تاریخی اور حال: پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا کہ ’’مسائل کا حل مفاہمت اور تعاون میں ہے، نہ کہ تصادم میں‘‘۔ یہ قول پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان1971ء کی جنگ کے بعد تعلقات میں کشیدگی کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ تاہم موجودہ بدلتی صورتحال یہ ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہوجانے کے بعد پھر سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحال کرنے کی تیز رفتار کوششیں جاری ہیں۔ بنگلا دیش کی جغرافیائی حیثیت، جو اسے خلیج بنگال کے قریب ہونے کے باعث ایک اہم اسٹرٹیجک اہمیت فراہم کرتی ہے، وہیں جنوبی ایشیا میں پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے، جو جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، ان دونوں کو اس خطے میں اقتصادی اور تجارتی مواقع کے لیے قدرتی شراکت دار بناتا ہے۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط روابط نہ صرف ان کی اپنی ترقی کے ضامن ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان تجارتی حجم اگرچہ محدود ہے تاہم حالیہ چند ماہ میں اس میں تیز رفتار اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
تجارتی حجم بڑھانے کے لیے مشترکہ منصوبے اور تجارتی معاہدے کرنے کی اشدضرورت ہے۔ تجارت کو فروغ دینے کے لیے آزاد تجارتی معاہدے (Free Trade Agreements) کیے جائیں۔ دونوں ممالک کے کاروباری افراد کے لیے تجارتی نمائشیں اورسرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ دونوں ممالک ’’بینکنگ نیٹ ورک‘‘ کو مضبوط کر سکتے ہیں تاکہ سرمایہ کاروں اور کاروباری حضرات کے لیے مالی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ اسلامی بینکنگ کے فروغ میں پاکستان اور بنگلا دیش دونوں کی مہارت اور خدمات قابل ِ ذکر ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں دونوں ممالک عالمی مارکیٹ پر خوشگوار اثرات مرتب کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔ مشترکہ منصوبے اور تجارتی راستوں کی بحالی سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور غربت میں کمی ممکن ہوسکی گی۔ خیال رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی اور فرانس کے درمیان شدید دشمنی رہی، لیکن جنگ کے بعد انہوں نے امن، استحکام، اور اقتصادی ترقی کے لیے باہمی تعاون کا راستہ اپنایا۔ جرمنی اور فرانس کے باہمی تعاون کے نتیجے میں مشہور ِزمانہ اتحاد ’’یورپی یونین‘‘ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج یورپی یونین دنیا کا سب سے کامیاب اقتصادی تعاون کا ماڈل ہے۔
پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان مضبوط تعلقات، مسلم دنیا میں اتحاد کو فروغ دینے کا باعث بنیں گے۔ ان تعلقات کی بہتری سے او آئی سی میں اثر رسوخ بڑھے گا، جس سے عالمی سطح پر بھی مسلم ممالک کے مسائل پر بہتر حکمت عملی وضع کرنے میں مدد مل سکے گی۔ دونوں ممالک کے بہتر تعلقات نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو فروغ دے سکتے ہیں بلکہ بھارت اور چین سمیت دیگر علاقائی طاقتوں کے درمیان توازن قائم کرنے میں مؤثر مدد ملے گی۔ ان تعلقات اور اتحاد سے علاقائی تعاون کے نئے امکانات روشن ہوں گے۔ دونوں ممالک کو SAARC اور BIMSTEC جیسے علاقائی فورمز میں مشترکہ مقاصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ جبکہ اقوام متحدہ، OIC، اور دیگر عالمی تنظیموں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے سے مثبت پیش رفت ممکن ہوسکے گی۔ دونوں ممالک کے سربراہانِ مملکت کے درمیان مستقل دورے اور ملاقاتیں ترتیب دی جائیں۔ سربراہان کے علاوہ وزراء خارجہ، وزراء تجارت، اور دیگر اعلیٰ عہدے داران کے دوروں کو معمول بنایا جائے۔ سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں اور مشترکہ فورمز پر مثبت بات چیت کے ذریعے تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل مشترکہ وزارتی کمیشن (Joint Commissions) قائم کیا جاسکتا ہے جو نہ صرف دوطرفہ مسائل حل کرے بلکہ تنازعات کے پرامن حل کے لیے مل کر کام کرے۔ علاوہ ازیں یہ ترقیاتی منصوبے بھی بنائے۔ اس کمیشن کے اجلاسوں کو باقاعدگی سے منعقد کیا جائے۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان مشترکہ تاریخی تعلقات، ثقافتی روابط، مشترکہ فلمی منصوبے، ڈرامے، کھیل، ادبی مقابلے، مشترکہ تہوار وتقریبات اور تاریخی ورثہ یقینا ایک پل کا کام انجام دے سکتا ہے۔ اس سے عوامی سطح پر دونوں ممالک میں زبردست ہم آہنگی اور یگانگت پیدا ہوگی۔ جبکہ میڈیا کے ذریعے مثبت اور دوستانہ بیانیے کو فروغ دیا جاسکتاہے، جونہ صرف محبت اور بھائی چارے کو بڑھانے میں معاون ومددگار ثابت ہوگا بلکہ آپس کے تعلقات کو نئی جہت دینا بھی ممکن ہوسکے گا۔ اسی طرح تعلیم کے میدان میں اسکالرشپ کا آغاز، طلبہ کے تبادلے کے پروگرام اور جامعات کے درمیان تحقیقی منصوبوں پر باہمی تعاون سے منصوبے ترتیب دیے جائیں ان امور سے نہ صرف تعلقات بہتر ہو سکیں گے بلکہ دونوں ممالک میں عوام کے دل بھی جیتے جا سکتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان آسان ویزا پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کے تناظر میں بھارت کے منفی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں 3 ماہ تک مقیم رہی۔ اس دوران بھارتی فوج بطور قبضہ گیر قوت کے لوٹ مار اور ظلم وستم میں مصروف رہی، بھارتی فوج نے بنگلا دیش میں بنیادی ڈھانچے، قیمتی اشیاء، مشینری وصنعتی آلات اور فیکٹریوں سے دیگر تجارتی سامان لوٹ لیا۔ مقامی وسائل، قیمتی دھاتیں ومعدنیات، لکڑی اور مصنوعات اس کے علاوہ تاریخی اور ثقافتی نوادرات جنہیں جنگ کے بعد بھارتی فوج کی موجودگی کے دوران بھارت منتقل کیا گیا۔ بھارتی فوج نے عوام کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیوں کیں، جبکہ اس دوران مکتی باہنی کے تمام گروپس نے شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے کارکنوں کے ساتھ مل کر وسائل کی لوٹ مار کی۔ اگرچہ ان پر وسیع پیمانے پر تحقیقات ہونا اب بھی باقی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان مظالم پر کھل کر بات کی جائے۔ جو مظالم بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان میں کیے اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کیا گیا۔
بنگلا دیش کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات مالی، اخلاقی اور تاریخی اب تک غیرحل شدہ ہیں۔ خاص طور پر مالی تصفیہ اور بہارکے مسلمانوں کی آبادکاری جنہوں نے 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ بنگلا دیش کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ 1971ء کے دوران کی گئی زیادتیوں پر باضابطہ معافی مانگے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ 1971ء کے سہ فریقی معاہدے (پاکستان، بھارت، اور بنگلا دیش کے درمیان) کے تحت تمام معاملات حل کر دیے گئے تھے۔ اس معاہدے میں معافیاں اور قیدیوں کی رہائی شامل تھی۔ خیال رہے کہ2011ء میں پاکستان کے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے پاکستان کے جنگی جرائم پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور بنگلا دیش کے عوام کے لیے اپنی ہمدردی کا پیغام بھیجا تھا۔ یہ ایک بڑا قدم تھا جس سے بنگلا دیش میں پاکستانی عوام کے لیے محبت کا جذبہ ابھرا، کیونکہ اس معذرت نے بنگلا دیشیوں کے دلوں میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کیا۔ واضح رہے کہ جنوبی افریقا نے نسلی امتیاز کے خاتمے کے بعد معافی اور مصالحتی کمیشن قائم کرکے ماضی کے زخموں کو مندمل کیا۔ اسی طرح نیلسن منڈیلا کی مفاہمت اور
