Daily Ausaf:
2025-01-19@13:00:18 GMT

اہم دینی و ملی مسائل ایک نظر میں

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

میزبان کا پہلا سوال صحابہ کرامؓ کے قرآن کریم کے ساتھ تعلق کے بارے میں تھا جس پر گفتگو کا آغاز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد گرامی سے کیا کہ ’’جو آدمی کسی کو مقتدا بنانا چاہتا ہے تو ایسے آدمی کو بنائے جو وفات پا چکا ہے کیونکہ زندہ آدمی کسی وقت بھی فتنے کا شکار ہو سکتا ہے‘‘۔ پھر حضرت ابن مسعودؓ نے اس کے ساتھ یہ فرمایا کہ ’’اقتدا کے قابل صحابہؓ کی جماعت ہے جو دل کے انتہائی نیک اور علم میں گہرے تھے‘‘۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ صرف قرآن و سنت بلکہ اس دور کے حالات کے بھی اولین راوی ہیں۔ قرآن کریم نے دنیا کو ایمان کی دعوت اس طرح دی کہ ’’ان آمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا وان تولوا فانما ھم فی شقاق‘‘ اگر وہ ایسا ایمان لائیں جیسا تم اصحابِ رسول ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پر ہیں ورنہ وہ گمراہی کا شکار ہیں۔ اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دین اور حق و صداقت کا معیار قرآن کریم نے قرار دیا ہے۔
ایک اور پہلو یہ عرض کیا کہ دین کی بنیاد قرآن کریم، سنتِ رسولؐ اور جماعتِ صحابہ کرامؓ ہے۔ اس حوالے سے کہ قرآن کریم اصول و ضوابط ہیں جس کی عملی شکل جناب نبی کریمؐ کی سنتِ مبارکہ ہے، جبکہ صحابہ کرامؓ کی جماعت اس کی اجتماعی اور سماجی صورت ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب پوچھا گیا تو فرمایا کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘۔ اس کا ترجمہ میں یوں کیا کرتا ہوں کہ جو قرآن پاک میں تھیوری کے طور پر ہے، وہ سنت میں پریکٹیکل کے طور پر ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کسی صاحب نے سوال اٹھایا تھا کہ ہم صحابہؓ کا احترام کرتے ہیں لیکن صحابیؓ کون ہے، اس کی ’’تعریف‘‘ ہونی چاہیے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ وہ ہو چکی ہے، اسے اب ری اوپن نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرامؓ وہی ہیں جنہیں امت چودہ سو سال سے صحابہؓ سمجھتی ہے اور جن کا محدثین نے اسمائے رجال کی کتابوں میں صحابہؓ کے طور پر درجہ بندی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان میں اہلِ بیت بھی ہیں، مہاجرین بھی ہیں، انصار بھی ہیں، اور ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ بھی ہیں جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ ان میں درجہ بندی ضرور ہے لیکن بطور حجت اور آئیڈیل ہونے میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
ابو زرعہ رازیؒ کا قول ’’اذا رايت الرجل ينتقص احداً من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اسی حوالے سے ہے کہ اگر کسی کو صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا عیب بیان کرتے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ دین کے گواہوں کو مجروح کر رہا ہے۔ اس پر تدوینِ قرآن کریم کا واقعہ بھی ذکر کیا کہ جب حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو بلا کر فرمایا کہ حفاظ کرام شہید ہوتے جا رہے ہیں، حضرت عمرؓ نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حافظ یونہی شہید ہوتے گئے تو قرآن کریم کی حفاظت کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو جائے، آپ حضورؐ کے بڑے کاتب رہے ہیں اس لیے آپ قرآن کریم کا ایک نسخہ لکھ دیں۔
