بنگلہ دیش اورانڈیا،سیاسی تنا ؤاور کشیدگی
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلامی رہنما اب موجود نہیں ہیں۔ عوامی لیگ کی سابق حکومت نے ایسی تمام سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا تھا جو اسے طویل مدت میں نقصان پہنچا سکتی تھی۔ اس میں جماعتِ اسلامی سرِ فہرست تھی جس کے کئی رہنمائوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، جماعت اسلامی کے ہزاروں ارکان کو جیل کی ایسی کال کوٹھڑیوں میں قید کر دیا گیا جہاں روشنی تک نہیں جاتی اور ملک میں اس جماعت پر اب پابندی عائد ہوچکی ہے اور اس کی زیادہ تر قیادت اب ملک سے باہر ہے۔ اب ان جماعتوں کا ملک واپس آنے کا جواز اس لیے نہیں بنتا کیونکہ بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک پرانے چہروں کو نہیں دیکھنا چاہتی اور وہ مذہبی حکومت کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ تو اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔
نئی دہلی سے صحافی جینت رائے چوہدری بھی بنگلہ دیش کے حالات کے پاکستان کے ساتھ موازنہ کو درست نہیں گردانتے۔ انہوں نے بھی حسینہ کے بیٹے کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آج بنگلہ دیش کا موازنہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو اس نے ترقی میں ناصرف پاکستان بلکہ انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت دنیا میں تیارہ شدہ کپڑے برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن ہم حسینہ کے اپنے مخالفین کے ساتھ مظالم اور خوفناک کرپشن کو کیوں بھول جاتے ہیں جس کا تذکرہ اب برطانیہ کے میڈیا میں ان کی بھانجی کا نام لے کر کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء کا غریب ترین ملک تھا جس کے معاشی حالات اتنے ابتر تھے کہ اس وقت امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش کوباسکِٹ کیس کہا تھا۔ یہ حالات 1974 ء میں مزید خراب اس وقت ہوئے جب بنگلہ دیش میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں قحط سالی ہوئی اور اسی دوران امریکی صدر رچرڈ نِکسن کی حکومت نے بنگلہ دیش کو دی جانے والی امداد بھی ختم کر دی۔ مگر آج تقریبا ً52 برس بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بن کر ابھرا ہے۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ غیر سرکاری تنظیموں کا ہے جن میں محمد یونس کا گرامین بینک اور فضلِ حسن عابد کا شروع کیا ہوا ادارہ براک شامل ہیں۔ جینت رائے چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت انڈیا میں یہ خدشہ ہے کہ پاکستان جیسا بننے کے بجائے بنگلہ دیش کہیں افغانستان نہ بن جائے۔ان کے مطابق اس کی مثال 1990ء کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت سے جا ملتی ہے۔ اس وقت کئی بنگلہ دیشی نوجوان طالبان کی سوچ سے متاثر ہو کر افغانستان منتقل ہوگئے تھے اور ان کے لئے لڑنے کو بھی تیار تھے۔ لیکن ان کی حکومت کے گِرنے کے بعد یہی نوجوان واپس بنگلہ دیش آگئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ وہ دور تھا جب شیخ حسینہ واجد کی حکومت کم عرصے کے بعد ختم ہوچکی تھی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ طالبان کی حمایت کرنے والا گروہ اب پھر سے سرگرم ہوسکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان بننے سے زیادہ بڑا خدشہ مجھے بنگلہ دیش کے افغانستان بننے کے بارے میں ہے۔
تاہم پاکستان کے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں انڈیا سٹڈی سینٹر کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کا بنیادی ڈھانچہ بہت مختلف ہے۔ پاکستان میں فوج نے طویل عرصے تک حکمرانی کی ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں تواتر سے جمہوری حکومتیں رہی ہیں۔ 2000ء کی دہائی کے بعد زیادہ عرصہ جمہوری حکومتوں کا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بنیادی طور پر معیشت مضبوط ہوتی دکھائی دی ہے۔ خواتین پہلے سے زیادہ باشعور ہیں اور طلبہ یونین مضبوط رہی ہیں اور ملک کی سیاست کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں۔ یہاں کی اپنی تہذیب، زبان ہے اور جمہوری اقدار کو تقویت دی جاتی ہے۔
