اہم دینی و ملی مسائل ایک نظر میں
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
میزبان کا پہلا سوال صحابہ کرامؓ کے قرآن کریم کے ساتھ تعلق کے بارے میں تھا جس پر گفتگو کا آغاز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد گرامی سے کیا کہ ’’جو آدمی کسی کو مقتدا بنانا چاہتا ہے تو ایسے آدمی کو بنائے جو وفات پا چکا ہے کیونکہ زندہ آدمی کسی وقت بھی فتنے کا شکار ہو سکتا ہے‘‘۔ پھر حضرت ابن مسعودؓ نے اس کے ساتھ یہ فرمایا کہ ’’اقتدا کے قابل صحابہؓ کی جماعت ہے جو دل کے انتہائی نیک اور علم میں گہرے تھے‘‘۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ صرف قرآن و سنت بلکہ اس دور کے حالات کے بھی اولین راوی ہیں۔ قرآن کریم نے دنیا کو ایمان کی دعوت اس طرح دی کہ ’’ان آمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا وان تولوا فانما ھم فی شقاق‘‘ اگر وہ ایسا ایمان لائیں جیسا تم اصحابِ رسول ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پر ہیں ورنہ وہ گمراہی کا شکار ہیں۔ اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دین اور حق و صداقت کا معیار قرآن کریم نے قرار دیا ہے۔
ایک اور پہلو یہ عرض کیا کہ دین کی بنیاد قرآن کریم، سنتِ رسولؐ اور جماعتِ صحابہ کرامؓ ہے۔ اس حوالے سے کہ قرآن کریم اصول و ضوابط ہیں جس کی عملی شکل جناب نبی کریمؐ کی سنتِ مبارکہ ہے، جبکہ صحابہ کرامؓ کی جماعت اس کی اجتماعی اور سماجی صورت ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب پوچھا گیا تو فرمایا کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘۔ اس کا ترجمہ میں یوں کیا کرتا ہوں کہ جو قرآن پاک میں تھیوری کے طور پر ہے، وہ سنت میں پریکٹیکل کے طور پر ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کسی صاحب نے سوال اٹھایا تھا کہ ہم صحابہؓ کا احترام کرتے ہیں لیکن صحابیؓ کون ہے، اس کی ’’تعریف‘‘ ہونی چاہیے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ وہ ہو چکی ہے، اسے اب ری اوپن نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرامؓ وہی ہیں جنہیں امت چودہ سو سال سے صحابہؓ سمجھتی ہے اور جن کا محدثین نے اسمائے رجال کی کتابوں میں صحابہؓ کے طور پر درجہ بندی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان میں اہلِ بیت بھی ہیں، مہاجرین بھی ہیں، انصار بھی ہیں، اور ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ بھی ہیں جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ ان میں درجہ بندی ضرور ہے لیکن بطور حجت اور آئیڈیل ہونے میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
ابو زرعہ رازیؒ کا قول ’’اذا رايت الرجل ينتقص احداً من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اسی حوالے سے ہے کہ اگر کسی کو صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا عیب بیان کرتے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ دین کے گواہوں کو مجروح کر رہا ہے۔ اس پر تدوینِ قرآن کریم کا واقعہ بھی ذکر کیا کہ جب حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو بلا کر فرمایا کہ حفاظ کرام شہید ہوتے جا رہے ہیں، حضرت عمرؓ نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حافظ یونہی شہید ہوتے گئے تو قرآن کریم کی حفاظت کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو جائے، آپ حضورؐ کے بڑے کاتب رہے ہیں اس لیے آپ قرآن کریم کا ایک نسخہ لکھ دیں۔
