Jasarat News:
2025-04-28@22:19:59 GMT

خورشید ندیم اور دنیاوی کامیابی کا ہیضہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

خورشید ندیم اور دنیاوی کامیابی کا ہیضہ

مسلمانوں کے لیے دنیا اور آخرت کا باہمی تعلق یہ ہے کہ دنیا دار الامتحان ہے اور آخرت دارالجزا۔ دنیا عمل کے لیے ہے اور آخرت عمل کی جزا کے لیے۔ چنانچہ اصل کامیابی دنیا کی نہیں آخرت کی ہے۔ کروڑوں انسان ہوں گے جو دنیا میں کامیاب ہوں گے مگر آخرت میں ان کا شمار ناکام ترین لوگوں میں ہوگا۔ کروڑوں انسان ہوں گے جو دنیا میں بظاہر ناکام ہوں گے مگر آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں میں دنیا پرستی عام ہے چنانچہ جسے دیکھیے دنیا کی کامیابی کے ہیضے میں مبتلا ہے۔ معروف کالم نویس اور دانش ور خورشید ندیم چونکہ غامدیانہ فکر کے ترجمان ہیں اس لیے دنیاوی کامیابی کا ہیضہ ان کو زیادہ گرفت میں لیے ہوئے ہے لیکن خورشید ندیم کا مسئلہ صرف دنیاوی کامیابی کے ہیضے کا نہیں۔ وہ مغرب اور اس کے اتحادیوں کے غلبے سے مرعوب ہیں اور انہیں اسلامی تحریکوں کا کیا اسلام کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے۔ انہوں نے انہی حوالوں سے اپنے ایک حالیہ کالم میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔

’’مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل رہا ہے۔ مزاحمت کی تمام علامتیں ختم ہو رہی ہیں۔ حماس اور حزب اللہ‘ دکھائی یہ دیتا ہے کہ پی ایل او اور القاعدہ کی طرح ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔ ایران کا مزاحمتی کردار علامتی رہ گیا ہے۔ روس اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکا۔ مشرقِ وسطیٰ کا نیا نقشہ زیر ِ غور ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے حسب ِ منشا اس کے خدوخال تراشنے کا کام شروع ہو چکا۔

یہ سب نوشتہ ٔ دیوار تھا۔ مشرقِ وسطیٰ سے کوسوں دور بیٹھا یہ لکھاری بھی اسے پڑھ رہا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس ’دیوار‘ کے پاس بیٹھنے والوں کی نظروں سے یہ تحریر اوجھل رہی۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت بھی اسے پڑھ نہ سکی۔ میرا خیال ہے کہ عرب قیادت نے اِسے پڑھ لیا تھا۔ اس نے اس تحریر سے مطابقت رکھتے ہوئے‘ اپنی حکمت ِ عملی بنائی۔ اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کے بیک وقت دو نقشے سامنے آرہے تھے۔ ایک طرف سعودی عرب، امارات اور قطر میں بلند وبالا عمارتیں آسمان کو چھو نے لگی تھیں۔ ’ورچوئل شہر‘ بسانے کے منصوبے بن رہے تھے۔ فٹ بال کے عالمی میلے کی میزبانی کی جا رہی تھی۔ دبئی عالمی تجارت کا مرکز بن رہا تھا۔ شارجہ میں عالمی کتاب میلے سج رہے تھے۔ دوسری طرف جنگ کا منظر تھا۔ اسرائیل اور ایران میں کشمکش تھی۔ میزائل کا شور اور بارود کی بْو تھی۔ شام میں خانہ جنگی تھی۔ حزب اللہ کا اعلانِ جہاد تھا۔ یمن میں باضابطہ لڑائی ہو رہی تھی۔ حماس اور داعش کا غلغلہ تھا۔ انتقام کی باتیں تھیں۔