بنگلہ دیش کے حالات کا پاکستان کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ بنگلہ دیش میں فوجی آمریت یا حکومت آنے کا سوال نہیں بنتا اور اگر کسی ہائبرڈ نظام کو متعارف کیا بھی جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گا۔ یاد رہے کہ جب بنگلہ دیش کے ملٹری چیف نے شیخ حسینہ کی حکومت ختم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم عبوری حکومت بنائیں گے، تب طلبہ یونین نے ناصرف اس بات کو رد کیا بلکہ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کو بطور امیدوار سامنے لے کر آئے اور بنگلہ دیش کے تمام فوجی افسران نے اپنے چیف کو طلباء کا یہ مطالبہ ماننے کا مشورہ دیا جس کے فوری بعد انہوں نے طلبا ء کے ساتھ باہمی مذاکرات کے بعد محمد یونس کو حکومت بنانے کی دعوت دینی پڑی۔
بنگلہ دیش کی مضبوط طلبہ یونین نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ ان کی متحرک تحریک سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرے گی کیونکہ فوج میں بھی ان کے وفادار اور حامی ہیں۔ فوج میں ان کے حمایتی گروہ کی بنیادی وجہ شیخ حسینہ کی جانب سے اپنی جماعت عوامی لیگ کے ساتھ وفادار فوجیوں کو ترقی دینا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر آرمی چیف وقار الزمان کو بھی دیکھیں تو ان کی وفاداری پہلے شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے ساتھ تھی اور حسینہ واجد کو فرار میں مدد دینے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے خود پر ہونے والی حسینہ واجد کی مہربانیوں کا جواب دیتے ہوئے ان کے فرار میں مدد کی تاہم طلبہ یونین اب نہیں چاہیں گے کہ شیخ حسینہ یا ان کی باقیات اب آنے والی حکومت کا حصہ بنیں۔ تو پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اور بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے طلبہ یونین کی حکومت کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
آرمی چیف اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی ملاقات میں سیاسی گفتگو نہیں ہوئی ، نجی نیوز چینل کا دعویٰ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)آرمی چیف اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی ملاقات کے حوالے سے وضاحت سامنے آگئی۔جیو نیوز کے مطابق بیرسٹرگوہر اور علی امین گنڈاپور سے پشاور میں بات چیت سکیورٹی صورت حال پر ہوئی، دونوں رہنماؤں سے بات چیت انسداد دہشت گردی کے معاملات کے تناظر میں ہوئی۔
ملاقات میں بیرسٹرگوہر نے سیاسی معاملات پر بات کرنے کی کوشش کی، بیرسٹرگوہرکو جواباً بتادیا گیا کہ سیاسی معاملات پربات چیت آپ سیاست دانوں سے کریں۔ بات چیت کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا اور سکیورٹی معاملات پر ہونے والی بات چیت کو سیاسی رنگ دینےکی کوشش کی گئی۔
معروف کاروباری شخصیت ایس ایم تنویر کی والدہ انتقال کرگئیں، نماز جنازہ ادا
اس سے قبل اڈیالہ جیل کے کمرہ عدالت میں بانی پی ٹی آئی نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات کی تصدیق کی اور کہا کہ ’آرمی چیف سے ملاقات خوش آئند بات ہے، اگر کوئی بات چیت شروع ہوئی ہے تو یہ خوش آئند ہے یہ پاکستان کے لیے اچھا ہے، ہم چاہ رہے تھے مذاکرات ہوں، اس میں پاکستان کے استحکام کی بات ہوگی‘۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کو ہم سے بات کرنی چاہیے، میں نے کبھی نہیں کہا کہ مذاکرات بند ہیں، ہمیشہ بات چیت کا کہا، دوسری طرف سے دروازے بند تھے، اب اگر بات چیت شروع ہوئی ہے تو پاکستان کے ہی استحکام کے لیے بات ہوگی‘۔
26ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
مزید :