حضرت زید بن ثابتؓ اپنا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ میں خود حافظ تھا لیکن بہرحال میں ایک شخص تھا، تو میں نے یہ اصول طے کیا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت، کوئی سورت اور کوئی ترتیب جو میں نے حضورؐ سے سن رکھی ہے، اس پر اپنے علاوہ دو گواہ اور تلاش کروں گا۔ فرماتے ہیں کہ اس کا ذکر میں حضرت صدیق اکبرؓ سے کیا تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا۔ کہتے ہیں کہ مجھے قرآن کریم جمع کرنے اور تقابل کرنے میں تقریباً‌ چھ مہینے لگے۔ کسی کے پاس ہڈی پر کچھ لکھا ہوا تھا، کسی کے پاس پتے پر، کسی کے پاس کھال پر۔ سارا قرآن کریم مکمل کر لیا لیکن دو مقامات پر مجھے اپنے علاوہ صرف ایک گواہ مل رہا تھا جو حضرت خزیمہ بن ثابتؓ تھے۔ ایک سورۃ یونس کی آخری دو آیات تھیں ’’لقد جاءکم رسول من انفسکم…الخ‘‘ اور ایک سورۃ الاحزاب کی آیت ’’من المومنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ…الخ‘‘ تھی۔ فرماتے ہیں کہ بہت کوشش کی لیکن کوئی اور گواہ نہ ملا تو میں یہ معاملہ لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں چلا گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ ایک گواہ کون ہے؟ میں نے بتایا تو فرمایا کہ وہ ’’شہادتین‘‘ والا خزیمہ؟ جس کی گواہی کو حضور نبی کریمؐ نے دو گواہوں کے قائم مقام قرار دیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ جی وہی۔ فرمایا، پھر تو کام ہو گیا۔
اس لیے صحابہ کرامؓ ہمارے ایمان کی بنیاد ہیں اور ان کو مجروح کرنے کا مقصد دین کی بنیادیں ہلانے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
میزبان کا اگلا سوال صحابہ کرامؓ پر ہونے والے تبرا کے بارے میں تھا کہ اس پر حکومت کیوں ایکشن نہیں لیتی اور علماء کرام کیوں خاموش ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حکمران کچھ نہیں کرتے تو ان کی اپنی مصلحتیں ہیں لیکن اہلِ علم نے ہر دور میں اعتراضات کا جواب دیا ہے، آپ کسی بھی دور کا لٹریچر دیکھ لیں۔ البتہ آج کے حالات میں اس کے دو پہلو قابل غور ہیں۔
ایک یہ کہ آج کسی قدغن اور پابندی کے بغیر آزادئ رائے کا جو رجحان پیدا ہو گیا ہے اس نے بہت سی زبانوں کو بے لگام کر دیا ہے اور ’’کل جدید لذیذ‘‘ کے مصداق پر ہر کوئی ہر کسی مسئلہ پر بحث کر رہا ہے۔
دوسرا یہ کہ ہم جو علماء کہلاتے ہیں، ہمیں مطالعے کا ذوق نہیں رہا، ہم بھی سنی سنائی باتیں کرتے ہیں۔ ورنہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں متقدمین سے، امام احمد بن حنبلؒ سے لے کر اب تک ہمارے اہلِ علم نے مسائل اور سوالات کا جواب نہ دیا ہو۔ مثلاً‌ اس مسئلہ پر امام ابن تیمیہؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے بہت کام کیا ہے، میں نوجوان علماء سے کہا کرتا ہوں کہ ان کا مطالعہ کریں اور پھر اگر کوئی سوال رہ جائے تو اس کا حل تلاش کریں۔
