آر ایس ایس کے نظریہ میں ملک کی خوشحالی نہیں ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
ملکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی نے کہا کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے بیانات جمہوریت مخالف اور آئین کے مخالف ہیں لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ اس ملک کی بنیاد ہم آہنگی، امن اور اتحاد پر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے اور پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی نے کانگریس کے نئے ہیڈکوارٹر کو سیکولرازم، جمہوریت اور سماجی انصاف کی بنیاد پر قائم پائیدار جامع ترقی کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمارت ہماری اقدار کی عکاسی کرتی ہے۔ ملکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت کے بیانات جمہوریت مخالف اور آئین کے مخالف ہیں لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ اس ملک کی بنیاد ہم آہنگی، امن اور اتحاد پر ہے اور وہ اس نظریے کا علمبردار ہے جو مہاتما بدھ، گرو نانک اور بھگوان کرشن نے پیش کیا تھا۔ ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ کانگریس پارٹی کا نیا ہیڈکوارٹر جمہوریت، قوم پرستی، سیکولرازم، جامع ترقی اور سماجی انصاف کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کی 140 سالہ شاندار تاریخ کی علامت، یہاں کی دیواریں سچائی، عدم تشدد، ایثار و قربانی، جدوجہد اور حب الوطنی کی عظیم داستان بیان کرتی ہیں۔
راہل گاندھی نے کہا کہ یہ عمارت ہمارے کارکنوں کے خون سے اور ہمارے ہر لیڈر کے خون سے بنی ہے، اس میں آپ سب شامل ہیں جو کانگریس پارٹی کے نظریات کا دفاع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کانگریس کے نظریات کا دفاع کرتے ہوئے سب کو سنگین حملے کا سامنا ہے لیکن یہ لوگ بی جے پی اور آر ایس ایس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈال رہے ہیں۔ کانگریس کے نظریہ پر یقین رکھنے والے لوگ ڈرنے والے نہیں ہیں، اسی طرح یہ عمارت ہمارے ملک کی مٹی سے ہمارے لیڈروں اور ہمارے کارکنوں کے خون سے نکلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عمارت کے پیچھے کا نظریہ بھی ہمارے ملک کے کونے کونے تک پہنچنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اس عمارت کے اندر موجود نظریات ہمارے ملک کے کونے کونے، تمل ناڈو، کشمیر، شمال مشرق، گجرات، انڈمان نکوبار اور لکشدیپ وغیرہ تک پہنچ گئے، اس عمارت سے نکلنے والے اس نظریے کو ہمارے ملک کے کونے کونے میں پھیلایا جانا چاہیئے۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کل کہا تھا کہ ہندوستان کو حقیقی آزادی 1947ء میں نہیں ملی تھی، بلکہ رام مندر کی تعمیر کے وقت ملی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ آئین ہماری آزادی کی علامت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا نظریہ آر ایس ایس کے نظریے کی طرح کل نہیں آیا بلکہ ہزاروں سال پرانا ہے اور تب سے آر ایس ایس کے نظریے سے لڑ رہا ہے، ہماری اپنی علامتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس شیو ہیں، ہمارے پاس بدھ ہیں، ہمارے پاس گرو نانک ہیں، ہمارے پاس کبیر ہیں اور ہمارے پاس مہاتما گاندھی ہیں، یہ سب وہ علامتیں ہیں جنہوں نے ملک کو صحیح راستہ دکھایا ہے۔ راہل گاندھی نے کہا "سوال یہ ہے کہ کیا گرو نانک، بدھا، بھگوان کرشن آر ایس ایس کے نظریے سے تعلق رکھتے تھے، ان میں سے ایک بھی نہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے برابری اور بھائی چارے کے لئے لڑا ئی لڑی ہے"۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے کانگریس کے ہمارے پاس ہمارے ملک کی بنیاد ملک کی
