عمران خان کی پارسائی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
190 ملین پاؤنڈ کا کیس تو آئس برگ کا وہ سرا ہے جس نے پانی سے باہر سر نکالا، اصل کہانی تو زیادہ بڑی اور زیادہ خوفناک ہے۔
190 ملین پاؤنڈ کا کیس کیا ہے؟ اس کی تفصیل تو اب بچے بچے کی زبان پر ہے، یہاں تک کہ عمران خان کے معذرت خواہ بھی چوں کہ چناں چہ کے سابقوں لاحقوں کے ساتھ یہ ماجرا بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے۔ اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ اس قضیے کے اسرار پورے طور پر تبھی کھل پائیں گے اگر اصل معاملے پر توجہ دی گئی۔ اصل معاملہ وہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس گڑھے کا تعفن بڑھتا جاتا ہے۔
اصل معاملہ کیا ہے؟ اصل معاملہ ایک خاص مزاج یا انداز فکر کا ہے، جس کے اینٹ گارے سے ایک شخص وجود میں آیا، جسے دنیا عمران احمد خان نیازی کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں بہت سے اعترافات اور انکشافات کیے ہیں۔ عمران خان نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ لکھ رکھا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کی جماعت کے پاس مالی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے جب کہ قرضے کا بوجھ بہت بڑھ چکا تھا۔ سوال یہ تھا کہ اس مشکل سے کیسے نکلا جائے؟ ان کے ساتھی اور مشیر پریشان تھے لیکن ان کے اپنے ذہن رسا میں ایک حیران کن تجویز آئی جس پر عمل درآمد نے ان کی مشکل آسان کر دی۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور بنگلہ دیش، آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
یہ واقعہ لندن کا ہے جہاں کرکٹ کا کوئی ٹورنامنٹ ہو رہا تھا جس پر جوئے کے عادی لوگ جوا کھیل رہے تھے۔ ان میں عمران خان کے سابق برادر نسبتی زیک گولڈ اسمتھ بھی شامل تھے۔ زیک نے عمران سے مشورہ کیا کہ انہیں کس ٹیم پر شرط لگانی چاہیے؟ عمران مشورہ دینے کے لیے یہ شرط رکھی کہ اگر وہ جیتی ہوئی رقم میں سے نصف انہیں دے دیں تو انہیں مشورہ دیں گے۔ زیک نے یہ شرط مان لی اور وہ عمران خان کے مشورے سے جوئے میں ہزاروں ڈالر جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح جوا کھیل کر انہوں نے جتنی دولت کمائی، عمران خان اس میں سے نصف کے مالک بن گئے۔ پاکستان تحریک انصاف جوئے کی اسی کمائی سے برگ و بار لا سکی۔
سلائی مشینوں کی کمائی کی مدد سے مغربی ممالک میں جائیدادیں بنانے کا شہرہ بہت ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں یہ سوال پوری شدت کے ساتھ اٹھایا گیا کہ سلائی مشینوں کی آمدنی آخر اتنی زیادہ کیسے ہو جاتی ہے کہ کوئی امریکا برطانیہ میں جائیدادیں بنا لے؟ اس سوال کا جواب کبھی سامنے نہیں آ سکا۔ جواب سامنے آ بھی نہیں سکتا، اس لیے کہ اس کے پس پشت بھی بہت سی ہوشربا داستانیں اور قدرتی آفات کا نشانہ بن کر کسمپرسی کا شکار ہونے والے لوگ ہیں، جن کے نام پر میراتھن ٹرامیشنز کر کے بھاری رقوم جمع کی گئیں۔ یہ رقوم سیلاب اور زلزلہ متاثرین پر خرچ ہوتی تو نہیں دیکھی گئیں، پھر وہ رقوم کہاں گئیں؟ اس سوال کا جواب سلائی مشینوں کی جادوئی آمدنی میں تلاش کیا جائے تو ہوشربا انکشافات یقینی ہیں۔
