سیاسی اور عدالتی معاملات میں مذہب کا سہارا
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف نے قانونی پہلوئوں کے بجائے مذہبی جذبات کو چھو کر مظلومیت کا بیانیہ بنانے پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔ یہ بات پہلے بھی زیر تبصرہ رہی کہ سابق وزیر اعظم کی دفاعی ٹیم قابل ذکر کارکردگی پیش نہ کر سکی۔ استغاثہ کے گواہوں پر طویل اور جامع جرح کے باوجود مضبوط شواہد کی وجہ سے استغاثہ کا موقف تسلیم کیا گیا۔ سادہ لفظوں میں دفاعی ٹیم استغاثہ کے موقف کو غلط ثابت نہ کر سکی۔ یہ پہلو تحریک انصاف کے لئے حوصلہ شکن ہے کہ عمران خان بدعنوانی کے مرتکب قرار دیئے گئے ہیں۔ انہیں اختیارات کے غلط استعمال سے مالی منفعت حاصل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 14 سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔ سابق خاتون اول کو جرم میں معاونت اور حوصلہ افزائی کرنے پر سزا سنائی گئی ہے ۔ چیریٹی ڈیڈاور مشترکہ بینک اکائونٹ پر ان کے دستخط نے ان کی شراکت جرم ثابت کر دی۔ نیب آرڈیننس کے سیکشن 10a کے مطابق مشکوک ٹرسٹ کی جائیداد وفاقی حکومت ضبط کر سکتی ہے۔ چنانچہ القادر ٹرسٹ کو حکومتی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔
حکومتی ترجمانوں کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کا میگا کرپشن کیس ہے ۔ دفاعی وکلا نے سیاسی بیانیہ بنا کر کیس کو آگے بڑھایا اور قانونی شواہد پیش کرنے سے گریز کیا ۔ وکیل صفائی نہ تو بے گناہی کے ثبوت پیش کرسکے اور نہ ہی پروسیکیوشن کی طرف سے پیش کردہ ثبوتوں کا توڑ کر سکے ۔ پہلے مرحلے میں مقدمہ ہارنے کے بعد اب مذہب کارڈ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس گھنائونے جرم کو مذہب کے پردے سے ڈھانپ دیا جائے۔ حکومتی موقف ہے کہ یہ کوئی ایدھی یا چھیپا ٹرسٹ کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ٹرسٹ رشو ت کی رقم کو جائز ثابت کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اب جرم کی سنگینی کم کرنے کے لئے سیرت کے حوالے دئیے جا رہے ہیں۔ کرپشن اور دنیا داری کے سیاسی معاملات کو سیرت جیسے مقدس موضوع کے ساتھ جوڑنا قابل مذمت فعل ہے ۔ سزا یافتہ مجرمان کو اپیل کا حق حاصل ہے ۔ بہتر ہوگا کہ مقدمہ قانونی بنیادوں پر لڑا جائے۔ یہ ثابت کیا جائے کہ این سی اے نے جو پیسہ حکومت پاکستان کو دیا تھا وہ قانونی تقاضوں کے مطابق خزانے میں جمع کیا گیا۔ بند لفافے کی کابینہ سے منظوری کا معمہ عدالت کو سمجھانا ہو گا۔ ٹرسٹ کی مالی شفافیت بھی ثابت کرنا ہوگی۔ معروف پراپرٹی ٹائیکون سے بیش قیمت تحائف کی وصولی کے معاملات اور وسیع اراضی کی ٹرسٹ کے نام منتقلی نے اس مقدمے میں سابق وزیراعظم اور سابق خاتون اول کے لیے بہت سی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں ۔ تحریک انصاف کی جانب سے ان کے دفاع میں قانونی نکات کے بجائے مذہبی حوالے اور مقدس ہستیوں کے ناموں کا استعمال عدالت میں کسی کام نہیں آسکے گا۔ تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر عدالتی فیصلے کو غلط ثابت کرنے کے لیے مذہبی کارڈ کے بے دریغ استعمال کی مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی مذمت کی گئی ہے۔ ملک کے معروف علماء اور دینی اداروں نے اس طرز عمل کے خلاف شرعی احکامات بیان کر کے یہ مشورہ دیا ہے کہ سیاسی معاملات میں مذہبی جذبات کا استحصال مناسب نہیں۔
اگرچہ حکومتی ترجمان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کو احتساب عدالت سے سزا ملنے کے فیصلے پر بے پناہ اظہار مسرت کر رہے ہیں لیکن وہ یہ پہلو بھی نظر انداز نہ کریں کہ چند سال قبل ان کی جماعت اور قیادت بھی ایسے ہی مقدمات کا شکار ہو کر عدالتوں کے چکر کاٹا کرتی تھی۔ پاکستان کے عجیب و غریب سیاسی ماحول میں سیاسی قیادت کا مقدمات میں سزا پانا اور پھر کچھ عرصے بعد قانونی جنگ لڑ کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا ایک معمول سا بن گیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے عہد حکومت میں ان اقدامات سے گریز کریں جن سے آنے والے دنوں میں ان کی دیانت اور ساکھ پر سوالات اٹھیں۔ دنیابھر میں ہمارے حکمرانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی کرپشن کے مقدمات کی گونج دنیا بھر کے میڈیا میں سنائی دے رہی ہے۔ لندن میں پاکستان سے غیر قانونی طریقوں سے بھیجی گئی رقوم واپس بھیجی جا رہی ہیں اور پھر حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ جن صاحب نے بند لفافے میں 190 ملین پائونڈ رقم کی پاکستان ترسیل کا معاہدہ کیا وہ خود اس وقت لندن میں روپوش ہیں۔ اس کے علاوہ بھی القادر ٹرسٹ مقدمے سے جڑے بہت سے کردار عدالتی حکم کے تحت مفرور قرار دیے جا چکے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں اختیار کے غلط استعمال اور بدعنوانی کے رجحان کو ہر قیمت پر ختم کیا جائے۔ احتساب عدالت کا فیصلہ کئی اعتبار سے پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہوگا۔
بانی چیئرمین پی ٹی آئی ان پہلوئوں پر غور کریں کہ جن سیاسی رفقا کے مشوروں کی وجہ سے آج وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں آنے والے دنوں میں وہ میں ایسے نادان اور بدعنوان مشیروں سے اپنا دامن کس طرح بچائیں گے؟ یہ امر بھی لائق مذمت ہے کہ سیاسی معاملات اور بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کے لیے مذہبی حوالے استعمال کیے جارہے ہیں۔ بہتر ہے کہ سیاسی اور دنیاوی معاملات میں مذہب اور مقدس ہستیوں کے بے جا استعمال سے گریز کیا جائے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے قانونی محاذ پر صف بندی کی جائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تحریک انصاف ہے کہ سیاسی کرنے کے کیا جا کے لیے
پڑھیں:
امریکی فیڈرل جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو 5لاکھ لاطینی شہریوں کی قانونی حیثیت ختم کرنے سے روک دیا
بوسٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 اپریل ۔2025 )امریکا کے فیڈرل جج نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو وینزویلا، کیوبا، نکاراگوا اور ہیٹی سے آنے والے لاکھوں تارکین وطن کی قانونی حیثیت فوری طور پر منسوخ کرنے سے روک دیا ہے نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بوسٹن کے فیڈرل جج اندرا تالوانی کا یہ فیصلہ ٹرمپ کی جانب سے بڑے پیمانے پر ملک بدری، خاص طور پر لاطینی امریکیوں کو نشانہ بنانے کے تیزی سے دباﺅ کے خلاف تازہ ترین حکم ہے.(جاری ہے)
مارچ میں امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ کیوبا، ہیٹی، نکارا گوا اور وینزویلا کے تقریباً 5 لاکھ 32 ہزار شہریوں کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے جو اکتوبر 2022 میں سابق صدر جو بائیڈن کی جانب سے شروع کیے گئے ”پیرول‘ ‘پروگرام کے تحت امریکا آئے تھے فیڈرل جج اندرا تالوانی نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ عدالت کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے شہریوں کے لیے پیرول کے خاتمے پر روک لگاتے ہوئے ہنگامی ریلیف فراہم کرتی ہے. پیرول پروگرام کے تحت ان 4 ممالک سے ماہانہ 30 ہزار تارکین وطن کو 2 سال کے لیے امریکا میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی اپنے حکم میں خاتون جج نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن قانون کی غلط تشریح پر عمل کیا ہے جس کے تحت غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے غیر ملکی شہریوں کو فوری طور پر ہٹایا گیا لیکن ان لوگوں پر نہیں جو ملک میں رہنے کے مجاز ہیں ان میں پیرول پروگرام کے ذریعے آنے والے افراد شامل ہیں. صدر ٹرمپ کی جانب سے ان تارکین وطن کو 24 اپریل سے قانونی تحفظ سے محروم کر دیا جائے گا جس کے صرف 30 دن بعد ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے اپنا حکم فیڈرل رجسٹر میں شائع کیا تھا. غیر قانونی امیگریشن کے خلاف انتخابی مہم چلانے کے بعد ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت میں لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے دیگر اقدامات کے علاوہ انہوں نے وینز ویلا کے ایک گینگ کے سیکڑوں مبینہ ارکان کو ایل سلواڈور بھیجنے کے لیے جنگ کے دوران نایاب قانون سازی کا استعمال کیا، جس کے تحت تارکین وطن کو قید کیا جارہا ہے.