ہم سب کے لئے دو قسم کی پیشین گوئیاں اہم ہیں، ایک سیاسی اور دوسری معاشی، میں نے بہت سارے ستارہ شناسوں کو سنا ہے اور ان میں سے کئی مجھے ایسے لگتے ہیں جو خود میری پوسٹس یا کالم پڑھ کے پیشین گوئیاں کرتے ہیں جیسے ایک صاحب، انہوں نے عمران خان کے برے مستقبل بارے تو کہا مگر پھر حد ہی عبور کر گئے، غلط دعویٰ کیا کہ بُشریٰ بی بی اپنے شوہرسے الگ ہوجائیں گی۔ ایک ، دو ستارہ شناس ایسے بھی تھے جو دعوے کر رہے تھے کہ عمران خان کا دور واپس آنے والا ہے اور میں نے اپنے پروگرام میں کہہ دیا کہ مجھے ستاروں کی چالوں کاعلم نہیں مگر سیاسی چالوں کا ضرور ہے، عمران خان کا برا وقت ابھی چلے گا اورمجھے سیاسی حالات عین وہی نظر آ رہے ہیں جو 2022ء سے چل رہے ہیں۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آپ کے حالات عمل سے زیادہ ردعمل پر انحصار کرتے ہیں بلکہ پوری زندگی کے راستے کا تعین کرتے ہیں۔ اس کی سادہ سی مثال یوں ہے کہ ایک طالب علم کو استاد نے سبق یاد نہ کرنے پر ڈانٹا یا پھینٹی لگا دی تووہ ڈر گیا، محتاط ہوگیا، محنت کرنے لگا اور امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوگیا، اسی بنیاد پر اسے اچھی نوکری مل گئی اوراس کی زندگی سنور گئی مگر اسی طالب علم نے اسی ڈانٹ اور پھینٹی کے بعد سکول سے بھاگنے کی عادت بنا لی، لچوں اور لفنگوں کا ساتھی ہوگیا تواس کی زندگی بگڑ گئی۔ سو میں اپنے مرشد کے شعر کو یوں بھی پڑھ لیتا ہوں کہ ردعمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ عمران خان کو اسے لانے والی اسٹیبلشمنٹ نے بتایا تھا کہ آپ کی ناقص کارکردگی اور بین الاقوامی سطح پر ناقص رویوں کی وجہ سے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ ہم ڈنڈے کے زور پر آپ کے اتحادیوں کو ا ٓپ کے ساتھ جوڑے رکھیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان دوپہر بارہ، ایک بجے بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر پر ایوان وزیراعظم آنے اور شام ہوتے ہیں واپس اپنے محل میں لوٹ جانے کی عادت چھوڑ دیتے مگر انہوںنے دوسرے طالب علم والا رویہ اختیار کیا۔ انہیں جو وارننگ دی گئی تھی وہ عین ملک و قوم کے مفاد میں تھی مگر ان کا ردعمل غلط تھااور پھر یہ غلط ردعمل اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب اگلے برس نو مئی کو انہیں گرفتار کیا گیا۔ وہ ملکی تاریخ میں گرفتار ہونے والے پہلے وزیراعظم نہیں تھے۔ وہ اپنے آئینی حقوق اور سیاسی طاقت دونوں سے مدد لے سکتے تھے مگر انہوں نے بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا راستہ چنا جس کی قیمت وہ آج تک ادا کر رہے ہیں۔ عمران خان نہیں بدلے تو ان کے حالات کیسے بدل سکتے ہیں؟
سول میڈیا کے کچھ احمق اپریل 2022ء سے ہی لکھ رہے ہیں کہ عمران خان واپس آ رہا ہے مگر اب تین برس ہونے والے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ان تین برسوں میں عمران خان نے اپنے لئے حالات بد سے بدترین کئے ہیں۔ میرا یہ یقین بڑھ رہا ہے کہ عمران خان اور اس کے سیاسی دھڑے کا 2025ء بھی ویسا ہی گزرے گا جیسا 2024ء گزرا۔ 190 ملین پاونڈز کیس میں سزا ہونے کے بعد ان کی رہائی مزید مشکل ہو گئی ہے بلکہ اہلیہ بھی ایک مرتبہ پھر جیل پہنچ گئی ہیں۔ میرا ندازہ ہے کہ بُشریٰ بی بی کو ایک مرتبہ پھر ضمانت مل سکتی ہے، ان کی سزا معطل ہوسکتی ہے مگر چودہ برس کی سزا کی معطلی اورضمانت قانونی حلقوں کے مطابق آسان کام نہیںہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان نے فائنل کال کی ناکامی کے بعد سرنڈر کیا ہے۔انہوں نے حکومت کو ایک بڑا ریلیف یہ بھی دیا ہے کہ وہ گذشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے دستبردار ہو گئے ہیں کہ حکومت کے سامنے جو چارٹر آف ڈیمانڈ رکھا گیا ہے اس میں انٹرنیٹ کی بندش کی تحقیقات تک کے الم غلم مطالبات تو موجود ہیں مگر الیکشن آڈٹ کا مطالبہ نہیں ہے۔ نوے فیصد امکانات ہیں کہ عمران خان یہ پورا برس بھی جیل میں ہی رہیں گے ۔ آپ پوچھیں گے کہ دس فیصد امکانات کیوں تو جواب دوسرے پیراگراف میں ہے کہ عمران خان نے کچھ کچھ اپنے ردعمل کو بدلا ہے سو وہ کچھ کچھ ریلیف کے حقدار ہو گئے ہیں۔
مجھے 2025ء میں شہباز شریف کی حکومت کے لئے کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان میں حکومت کے کھڑے رہنے کے دو ستون ہوتے ہیں۔ ایک مقبولیت اور دوسرے قبولیت۔ حکومت اپنی کوششوں اور محنت سے مسلسل مقبولیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔حکومت کے حق میں تمام سرویز پہلے سے بہتر آ رہے ہیں اوردوسری طرف پی ٹی آئی عملی طور پر پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے کسی قسم کے بھی موثر احتجاج کی اہلیت کھو بیٹھی ہے بلکہ پورا زور لگا کے دی جانے والی فائنل کال میں بھی اس کے مرکزی جنرل سیکرٹری تک لاہور جیسے سیاسی شہر میں اکیلے ہی گاڑی میں گھومتے اور ویڈیو بیان جاری کرتے نظر آئے، ہاں، اس برس پاکستان کے اوپر امریکی دبائو کسی حد تک بڑھ سکتا ہے اور یہ صرف عمران خان کے حوالے سے نہیں ہوگا بلکہ یہ پاکستان کے میزائل پروگرام،چین سے سی پیک ٹو کے آغاز اور ایران سے گیس پائپ لائن سمیت تجارتی منصوبوں پر ہوسکتا ہے مگر دوسری طرف پاکستان مزاحمت کرتا ہوا نظر آ رہا ہے بالکل اسی طرح جیسے اس نے ایٹمی دھماکوں کے موقعے پر کی تھی، افغانستان میں اپنی فوجیں نہ بھیجنے اور سلالہ واقعے کے بعد نیٹو سپلائی روکنے جیسے بڑے اقدامات کے ذریعے کی تھی۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان اپنے داخلی اور خارجی امور پر دبائو قبول نہیں کرے گا اور تمام فیصلے امریکہ نہیں ریاست کے اپنے مفاد میں ہوں گے۔ حکومت نے اگلے برس میں داخل ہوتے ہوئے عدلیہ کے اندھے کنویں کو بھی بھرنے کی کوشش کی ہے ورنہ ماضی میں اس کنویں میں وزرائے اعظم گرتے رہے ہیں۔
2025ء بنیادی طورپر سیاسی کی بجائے معاشی پیش رفت کا سال ہوگا۔ پاکستان کے پچھلے اڑھائی، تین برس بہت مشکل گزرے ہیں ۔ شہباز شریف حکومت نے ملک کواس ڈیفالٹ سے بچایا ہے جس کے کنارے پر عمران خان نے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑ کے پہنچا دیا تھا۔ اس وقت بے یقینی کا یہ عالم تھا کہ لوگ بوریوں میں ڈالر سمگل کر رہے تھے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ساڑھے تین سو تک جا پہنچا تھا۔ معیشت کو تباہ کرنا اتنا ہی آسان ہے جیسے کسی گاڑی کو پہاڑی سڑک پر نیچے کی طرف دھکیل دیا جائے اور اس کو بحال کرنا اتنا ہی مشکل ہے جیسے اسی گاڑی کو آپ کسی کھائی سے نکال کے واپس سڑک پر لا رہے ہوں، اسے دوڑنے کے قابل بنا رہے ہوں۔ اس برس کی پہلی ششماہی میں شہباز حکومت کے بڑے کارناموں میں بجلی کے بڑھے ہوئے نرخوں کی واپسی ہوگی جبکہ دوسری ششماہی یعنی جولائی سے دسمبر تک کاروباروں کی بحالی ،بڑھوتری ہوگی جس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع اور عوام کی آمدن بڑھے گی اور نیچے تک خوشحالی آئے گی۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کہ عمران خان حکومت کے رہے ہیں ہیں کہ رہا ہے کے بعد
پڑھیں:
190ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پر عمران خان کا بیان بھی سامنے آ گیا
راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن)اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کی جانب سے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائے جانے کے فیصلے کے بعد کمرہ عدالت میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کی جانب سے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آج فیصلے نے عدلیہ کی ساکھ کوخراب کردیا، اس کیس میں نہ مجھے فائدہ ہوا ہے اور نہ حکومت کو کوئی نقصان ہوا ہے۔
بھارتی میڈیا نے کپتان روہت شرماکے پاکستان آنے سے متعلق حیران کن دعویٰ کر دیا
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی ریلیف نہیں چاہیے، تمام کیسز کا سامنا کروں گا، ایک آمراپنی ذات کے لیے یہ سب کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاردیواری کا تقدس پامال کرنے والے پولیس افسران کوپلاٹ دیے گئے، جوساتھ ہے وہ آزاد ہیں اور جو مخالف ہیں انہیں سزائیں دی جارہی ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میری اہلیہ گھریلو عورت ہے، اس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، اہلیہ کوسزا مجھے تکلیف دینے کے لیے دی گئی۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ غور سے سن لیں کہ میں کسی قسم کی ڈیل نہیں کروں گا، 1971 میں جنرل یحییٰ نے ملک تباہ کیا، آج آمر بھی اپنے فائدے کیلئے یہی کام کر رہا ہے۔
190ملین پاؤنڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا، فیصل واوڈا نے ایک اور دعویٰ کردیا
عمران خان نے کہا کہ آج سارا میڈیا آیا ہے، کہیں پک اینڈ چوز تو نہیں کیا، سزا جتنی بھی سنائیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، نواز، شہباز اور زرداری ڈکٹیٹر کے ساتھ ہیں اس لیے ان کہ سزائیں معاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر سال شوکت خانم کا 9 ارب روپے کا فنڈ اکھٹا ہوتا ہے، ہم نے کبھی ایک روپے کہ بھی کرپشن نہیں کی۔
دوران گفتگو، ایک صحافی نے اسرائیل کے حوالے سے سوال کیا تو عمران خان نے کہا کہ اسرائیل کی مذمت کہاں سے آگئی، ابھی اس کیس پر بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سزائیں کس طرح سنارہے ہیں، مجھے کوئی مالی فائدہ نہیں ہوا۔
190ملین پاؤنڈکیس 15سے 20دن میں ختم ہوگا،بیرسٹر سلمان صفدر
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے کی سزا سنائی گئی ہے۔
مزید :