معافی کی پالیسی بھی پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کے لیے مشعل ِ راہ بن سکتی ہے۔ اگر کسی معاملے میں دونوں ممالک کے درمیان ڈیڈلاک ہو، تو بین الاقوامی ثالثی یا مدد حاصل کی جائے۔ جیسا کہ ناروے نے سری لنکا کے تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کر کے قابل ِ ذکر مثبت پیش رفت کی۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے اتحاد کی راہ میں حائل چیلنجز اور خطرات کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا انتہائی ضروری اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے، اقتصادی تعاون کو فروغ دینے، سفارتی تعلقات مضبوط کرنے، اور عوامی سطح پر اعتماد بحال کرنے کی خاص ضرورت ہے۔ اگر دونوں ممالک ان مسائل پر توجہ دیں، تو وہ نہ صرف اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ خطے میں ایک مضبوط اور مستحکم اتحاد کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا:
’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور بنگلا دیش کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی اہمیت کو فروغ دینے باہمی تعاون میں پاکستان بھارتی فوج سکتے ہیں کرنے کی عوام کے کے لیے رہے کہ کے بعد
پڑھیں:
بھارت اور بنگلا دیش کی سرحدپر کسانوںمیں جھڑپ
نئی دہلی (صباح نیوز)بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد پر بارڈر سیکیورٹی فورسز (بی ایس ایف)کی چیک پوسٹ کے قریب دونوں ممالک کے کسانوں کے درمیان تلخ کلامی کے بعد جھڑپ ہوئی۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق انڈیا،بنگلہ دیش سرحد پر ہفتے کی صبح دونوں ممالک کے کسانوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور اس کے بعد جھڑپ ہوئی تاہم پیراملٹری فورس نے
بتایا کہ صورتحال پر قابو پالیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے کسانوں کے درمیان جھڑپ سرحد کے اسی مقام پر ہوئی ہے جہاں بھارت باڑ لگا رہا ہے تاہم بی جی بی نے مذکورہ علاقے کو بنگلہ دیش کی حدود قرار دیا ہے، جس کے بعد 6جنوری سے کام روک دیا گیا تھا جبکہ مذاکرات کے نتیجے میں اگلے ہی روز باڑ پر کام دوبارہ شروع کردیا گیا۔ بی ایس ایف نے بیان میں کہا کہ کسانوں کے درمیان جھڑپ کے بعد بی ایس ایف اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی)کی مداخلت سے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے یقینی اقدامات کیے گئے ہیں۔ بی ایس ایف کے بیان کے مطابق کسانوں میں جھڑپ سکدیوپور سرحد کے قریب صبح 11 بجکر 45منٹ پر پیش آیا، جب بین الاقوامی سرحد کے قریب کام کرنے والے بھارتی کسانوں نے الزام عائد کیا کہ بنگلہ دیشی کسان فصل چوری کر رہے ہیں۔ جھڑپ کے حوالے سے بتایا گیا کہ جملوں کے تبادلہ فوری طور پر جھگڑے میں تبدیل ہوا اور دونوں اطراف کسانوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی اور ایک دوسرے پر پتھرائو کیا۔ بھارتی پیراملٹری فورس نے بتایا کہ بی ایس ایف اور بی جی بی کے عہدیداروں کی بروقت مداخلت سے صورت حال کو قابو کرلیا گیا اور دونوں ممالک کے کسانوں کو منتشر کرکے اپنی اپنی سرحد کی جانب بھیج دیا گیا۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے کسانوں کی لڑائی میں جانی نقصان یا کسی کے زخمی ہونے کی رپورٹ نہیں دی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاملے رفع دفع ہونے کے بعد دوپہر کو بنگلہ دیش کی طرف سرحد سے 50سے 75 میٹر دور چند لوگ جمع ہوگئے تھے تاہم بی جی بی نے مزید کشیدگی روکنے کے لیے انہیں منتشر کردیا۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی نئی عبوری حکومت کے بھارت کے ساتھ تعلقات ماضی کی طرح مثالی نہیں ہے اور بھارت سے شیخ حسینہ واجد کی واپسی کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ سرحد پر دونوں ممالک کے کسانوں میں جھڑپیں بھارت کی جانب سے باڑ کی تنصیب پر بی جی بی اور بی ایس ایف کے درمیان اختلاف کے دوران ہوئی ہیں۔