پڑھیں:
موہن سنگھ سکھوں کی جدوجہد اور خوشحالی کا استعارہ ہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) بھارت کی دو فیصد سے بھی کم آبادی ہونے کے باوجود سکھوں کا ملک کو فوڈ سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ مینوفیکچرنگ شعبے میں بھی نمایاں کردار ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق مذہبی گروہوں میں سکھ سب سے زیادہ امیر ہیں۔ تقریباً 60 فیصد سکھ گھرانے خوشحال اور زندگی گزارنے کے جدید وسائل رکھتے ہیں۔
منموہن سنگھ کی طرح ان کے برادری کی ایک بڑی آبادی تقسیم ہند کے بعد انتہائی کسمپرسی کا شکار ہوئی، مگر دو دہائیوں کے اندر ہی پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔ یہ شاید اسی برادری کا طرہ امتیاز ہے، ورنہ اتنے مصائب جھیلنے اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے بعد شاید ہی کوئی اور کمیونٹی اتنی کم مدت میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو پائی ہو۔
(جاری ہے)
تقسیم ہند اور پھر فرقہ وارانہ فسادات میں سب سے زیادہ سکھ اور مسلمان متاثر ہوئے۔
ان کو اپنی پشتینی جائیدادیں اور گھروں کو چھوڑ کر نئے آشیانے بسانے پڑے۔سکھوں کو، پنجاب میں زرخیز زمینوں کو چھوڑ کر بھارت میں انجان شہروں میں مستقبل تلاش کرنا پڑا۔ حال ہی میں انتقال کر جانے والے بھارت کے پہلے سکھ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ، اسی جدوجہد یعنی نئے آشیانے کی تلاش اور پھر کامیابی کی انتہا تک پہنچنے اور سکھوں کی روایتی سخت جانی اور برداشت کا استعارہ ہیں۔
سکھ بھارت کی واحد اقلیت ہے، جو سب سے زیادہ باوقار عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ منموہن سنگھ، جو 2004 میں وزیر اعظم بنے، کے علاوہ، گیانی ذیل سنگھ بھارت کے صدر، جنرل جوگندر جسونت سنگھ آرمی چیف، فضائیہ کے موجودہ سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نیز بھارتی فضائیہ کے واحد مارشل آف ایئر ارجن سنگھ بھی سکھ ہی تھے۔
انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سابق ڈائریکٹر نہچل سندھو اور ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے سربراہ امرجیت سنگھ دولت جیسے سکھوں نے قومی سلامتی کے عہدوں پر فائز ہو کر اپنا لوہا منوایا ہے۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں جب سے یونانی بادشاہ سکندر نے بھارت پر حملہ کیا، تب سے پنجاب مسلسل حملہ آور فوجوں کے نشانے پر رہا ہے۔ ان حملوں کا سامنا کرنے سے لے کر برطانوی فوج میں سب سے بڑی تعداد میں شامل ہونے کے سبب پنجاب ہمیشہ دفاعی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا آیا ہے۔
سکھوں نے برصغیر کی تقسیم، اپنی سب سے مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر حملہ اور 1984 کے فرقہ وارانہ فسادات سہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو جب ان کے سکھ محافظوں نے قتل کیا، تو اس کا انتقام دہلی اور ملک کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر معصوم سکھوں کا خون بہا کر لیا گیا۔ حتیٰ کہ صدر گیانی ذیل سنگھ کے قافلے تک کو نہیں بخشا گیا۔صحافی کلدیپ نیئر اپنی کتاب 'ٹریجڈی آف پنجاب، آپریشن بلیو اسٹار ایںڈ آفٹر' میں لکھتے ہیں کہ ذیل سنگھ کے قافلے پر دہلی کے صفدر جنگ علاقے کے قریب اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جا رہے تھے، جہاں مسز گاندھی کی باقیات رکھی گئی تھی۔
بہت کم افراد کو معلوم ہو گا کہ من موہن سنگھ بھی اس دن بال بال بچ گئے۔ ایک ہجوم ان کے جان کے درپے ہو گیا تھا۔
مسز گاندھی کے قتل کے وقت وہ ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر تھے۔ وہ ممبئی سے مسز گاندھی کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔ وہ اس کے بعد دہلی میں اپنے گھر اشوک وہار رات گزارنے چلے گئے اور اپنے داماد وجے تنکھا اور بیٹی کو اپنے گھر بلایا۔
