Jasarat News:
2025-04-15@09:39:50 GMT

ایک اور متنازع فیصلہ؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

ایک اور متنازع فیصلہ؟

پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ نے متعدد بار سیاسی شخصیات اور جماعتوں کے خلاف فیصلے سنائے ہیں، جن کا اثر نہ صرف ملک کی سیاست پر پڑا، بلکہ ان فیصلوں نے سماجی اور معاشی سطح پر بھی مشکلات پیدا کی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس وقت بدترین صورتِ حال سے دوچار ہے، کیونکہ ان فیصلوں کی بنیادیں قانون کے بجائے سیاست پر زیادہ استوار ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ایک تازہ فیصلہ 190 ملین پائونڈ ریفرنس کے حوالے سے سامنے آیا ہے، جس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات میں قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ راولپنڈی کی احتساب عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا دی، ساتھ ہی ان پر جرمانے بھی عائد کیے گئے۔ تاہم یہ فیصلہ بھی عوامی سطح پر مختلف سوالات کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ٹھوس قانونی بنیاد دکھائی نہیں دیتی۔ اسی پس منظر میں عمران خان نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہنا پڑا، رہوں گا۔ عمران خان نے القادر یونیورسٹی کو ایک فلاحی منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد طلبہ کو سیرت النبی کی تعلیم فراہم کرنا تھا، اور اس میں انہیں یا بشریٰ بی بی کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عدالتی فیصلے پہلے سے طے شدہ اور میڈیا پر لیک ہوچکے تھے، اور ان کی اہلیہ کو نشانہ بنانے کا مقصد انہیں تکلیف پہنچانا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن کے قیام سے جان بوجھ کر گریز کررہی ہے کیونکہ بددیانت عناصر نیوٹرل امپائرز کو قبول نہیں کرتے۔

پاکستان کی عدلیہ کا یہ رجحان کوئی نیا نہیں۔ ماضی میں بھی عدلیہ کے فیصلوں نے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کیا، چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے فیصلے ہوں، جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئین میں ترامیم کے فیصلے، یا موجودہ حکومتی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف مقدمات۔ اکثر اوقات ان فیصلوں کا مقصد سیاسی فائدہ یا نقصان پہنچانا ہوتا ہے، نہ کہ قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا۔

پاکستان کی سیاست میں 1990 کی دہائی میں کئی ایسے فیصلے سامنے آئے جن سے آج کے سیاسی حکمران اس وقت عتاب کا شکار تھے اور کھیل وہی اصل طاقت کا رچایا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ اِس وقت نواز خاندان اور بھٹو خاندان آج کسی کے اشارے پر جو کچھ کررہے ہیں، ماضی میں ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ مثال کے طور پر بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے خلاف احتساب کے معاملے میں کئی فیصلے آئے، مگر ان میں سے اکثر فیصلے عدالتوں میں بے نتیجہ ثابت ہوئے یا ان کو کسی نہ کسی سیاسی اثرات کا سامنا رہا۔ ان مقدمات میں طاقتور سیاسی شخصیات کے خلاف الزامات تو لگائے گئے لیکن قانونی طور پر ان کا کوئی بڑا نتیجہ نہیں نکلا۔ بدقسمتی سے وطن ِ عزیز میں اس طرح کے سیاسی فیصلوں کا اکثر کوئی خاطر خواہ قانونی نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ یہ مقدمات سیاسی ماحول سے جڑے ہوتے ہیں اور ان میں قانونی کمزوریاں اور سیاسی اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ ان فیصلوں میں ٹھوس شواہد یا مضبوط قانونی بنیاد کی کمی ہوتی ہے، جو کہ ان کے اصل مقصد کو مشکوک بناتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بھی کئی سیاسی فیصلے سامنے آئے، جن میں اہم فیصلے عدالت عظمیٰ کی طرف سے کیے گئے تھے، جنہیںآئینی ترمیم کیسز جیسے معاملات کہا جاتا تھا۔ ان میں کئی فیصلے سیاسی نوعیت کے تھے اور ان پر عوامی رد عمل تھا۔ ان فیصلوں کا شکار لوگوں میں سے آج کئی لوگ حکمران بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک مذاق ہے جو بار بار ہوتا ہے۔ لہٰذا ان فیصلوں کا عمومی طور پر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وقتی طور پر سیاسی فائدہ تو دیتے ہیں لیکن دیرپا نہیں ہوتے۔ ان فیصلوں کا مقصد ہمیشہ کسی خاص سیاسی جماعت یا شخص کے خلاف عوامی رائے بنانے کی کوشش ہوتی ہے جو کہ اکثر کامیاب نہیں ہوپاتی۔ ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ جب کسی سیاست دان کو اسٹیبلشمنٹ نے نشانہ بنایا ہے وہ اگر کرپٹ یا بددیانت بھی ہو اور اسکرپٹ میں حقائق بھی ہوں تو مضحکہ خیزانداز اپنا کر اس کو ہیرو بنادیا جاتا ہے، اس طرح وہ کچھ عرصے کے بعد پہلے سے زیادہ مقبول بن جاتا ہے۔

