لاپتا افراد کے مقدمات نے ہلا کر رکھ دیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب جناب یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ ’’گوادر اور کوئٹہ کے دوروں پر لاپتا افراد کے مقدمات نے ہلا کر رکھ دیا۔ مسنگ پرسنز کے مقدمات کو سنا جائے گا‘‘۔ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ نے لاپتا افراد کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ درست ہے۔ لاپتا افراد کا بازیاب نہ ہونا نہ صرف اعلیٰ عدلیہ کی توہین ہے بلکہ یہ اِس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان کا نظام عدل و انصاف کمزور اور بے بس ہوچکا ہے۔ شہریوں کا لاپتا ہونا اور عدالتوں کا بے خبر رہنا شرمناک صورتحال ہے جس سے یقینا عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔
’’لاپتا افراد‘‘ کا پتا آسان ہے کیونکہ اِن کے ورثا برسرعام یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو ایجنسیوں نے اُٹھالیا ہے تاہم ایجنسیوں کا کہنا یہ ہے کہ لاپتا افراد ہمارے پاس نہیں، اِن میں زیادہ تر لوگ دہشت گردوں اور فراری کیمپوں میں چلے گئے جبکہ بعض ازخود جلاوطنی اختیار کرگئے۔ ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ لاپتا افراد کے ورثا اور ایجنسیوں میں سے کون ٹھیک اور کون غلط ہے کیونکہ دونوں طرف کی باتوں میں ممکنات موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسا ہوا ہو یا ویسا ہو؟ تاہم یہاں لاپتا افراد اور ایجنسیوں کے موقف کی بات نہیں۔ معاملہ ریاست کی رٹ کا ہے، آئین اور قانون کی بالادستی کا ہے، بنیادی اِنسانی حقوق کا ہے، ریاستی اداروں کا ہے کہ جن میں عدلیہ بھی شامل ہے۔
پاکستان کا جو سیاسی ماحول اور منظرنامہ بن چکا ہے اُس میں شہریوں کے اغوا میں ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے الزام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جبکہ زیادہ گمان اور خدشہ یہی ہے کہ شہریوں کو اغوا کرنے میں ایجنسیاں ملوث ہیں، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ تمام لاپتا لوگ ایجنسیوں کے پاس نہیں ہوں گے۔ تاہم صورتحال جو بھی ہے یہ ذمے داری بھی تو ایجنسیوں ہی کی ہے کہ لاپتا افراد کے بارے میں مکمل معلومات میڈیا، عدلیہ اور حکومت کو آگاہ کیا جائے تا کہ ورثا کے اطمینان کے لیے کوئی پالیسی بنائی جاسکے۔
لاپتا افراد کے معاملے میں ہم یہ بات بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ریاستی اداروں کو کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ جس کے نتیجے میں ریاست کمزور ہو یا یہ کہ ریاست کے خلاف کام کرنے والے باغی عناصر کو کوئی جواز مل سکے۔ لاپتا افراد کو اگر کسی جرم میں لاپتا کیا گیا ہے تو اِس پر بھی بہت سے تحفظات اور قانونی بحث موجود ہے۔ مثلاً معاشرے یا ریاست کے اندر سب سے بڑا جرم قتل، دہشت گردی اور غداری ہے۔ اِن تینوں جرائم کے علاوہ جو بھی جرم ہوگا اُن کی سنگینی کا درجہ بعد میں آتا ہے تاہم ہمارے عدالتی نظام کو اگر جان بوجھ کر ناکام نہ کیا جائے تو یہ بات آن ریکارڈ موجود ہے کہ انتہائی خطرناک قاتلوں، دہشت گردوں اور غداروں پر سول عدالتوں میں مقدمات چلائے جاچکے ہیں جہاں انہیں عبرتناک سزائیں بھی مل چکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اِس وقت بھی پاکستانی جیلوں میں تقریباً 8 ہزار قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں۔ آخر اِن مجرموں کو سزا کس نے دی؟ لہٰذا کسی بھی خفیہ ایجنسی یا ادارے کو مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ انتہائی سنگین جرائم میں ملوث افراد کو اگر عدالتوں کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ سزا سے بچ جائیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا ضرور ملے گی تاہم یہ بات ضرور یاد رکھی جائے کہ ماورائے عدالت اور قانون جو کوئی بھی کارروائی کرے گا اُس کے نتائج ریاست کے اِستحکام کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور مزید یہ کہ کسی بھی ادارے کو اِس طرح کی کسی بھی غلط فہمی یا خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ بس وہی ’’پاکستان‘‘ ہے، پاکستان کی ترقی اور اس کے لیے بس وہی سوچتے ہیں، ایسی بات نہیں ہے ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ جیسے پاکستان کے امن، ترقی اور خوشحالی کی فکر نہ ہو، اِس لیے بہتر ہوگا کہ ہم سب ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں متحد رہیں۔ اور ایسا تب ہی ہوسکتا ہے کہ جب ریاستی ادارے قانون ہاتھ میں لینے اور ماورائے عدالت فیصلے کرنے کے بجائے تمام گرفتار شدگان کو حراستی کیمپوں میں رکھنے کے بجائے عدالتوں کے سامنے پیش کردیں۔
آخر میں یہ بات بھی ضرور کہنا چاہیں گے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کردینے سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ لاپتا افراد کا معاملہ روز بروز سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے معاملات مزید بگڑ جائیں گے۔ لاپتا افراد ہمیشہ لاپتا رہیں گے اب یہ بات ممکن نہیں رہی، مرغی کا بچہ بھی کوئی گم نہیں ہونے دیتا لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے لاپتا ہوجانے پر خاموش رہیں گے، ویسے بھی ہم کسی جنگل میں نہیں بلکہ ایک آزاد دُنیا میں رہتے ہیں، عالمی برادری میں ہمارے حکمرانوں کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں، لاپتا افراد کے ورثا بہت دور تک جاسکتے ہیں، بہتر ہوگا کہ اِس مسئلے کو قانون کے مطابق باعزت طور پر حل کرلیا جائے۔ اُمید ہے چیف جسٹس صاحب نے جو کچھ کہا ہے اُس پر ضرور عمل ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں مظلوم کی مدد و انصاف کی گواہی دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یہ بات
پڑھیں:
کراچی سے لاپتا بچے صارم کی لاش گھر کے قریب زیرزمین ٹینک سے برآمد
کراچی:گیارہ دن سے لاپتا بچے صارم کی لاش گھر کے قریب زیر زمین ٹینک سے برآمد ہو گئی۔
پولیس کے مطابق کراچی کے علاقے نارتھ کراچی سے پراسرار طور پر لاپتا بچے صارم کی لاش مل گئی۔ بچے کی لاش گھر کے قریب زیر زمین پانی کے ٹینک سے ملی۔
یہ خبر بھی پڑھیں: کراچی؛ ایک ہفتہ قبل پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے بچے کا تاحال سراغ نہ مل سکا
واضح رہے کہ 7 سالہ صارم 11 روز قبل پراسرار طور پر لاپتا ہوا تھا، جس کے بعد سے پولیس اور اہل خانہ اس کی بازیابی کے لیے کوششیں کررہے تھے۔
ننھے صارم کی لاش کو زیرزمین ٹینک سے نکال لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق واٹر ٹینک پر ڈھکن کی جگہ گتے کا ٹکڑا رکھا ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی: 5 مبینہ لاپتہ بچوں میں سے 2 بازیاب، 3 تاحال لاپتہ
لخت جگر کی لاش دیکھ کر والدہ شدت غم سے نڈھال ہو گئی۔
7 سالہ صارم حادثاتی طور پر ٹینک میں گرا یا پھر کسی نے گرایا، پولیس نے اس حوالے سے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تحقیقات شروع کردی ہے۔
ٹینک کو قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے 2 بار چیک کیا تھا، اہل محلہ
نارتھ کراچی میں زیر زمین ٹینک سے بچے کی لاش ملنے کے معاملے پر اہل محلہ کا کہنا ہے کہ پانی کے ٹینک کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 2 بار چیک کیا تھا۔ اہل محلہ کے مطابق عین ممکن ہے کہ جب پانی کے ٹینک کو چیک کیا گیا ہو، اس وقت بچے کی لاش نیچے ہی موجود ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باڈی پانی کے اوپر آ گئی ہو۔ بظاہر بچے کے ساتھ کوئی زیادتی نظر نہیں آرہی۔ اہل محلہ کا کہنا ہے کہ بچہ جیسے کپڑے پہنے ہوا تھا ویسے ہی پانی کے ٹینک سے مردہ حالت میں برآمد ہوا ہے۔بچے صارم کی لاش کو پولیس کارروائی کے بعد عباسی شہید اسپتال روانہ کر دیا گیا ہے۔