100دِن چور کے ایک دِن سادھ کا
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
کہا جاتا ہے کہ وقت کے ساتھ چور اور جھوٹے کی حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے۔ سو دِن چور کے ایک دِن سادھ کا ‘کا محاورہ صرف ایک کہاوت نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جس کا مشاہدہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو190 ملین پائونڈز کے کرپشن کیس کی سزا کے بعد ہوا۔ جو ملک کے عوام کے لیے ایک سنجیدہ پیغام ہے کہ بدعنوانی کا کوئی بھی چہرہ چاہے کتنا بھی طاقتور ہو آخرکار قانون کی گرفت میں آتا ہے۔
اس کیس کی ابتدا 190ملین پائونڈز کی رقم کے حوالے سے ہوئی ۔ یہ رقم پاکستان کے حکومتی خزانے میں منتقل ہونے کی بجائے، کسی اور کے اکائونٹ میں ڈال دی گئی۔ عمران خان نے اس کے عوض ملک ریاض سے 5 ارب روپے کا فائدہ حاصل کر لیا۔ جو کہ اسٹیٹ کے اکائونٹ میں جانے کے بجائے سپریم کورٹ والے اکائونٹ میں ڈالے گئے اور اس کے نتیجے میں ملک ریاض کو 66 ارب کا فائدہ ہوا۔ یہ فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ اگر کوئی شخص اتنی بڑی رقم میں گھپلا کرتا ہے تو اس کی گرفتاری اور سزا ضروری ہے۔
پاکستان میں عدالتوں کا نظام ہمیشہ سے سست اور پیچیدہ رہا ہے لیکن اس کیس کی سماعت نے یہ ثابت کیا کہ جب کوئی بڑی شخصیت قانون کے دائرے سے باہر نکلنے یا جلائو گھیرائو اور ملک بند کرنے کی دھمکیوں سے عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے مگر آخرکار قانون کی گرفت آتی ہے۔ اس کیس کی سماعت ایک سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی اور اس دوران 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں۔ عدالت نے 23 دسمبر 2024 ء کو فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی مگر عمران خان اور ان کے وکلا کی جانب سے تاخیری حربوں کی بنا پر فیصلہ موخر ہوتا رہا۔ پاکستان میں کرپشن کے بے شمار کیسز ہیں مگر عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف 190ملین پائونڈز کے کیس نے ایک نیا موڑ لیا۔ عدالت نے 17 جنوری 2025 ء کو اس کیس کا فیصلہ سنایا جس میں عمران خان کو 14 سال قید با مشقت اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی گئی، جبکہ بشری بی بی کو 7 سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کو حکومتی تحویل میں لینے کا حکم بھی دیا۔ کیونکہ یہ یونیورسٹی کرپشن کے پیسوں سے بنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ، عدالت نے یونیورسٹی کی اراضی کو بھی بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم دیا ۔
احتساب عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ 190 ملین پائونڈز ریفرنس میں وکلائے صفائی استغاثہ کی شہادتوں کو جھٹلا نہیں سکے۔ استغاثہ کا مقدمہ دستاویزی شہادتوں پر تھا جو درست ثابت ہوئیں۔ استغاثہ نے ٹھوس، مستند،مربوط، ناقابل تردید، قابل اعتماد، قابل انحصارشہادت پیش کی۔ فیصلے کے مطابق تفتیشی افسرسمیت متعدد گواہوں پرطویل جرح بھی انہیں متزلزل نہ کرسکی۔ ان کی شہادتیں تسلسل اور ربط کی حامل تھیں۔ معمولی تضادات ہو سکتے ہیں جو وائٹ کالرکرائم میں فطری بات ہے۔ وافر مواقع ملنے کے باوجود استغاثہ کے موقف کو جھٹلا نہیں سکا۔عدالت نے فیصلے میں مزید لکھا کہ ملزمان کے دفاع میں پیش کی گئی دستاویزی شہادتیں بھی بے وقعت تھیں۔ وکلائے صفائی کے پیش کیے گئے قانونی حوالے بھی کیس کے حقائق سے غیرمتعلق تھے۔ شہادتوں کی روشنی میں بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کی بریت درخواستیں بھی مسترد کی جاتی ہیں۔عدالت نے فیصلے کی کاپیاں مجرموں کو بلامعاوضہ فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ مجرمان چاہیں تو فیصلے کیخلاف متعلقہ فورم پر اپیل کرسکتے ہیں۔ ۔