اب تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ پاکستان کی عدلیہ سیاسی دبائو سے آزاد ہے یا نہیں۔ عدلیہ اور ماتحت عدالتوں کی جانب سے ایسے فیصلے عوام کے اندر بداعتمادی پیدا کرتے ہیں اور ایک ایسے معاشی اور سیاسی بحران کو جنم دیتے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ عوام یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عدالتیں کسی خاص سیاسی جماعت یا فرد کے خلاف فیصلہ دیتی ہیں تو کیا وہ واقعی مبنی بر انصاف عمل کررہی ہوتی ہیں یا صرف طاقتور ادارے کے مفادات کی تکمیل؟ بدقسمتی سے وطن ِ عزیز کی تاریخ میں ایسے فیصلوں کی تعداد زیادہ رہی ہے جنہوں نے صرف سیاسی شعبدہ بازی کو فروغ دیا اور عوامی مفاد کو نظرانداز کیا، اور یہ کھیل تماشا جاری ہے۔ انصاف کسی بھی معاشرتی یا سیاسی نظام کی بنیاد ہے۔ جب انصاف کا نظام مضبوط اور شفاف ہوتا ہے تو یہ نہ صرف فرد کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے بلکہ ریاست کے استحکام کو بھی یقینی بناتا ہے۔ انصاف کے بغیر نہ صرف فرد کی آزادی اور حقوق کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، بلکہ ریاستی ڈھانچے کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔

سیاسی نوعیت کے فیصلے عدلیہ کی خودمختاری کو متاثر کرتے ہیں اور ایک نہ ختم ہونے والا بحران جنم لیتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی بحران کی گہرائی اور انتشار کے اس دور میں اب اس کیس میں آگے اعلیٰ عدلیہ کا کردار غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ عدالتیں آئین و قانون کی روشنی میں فیصلے کریں، نہ کہ سیاسی دبائو یا مصلحتوں کے تحت۔ ہماری موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی صورتِ حال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عدلیہ کو ایک غیرجانب دار ادارہ بنانے کی ضرورت ہے، جو صرف اور صرف قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہو۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر پاکستان کے استحکام اور عوام کی بھلائی کو مدنظر رکھیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اسٹیبلشمنٹ کی چکی، جس میں آج کوئی اور پس رہا ہے، کل خود آج کی حکمران جماعتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ انصاف اور تدبر سے عاری فیصلے ہمیشہ ایسا خلا پیدا کرتے ہیں جو قوموں کے وجود کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ قوم پریشان اور بدحال ہے، پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا گھیرا تنگ ہورہا ہے، یہ وقت ہے کہ تمام فریق مل کر پاکستان کے مستقبل کے لیے سنجیدہ اور دیرپا اقدامات کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ان فیصلوں کا پاکستان کی کا مقصد کے خلاف ہوتا ہے اور ان

پڑھیں:

اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے!