جسٹس وجیہہ الدین احمد ہماری عدلیہ ہی نہیں سیاست کے بھی مسٹر کلین ہیں۔ معیشت کو سود سے پاک کرنے کے ضمن میں ان کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ اسی طرح انہوں نے سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس اور جج کی حیثیت سے جو خدمات انجام دیں، ان کی تعریف دشمن بھی کرتے ہیں۔ عمران خان نے جب شفافیت اور احتساب کے نام پر سیاست کا آغاز کیا تو وہ بھی ان کے متاثرین میں شامل تھے۔ انہیں پارٹی کا چیف الیکشن کمشنر بنا دیا گیا۔ تحریک انصاف کے قیام کے بعد پارٹی عہدے داروں کا پہلا انتخاب ہوا تو بدعنوانی کا بازار گرم ہوگیا۔ دولت مندوں نے دل کھول کر دولت لٹائی اور لوگوں کو خریدا۔ جسٹس وجیہ الدین احمد نے لوٹ مار اور خرید و فروخت کے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ رپورٹ تیار کی۔ کسی سیاسی جماعت کے اندر اس قدر دھاندلی کے ایسے ناقابل تردید ثبوت پہلی بار سامنے آئے تھے۔ اگر کوئی ایمانداری کے ساتھ اپنی جماعت کو صاف اور شفاف بنانا چاہتا تو اس رپورٹ کی قدر کرتا اور رپورٹ تیار کرنے والے صاحبِ ضمیر کو سونے میں تولتا، لیکن پی ٹی آئی کی تاریخ بتاتی ہے کہ عمران خان نے جسٹس وجیہہ الدین احمد کو پارٹی سے نکال باہر کیا اور پارٹی میں بدعنوانی کو فروغ دینے والوں کو اونچے مناصب سے نوازا۔ پی ٹی آئی کے داخلی انتخابات کے ضمن میں بھی عمران خان نے ریاست کے قانون اور ضابطوں کی دھجیاں اڑا دیں۔ پارٹی کے موجودہ ڈھانچے کی بھی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غامدی صاحب کا جرم
عمران خان کا دور حکومت بدعنوانی اور کرپشن کے لیے بہت بدنام ہے۔ اس زمانے میں پاکستان کی بدنامی میں بہت اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور کرپشن کا جائزہ لینے والے دیگر عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں اس زمانے میں کرپشن میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں کیسی کیسی بدعنوانی ہوئی، اس کی داستانیں عام ہیں۔ پیٹرول اور گیس کے علاوہ طبی معاملات تک۔ اس زمانے میں دواؤں کی قیمتوں سمیت بے شمار اسکینڈل سامنے آنے۔ کورونا کے زمانے میں دواؤں حتیٰ کہ فیس ماسک تک کی بلیک مارکیٹنگ ہوئی۔ اس بدعنوانی کے الزامات براہِ راست ان کے متعلقہ وزیر پر لگے۔ دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ عمران خان کو متعلقہ وزیر کو ہٹانا پڑ گیا۔ انہوں نے وزیر کو کابینہ سے نکالا ضرور لیکن پارٹی میں اسے اعلیٰ عہدے سے نواز دیا۔
عمران خان ایمانداری اور شفافیت پر کتنا یقین رکھتے ہیں، اس کا بہترین اندازہ تحریک انصاف کے مالی معاملات سے ہوتا ہے۔ فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کو پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کیس کی تفصیلات عقل سلیم رکھنے والے کسی بھی ضابطہ پسند انسان کو حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ یہ محض الزامات نہیں ہیں کہ پی ٹی آئی کو اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ ہوئی، بلکہ اس کے ناقابل تردید دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ یہ کیس الیکشن کمیشن کے زیر غور آیا تو اس جماعت نے کیس چلانے کے بجائے بار بار التوا لیکر اس میں رخنے ڈالنے کی کوشش کی۔ اس معاملے کے 2 پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی حسابات پیش کرنا قانونی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی نے یہ ضرورت پوری کرنے میں ہمیشہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ دوسرے پہلو کا تعلق حب وطن اور ملک کے ساتھ وفاداری سے ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ محب وطن بھی ہوں اور ان ممالک سے آپ کو فنڈ ملتے ہوں جو پاکستان کے دشمن ہیں۔ ویسے غیر ملک سے حاصل ہونے والی ہر قسم کی فنڈنگ ہر اعتبار سے ناقابل قبول ہے، لیکن بھارت اور اسرائیل کا معاملہ تو خاص طور پر قابل تشویش ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا پی ٹی آئی کبھی بھی تسلی بخش جواب نہیں دے سکی۔ پارٹی فنڈنگ اور شوکت خانم اسپتال کے لیے ملنے والے عطیات کے غلط استعمال میں خورد برد کے بارے میں سوالات الگ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:وسائل کے بغیر جنگ جیتنے کی حکمت عملی
