سے اپنے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں اور ان سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ان ہاتھوں کو کاٹ دیں جن سے وہ اپنا دفاع کرتے ہیں۔ پاڑہ چنار کے مظلومین سے یہ مطالبہ ایسی حالت میں کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے تمام دفاعی ادارے محض تماشائی ادارے بنے ہوئے ہیں اور ہمارے وہ سیاسی قائدین جنہیں ہم نے اپنا (؟) سمجھا ہوا ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر
پاڑہ چنار کا خطہء ارضی آج کل جدوجہد اور مقاومت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ رقم کر رہا ہے۔ یہ منطقہ، جغرافیائی، تزویراتی، نظریاتی اور مقاومتی اعتبار سے کسی حد تک ”جنوبی لبنان“ کا عکس ہے۔ اپنے جغرافیے کے اعتبار سے یہ علاقہ پاکستان کے قبائلی علاقے ضلع کرم کا وہ دارالحکومت ہے جو اسلام آباد سے مغرب کی جانب 574 کلو میٹر اور پشاور سے 80 میل کے فاصلے پر ”کوہ سفید“ کے دامن میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ پاڑہ چنار کی تین اطراف میں افغانستان اور صرف مشرق میں پاکستان کی سرزمین ہے۔
”پاڑہ چنار“ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کا نام ”حمزہ خیل“ کی ”پاڑے خیل“ شاخ کی ایک معتبر شخصیت ”ملک پاڑے“ کے نام پر رکھا گیا تھا جنہوں نے 200 سال قبل اس علاقے میں ”چنار“ کا پودا لگایا تھا۔ قبیلے کے لوگ اس درخت کے سایے میں بیٹھتے تھے۔ افغانستان کا بادشاہ ”بچہ سقا“ بھی پاڑہ چنار کے ایک بازار کا ماشکی ہوتا تھا۔ پاڑہ چنار کی اکثریت طوری اور بنگش قبائل پر مشتمل ہے۔ طوری قبائل عرصہء دراز سے یہاں آباد ہیں جبکہ بنگش قبائل افغانستان سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ وادیء کرم، وزیرستان، خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں کی نسبت زیادہ ذرخیز ہے۔
1890ء میں طوری قبائل نے افغانوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر متحدہ ہندوستان کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی۔ 1893ء میں بارڈر کی نشان دہی ہوئی۔ 1948ء میں قائداعظم کے اسرار پر کرم ایجنسی نے بھی دیگر ایجنسیوں کے ہمراہ پاکستان سے الحاق کیا۔ پاڑہ چنار کی زیادہ آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔ کسی ایک خطے میں اہل تشیع کا اس طرح سے اکثریت میں ہونا شیعہ دشمن طاقتوں کے لیے ہمیشہ سے سوہان روح بنا رہا ہے۔ لہذا ہر دور میں یہاں کی شیعہ آبادی کا تشخص ختم کرنے کے لیے اس پر لشکر کشی کی گئی لیکن مقامی آبادی نے اپنی بھرپور مقاومت کے ذریعے اپنی سرزمین کا دفاع کیا۔
آج ایک بار پھر اس علاقے کی مظلوم عوام پر ہر طرف سے یلغار کرنے کے منصوبے تشکیل دیے جا رہے ہیں جبکہ یہاں کے عوام بھی اپنے سر پر کفن باندھ کر میدان کارزار میں موجود ہیں۔ اس علاقے کی آج کی صورت حال اور 2006ء کی جنوبی لبنان کی صورت حال میں قدرے مماثلت ہے۔ لبنان کے اس جنوبی حصے اور ”جبل عامل“ کے اس پہاڑی علاقے میں بھی کبھی صحابی رسولؓ اور ”لسان الصدق“ جناب حضرت ابوذر غفاریؓ نے اپنی جلاوطنی کے زمانے میں مقاومت کا ایک ایسا پودا لگایا تھا جو آج ایک تن آور درخت بن کر لبنان کے حزب اللہی نوجوانوں کو اپنا سایہ فراہم کر رہا ہے۔
اسرائیل، امریکہ اور اس کےگماشتے آج اس درخت کو اس کی جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے صیہونی حکومت کئی بار اس سرزمین کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا چکی ہے لیکن ہر بار اس جارح قوت نے جنوبی لبنان کی تحریک مزاحمت کے ہاتھوں شکست کھائی ہے ۔ 2006ء میں لبنان کی مقاومتی تحریک ”حزب اللہ“ پر بھی ایسا ہی دباؤ تھا جیسا دباؤ آج پاڑہ چنار کے دفاع کے لیے کمر بستہ مجاہدین پر ہے۔
ان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار پھینک دیں اور غیر مسلح ہو جائیں لیکن انہوں نے بھی سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی طرح دوٹوک الفاظ میں کہ دیا ہے کہ وہ یہ کام ایسی صورت میں کبھی نہیں کریں گے جبکہ ان کے مقابل فریق کو کئی طریقوں سے ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہے۔ حزب اللہ کے انکار اور اس کی سرکشی کا جواب دینے کے لیے 2006ء میں 35000 لشکریوں پر مشتمل اسرائیل کی افواج نے جنوبی لبنان پر حملہ کر دیا۔ حزب اللہ اس وقت زیادہ طاقتور نہیں تھی۔ اسرائیل کی جدید ریگولر آرمی اور چند ہزار پر مشتمل حزب اللہ ملیشیا کے مابین بظاہر مقابلے کا کوئی تناسب نہیں تھا۔