ترکیہ بھی اس منظرنامے کا حصہ ہے لیکن وہ کسی جنگ میں نہیں اْلجھنا چاہتا۔ اس کی پہلی ترجیح داخلی استحکام ہے۔ اس کے ساتھ وہ امت ِ مسلمہ کا حصہ ہونے کا بھرم بھی رکھنا چاہتا ہے۔ اس بھرم کو قائم رکھنے کے لیے اسرائیل کے خلاف نعرہ بازی جاری ہے۔ دوسری طرف اس کی وحشت و درندگی کے باوجود اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور شام کے مستقبل کے حوالے سے امریکا کے ساتھ مل کر ’سفارت کاری‘ کی جا رہی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ترکیہ کا نقطۂ نظر بھی وہی ہے جو عربوں کا ہے۔ (روزنامہ دنیا، 11 جنوری 2025ء)

خورشید ندیم نے مذکورہ سطور میں کہیں مغرب اور اس کے اتحادیوں کے غلبے کا ذکر نہیں کیا مگر یہ ذکر ان کے تجزیے میں پس منظر کے طور پر موجود ہے۔ چنانچہ خورشید ندیم کا خیال یہ ہے کہ ہوتا تو وہی ہے جو مغرب اور اس کے اتحادی چاہتے ہیں۔ پی ایل او اور القاعدہ مٹ گئیں تو حماس بھی فنا ہوجائے گی اور اسرائیل ہی غالب رہے گا۔ یہاں تک کہ گریٹر اسرائیل آج نہیں تو کل ایک حقیقت بن کر سامنے آجائے گا اور اس طرح مشرق وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ اُبھر کر سامنے آئے گا۔ لیکن جو بات غامدیانہ فکر کے زیر اثر خورشید ندیم کو معلوم نہیں وہ یہ ہے کہ مسئلہ مسلمانوں کے مستقبل کا نہیں ہے۔ اسلام کے مستقبل کا ہے اور اسلام کا مستقبل شاندار ہے۔ چنانچہ اگر مسلمان اسلام سے چمٹے رہیں گے تو ان کا مستقبل بھی شاندار ہوگا۔ صفی لکھنوی کا شعر ہے۔

اس دین کی فطرت کو قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
اور اقبال بھی کہہ گئے ہیں۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

مسلمانوں کی تاریخ ان اشعار کی درستی پر گواہ ہے۔ برصغیر میں مغل بادشاہ اکبر نے دین الٰہی ایجاد کرکے اسلام کو پس منظر میں دھکیل دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی اگلی نسل میں داراشکوہ پیدا ہوگیا جو کہا کرتا تھا کہ معاذ اللہ ہندوئوں کی مقدس کتاب گیتا قرآن سے بہتر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر میں اسلام کا مستقبل مخدوش ہوچکا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سربلندی کے لیے مجدد الف ثانی کو پیدا فرمایا۔ انہوں نے جہانگیر کے خلاف علم جہاد بلند کردیا اور بالآخر جہانگیر کو مجدد الف ثانی کے آگے سر جھکانا اور دربار میں اسلام کو سربلند کرنا پڑا۔ اس کشمکش میں داراشکوہ کو بھی شکست ہوئی اور شریعت کے غلبے کے علمبردار اورنگ زیب عالمگیر کو غلبہ حاصل ہوا اور اس نے 50 سال تک علما کی مدد سے برصغیر میں اسلام کی بالادستی کی جدوجہد کی۔ یہ بات بھی برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ ہے کہ شاہ ولی اللہ سے پہلے برصغیر سے قرآن و حدیث کا علم تقریباً اُٹھ چکا تھا مگر شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے نے اس علم کو ازسر نو زندہ کیا۔ چنانچہ آج برصغیر میں قرآن کی تفسیر اور حدیث کا علم زندہ ہے تو شاہ ولی اللہ کی وجہ سے۔ یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ 19 ویں اور 20 ویں صدی میں مغرب کی غلامی کے زیر اثر پوری امت مسلمہ یہ بات بھول گئی تھی کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو پوری امت کے شعور کا حصہ بنانے کے لیے برصغیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو کارِ تجدید کے لیے پیدا کیا اور آج مولانا کے زیر اثر پوری امت اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کی قائل ہے۔

