کوہلو جسے بیل نہیں انسان چلاتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
کوہلو جس میں بیل کی مدد سے تیل نکالا جاتا ہے اور روایتی طور پر گاؤں دیہات میں ایک بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر کوہلو کے گرد باندھ دیا جاتا ہے، جس کے گرد بیل سارا دن گھومتا رہتا ہے، اس بات سے انجان کہ وہ کسی ایک مقام کے گرد ہی چکر لگا رہا ہے، لیکن انجانے میں بیل دیسی تیل نکال رہا ہوتا ہے، لیکن یہ خاص جگہ خالص تیل کی وجہ سے مشہور ہوتی ہے اور قریب آبادی خالص تیل کے لیے یہیں کا رخ کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مٹی کے برتنوں کا بڑھتا استعمال، گم گشتہ ثقافت کی واپسی
وقت بدل گیا ہے جو بھی چیز زیادہ جگہ گھیرتی تھی وہ محدود کردی گئی ہے، یہی حال کوہلو کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ کوہلو کے لیے اب کمرے جتنی جگہ کہ ضرورت نہیں رہی۔ تین بائی تین فٹ جگہ ایک کوہلو کے لیے کافی ہے اور کسی بیل کے بنا ایک انسان اس کوہلو سے تیل نکالتا ہے۔
کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں ڈرائی فروٹس کی دکانوں کے ساتھ کوہلو بھی موجود ہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ ڈرائی فروٹس لیکر وہیں اپنی آنکھوں کے سامنے ان سے تیل نکالوا لیں۔ اس تیل میں سوائے پانی کے کسی بھی دوسری چیز کی ملاوٹ نہیں کی جاتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسان بیل پاکستان تیل ثقافت روایت کوہلو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیل پاکستان تیل ثقافت روایت کے لیے
پڑھیں:
اْمتِ خیرِ البشر !کیا تمہیں احساس نہیں؟
بدمست اسرائیل بے لگام پاگل گھوڑے کی طرح دندناتا چاروں طرف تباہی و بربادی مچا رہا ہے۔ پاگل گھوڑے کے سر میں گولی مار کر دوسروں کی جانیں بچائی جاتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کیس میں یہ کام کوئی کرنے کو تیار نہیں سبھی تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
امریکا و یورپ جیسی طاقتیں تو اس بد مست گھوڑے کے پاگل پن میں مزید اضافہ کرنے کا سامان مہیا کررہی ہیں، حسب سابق و روایت اقوام متحدہ امریکا و یورپ کی لونڈی بن کر مظلوموں سے آنکھیں چرا کر ظالموں کو قتل عام میں معاون ثابت ہو رہی ہے اگر زمینی حقائق اور کردار کو دیکھا جائے تو یہ اقوام متحدہ نہیں اقوام مختلفہ بن چکی ہے نہ ماضی میں کبھی مظلوم کا ساتھ دیا نہ مستقبل میں کوئی توقع ہے۔
اغیار اور کفار سے کیا شکوہ امت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کو دیکھ کر درد میں ڈوبے چند اشعار یاد آرہے ہیں۔ شاعر فرماتے ہیں:
اْمتِ خیرِ البشر !کیا تمہیں احساس نہیں؟
خْوں اْگلتی ہے وہاں قبلہ اوّل کی زمیں
شرم آتی ہے یہ پڑھتے ہوئے اخباروں میں
ڈھیر لاشیں ہیں فلسطین کے بازاروں میں
ایسی بارود کی یلغارکہ گھر چھلنی ہیں
یْورشِ درد سے ماؤں کے جگر چھلنی ہیں
موت رقصاں ہے شب و روز گلی کوچوں میں
آہ و گریہ کی صدا آتی ہے بس کانوں میں
بیٹیاں روتی ہیں، مائیں بھی تڑپ جاتی ہیں
میتیں جب بھی جگر پاروں کی گھر آتی ہیں
دیکھ تو! مسجدِ اقصیٰ بھی ہے کتنی غمگیں
ایسا لگتا ہے، اِسے تْم سے کوئی آس نہیں
اْمتِ خیرِ البشر !کیا تمہیں احساس نہیں؟
کچھ بھی پیغامِ مْحمّدﷺ کا تمہیں پاس نہیں