جیسے ہی جج نے فیصلہ سنایا، بشری بی بی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا، جو کہ اس بات کا غماز ہے کہ عدالتی عمل میں کوئی شخص بھی اپنی پوزیشن یا طاقت کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھ سکتا۔ یہ فیصلہ پاکستان کی عدالت کے نظام کی ایک اہم جیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس نے ثابت کر دیا کہ قانون سب کے لیے یکساں ہے، چاہے آپ کتنے ہی طاقتور ہوں۔
عمران خان اللہ کی طرف سے ملنے والی عزت کو برقرار نہ رکھ سکے اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ وہ کرپشن کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ تاہم، یہ حقیقت اب بے نقاب ہو چکی ہے کہ عمران خان نے خود اپنی حکومت کے دوران بدعنوانیوں کی چھپی ہوئی داستانیں چھپانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ ان کی حکومت نے اپنے دور میں ایسے فیصلے کیے، جن سے عوامی خزانے پر بوجھ پڑا۔ 190 ملین پائونڈز کا یہ اسکینڈل اس بات کا غماز ہے کہ عمران خان نے اقتدار کے دوران قومی خزانے کا غلط استعمال کیا۔
عمران خان کی تیس سالہ سیاست نے ثابت کیا ہے کہ ان کا احتساب اور انصاف وغیرہ کے نعرے عوام کے ساتھ محض دھوکے کے سوا کچھ نہیں تھے۔وہ آج ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آ رہے ہیں جس کی لالچ، غرور اور تکبر نے اسے اپنے سیاسی سفر کی تباہی کی راہ پر ڈال دیا۔ جب عمران خان وزیرِاعظم بنے تو انہیں ایسا احساس ہوا کہ وہ صرف ایک ملک کے سیاسی رہنما نہیں بلکہ پوری دنیا کے بادشاہ بن چکے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے اقتدار کو اس طرح استعمال کیا جیسے یہ ان کی ذاتی جاگیر ہو اور عوام و ادارے محض ان کے ذاتی مفادات کے لیے ہیں۔
عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی اپنے سیاسی مخالفین کو محض اپنا ذاتی دشمن سمجھا اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں بدلتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کی کوشش کی بلکہ ان کی ذلت اور تکلیف کو دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ جیلوں میں بند اپنے سیاسی مخالفین کی تکالیف کی ویڈیوز دیکھ کر عمران خان کو ایک عجیب سی تسکین ملتی تھی۔ تاریخ نے شاید ہی کسی ایسے کینہ پرور سیاستدان کو دیکھا ہو جیسا کہ عمران خان تھا۔ وہ ایک وقت میں قوم کو ایک نئے دور کا خواب دکھا رہے تھے مگر ان کی اپنی خودغرضی اور عیش و عشرت کی خواہش نے ان کے سیاسی نظریات کو بے رحمی سے تباہ کر دیا۔ ان کے فیصلوں اور رویوں نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو ایک پیچیدہ اور تقسیم شدہ صورتحال میں مبتلا کر دیا اور آخرکار ان کی اپنی لالچ اور تکبر نے انہیں اس راستے پر ڈال دیا جہاں آج انہیں قانون کا سامنا ہے۔ عمران خان کا معاملہ اس بات کا غماز ہے کہ اقتدار کا نشہ اور خودپسندی انسان کو کیسے اندھیرے میں لے جا سکتی ہے جہاں سے واپس آنا ممکن نہیں رہتا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اس بات کا غماز ہے کہ فیصلے میں نے فیصلے عدالت نے کر دیا اور ان کیس کی اس کیس
پڑھیں:
کون مجرم؟ کون سہولت کار؟اور کسے اشتہاری قرار دیا گیا؟ تفصیلی فیصلہ جانیں
احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈز کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا، جس میں ملزمان میں سے کوئی مجرم، کوئی سہولت کار اور کوئی اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔
148 صفحات پر مشتمل احتساب عدالت کے تفصیلی فیصلے کے مطابق عمران خان کو مجرم قرار دیتے ہوئے 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے جب کہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔عدالت نے دونوں کو قید کے علاوہ جرمانے کی سزا بھی سنائی۔
فیصلے میں ذلفی بخاری، مرزا شہزاد اکبر، فرحت شہزادی عرف گوگی، ضیا المصطفی نسیم سمیت 6 ملزمان کو فیصلے میں اشتہاری قرار دیا گیا۔
فائیو جی ٹیکنالوجی کب لانچ ہوگی؟ تاریخ سامنے آگئی