خورشید ندیم کو شاید معلوم ہو کہ 1095ء میں اس وقت کے پوپ اربن دوم نے چرچ میں کھڑے ہو کر کہا اسلام ایک شیطانی مذہب اور مسلمان ایک شیطانی مذہب کے پیروکار ہیں۔ اس نے ساری عیسائی دنیا سے کہا کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا سے شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو مٹادیں۔ پوپ کی تقریر کا اثر یہ ہوا کہ 1099ء میں عیسائی اقوام ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوئیں اور انہوں نے ان صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔ ان جنگوں کے پہلے مرحلے میں عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے مسلمانوں کا اس بڑے پیمانے پر قتل عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیوں میں اتنا خون جمع ہوگیا کہ گھوڑوں کا چلانا دشوار ہوگیا۔ اس وقت صلاح الدین ایوبی پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مسلمان ایک صدی سے پہلے دوبارہ بیت المقدس کو فتح کرلیں گے۔ صلاح الدین ایوبی 1137 میں پیدا ہوا اور اس نے 1187 میں عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لے لیا۔

اس سلسلے میں بیسویں صدی کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ برصغیر پر وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ کا قبضہ تھا۔ برصغیر میں مسلمان ایک اقلیت تھے۔ انگریز اور ہندو اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن تھے مگر برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر ایک علٰیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا اور پاکستان کے نام سے اس الگ مملکت کو بہت جلد حاصل کرلیا۔ یہ کل کی بات ہے کہ وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک سپر پاور روس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ روس کی تاریخ یہ تھی کہ وہ جہاں جاتا تھا وہاں سے واپس نہیں آتا تھا مگر صرف دس سال میں روس کو اسلام کے تصور جہاد نے شکست دے دی اور روس بکھر کر رہ گیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا افغانستان میں آیا تو سب نے کہا کہ اب افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکا چاہے گا مگر 20 سال میں امریکا بھی افغانستان میں شکست کھا گیا۔

جہاں تک کامیابی کے ہیضے کا تعلق ہے تو مسلمانوں کا اصل مسئلہ دنیاوی کامیابی نہیں، مسلمانوں کا اصل مسئلہ شہادت حق کا فرض ادا کرنا ہے۔ اس لیے کہ نتیجہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ہی نہیں۔ نتیجہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انبیا و مرسلین کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔
سیدنا ابراہیمؑ صرف ایک فرد تھے۔ ان کے پاس نہ کوئی ریاست تھی نہ فوج۔ مال و دولت تھی نہ کوئی قوم یا منظم جماعت، اس کے باوجود انہیں حکم ہوا کہ نمرود کو چیلنج کریں۔ سیدنا ابراہیمؑ نے اس حکم کے جواب میں خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے نمرود کے مقابلے کی قوت عطا فرما پھر میں نمرود کو چیلنج کروں گا۔ سیدنا نوحؑ 900 سال تک تبلیغ کرتے رہے اور ایک روایت کے مطابق اتنی طویل مدت میں چند افراد مسلمان ہوئے۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی ریاست اور فوج نہیں تھی مگر انہیں حکم ہوا ہ فرعون کو چیلنج کریں اور انہوں نے فرعون کو چیلنج کیا۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ دنیاوی معیارات کے حوالے سے کفار اور مشرکین کے مقابلے پر رسول اکرمؐ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ غزوہ بدر میں 313 مسلمان ایک ہزار کے لشکر جرار کے مقابل تھے اور اگر اللہ فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد نہ فرماتا تو رسول اکرمؐ کی ’’کامیابی‘‘ کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حماس نے اسلام کی روح کے عین مطابق اسرائیل کی طاقت کے خلاف ’’شہادتِ حق‘‘ کا فرض ادا کردیا ہے۔ اور وہ بھی اس جلال وجمال کے ساتھ کہ اسرائیل اپنی ساری طاقت اور امریکا و یورپ کی پشت پناہی کے باوجود ایک سال تک حماس کو سرنگوں نہیں کرسکا۔ یہ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور امریکا کے خلاف برسرپیکار طالبان کے معجزے سے زیادہ بڑا معجزہ ہے۔ اس لیے کہ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو پوری مغربی اور اسلامی دنیا کی حمایت حاصل تھی اور طالبان کے لیے پاکستان سب سے بڑی پناہ گاہ تھا۔ مگر حماس نے تن تنہا ایک سال تک اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی کی ہے۔

