سیف علی خان پر حملہ کرنے والا ہندو یا مسلمان؟ پولیس نے بیان بدل دیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
بالی ووڈ اسٹار سیف علی خان پر حملہ کرنے والے گرفتار شخص کو بھارتی پولیس نے پہلے ہندو بتانے کے بعد اب بیان بدل کر اسے بنگلہ دیشی مسلمان قرار دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق سیف علی خان پر چاقو سے حملہ کرنے والے ملزم کو ممبئی پولیس نے چھتیس گڑھ سے ٹرین میں سفر کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا، جس کی شناخت 31 سالہ آکاش کنوجیا کے نام سے ہوئی تھی۔
لیکن اب تازہ اطلاعات کے مطابق بھارتی میڈیا کا نیا دعویٰ سامنے آیا ہے جس میں بتایا جارہا ہے کہ گرفتار ملزم ہندو نہیں بلکہ بنگلہ دیشی مسلمان نے جو بھارت میں مختلف نام استعمال کررہا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ شب حملہ آور کی گرفتاری کے بعد بھارتی میڈیا نے ہی ملزم کا نام آکاش کنوجیا اور ہندو مذہب سے تعلق بتایا تھا لیکن اب یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملزم کا اصل نام محمد شریف الاسلام ہے جس کا بنگلہ دیش سے تعلق ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ملزم تھانے میں ایک ہاؤس کیپنگ ایجنسی کے ساتھ کام کرتا تھا جسے ہیرانندانی اسٹیٹ کے عالقے میں میٹرو کی تعمیراتی سائٹ کے قریب لیبر کیمپ سے گرفتار کیا گیا ہے۔
میڈیا میں بتایا جارہا ہے کہ یہ انکشاف ممبئی پولیس کے ایک اہلکار کی جانب سے کیا گیا ہے کہ گرفتار ملزم سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق اس کا نام محمد شریف الاسلام شہزاد ہے اور وہ بنگلہ دیش کا شہری کا جو غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہوا تھا۔ ملزم بھارت میں مختلف ناموں کا استعمال کرتا رہا جن میں بیجوئے داس، وجے داس، محمد الیاس اور بی جے شامل ہیں۔
بھارتی پولیس کا مزید کہنا ہے کہ ملزم گزشتہ سات آٹھ ماہ سے ممبئی اور تھانے میں مختلف مقامات پر کام کررہا تھا۔ جبکہ گرفتاری سے چند روز قبل تک وہ ایک کنٹریکٹر کے ساتھ تعمیراتی جگہ پر کام کررہا تھا۔ سیف علی خان پر حملے کے بعد ملزم نے اپنا موبائل فون بند کردیا تھا اور خبروں کے ذریعے خود کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے جگہ تبدیل کررہا تھا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیف علی خان پر بھارتی میڈیا کررہا تھا کے مطابق
پڑھیں:
اترپردیش میں بجرنگ دل کے تبدیلی مذہب کے الزام کے بعد پانچ مسلمان گرفتار
ہمیر پور کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس منوج کمار گپتا نے بتایا کہ موداہا میں ایک شخص کے گھر پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کی کوشش کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی اور پانچ مسلمانوں کو گرفتار کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے ہمیر پور ضلع میں پولیس نے ایک دلت خاندان کے گھر پر "عرس" منانے اور "دعائیہ پروگرام" منعقد کرنے کے سلسلے میں "غیر قانونی تبدیلی مذہب" کے الزام میں پانچ مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے۔ اس کیس کے مرکز میں ایک دلت خاندان ہے، جس میں ایک خاتون ارمیلا اور اس کے شوہر اجیت ورما نے مبینہ طور پر ملزمین کے کہنے پر ہمیر پور کے موداہا علاقے میں اپنے گھر کے اندر ایک مزار کی تعمیر کرائی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ارمیلا کی بیماریاں ٹھیک ہوجائیں گی اور اس کی پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔ جب یہ دلت خاندان 10 جنوری کی رات اپنے گھر کے اندر عرس کا اہتمام کررہا تھا، تو ہندوتوا تنظیم بجرنگ دل کے اراکین نے اس پروگرام میں خلل ڈالا اور اس کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی۔ اس پر الزام لگایا گیا کہ مسلمان اس دلت خاندان کو اسلام قبول کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس سلسلے میں بجرنگ دل ضلع یونٹ کے سابق کوآرڈینیٹر آشیش سنگھ نے ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ جب ہم رات 2.30 بجے وہاں پہنچے تو گھر میں عرس کا پروگرام چل رہا تھا۔ درگاہ پر چادر چڑھائی جارہی تھی، کچھ مولانا تقریر کر رہے تھے۔ وہ دلت خاندان کو ان کی بیماری کا علاج کرنے اور پیسے دینے کا وعدہ کرکے اسلام قبول کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ معلوم ہو کہ اس معاملے میں 10 جنوری کو ہی چار مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور ایک کو ایک دن بعد گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے جن پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان لوگوں کے خلاف مجرمانہ دھمکی دینے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اترپردیش کے تبدیلی مذہب ایکٹ 2021 کی دفعہ 3 اور 5 (1) لگائی گئی ہے۔ تاہم مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ارمیلا نے ان پانچوں افراد کے خلاف کوئی منفی تبصرہ نہیں کیا، لیکن ایف آئی آر ان کے نام پر کی گئی شکایت پر ہی درج کی گئی تھی۔
ہمیر پور کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس منوج کمار گپتا نے بتایا کہ موداہا میں ایک شخص کے گھر پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کی کوشش کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی۔ موداہا پولیس اسٹیشن کے باہر ہمیر پور میں ایک مقامی یوٹیوب چینل سے بات کرتے ہوئے اجیت ورما اور ارمیلا نے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ارمیلا نے کہا "نور الدین نے مجھے ہر سال عرس کرنے کو کہا، مجھے نہیں معلوم کہ عرس کیا ہے، میں ہندو ہوں، مسلمانوں کی طرح پوجا کیسے کر سکتی ہوں"۔