پورا فلسطین بالخصوص تباہ حال غزہ اس وقت اسرائیلی بربریت اور درندگی کی لپیٹ میں ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، آگ اور خون کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔ یہ وہ آگ ہے جو عالمی امن کے ٹھکیدار امریکا اور برطانیہ نے کم و بیش آٹھ دہائیاں قبل سرزمین فلسطین پر ایک ناپاک اور نجس اسرائیل کے قیام کی شکل میں بھڑکائی تھی اور اب یہ آگ آہستہ آہستہ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔7 اکتوبر 2023 میں حماس کی جانب سے طوفان القصیٰ کوئی جذباتی اقدام نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ناجائز اسرائیل کی برسوں پر محیط اہل غزہ کی نسل کشی اور انھیں محصور کرکے دانے دانے کا محتاج بنانے کی سفاکانہ اور مذموم کاروائیاں کارفرما تھیں جس کا اظہار اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی کیا تھا۔
کئی دہائیوں سے اسرائیل نے فلسطین و غزہ میں قتل عام اور نسل کشی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کا دائرہ اب لبنان، شام، یمن، عراق اور دوسرے ممالک تک پہنچ چکا ہے اور اب توانسانیت کے قاتل نتین یاہو نے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں اسرائیل نہیں پہنچ سکتا۔ ایجنڈا صرف اور صرف گریٹر اسرائیل کا قیام ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا اور اب غزہ کو اہل غزہ سے خالی کرانا ہے جس کا اظہار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام کرچکے ہیں۔
انسانیت کے اس قاتل کو اپنے آقا امریکا جو اب بھی خود کو انسانیت اور انسانی حقوق کا علمبردار گرداننے میں کوئی شرم وحیا اور عار محسوس نہیں کرتا نہ صرف بھرپور مدد و اعانت حاصل ہے بلکہ اس نے مشرق وسطی میں اپنے بحری بیڑے کے ساتھ ہزاروں فوجی بھی تعینات کیے ہیں، جس کا مقصد اپنے ناجائز بچے کا تحفظ کرنا اور اس کے لیے اگر پوری دنیا کو بھی نیست و نابود کرنا پڑے تو شاید یہ ٹرمپ کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔
یہ تمام حالات و واقعات تیسری عالمی جنگ کے دروازے پر دستک کے مترادف ہیں، اسرائیل تمام عرب ممالک کونیست و نابود کرنے کا منصوبہ بناچکا ہے اس کی منزل گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ہے لیکن امت مسلمہ بالخصوص ستاون اسلامی ممالک کے حکمران غفلت کی چادر چھوڑنے کو تیار نہیں، ایک دو نہیں سبھی مسلم حکمرانوں کا مزاج مغلیہ سلطنت کے چودھویں بادشاہ محمد شاہ رنگیلے سے مختلف دکھائی نہیں دے رہا۔ جس طرح محمد شاہ رنگیلا نے اپنی مدتِ حکومت کا زیادہ تر وقت عیش و عشرت اور نشاط پرستی میں گزار کر سلطنت مغلیہ کے زوال کا سبب بنا، آج عین یہی حال ہمارے تمام مسلم حکمرانوں کا ہے سبھی اپنے اقتدار کی ہوس میں ڈوبے پڑے ہیں۔
ان کی بدمستیوں اور عیاشیوں کی وجہ سے تباہی پوری امت مسلمہ کے سروں پر منڈلا رہی ہے مگر سب محمد شاہ رنگیلے کی طرح اپنی بدمستیوں میں غرق ہیں اور ان کی زبان پر محمد شاہ رنگیلے کا وہی ایک جملہ ہے کہ "دلی دور است"۔ ان ستاون اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم اوآئی سی جو کبھی مردہ گھوڑا ہوا کرتا تھا آج مردہ گدھا بن چکا ہے۔
کیونکہ اس میں روئے زمین پر مسلمانوں پر ہونے والے کسی ظلم کے آگے ڈھال بننا تو دور کی بات اب بات کرنے کی بھی ہمت نہیں۔ فلسطین اور غزہ میں ہر اینٹ، ہر گلی، اور ہر چہرہ ایک مجسم کہانی ہے مگر ظلم و بربریت کے اندھیروں کے باوجود یہاں حماس کے شیردل نوجوان پوری انسانیت کے لیے مزاحمت و حریت کی روشنی کا منبع اور استعارہ بن چکے ہیں۔