عمران خان اور ان کی جماعت کے بارے میں مالی معاملات کے علاوہ بھی چند امور قابل توجہ ہیں جن معاملات کی بہت سی مثالیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں، لیکن تحریک عدم اعتماد کے موقع پر اس جماعت نے آئین اور قانون کی جس طرح دھجیاں اڑائیں، اس کی تفصیل تاریخ میں محفوظ ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جماعت اپنے اقتدار کی خاطر آئین اور قاعدے قانون کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ قانون کے احترام کے ضمن میں عمران خان کا ایک اور رویہ بھی توجہ طلب ہے۔ الیکشن کمیشن کے ضابطوں کے مطابق ضمنی انتخابات میں ریاستی مناصب پر فائز کوئی شخص انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتا، لیکن عمران خان نے اس قانون کا کبھی احترام نہیں کیا۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ توشہ خانے کے معاملات کا ہے۔
اب آتے ہیں 190 ملین پاؤنڈ کے معاملے کی طرف۔ اس واقعے میں مالی بدعنوانی اور Conflict of interest کا پہلو تو بالکل صاف ہے، لیکن اس سے بھی بڑا جرم اپنے اختیارات سے تجاوز ہے۔ عمران خان اور ان کے معاون مرزا شہزاد اکبر نے جس طرح ایک بند لفافہ دکھا کر اس معاملے کی وفاقی کابینہ سے منظوری لی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اختیارات سے تجاوز اور اختیارات کے غلط استعمال کی ایک نادر مثال ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں شاید ہی کوئی ہو جس نے اتنی دیدہ دلیری سے بدعںوانی کی ہو اور اختیار کا غلط استعمال کیا ہو۔ عمران خان شاید پہلے اور آخری آدمی ہوں گے جن کے حصے میں یہ اعزاز آیا ہے۔
یہ واقعات کیا ثابت کرتے ہیں؟ پی ٹی آئی اور عمران خان کے مالی معاملات اور اس ضمن میں اُن کے انداز فکر کا جائزہ لیا جائے تو جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ درج ذیل ہے:
1ـ جائز اور ناجائز اور حلال و حرام کے معاملات عمران خان اور پی ٹی آئی کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
2ـ عمران خان اور ان کی جماعت اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر جائز اور ناجائز ذریعہ اختیار کرنے پر یقین رکھتی ہے بلکہ کسی جھجھک بغیر اس پر عمل بھی کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:رچرڈ گرینل پریشان کیوں ہیں؟
3ـ آئین اور قاعدے قانون کی عمران خان اور پی ٹی آئی کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔
4ـ عمران خان اور پی ٹی آئی میں بدعنوان لوگوں کے لیے بہت گنجائش ہے اور وہ اس جماعت میں خوب پھلتے پھولتے ہیں۔
5- عمران خان اور پی ٹی آئی کے نزدیک قومی مفاد اور وطن عزیز سے وفاداری کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ اپنے مفاد کی خاطر دشمن ملکوں سے بھی مدد لے سکتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان ایک ایسے منفرد آدمی ہیں جن کے نزدیک ایمانداری، بے ایمانی، کرپشن، دھاندلی اور آئین و قانون وغیرہ پر عمل درآمد بے معنی ہے۔ وہ اس سب سے بلند ہیں۔ حرف آخر یہ کہ احتساب اور شفافیت جیسے نعرے انہوں نے اپنے مخالفین کو بدنام کرنے اور انہیں گالی دینے کے لیے لگائے تھے۔ انہوں نے خود کو اس سب سے بلند سمجھا اور وہ سب کچھ آزادی کے ساتھ کیا جو ان کا مزاج تھا۔ ایسی صورتحال میں قدرت کا قانون بروئے کار آتا ہے۔ وہ ہمیشہ طاق میں رہتا ہے اور دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والے کو بالآخر اس کے اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں لا گراتا ہے۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے کے بعد یہ اصول ممکن ہے کہ عمران خان کی سمجھ میں بھی آ گیا ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر فاروق عادلفاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔
190 ملین پونڈ احتساب پی ٹی آئی تحریک انصاف جسٹس وجیہہ الدین احمد جوا زیک گولڈ اسمتھ عمران خان فارن فنڈنگ لندن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190 ملین پونڈ پی ٹی ا ئی تحریک انصاف جسٹس وجیہہ الدین احمد جوا فارن فنڈنگ عمران خان اور پی ٹی آئی عمران خان کے کہ عمران خان تحریک انصاف پی ٹی آئی کے اصل معاملہ الدین احمد ملین پاؤنڈ انہوں نے کے نزدیک کے ساتھ کے لیے اور ان
پڑھیں:
190ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پر عمران خان کا بیان بھی سامنے آ گیا
راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن)اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کی جانب سے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان 14 سال اور بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائے جانے کے فیصلے کے بعد کمرہ عدالت میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت کی جانب سے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آج فیصلے نے عدلیہ کی ساکھ کوخراب کردیا، اس کیس میں نہ مجھے فائدہ ہوا ہے اور نہ حکومت کو کوئی نقصان ہوا ہے۔
بھارتی میڈیا نے کپتان روہت شرماکے پاکستان آنے سے متعلق حیران کن دعویٰ کر دیا
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی ریلیف نہیں چاہیے، تمام کیسز کا سامنا کروں گا، ایک آمراپنی ذات کے لیے یہ سب کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاردیواری کا تقدس پامال کرنے والے پولیس افسران کوپلاٹ دیے گئے، جوساتھ ہے وہ آزاد ہیں اور جو مخالف ہیں انہیں سزائیں دی جارہی ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میری اہلیہ گھریلو عورت ہے، اس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، اہلیہ کوسزا مجھے تکلیف دینے کے لیے دی گئی۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ غور سے سن لیں کہ میں کسی قسم کی ڈیل نہیں کروں گا، 1971 میں جنرل یحییٰ نے ملک تباہ کیا، آج آمر بھی اپنے فائدے کیلئے یہی کام کر رہا ہے۔
190ملین پاؤنڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا، فیصل واوڈا نے ایک اور دعویٰ کردیا
عمران خان نے کہا کہ آج سارا میڈیا آیا ہے، کہیں پک اینڈ چوز تو نہیں کیا، سزا جتنی بھی سنائیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، نواز، شہباز اور زرداری ڈکٹیٹر کے ساتھ ہیں اس لیے ان کہ سزائیں معاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر سال شوکت خانم کا 9 ارب روپے کا فنڈ اکھٹا ہوتا ہے، ہم نے کبھی ایک روپے کہ بھی کرپشن نہیں کی۔
دوران گفتگو، ایک صحافی نے اسرائیل کے حوالے سے سوال کیا تو عمران خان نے کہا کہ اسرائیل کی مذمت کہاں سے آگئی، ابھی اس کیس پر بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سزائیں کس طرح سنارہے ہیں، مجھے کوئی مالی فائدہ نہیں ہوا۔
190ملین پاؤنڈکیس 15سے 20دن میں ختم ہوگا،بیرسٹر سلمان صفدر
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے کی سزا سنائی گئی ہے۔
مزید :