دراصل ہمارے ہاں مطالعہ کی کمی کے ساتھ ساتھ سنی سنائی باتوں سے متاثر ہونے اور انہیں بلاوجہ موضوع بنانے کا رجحان پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً‌ مجھ سے آج ہی ایک صاحب نے سوال کیا کہ فلسطین کے دو گروپوں میں جو اختلاف ہے اس کی کیا حیثیت ہے؟ میں نے کہا کہ بھائی اگر نہر میں ڈوب رہا ہو تو اس کو پہلے نکالا جاتا ہے اور بعد میں اس کے ڈوبنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے۔ اصل صورتحال دیکھے بغیر سوال جواب اور بحث مباحثے کا رواج سا بن گیا ہے جس کا نتیجہ ادھورے سوالوں کے ادھورے جوابات کی صورت میں سامنے آتا ہے جو مزید کنفیوژن کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے میں نوجوان علماء سے عرض کیا کرتا ہوں کہ پہلے مطالعہ کریں، اپنے بزرگوں کو پڑھیں، کوئی سوال ایسا نہیں ہے جس کا جواب موجود نہ ہو، لیکن اس کے لیے مطالعہ اور تحقیق کا ذوق بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال آج کے حالات میں علماء کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تھا۔ علماء کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حالات کو سمجھیں کیونکہ فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ جو اپنے زمانے والوں کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کتابی علم اور مباحث کو جانتے ہیں لیکن جس معاشرے پر ان کا اطلاق کرنا ہے اس کو نہیں جانتے۔ اس کی مثال میں نے یہ عرض کی کہ ایک بیج کو میں جانتا ہوں اور اس کے تقاضے سمجھتا ہوں لیکن اس زمین کو نہیں جانتا جس میں وہ زمین بویا جائے گا۔ اس لیے کتاب کا علم تو لازمی بات ہے لیکن اس کے ساتھ سوسائٹی سے واقف ہونا بھی ضروری ہے اور تفقہ دراصل اسے ہی کہتے ہیں۔
میزبان نے سوال کیا کہ دینی مدارس نے تو ہمیں بہت کچھ دیا ہے لیکن آج کے ماحول اور اس سوشل میڈیا کے دور میں علماء کرام کو بطور خاص کیا کرنا چاہیے؟ عرض کیا کہ علماء کرام جس سوسائٹی میں رہ رہے ہیں اس کی نفسیات سمجھیں اور اس کی فریکونسی میں بات کریں۔ دوسری بات یہ کہ مسائل میں اختلاف بہرحال ہوتا ہے، جہاں عقل ہو گی وہاں اختلاف بھی ہو گا، اور اختلاف نہ ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے، لیکن اختلاف کو اختلاف سمجھیں، جھگڑا نہ بنائیں۔ میں علماء کرام کو باہمی ہم آہنگی کے حوالے سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ علاقے کے علماء کبھی آپس میں مل بیٹھ کر چائے پی لیا کریں۔ علاقے کے لوگوں کو مقامی علماء کرام اکٹھے بیٹھے چائے پیتے ہوئے اور خوش دلی سے گپ شپ کرتے نظر آجائیں تو سمجھیں آدھا کام ہو گیا۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کرتا ہوں کہ علماء کرام عرض کیا کہ حوالے سے نہیں ہے بھی ہیں کے ساتھ عرض کی ہو گیا لیکن ا دیا ہے اس لیے ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

190ْؑملین کیس میں سزا