حماس کے یہ مجاہدین تن تنہا صیہونی دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں، مڑمڑ کر کبھی عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں، کبھی تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب دیکھتے ہیں تو کبھی خلافت کے خواب دیکھنے والے ترکی کی جانب دیکھتے ہیں جس نے آج تک ایک دن کے لیے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔ کوئی اسلامی ملک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھا، کسی نے اہل غزہ کے زخموں پر پھاہا نہیں رکھا۔
اس مایوسی کے ماحول میں علماء کرام غزہ کے مظلوموں کے حق میں جس جوانمردی کے ساتھ کھڑے ہیں یہ امت کے لیے نوید سحر کے مترادف ہے مگر اللہ کرے اس امت کو کوئی صلاح الدین ایوبی بھی ملے۔ پوری دنیا کے علماء کرام غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ہیں اور اعلائے کلمۃ الحق بلند کیے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ مسلم دنیا کے عوام ہیں جو اپنے حکمرانوں کے رویے اور پالیسیوں سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مولانا فضل الرحمٰن، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمٰن سمیت پاکستان کی تمام مذہبی قیادت موجود تھی۔ اہل غزہ کے حق میں پہلا فتویٰ ایک عرب عالم دین علی قرۃ داغی نے جاری کیا انھوں نے اپنے فتویٰ میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ"اہل غزہ کی مدد کے لیے مسلح جنگ شرعی تقاضا ہے"۔ اس فتویٰ کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی اس کے بعد قومی فلسطین کانفرنس میں مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن نے فتویٰ دیا کہ "تمام اسلامی ممالک پر جہاد فرض ہوچکا ہے"۔ اس کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی نے تاجروں پر زور دیا کہ وہ یہودی مصنوعات رکھنا چھوڑ دیں۔
جہاد ریاست کی ذمے داری ہے علماء نے فتویٰ دے کر اپنی ذمے داری پوری کردی جب تک مسلمان حکمرانوں میں کوئی صلاح الدین ایوبی جیسا نہیں ملتا عوام یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس جہاد میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں، بہت سے اداروں نے یہودی مصنوعات کی فہرستیں مرتب اور ان کا متبادل بھی بتا دیا ہے تاکہ بائیکاٹ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ رہے۔ ہمیں یہودی مصنوعات خریدتے وقت یہ بات ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ ہم فلسطینیوں پر بمباری کے لیے یہودی کی مالی مدد کررہے ہیں۔
یاد رکھیں آج کے دور میں معاشی بائیکاٹ بہت بڑا ہتھیار ہے جس کے لیے ہمیں اپنے حکمرانوں کی جانب بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ جیل میں تھے تو جب بھی جمعہ کی اذان سنتے تو وضو کرتے اور جیل کے دروازے تک جاتے، جیل کے سپاہی انھیں روکتے اور واپس بھیج دیتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ سپاہی آپ کو نماز جمعہ کے لیے جانے نہیں دیں گے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ میرے اختیار میں اتنا ہی ہے کہ میں دروازے تک چلا جاؤں اور جو میرے اختیار میں ہے میں اسی کا مکلف ہوں لہٰذا میں ہر جمعہ کو ایسا کرتا رہوں گا۔
علماء نے فتویٰ دے دیا وہ اسی کے مکلف ہیں، اس پر عمل کرنا نہ کرنا حکومتوں کا کام ہے اور جوابدہ بھی حکمران ہوں گے۔ یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اختیار ہم سب کے پاس ہے اور ہمیں اس کا جواب دینا ہوگا۔ اس لیے اسرائیلی و یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، یہ بہت بڑا ہتھیار ہے۔