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم تمام فیصلے اتحادیوں کی مشاورت سے کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت میں باہمی اعتماد سازی کی فضا خوش آیند ہے اور حکومت ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے یکسوئی سے کام کر رہی ہے۔

دریائے سندھ سے 6نہریں نکالنے کے اہم مسئلے پر سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی بھی اپنے سیاسی مخالفین کے بعد خود بھی اس صوبائی احتجاج میں بھرپور طور پر شریک ہو چکی ہے۔

صدر مملکت پارلیمنٹ میں 6 کینالز نکالنے کی مکمل طور پر مخالفت کر چکے ہیں جب کہ وفاق اور سندھ کے اس تنازع میں صورتحال مزید کشیدہ ہو چکی ہے جب کہ اس معاملے میں پنجاب کو خود کو دور رکھنا چاہیے تھا تاکہ صدر مملکت اور وزیر اعظم اس مسئلے کو خود حل کرنے کی کوشش کرتے، اس معاملے میں سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے وزرائے اطلاعات بھی خاموش نہیں رہے اور دونوں نے اس سلسلے میں بیان بازی کی۔

وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا ہے کہ کینالز منصوبہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد اعلان ہوا جس کے ثبوت موجود ہیں جب کہ وزیر اطلاعات سندھ نے اس سلسلے کے میٹنگ منٹس کو من گھڑت قرار دیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو آئین پڑھنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں جس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کینالز منصوبے کو نامنظور کرکے عوام کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان کر چکے ہیں جس کے بعد پنجاب حکومت نے جواب دینا نہ جانے کیوں ضروری سمجھا جس کا جواب سندھ نے دیا۔

اگر صدر مملکت آصف زرداری نے کسی وجہ سے کینالز منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سندھ میں ان کے سیاسی مخالفین نے اس کی نہ صرف مخالفت شروع کی بلکہ صدر مملکت کو بھی اس میں شریک قرار دیا اور سندھ میں احتجاج پر وفاقی حکومت خاموش رہی اور بڑھتی مخالفت کے بعد پیپلز پارٹی کو بھی کینالز پر اپنی سیاست متاثر ہوتی نظر آئی تو اس نے بھی یوٹرن لیا اور اس طرح وہ بھی دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کی مخالف ہوگئی اور احتجاج میں شریک ہوگئی اور یہ سلسلہ سندھ میں دونوں طرف سے احتجاج بڑھاتا رہا اور اب یہ مسئلہ انتہا پر پہنچ چکا ہے اگر اتحادی حکومت کے فیصلے اتحادیوں کے مشوروں سے ہوتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اور کینالز منصوبے کا انجام بھی کالاباغ ڈیم جیسا نہ ہوتا۔

کالاباغ ڈیم کا پنجاب حامی اور باقی صوبے مخالف تھے اس لیے کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا اور اب کینالز منصوبے پر صرف سندھ مخالف ہے کیونکہ پانی نہ ملنے سے سندھ ہی متاثر ہوگا اور فائدہ پنجاب کا ہونا ہے اس لیے وفاق کے منصوبے کی وجہ سے سندھ اور پنجاب سامنے آگئے جس کے بعد حکومت کے مخالفین جن میں پی ٹی آئی پنجاب بھی شامل ہے پنجاب کی مخالفت میں سامنے آگئی اور ملک کے تمام قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کو پنجاب کی مخالفت کا موقعہ مل گیا ہے۔