میں نیل کرایاں نیلکاں ۔ میرا تن من نیلو نیل ۔ میں سودے کیتے دلاں دے ۔ تے رکھ لے نین وکیل ۔ رب بخیلی نہ کرے ۔ تے بندہ کون بخیل ۔ رات چنے دی چاننی ۔ تے پونی ورگا کاں ۔ اڈیا دانہ باد توں ۔ انوں پیندی رات چناں ۔ جٹی دے ہیٹھ پنگوڑا رنگلا ۔تے ٹھنڈی وناں دے چھاں ۔ گن گن لاندی اٹیاں ۔ وچ لنواںجٹ دا ناں ۔ مینوں لے جا ایتھوں کڈھ کے ۔ سارے جھگڑے جانے مک ۔ باجھ تیرے او مرزیا ۔ نئیں جان میری نوں سکھ ۔ یہ پنجابی لوک داستان مرزا صاحباں پر جو شاعری ہے اس کے چند اشعار ہیں جس میں صاحباں مرزے کو دہائی دینے والے انداز میں کہہ رہی ہے کہ ’’ مینوں لے جا ایتھوں کڈ کے ‘‘ اور پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی بھی پوری دنیا کے آگے دہائیاں دے رہے ہیں کہ ’’ مینوں لے جا ایتھوں کڈ کے ۔ سارے جھگڑے جانے مک ‘‘ لیکن فیر وی یہ این آر او نہیں ہے ۔2021میںبانی پی ٹی آئی کے فین کلب کی جانب سے کہا گیا کہ ہمت ہے تو عدم اعتماد لے آئو اور پھر عدم اعتماد آ گئی۔ عدم اعتماد کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی اور انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں کرپشن ہوئی تھی اور اس میں عمران خان اور بشریٰ بیگم مرکزی کردار ہیں تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے اسیر فین کلب نے کہنا شروع کر دیا کہ ہمت ہے تو ایف آئی آر درج کرو اور پھرحکومت نے ہمت کی اور ایک نہیں بلکہ سینکڑوں ایف آئی آرز درج ہو گئیں ۔جب ایف آئی آرز درج ہو گئیں تو اتنا اندازہ تو سب کو تھا کہ سہولت کاروں نے اپنے مورچے بڑے احسن طریقے سے سنبھالے ہوئے ہیں لہٰذا محرر تھانے کو اتنی دیر ایف آئی آر درج کرنے میں نہیں لگتی تھی کہ جتنی جلدی تھوک کے حساب سے ان کی ضمانتیں ہو جاتی تھیں اور اگر ایک بار گرفتار کیا بھی تھا تو پھر عدل و انصاف کے سب سے بڑے منصب پر فائز منصف نے جس طرح ملزم کی حیثیت سے پیش ہونے والے ایک شخص کی ’’ گڈ ٹو سی یو ‘‘ کہہ کر پذیرائی کی تو اس کے بعد کہاگیا کہ چلو ٹھیک ہے ایف آئی آر تو درج کر لی ہے لیکن اب ہمت ہے تو گرفتار کر کے دکھائو اور پھر جنھوں نے گرفتار کرنا تھا انھوں نے ایسی ہمت دکھائی کہ گرفتار بھی ہو گئے اور گرفتاری کے بعد آج تک میڈیا میں ایک تصویر کے علاوہ کوئی وڈیو یا تصویر یا کوئی آڈیو نہیں آئی۔ بانی پی ٹی آئی نے ایک بار کہا تھا کہ میری ریڈ لائن بشریٰ بیگم ہیں تو فین کلب کی عقل سمجھ اور شعور کی جس حد تک پرواز تھی اس کے تحت کہا گیا کہ ہمت ہے تو بشری بی بی کو گرفتار کر کے دکھائو اور پھر کرنے والوں نے یہ کام بھی کر دکھایا ۔

اس کے بعد کیا ہوا کہ مختلف کیسز چلنے شروع ہوئے تو ابھی وہ فیصلے تک بھی نہیں پہنچتے تھے کہ ان میں ریلیف ملنا شروع ہو گیا ۔ ٹیریان کا کیس ایک ایسا کیس تھاکہ جس میں امریکا کی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے موقف کو رد کرتے ہوئے ٹیریان کی والدہ سیتا وائٹ کو سچا قرار دیا تھا لیکن پاکستان میں اس کیس کو چلنے سے پہلے ہی نا قابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دیا گیا ۔ سائفر ایک ایسا کیس کہ جس میں بانی پی ٹی آئی نے راولپنڈی کے جلسے میں اسے لہرایا اور پھر ایک سے زائد بار ٹی وی انٹرویوز میں ببانگ دہل اس بات کا اقرار بھی کیا کہ ہاں سائفر کی ایک کاپی میرے پاس تھی لیکن وہ مجھ سے گم گئی اور پھر اسی سائفر کی تمام تر تفصیلات ایک غیر ملکی اخبار میں شائع بھی ہو گئیں لیکن عدالت کو اس میں سائفر کہیں نظر نہیں آیا ۔ جب ایسی صورت حال ہو تو پھر فین کلب کا حق بنتا تھا کہ وہ کہے کہ ہمت ہے تو سزا دے کر دیکھائو اور انھوں نے کہابھی اور بار بار کہا کہ ہمت ہے تو سزادے کر دکھائو اور پھر یہ کام بھی ہو گیا اور 190ملین پونڈ کیس میں عمران خان کو14سال قید اور10لاکھ جرمانہ اور ادا نہ کرنے پر مزید چھ ماہ قید اور بشریٰ بیگم کو 7سال قید اور 5لاکھ جرمانہ ۔یہ سزا تو ہونی ہی تھی اور بہت سے لوگوں نے اور خود ہم نے اپنی گذشتہ تحریروں میں یہی کہا تھا کہ سزا کے امکانات زیادہ ہیں لیکن یہاں بھی فضول قسم کی بڑھکیں ماری گئیں کہ ہمت ہے تو سزا دیں تو اب سکون ہو گیا ہو گاکہ سزا ہو گئی ہے اور سزا بھی اس طرح ہوئی ہے کہ فوری طور پر ہائی کورٹ سے ضمانت نہیں ہو سکتی اس لئے کہ قانون کے تحت دس سال تک سزا میں ہائی کورٹ سے ضمانت ہو سکتی ہے لیکن اگر دس سال سے زیادہ سزا ہو تو پھر باقاعدہ کیس چلتا ہے اور وہی سماعت پر سماعت اور پھر کہیں جا کر فیصلہ ہوتا ہے لیکن بشری بی بی کی ضمانت ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی سزا دس سال سے کم یعنی سات سال ہے ۔ یہ تو صورت حال ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا اور خود تحریک انصاف اس کیس کو کس طرح عوام میں پیش کرتی رہی ۔

فیصلے سے ایک دن پہلے تک تحریک انصاف کا طرز سیاست دیکھیں کہ پارٹی کے چیئر مین سر راہ دو ڈھائی منٹ کی آرمی چیف سے ملاقات کو علیحدگی میں تفصیلی ملاقات کا تاثر دے کر سب ہرا ہرا کا منظر نامہ پیش کرتے رہے اور جس دن یہ ملاقات ہوئی اسی دن لندن میں ذلفی بخاری اور شہزاد اکبر برطانیہ میں ایک بریفنگ میں افواج پاکستان اور آرمی چیف کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑ رہے تھے اور تیسری جانب تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ریاست پاکستان اور عسکری قیادت کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف تھا تو ایسے لگتا ہے کہ تحریک انصاف والے اپنے علاوہ سب کو بیوقوف سمجھتے ہیں کہ ایک جانب وہ عسکری قیادت کے خلاف منظم تحریک چلا رہے ہیں اور دوسری جانب وہ اسی عسکری قیادت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ انھیں پھولوں کے ہار پہنا کر این آر او دے تو ایسا اس دنیا میں نہیں ہوتا اور ابھی 9مئی کا کیس باقی ہے اور اس میں اس سے بھی سخت سزا کے امکانات ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کی 9 ہزار مساجد میں 12 لاکھ 50 ہزار بچوں اور نوجوانوں کی اعتکاف میں شرکت
  • 190ْؑملین کیس میں سزا
  • مسلمانوں کو سنبھل کی جامع مسجد ہندوؤں کے حوالے کر دینی چاہیے، یوگی آدتیہ ناتھ
  • معاملہ دل کا ہے
  • پنجاب حکومت کی جانب سے سکولز بسوں کے حوالے سے مجوزہ رولز عدالت میں پیش
  • قرآن کریم کے حقوق
  • سموگ تدارک کیس: سکولز بسوں کے لیے نئے قواعد عدالت میں پیش
  • امام اہلسنت حضرت مفتی احمدالرحمن نوراللہ مرقدہ
  • رسول کریمؐ کی عائلی زندگی کے راہ نما اصول