مستقبل کا حال خدا کو معلوم ہے یا مخبر صادق رسول اکرمؐ کو۔ خدا نے قرآن میں صاف کہا ہے کہ وہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ اور رسول اکرمؐ کی یہ حدیث شاید خورشید ندیم کے مطالعے میں نہیں آئی کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک کہ اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا دور دورہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ چاہے گا اور اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مسلم دنیا مدتوں سے کاٹ کھانے والی آمریت کا تجربہ کررہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں بہت جلد خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا دور شروع ہوسکتا ہے۔ انبیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کی معجزوں کے ذریعے مدد کی ہے۔ اس وقت مسلمان طاقت کے ہولناک عدم توازن کا شکار ہیں چنانچہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا دور شروع ہوگا تو ’’آسمانی مداخلت‘‘ یا Divine Intervention مسلمانوں کے ساتھ ہوگی اور اتنے بڑے بڑے معجزات ہوں گے کہ مغرب کی ساری مادی، سائنسی اور تکنیکی ترقی ان کے آگے بچوں کا کھیل نظر آئے گی اور چند برسوں میں پوری دنیا مسلمان ہوجائے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مسلمانوں کے رہے گا جب تک اسرائیل کے اللہ تعالی مسلمان ایک بیت المقدس کا مستقبل رسول اکرم اور اس کے اس کے بعد ہوگی اور اسلام کے کی تاریخ انہوں نے کو چیلنج یہ ہے کہ ہے اور ا کے ساتھ کے خلاف بھی اس کا حصہ نہیں ا سال تک اس لیے گی اور کے لیے ہوں گے اور ان یہ بات

پڑھیں:

فکر ناٹ

وہی ہوا جس بات کی توقع تھی ۔ جیسے ہی دو منحوس سیارے ایک دوسرے کے مدمقابل آئے، پہلگام واقعہ ہو گیا ۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آل پارٹیز کانفرنس میں تسلیم کیا ہے کہ یہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے لیکن اس کے باوجود بھارت نے اس دہشت گردی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا ہے ۔ جب کہ مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے پر بھارتی فوج تعینات ہے ۔ جس کی تعداد کم ازکم 8لاکھ ہے ۔

انڈین میڈیا نے رائے عامہ کو اس قدر مشتعل کر دیا ہے کہ بھارتی انتہاپسند چاہتے ہیں کہ بھارت فوری طور پر پاکستان پر حملہ کردے ۔ سب سے اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس معاملے پر عالمی رائے عامہ بھی بھارت کی ہمنوا بن گئی ہے ۔ سب سے پہلے امریکا کو لے لیں ۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکا پہلگام ’’دہشت گردی‘‘ کے معاملے پر بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اور ہم بھارت کے ساتھ مل کر ان ’’دہشت گردوں ‘‘کو کیفر کردار تک پہنچا کر رہیں گے ۔ امریکا کی اس معاملے پر بھارت کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ باقی دنیا بھی بھارت کا ساتھ دے گی۔ حالانکہ خود پاکستان کا دہشت گردی سے متاثر ہ ملکوں میں دوسرا نمبرا ہے ۔

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن ماضی میں بھارت کے دورے پر پہنچے تھے تو مقبوضہ کشمیر میں 36سکھوں کا قتل ہو گیا تھا۔ اور اب جب امریکی نائب صدر بھارت کے دورے پر تھے تو اس کے دوران پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوگیا ۔ نومبر2008میں ممبئی دہشت گردی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی ۔