دیر رات ایک ہجوم باہر اکھٹا ہوا اور مکان کو جلانے اور سکھوں کر باہر نکال کر مارنے کے لیے نعرے بلند کرنے لگا۔ ان کے داماد نے باہر جا کر ہجوم کو بتایا یہ گھر واقعی ایک سکھ کا تھا، مگر کئی ماہ قبل انہوں نے اس کو خریدا ہے، اور وہ ایک ہندو ہیں۔ کافی سمجھانے بجھانے کے بعد ہجوم وہاں سے جانے پر آمادہ ہوا یا شاید ان کو کوئی اور شکار مل گیا تھا۔
من موہن سنگھ کی سوانح حیات میں، جو ان کی بیٹی دمن سنگھ نے لکھی ہے، کے مطابق سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ پاس کے مندر کا پجاری بھی اس بھیڑ میں شامل تھا اور ہجوم کو اکسا رہا تھا۔ ہجوم کے جانے کے بعد رات کے اندھیرے میں من موہن سنگھ کو ایئر پورٹ پہنچایا گیا، جہاں سے وہ صبح سویرے ممبئی روانہ ہو گئے۔
بقول ریٹائرڈ بیوروکریٹ رمیش اندر سنگھ، اس طرح کے واقعات سے نپٹنے کی جدوجہد نے سکھوں کو ایک ڈسپلن سکھایا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار سربجیت دھالیوال کہتے ہیں، ''جب بھارت خوراک کے لیے پوری دنیا سے ایک طرح سے بھیک مانگ رہا تھا، تو پنجاب کے کسانوں نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ چند برسوں میں ایک سبز انقلاب برپا ہو گیا اور بھارت اناج میں خود کفیل ہو گیا۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ سکھوں کی اس تیز رفتار ترقی کا تعلق ان کے عقیدے سے ہے، جو سکھ گرووں کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔
سکھ عقیدے کی بنیاد محنت، اشتراک، سماجی انصاف اور صنفی مساوات پر رکھی گئی ہے۔منموہن سنگھ اپنی والدہ کو بچپن میں کھو چکے تھے اور ان کی پرورش ان کے دادا دادی نے کی۔ تقسیم کے دوران ان کے دادا کا قتل ہو گیا، جن کے ساتھ ان کا بہت گہرا رشتہ تھا۔ ان کا خاندان ایک نئی شروعات کرنے کے لیے جیب میں صرف چند روپے لے کر بھارت چلا آیا تھا۔ ہوشیار پور میں سڑک کے لیمپ پوسٹ کے نیچے وہ اپنی ہوم ورک کرتے تھے، کیونکہ گھر میں بجلی یا دیا جلانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔
ان کے ابتدائی سال اور ان کا سیاسی کیریئر اپنے چیلنجوں کے ساتھ آیا۔ لیکن آخر میں، وہ اپنے پیچھے ایک قابل فخر وراثت چھوڑ گئے، جس پر بھارت کو ہمیشہ فخر رہے گا۔
یہ اس خطے کا جغرافیہ اور سکھ تعلیمات ہیں، جو کسی بھی مصیبت کو سکھوں پر حاوی نہیں ہونے دیتی۔ ماہر عمرانیات ہرویندر سنگھ بھٹی کہتے ہے، "پنجاب کا پورا علاقہ، افغانستان تک روایتی طور پر ایک قبائلی علاقہ تھا۔
سکھوں کے معاملے میں، مذہبی تعلیمات نے اس قبائلی برادری کو ایک روحانی برادری میں تبدیل کر دیا۔"سکھوں کی یہی خوبی ہے جو انہیں ہر طرح کے ظلم کے خلاف لڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ سکندر سے لے کر اندرا گاندھی کی نافذ کردہ ایمرجنسی اور اب نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے لائے گئے کھیتی کے قوانین کے خلاف حالیہ احتجاج تک، سکھوں نے ان سب کے خلاف آواز بلند کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمرجنسی کے دوران گرفتار کیے گئے 1.4 لاکھ لوگوں میں سے 43000 سکھ تھے۔سکھ مت اپنے پیروکاروں سے کہتا ہے کہ ذاتی اور سماجی زندگی کو کبھی ترک نہ کریں۔ سکھ ازم رہبانیت اور تارک دنیا ہونے کے سخت خلاف ہے۔ یہ ہر سکھ کو ہدایت ہے کہ ایک اچھی زندگی گزارے۔ خود کمائے اور دوسروں کو بھی کھلائے اور اپنی دولت میں سماج کو شریک کرے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا محض 0.4 فیصد ہونے کے باوجود سکھوں کی موجودگی کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