ہم جو حزب اللہ کے حامی تھے، اس وقت ہمارا بھی یہ خیال تھا کہ حزب اللہ اگرچہ آخری سانس تک ہتھیار نہیں پھینکے گی لیکن شاید وہ اپنے وجود کو باقی نہ رکھ سکے اور اس کی اکثریت راہ سیدالشہداء علیہ السلام پر چلتے ہوئے شہادت کو اپنے گلے لگا لے لیکن جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ ”ان تنصراللہ ینصرکم“ یعنی اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو خدا بھی تمہاری مدد کرے گا“ کے مصداق حزب اللہ کو خدا کی جانب سے ایسی نصرت ملی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
آج پاڑہ چنار کی صورت حال بھی 2006ء کے جنوبی لبنان اور حزب اللہ کی صورت حال سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج اس خطے کے باسی بھی چاروں طرف سے اپنے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں اور ان سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ان ہاتھوں کو کاٹ دیں جن سے وہ اپنا دفاع کرتے ہیں۔ پاڑہ چنار کے مظلومین سے یہ مطالبہ ایسی حالت میں کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے تمام دفاعی ادارے محض تماشائی ادارے بنے ہوئے ہیں اور ہمارے وہ سیاسی قائدین جنہیں ہم نے اپنا (؟) سمجھا ہوا ہے۔
ہمارے قاتلوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہم ان ”اپنوں“ پر گولی کیسے چلائیں؟۔ لمحہء موجود میں غیروں کی ستم ظریفی اور اپنوں کی خاموشی میں چاروں جانب سے اعداء کے نرغے میں گھرے ہوئے پاڑہ چنار کے مظلوموں کا آسرا فقط ذات خداوند پروردگار اور وجود آئمہ اطہار ہے۔ آج ان کا نعرہ بھی وہی نعرہ ہے جو ایسے ہی وقت میں سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے لگایا تھا۔ یعنی ”لبیک یا حسینؑ“۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کیا جا رہا ہے سے یہ مطالبہ ہوئے ہیں اور کی صورت حال حزب اللہ ہے کہ وہ سے اپنے وہ اپنے اللہ کی کے لیے
پڑھیں:
دفعہ370 کی بحالی تک کوئی بھی الزام یامقدمہ مجھے خاموش نہیں کرا سکتا، آغا روح اللہ
انہوں نے کہا کہ بھارتی اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) نے ان اور ان کے پانچ قریبی رشتہ داروں کے خلاف اراضی معاوضے سے متعلق جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ محض ایک انتقامی کارروائی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما اور سری نگر سے رکن بھارتی پارلیمنٹ آغا روح اللہ مہدی نے کہا کہ دفعہ 370 بحال ہونے تک کوئی بھی الزام یا مقدمہ انہیں خاموش نہیں کرا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) نے ان اور ان کے پانچ قریبی رشتہ داروں کے خلاف اراضی معاوضے سے متعلق جو چارج شیٹ داخل کی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ محض ایک انتقامی کارروائی ہے۔ ذرائع کے مطابق آغا روح اللہ نے بڈگام میں اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان اور ان کے رشتہ داروں کے خلاف دائر کی گئی چارج شیٹ انہیں دفعہ 370 کی بحالی، اقلیتوں اور مسلمانوں کے حقوق اور وقف ایکٹ جیسے مسائل کے بارے میں بولنے سے روکنے کی ایک بونڈی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اے سی بی جیسی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے اس چارج شیٹ کے ذریعے انہیں ڈرانا دھمکانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خاموش نہیں کرایا جا سکتا اور نہ ڈرایا جا سکتا ہے۔ آغا روح اللہ نے کہا کہ میں اس دن خاموش ہوں گا جب دفعہ370 بحال ہو جائے گا، مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف مظالم بند ہو جائیں گے اور جموں و کشمیر کے آئینی حقوق بحال ہو جائیں گے۔ روح اللہ نے کہا کہ ان کے دادا آغا سید مصطفیٰ کے پاس رکھ ارت بڈگام میں 90 کنال اراضی تھی جو بعد ازاں حکومت نے ڈل جھیل کے مکینوں کی بحالی کے لیے لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس زمین کا معاوضہ ہمیں چالیس ہزار فی کنال ادا کرنا چاہیے تھا لیکن ہمیں اس سے کم دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو گزرے بیس برس ہو گئے اور ان 20 برسوں میں کسی نے بھی ارضی کے لین دین بارے میں کوئی الزامات نہیں لگائے اور اب ایک دم سے جو چارچ شیٹ سامنے آئی ہے اس کا واحد مقصد محض مجھے ڈرانا، دھمکانا اورحق بات کرنے سے روکنا ہے۔
روح اللہ نے جموں و کشمیر اسمبلی میں وقف (ترمیمی) ایکٹ کے بارے میں قرارداد نہ لانے پر اپنی پارٹی نیشنل کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسمبلی اس ایکٹ پر بحث کر سکتی تھی اور اس پر قرارداد پاس کر سکتی تھی۔ بھارتی اینٹی کرپشن بیورو(اے سی بی) نے روح اللہ، ان کے پانچ قریبی رشتہ داروں اور 16 دیگر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے خلاف زمین کے معاوضے میں دھوکہ دہی اور ریونیو ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ کے حوالے سے چارج شیٹ داخل کی ہے۔