اب صورت حال یہ ہے کہ بھارت نے پہلگام حملے کو جواز بنا کر سند ھ طاس معاہدہ معطل کردیا ہے ۔ پاکستان جو اس وقت پانی کی بدترین قلت کا شکار ہے، ایک طرح سے بھارت نے یہ معاہدہ معطل کرکے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے ۔ پاکستان جو زراعت اور پینے کے پانی کی شدید قلت کا شکار ہے، بھارت کی اس سازش کے نتیجے میں بدترین غذائی قلت کا شکار ہو سکتا ہے ۔ غذائی اشیاء انتہائی مہنگی اور نایاب ہو سکتی ہیں ۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو صرف معطل ہی نہیں کیا بلکہ عملی طور پر خط لکھ کر پاکستان کو آگاہ بھی کردیا ہے ۔ سب سے افسوسناک اور پریشان کن امر یہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی اس عمل پر بھارت کی مذمت نہیں کی ہے ۔

اب دیکھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ ہے کیا؟پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں یہ معاہدہ ستمبر1960کو عمل میں آیا۔ اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے سربراہ جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ معاہدے کی شرائط کے تحت بھارت اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل یا ختم نہیں کر سکتا ۔ انڈیا کو دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے ۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان دریاؤں کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔

برطانوی اخبار کی ایک رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ ایٹمی جنگ نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوگی جو 15کروڑ فوری ہلاکتوں اور 3ارب افراد کی بھوک سے موت کا باعث بن سکتی ہے ۔

بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی وار ہیڈ ز رکھتے ہیں ۔ یونیورسٹی کولو راڈو کے پروفیسر برائن ٹون کی تحقیق کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ 5سے 15کروڑ افراد کی فوری ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے ۔ شہر تباہ ہو جائیںگے ۔ زخمیوں کو امداد نہ ملے گی۔ اور بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر منہدم ہو جائے گا۔ یہ تباہی جنوبی ایشیاء تک محدود نہیں رہے گی۔ اس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ پروفیسر نے خبردار کیا کہ بھارت اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار برفانی دور جیسے حالات پیدا کر سکتے ہیں ۔ انھوں نے زور دیا کہ یہ صرف بھارت اور پاکستان کا مسئلہ نہیںبلکہ پوری دنیا کا بحران ہے ۔

اس لیے فکر ناٹ۔۔۔۔ ۔ کیونکہ جنگ کے نقصانات سے پاکستان اور بھارت دونوں کے پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں، ویسے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کشیدگی کا حل نکال لیں گے ، انھیں کسی طرح کی تشویش نہیں کہ ایٹمی یا کسی طرح کی جنگ ہو سکتی ہے ۔

پاکستان بھارت بحران کے حوالے سے فوری اہم تاریخیں 30اپریل۔یکم مئی سے 6۔5۔4۔3 مئی ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • امید میں مشترکہ مفادات کونسل میں کینالز کا مسئلہ ختم ہو جائے گا، خورشید شاہ
  • فکر ناٹ
  • نہروں کا معاملہ حل ہوچکا، صرف رسمی کارروائی ہونی ہے، احتجاج ختم کر دینا چاہیے، خورشید شاہ
  • پانی روکنے کیلئے بھارت نے ڈیم بنایا تو اسے نیست و نابود کر دینگے، رانا ثنا اللہ
  • پہلگام واقعے کے بعد سلامتی کونسل میں پاکستان کی سفارتی کامیابی
  • پہلگام واقعہ:بھارت کے منہ پر طمانچہ، پاکستان کو بڑی سفارتی کامیابی حاصل
  • ڈکیتی مزاحمت پر رائیڈر قتل،4ماہ میں 34شہری قتل
  • پاکستان کا پانی روکا گیا تو یہ جنگ تصور کیا جائے گا، خورشید محمود قصوری
  • کراچی ؛ ڈکیتی مزاحمت پر آن لائن رائیڈر قتل،4 ماہ میں ڈاکوؤں نے 34 شہری مار دیے
  • کراچی: شاہ فیصل کالونی پل پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے شہری جاں بحق