سندھ میں پی پی کے مخالفین کی مخالفت کے بعد اگر صدر مملکت اور وزیر اعظم باہمی مشاورت سے کوئی فیصلہ کر لیتے تو سندھ اور پنجاب حکومتوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہ ہوتی۔اتحادی حکومت سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ بلانے پر پیپلز پارٹی شکایت کرتی آ رہی ہے جس کے بعد ایم کیو ایم دوسری وزارت ملنے پر بھی نہ خوش ہے اور حکومت کی حمایت ترک کرنے کی دھمکی بھی دے چکی ہے تو وزیر اعظم کیسے کہہ رہے ہیں کہ ہم تمام فیصلے اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے کرتے ہیں؟ کہنے کو حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے جو پیپلز پارٹی کے ساتھ عہدوں کی تقسیم سے بنائی گئی تھی جس میں تیسری بڑی پارٹی ایم کیو ایم ہے اور دونوں کو شکایت ہے کہ اتحادی حکومت اہم فیصلوں میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیتی اور فیصلے پہلے اپنے طور کر لیتی ہے اور مشاورت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتی۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں سے پہلے بھی اس کے اتحادیوں کو مشاورت نہ کرنے کی شکایت ماضی میں بھی رہی ہے جب کہ اس وقت وہ صرف چھوٹے اتحادی تھے جن کے الگ ہونے سے (ن) لیگی حکومت قائم رہی تھی مگر اب صورت حال 2008 جیسی نہیں جب (ن) لیگ، پی پی حکومت سے الگ ہوئی تھی اور پی پی حکومت نے نئے اتحادی ملا کر اپنی مدت پوری کر لی تھی اب وہ صورتحال نہیں اور پیپلز پارٹی جب چاہے (ن) لیگی حکومت سے اتحاد ختم کرکے حکومت ختم کراسکتی ہے اور (ن) لیگ پی پی کو ملے ہوئے آئینی عہدے ختم نہیں کرا سکتی اور پی پی پی، پی ٹی آئی کو نیا اتحادی بنا سکتی ہے۔ اتحادیوں کو نظرانداز کرکے یکطرفہ فیصلے کرنا درست نہیں۔

ماضی میں پی ٹی آئی حکومت کی حمایت اختر مینگل نے ختم کی تھی کیونکہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے تھے۔ آصف زرداری میں اپنے چھوٹے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ضرور ہے وہ اپنی قرار دی گئی قاتل لیگ کو نائب وزیر اعظم بنا دیتے تھے مگر (ن) لیگ کسی اتحادی عہدہ دینے سے کتراتی ہے اور وہ ماضی میں آصف زرداری کو ناراض کرکے اپنی بلوچستان حکومت ختم کرا چکی ہے۔

حکومت بنانے کے لیے وعدے کرکے اپنے اتحادی بڑھانا اورحکمران بن کر اتحادیوں سے کیے گئے وعدے بھول جانا ماضی میں بھی ہوتا رہا اور اب  بھی ہو رہا ہے اور دعویٰ ہے کہ ہم اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت سے پی پی مطمئن ہے نہ ایم کیو ایم مگر کوئی مجبوری ضرور ہے کہ یہ ایک سال بعد بھی حکومت کے اتحادی ہیں مگر اب سندھ میں پی پی کی سیاست واقعی خطرے میں ہے اور لگتا ہے کہ پنجاب حکومت بھی کچھ مختلف چاہتی ہے، اس لیے کینالز کے تنازعے میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے کر معاملہ سلجھانے کے بجائے مزید الجھایا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے!
  • دہشت گردی، بڑا چیلنج
  • بلوچستان نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس، کیا اہم فیصلے کیے گئے؟
  • خان اور پارٹی اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں، شیر افضل مروت
  • متنازع کینال منصوبہ، آئین میں صدر کو ایک کلومیٹر سڑک کی منظوری کا اختیار بھی نہیں ہے، شرجیل میمن
  • متنازع کینال منصوبے پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے، شرجیل میمن
  • عمران خان سے ملاقات کون کرے گا؟ فیصلہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کرے گی
  • فہرست کے علاوہ کوئی فرد عمران خان سے ملاقات نہیں کریگا، پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کا فیصلہ
  • فہرست کے علاوہ کوئی فرد عمران خان سے ملاقات نہیں کریگا، پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کا فیصلہ
  • 26 ویں ترمیم کی خوبصورتی عدلیہ کا احتساب، جو ججز کیسز نہیں سن سکتے گھر جائیں: وزیر قانون