حضرت زید بن ثابتؓ اپنا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ میں خود حافظ تھا لیکن بہرحال میں ایک شخص تھا، تو میں نے یہ اصول طے کیا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت، کوئی سورت اور کوئی ترتیب جو میں نے حضورؐ سے سن رکھی ہے، اس پر اپنے علاوہ دو گواہ اور تلاش کروں گا۔ فرماتے ہیں کہ اس کا ذکر میں حضرت صدیق اکبرؓ سے کیا تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا۔ کہتے ہیں کہ مجھے قرآن کریم جمع کرنے اور تقابل کرنے میں تقریباً چھ مہینے لگے۔ کسی کے پاس ہڈی پر کچھ لکھا ہوا تھا، کسی کے پاس پتے پر، کسی کے پاس کھال پر۔ سارا قرآن کریم مکمل کر لیا لیکن دو مقامات پر مجھے اپنے علاوہ صرف ایک گواہ مل رہا تھا جو حضرت خزیمہ بن ثابتؓ تھے۔ ایک سورۃ یونس کی آخری دو آیات تھیں ’’لقد جاءکم رسول من انفسکم…الخ‘‘ اور ایک سورۃ الاحزاب کی آیت ’’من المومنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ…الخ‘‘ تھی۔ فرماتے ہیں کہ بہت کوشش کی لیکن کوئی اور گواہ نہ ملا تو میں یہ معاملہ لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں چلا گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ ایک گواہ کون ہے؟ میں نے بتایا تو فرمایا کہ وہ ’’شہادتین‘‘ والا خزیمہ؟ جس کی گواہی کو حضور نبی کریمؐ نے دو گواہوں کے قائم مقام قرار دیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ جی وہی۔ فرمایا، پھر تو کام ہو گیا۔
اس لیے صحابہ کرامؓ ہمارے ایمان کی بنیاد ہیں اور ان کو مجروح کرنے کا مقصد دین کی بنیادیں ہلانے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
میزبان کا اگلا سوال صحابہ کرامؓ پر ہونے والے تبرا کے بارے میں تھا کہ اس پر حکومت کیوں ایکشن نہیں لیتی اور علماء کرام کیوں خاموش ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حکمران کچھ نہیں کرتے تو ان کی اپنی مصلحتیں ہیں لیکن اہلِ علم نے ہر دور میں اعتراضات کا جواب دیا ہے، آپ کسی بھی دور کا لٹریچر دیکھ لیں۔ البتہ آج کے حالات میں اس کے دو پہلو قابل غور ہیں۔
ایک یہ کہ آج کسی قدغن اور پابندی کے بغیر آزادئ رائے کا جو رجحان پیدا ہو گیا ہے اس نے بہت سی زبانوں کو بے لگام کر دیا ہے اور ’’کل جدید لذیذ‘‘ کے مصداق پر ہر کوئی ہر کسی مسئلہ پر بحث کر رہا ہے۔
دوسرا یہ کہ ہم جو علماء کہلاتے ہیں، ہمیں مطالعے کا ذوق نہیں رہا، ہم بھی سنی سنائی باتیں کرتے ہیں۔ ورنہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں متقدمین سے، امام احمد بن حنبلؒ سے لے کر اب تک ہمارے اہلِ علم نے مسائل اور سوالات کا جواب نہ دیا ہو۔ مثلاً اس مسئلہ پر امام ابن تیمیہؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے بہت کام کیا ہے، میں نوجوان علماء سے کہا کرتا ہوں کہ ان کا مطالعہ کریں اور پھر اگر کوئی سوال رہ جائے تو اس کا حل تلاش کریں۔
دراصل ہمارے ہاں مطالعہ کی کمی کے ساتھ ساتھ سنی سنائی باتوں سے متاثر ہونے اور انہیں بلاوجہ موضوع بنانے کا رجحان پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً مجھ سے آج ہی ایک صاحب نے سوال کیا کہ فلسطین کے دو گروپوں میں جو اختلاف ہے اس کی کیا حیثیت ہے؟ میں نے کہا کہ بھائی اگر نہر میں ڈوب رہا ہو تو اس کو پہلے نکالا جاتا ہے اور بعد میں اس کے ڈوبنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے۔ اصل صورتحال دیکھے بغیر سوال جواب اور بحث مباحثے کا رواج سا بن گیا ہے جس کا نتیجہ ادھورے سوالوں کے ادھورے جوابات کی صورت میں سامنے آتا ہے جو مزید کنفیوژن کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے میں نوجوان علماء سے عرض کیا کرتا ہوں کہ پہلے مطالعہ کریں، اپنے بزرگوں کو پڑھیں، کوئی سوال ایسا نہیں ہے جس کا جواب موجود نہ ہو، لیکن اس کے لیے مطالعہ اور تحقیق کا ذوق بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال آج کے حالات میں علماء کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تھا۔ علماء کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حالات کو سمجھیں کیونکہ فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ جو اپنے زمانے والوں کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کتابی علم اور مباحث کو جانتے ہیں لیکن جس معاشرے پر ان کا اطلاق کرنا ہے اس کو نہیں جانتے۔ اس کی مثال میں نے یہ عرض کی کہ ایک بیج کو میں جانتا ہوں اور اس کے تقاضے سمجھتا ہوں لیکن اس زمین کو نہیں جانتا جس میں وہ زمین بویا جائے گا۔ اس لیے کتاب کا علم تو لازمی بات ہے لیکن اس کے ساتھ سوسائٹی سے واقف ہونا بھی ضروری ہے اور تفقہ دراصل اسے ہی کہتے ہیں۔
میزبان نے سوال کیا کہ دینی مدارس نے تو ہمیں بہت کچھ دیا ہے لیکن آج کے ماحول اور اس سوشل میڈیا کے دور میں علماء کرام کو بطور خاص کیا کرنا چاہیے؟ عرض کیا کہ علماء کرام جس سوسائٹی میں رہ رہے ہیں اس کی نفسیات سمجھیں اور اس کی فریکونسی میں بات کریں۔ دوسری بات یہ کہ مسائل میں اختلاف بہرحال ہوتا ہے، جہاں عقل ہو گی وہاں اختلاف بھی ہو گا، اور اختلاف نہ ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے، لیکن اختلاف کو اختلاف سمجھیں، جھگڑا نہ بنائیں۔ میں علماء کرام کو باہمی ہم آہنگی کے حوالے سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ علاقے کے علماء کبھی آپس میں مل بیٹھ کر چائے پی لیا کریں۔ علاقے کے لوگوں کو مقامی علماء کرام اکٹھے بیٹھے چائے پیتے ہوئے اور خوش دلی سے گپ شپ کرتے نظر آجائیں تو سمجھیں آدھا کام ہو گیا۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کرتا ہوں کہ علماء کرام عرض کیا کہ حوالے سے نہیں ہے بھی ہیں کے ساتھ عرض کی ہو گیا لیکن ا دیا ہے اس لیے ہیں کہ ہے اور
پڑھیں:
ایک اور میثاق جمہوریت تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی. رانا ثنا اللہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 اپریل ۔2025 )وزیر اعظم کے مشیر اور مسلم لیگ (ن ) کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ سیاسی مسائل کو اسٹیبلشمنٹ سے گفتگو کرکے حل کرلیں گے،سیاسی مسائل صرف اس وقت حل ہوں گے جب سیاسی قیادت ٹیبل پر بیٹھے گی، جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی.(جاری ہے)
نجی ٹی وی سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے معاملات میں بری طرح الجھتی جارہی ہے اور جب تک یہ جماعت الجھی رہے گی پاکستانی سیاست کو بھی الجھائے رکھے گی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے ان کو کوئی منزل نہیں ملے گی. مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے ہم نے اپنے مسائل اسٹیبلشمٹ سے بات چیت کر کے حل کرنے ہیں، یہ مسائل ایسے حل نہیں ہوں گے ، جب سیاسی قیادت سر جوڑے گی حل ہوں گے لیکن عمران خان کہتے ہیں میں نے اسٹیبلشمٹ سے ہی بات کرنی ہے. انہوں نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹیز میں جو گفتگو ہوئی سب کو پتا ہے کہ وہاں سے کون چھوڑ کر بھاگا تھا؟ یہ لوگوں کے گھروں تک جا کر ذاتی طور پر زچ کرتے ہیں، عون عباس کو جس طرح گرفتار کیا گیا میں نے اس کی مذمت کی تھی رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ جہاں سے راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں وہاں سے نہیں ملے گا، پی ٹی آئی دور میں ہر طرح کے مسائل موجودہ دور سے زیادہ تھے، اگر سیاسی مسائل بھی حل ہوں تو جو معاملات ایک سال میں حل ہوں ایک ماہ میں ہوں. ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں تقاریر اور خطابات میں بڑی بڑی باتیں ہوجاتی ہیں، میرا یقین ہے جب تک سیاسی جماعتیں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی اور ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تو موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی.