آج مجھے دفتر سے گھر کے لیے نکلتے ہوئے دیر ہو گئی تھی، عین چھٹی سے آدھ گھنٹے پہلے سیٹھ صاحب کو مہینوں سے فائلوں میں دبے کچھ ضروری کاغذات اچانک لاہور بھجوانے یاد آگئے، تو چار و ناچار مجھے گھر کے بجائے ڈاک خانے کا رخ کرنا پڑا۔ سردیوں میں شامیں 6 بجے ہی تاریکی کی چادر لپیٹ لیتی ہیں، اسی لیے مَیں سردیوں میں وقت سے تھوڑا پہلے ہی دفتر سے نکل جاتا ہوں اور رستے سے دودھ، ڈبل روٹی اور روزمرہ کا سامانِ ضرورت خریدتا ہوا اندھیرا پھیلنے سے قبل ہی گھر پہنچ جاتا ہوں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا اندھیرے سے پہلے ہی کیوں؟ دراصل کئی سال سے ہماری زندگی گینگ وار اور لسانی فسادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ غنڈہ گردی، اغوا کی وارداتیں، بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم کر دیا گیا ہے کہ سورج کے ڈھلتے ہی علاقوں میں ایسا سناٹا ہو جاتا جیسے یہاں برسوں سے کوئی آدم زاد پیدا نہ ہوا ہو۔ گلیوں کے مکینوں نے بچاؤ کی خاطر خود ساختہ کرفیو بھی نافذ کر لیا تھا اور بنا سائرن کے گھروں میں محصور ہونے کے اوقات بھی متعین کر لیے تھے۔ زندگی دائروں میں مقید ہو کر رہ گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:علی چوہدری کا 2060 کا اسلام آباد
’آج سودا سلف نہیں لے پاؤں گا، پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے‘۔میں نے سوچا، اور سرعت سے کاغذات ڈاک خانے میں جمع کروا کر موٹر سائیکل کو ہوا کے دوش پر اڑنے کے لیے چھوڑ دیا۔
خیر سے وقت پر گھر پہنچ گیا۔
میرے دونوں بچے ’بابا آگئے، بابا آگئے‘ چلاتے ہوئے میرے اردگرد منڈلانے لگے کہ میں روزانہ کی طرح اپنی جیب سے چاکلیٹ نکال کر ہوا میں لہرا لہرا کر پہلے انہیں ستاؤں گا پھر ان کو گود میں بھر کر اتنی گدگدی کروں گا کہ وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جائیں گے۔ پھر دونوں کو ایک ایک چاکلیٹ تھما کر زور کی چپت لگا کر، بیوی کو کھانا گرم کرنے کا کہہ کر خود غسل خانے کا رخ کروں گا۔
لیکن آج میرے ہاتھ اور جیب دونوں خالی تھے، نہ ہی میں چائے کا سامان لے پایا نہ بچوں کی دل پشوری کے لوازمات۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخر میں ہوں کون؟
تو جناب میں اس ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک قدیم بستی لیاری کے علاقے گھاس منڈی میں رہنے والا ایک عام سا انسان ہوں، جو روزمرہ کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے مسلسل بھاگ رہا ہے، دوڑ رہا ہے۔
میرا نام کیا ہے؟
بھئی نام میں کیا رکھا ہے آپ مجھے کوئی بھی نام دیں لیں، ہم جیسے متوسط طبقے کے لوگوں کی کہانی کم وبیش ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔
گھاس منڈی کی مین سڑک پر میرا ایک چھوٹا سا گھر ہے جس میں چار نفوس کا ایک کنبہ راضی خوشی قیام پذیر ہے۔ میں، میری بیوی، میرا 5 سالہ بیٹا اور 3 سال کی میری ننھی پری۔
یہ بھی پڑھیں:روبی مسیح
ویسے تو میں ایک بلوچ ہوں لیکن گھاس منڈی چونکہ لیاری کا وہ علاقہ ہے جہاں اردو بولنے والے مہاجروں کی اکثریت ہے، دوسری بڑی آبادی کچھی میمنوں اور مارواڑیوں کی ہے جبکہ تیسری آبادی بلوچوں کی ہے۔ چونکہ بچپن مختلف زبانیں بولنے والوں کی صحبت میں گزرا تو بلوچی کے علاوہ مجھے بیک وقت دیگر زبانوں پر بھی عبور حاصل ہوتا گیا، تاہم اردو ادب اور شاعری سے رغبت نے میری اردو کو شُستہ ، لہجہ شگفتہ اور بیاں گلفشاں
کردیا تھا۔ اسی لیے اکثر لوگ میرے اہل زبان ہونے پر دھوکا کھا جایا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے وقت نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ مہاجروں اور بلوچوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئیں، بلکہ پیدا کر دی گئیں تھیں۔ جن کے ساتھ برسوں سے محلہ داریاں، دوستی یاریاں تھی،ں وہ آج ایک دوسرے کے دشمن بن چکے تھے۔ برسوں سے رواداری کی میراث سے بھرپور علاقہ عجب نفسانفسی اور تعصبات سے آلودہ ہو چکا تھا۔
جہاں تک میری نوکری کا تعلق ہے تو اپنے میمن سیٹھ کے ایکسپورٹ امپورٹ کے کاروبار میں میری دلچسپی صرف اس حد تک تھی کہ یہ میرے کنبے کی بقا کا ضامن تھا۔ دفتر سے واپس آنے کے بعد چھت پر بنا چھوٹا سا کمرہ میرا گوشہ سکون تھا، جہاں میں ایک سگریٹ سلگا کر کچھ گھنٹے گوشہ نشینی کے گزارتا اور ادبی شہ پاروں اور شاعری سے محظوظ ہوا کرتا تھا۔ کچھ دیر کے لیے ہی سہی زندگی کے بے مقصد جھمیلوں اور بے مصرف بکھیڑوں سے فرار روح کی تسکین کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا دل کے لیے خون کی روانی۔
رات کے 8 بجنے کو آئے تھے، لیکن کھانا کھانے کا من نہیں ہو رہا تھا، گھر کا ماحول بہت بوجھل تھا اور گھر سے باہر ہُو کا عالم تھا۔ نہ جانے مجھے کیا سوجھی کہ بیٹے کو موٹر سائیکل پر بٹھایا اور بیگم کو آواز لگائی:
’دروازہ لاک کر لو میں سولجر بازار سے بہاری کباب اور پراٹھے لینے جارہا ہوں پھر کھانا کھاتے ہیں ـ بس یوں گیا اور یوں آیا‘۔
یہ بھی پڑھیں:نقاب
پیچھے سے بیگم کی غصے اور خوف کی ملی جلی آوازیں آتی رہیں لیکن میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے بیٹے کو بائیک کی ٹنکی پر بٹھایا اور موٹر سائیکل کو ہوا سے باتیں کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
گھاس منڈی سے نشتر روڈ کا رستہ پکڑا، ہر جا ویرانی کے ڈیرے تھے۔ نشتر روڈ کراس کرکے چڑیا گھر کے عقب والی سڑک پر ہو لیا کہ یہ شارٹ کٹ راستہ جلدی سولجر بازار پہنچا دے گا۔ سڑک سنسان پڑی تھی اور ماحول پر ایک عجیب وحشت طاری تھی۔
ارے یہ کیا ہوا، بائیک چلتے چلتے جھٹکے لینے لگی۔ میں بار بار کک لگاتا لیکن کچھ دور چل کر وہ پھر جھٹکے لے کر رک جاتی۔ بائیک کا پٹرول خاتمے کے قریب تھا، میں نے بیٹے کو فوراً نیچے اتارا اور بائیک کو زمین پر پورا لٹا دیا تاکہ بچا کچھا پٹرول بائیک کے حلق کو کم از کم اتنا تر کر دے کہ میں اور میرا بچہ بحفاظت سولجر بازار پہنچ سکیں۔
دور دور تک نہ بندہ نہ بندہ ذات۔ اب کفِ افسوس مل رہا تھا کہ اپنے چٹورے پن کی خاطر ناحق اپنی اور اپنی اولاد کی جان کو خطرے میں ڈالا۔ میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے ناگ کی طرح پھن پھیلائے مجھے ڈرا رہے تھے۔
اگر کسی نے اغوا کر لیا تو؟
یا گولی مار دی؟
گھر پر پیچھے رہ جانے والی دو جانوں کا پرسان حال کون ہوگا؟
میرے پرووڈنٹ فنڈز کا کیا بنے گا؟
میرا کھڑوس سیٹھ کہیں میرے پیسے ہی نہ ہڑپ کر جائے۔ میری بیوی کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ میرے بینک اکاؤنٹ کا نمبر کیا ہے؟ اور اس میں کتنے پیسے ہیں؟
میں مستقبل کی منظر کشی کرتے ہوئے لرز سا گیا۔
ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ دور سے ایک رکشے کی پھٹ پھٹی سی آواز سنائی دی۔ مجھ پر خوشی اور خوف، دونوں جذبات غالب آگئے۔ رکشہ ایک گلی سے نکل کر اب سڑک پر ہماری جانب آ رہا تھا۔
میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ رکشہ والا کوئی بلوچ ہی ہو ورنہ تو مارے گئے آج۔
رکشہ پھڑپھڑاتے ہوئے پرندے کی طرح لہراتا ہوا ہمارے پاس آ کر رک گیا۔
’ہاں بھائی اتنی رات کو کیا ہوریا ہے؟ پھٹپھٹیا بند ہو گئی ہے کیا؟‘
یہ بھی پڑھیں:مادر ملت کی جمہوری جدوجہد
میں سمجھ گیا کہ اگلا اردو اسپیکنگ ہے۔ میں نے شستہ اور رواں اردو میں مدعا بیان کیا۔
’ہاں بھائی گھر میں دودھ ختم تھا اور بچے کی دوا بھی لینی تھی اسی لیے رات کو اس سناٹے میں نکلنا پڑا۔ پتا نہ تھا کہ بائیک میں پٹرول کم ہے۔ بس یہاں پہنچ کر بائیک نے جواب دے دیا‘۔
’او بھیا حالات بہت خراب چل رییے ہیں اور تم کو بچے کے ساتھ رات کو مستی سوجھ رہی ہے۔ یہ کنجر سالے بلوچ چن چن کر مہاجروں کو اغوا کر رہے ہیں۔ کتنوں کو تو مار مور کے ادھر ادھر لڑھکا دیا ہے۔ ان کم بخت بلوچوں نے تو اَپُن کی سالی بینڈ بجا دی ہے‘۔
کشہ ڈرائیور نے پورا زور لگا کر منہ سے پان کی پچکاری ماری۔
’بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو بھائی، مجھے پتا ہے کہ ان حالات میں باہر نکلنا موت کے منہ میں جانا ہے۔ بس آپ ایک مہربانی کریں کہ 2-3 کلومیٹر دور پٹرول پمپ سے مجھے تھوڑا پٹرول لا دیں، میں آپ کو پیسے دیے دیتا ہوں‘۔
یہ کہہ کر میں جیب سے بٹوہ نکالنے لگا۔
’نہیں بھیا حالات مافق نہیں چل رہے۔ ایسے سناٹے میں اکیلے دیکھ کر یہ حرام جادے بلوچ تم دونوں کا ایسا تیا پانچا کریں گے کہ چیل کوے کو بھی ماس نہ ملینگا۔ چلو تم رکشے کے پیچھے راڈ کو پکڑ لیو میں تمہیں سولجر بازار کے کسی پٹرول پمپ تک چھوڑ دیتا ہوں‘۔
یہ کہہ کر رکشے والے نے ایک ہاتھ سے رکشہ اسٹارٹ کیا اور دوسرے ہاتھ سے مجھے رکشے کی پشت پکڑنے کا اشارہ کیا۔
’سالا کب یہ مار کاٹ رُکے گی؟ فالتو میں جانیں لے ریئیں ایک دوسرے کی۔ اندھی مچا رکھی ہے سالے بلوچوں نے‘ ۔۔۔ میں دم سادھے رکشے کے سہارے اپنی بائیک گھسیٹتا رہا، جبکہ رکشے والا پورا رستہ بے نقط بکتا اور لعن طعن کرتا رہا۔ اور بالآخر اس نے بحفاظت مجھے منزل مقصود پر پہنچا دیا اور میں نے سُکھ کا سانس لیا۔
’بھیا احتیاط کریو ورنہ کسی دن فالتو میں بلوچوں کے ہاتھوں جان سے جائیو گے‘۔
میں نے ممنونیت سے اپنے محسن اور اس کے پھٹیچر رکشے کو دیکھا اور جیب سے پیسے نکال کر اس کی جانب بڑھائے۔
’ارے بھیا، پیسے رکھیو اپنے بٹوے میں۔ جلدی سے کام بھگتائیو اور نکل لیو فوراً گھر کی طرف۔ حالات مافق نہیں چل رہے اَپُن لوگوں کے لیے‘۔
رکشے والے نے پان کا بیڑا اپنے کلّے میں دباتے ہوئے تنبیہہ کی اور دوسرے ہی لمحے اپنا رکشہ موڑا اور پھٹ پھٹاتا ہوا اپنے رستے ہو لیا۔
میں نے آناً فاناً بائیک میں پٹرول بھروایا، کھانا پیک کروایا، چند ضرورت کی چیزیں خریدیں اور موٹر سائیکل ایسی دوڑائی کہ گھر پہنچ کر ہی دم لیا۔
یہ بھی پڑھیں:خبردار! بھولنے نہ پائیں
بچے چاکلیٹ مزے لے کر کھانے لگے۔ کھانا کھاتے ہوئے میرے ذہن میں اس رکشے والے کی بدزبانیاں سر اٹھنانے لگیں تو وہیں اس کا میری اور میرے بچے کی جان بچانے کا احسان بھی یاد آنے لگا۔ میں سوچنے لگا کہ مختلف قومیتوں کے لوگ کم و بیش ایسی ہی کڑوی کسیلی زبان دوسروں کے خلاف بھی استعمال کرتے رہتے ہیں۔ خصلتیں تو ایک ہی ہیں۔
رکشے والے کی گالیاں اس کے احسان تلے دب چکی تھیں۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ مَیں ہڑبونگ میں اپنے دوست نما دشمن کا نام بھی نہیں پوچھ سکا، جو آج رات رکشہ لیے ہمارے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا۔ اسی لمحے میرے دل سے آواز آئی
‘پیارا دشمن’
میں بہاری کباب کا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے زیر لب مسکرانے لگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظرصنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
بلوچ بہاری سولجر بازار گھاس منڈی گینگ وار لیاری میمن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچ بہاری سولجر بازار گینگ وار لیاری موٹر سائیکل سولجر بازار رکشے والے رہا تھا تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
مجھے ایک ایسے مقدمے میں سزا دینے جا رہے ہیں جس سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 جنوری 2025ء) عمران خان کا کہنا ہے کہ مجھے ایک ایسے مقدمے میں سزا دینے جا رہے ہیں جس سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا، القادر ٹرسٹ کے بھونڈے کیس میں میرے خلاف فیصلہ دے کر پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوائیں گے اور اپنا منہ مزید کالا کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے جمعرات کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے کی گئی غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا کہ القادر ٹرسٹ کے بھونڈے کیس میں میرے خلاف فیصلہ دے کر پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوائیں گے اور اپنا منہ مزید کالا کریں گے۔ مجھے ایک ایسے مقدمے میں سزا دینے جا رہے ہیں جس سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا نہ ہی حکومت کو ایک ٹکے کا کوئی نقصان ہوا۔(جاری ہے)
اس مقدمے میں اصل سزا تو نواز شریف کی بنتی ہے جس نے 9 ارب روپے رشوت کی مد میں حاصل کیے۔ نواز شریف اور زرادری پر مے فئیر اپارٹمنٹس کی طرز کے بے شمار مقدمات ہیں، یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے توشہ خانے سے مہنگی ترین گاڑیاں خلاف قانون حاصل کیں ، ان پر موجود تمام مقدمات اوپن اینڈ شٹ ہیں لیکن ان کو معاف کر کے مقدمات کو صرف اس لیے ختم کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے ڈیل قبول کر لی۔
اس کیس میں بھی نواز شریف سے 9 ارب روپے کا حساب مانگنا بنتا ہے ۔ بشریٰ بی بی القادر ٹرسٹ کیس میں بالکل بے قصور ہیں اُن کو کیس میں شامل کرنے کا واحد مقصد مجھ پر دباؤ بڑھانا تھا۔ اِس سے پہلے بھی بشریٰ بی بی کو 9 مہینے بے گناہ جیل میں رکھا گیا ہے۔ دنیا میں کبھی کوئی شخص جسے معلوم ہو کہ وہ بد دیانتی کر رہا ہے نیوٹرل امپائر نہیں لگاتا ۔ میں نے کرکٹ میں نیوٹرل امپائر کا رواج قائم کیا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر ایک جوڈیشل کمیشن کا قیام کیا جائے جو بالکل نیوٹرل ہو اور شفافیت پر مبنی فیصلہ دے۔ حکومت اس مطالبے سے اسی لیے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔ ہم جسٹس امین الدین ( آئینی بینچ کے سربراہ) کو بھی خط تحریر کریں گے کہ ہمارے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پیٹیشن سنیں۔ ہمارے جو بے قصور لوگ ملٹری تحویل میں ہیں ان کو بدترین ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے ۔ ہم نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوم متحدہ کو بھی اس سلسلے میں خط لکھنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی کسی بھی عدالت سے ہمیں انصاف نہیں مل رہا۔ قاضی فائز عیسی اور عامر فاروق تو اسٹیبلشمنٹ کے ہی اوپننگ بیٹسمن کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اب جو آئینی بینچ بنا ہے وہ بھی ان کی ہی ایکسٹینشن ہے۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی معافی نہیں ملتی۔ جنرل پنوشے مغرب کا طاقتور جنرل تھا لیکن انسانی حقوق کی پامالی اور تشدد کرنے پہ اسکو کڑی سزا دی گئی۔ ہمارے سیاسی ورکروں کو اغوا کر کے تشدد کیا گیا۔ نو مئی میں جس نے تحریکِ انصاف کو خیر آباد کہا اسکو تمام الزامات سے بری الزمہ کر دیا گیا۔ آٹھ فروری کو پاکستانیوں کے حق پر بے شرمی سے ڈاکہ مار کر انتخابات کو چوری کیا گیا اور پوری دنیا میں اپنا مذاق بنوایا گیا۔ کھلی مینڈیٹ چوری کے بعد پاکستان میں ہر جانب عدم استحکام کے سائے ہیں۔ آٹھ فروری کو پوری قوم یوم سیاہ منائے گی۔ اس دن فارم 47 کی جعلی حکومت قائم کر کے پاکستان میں جمہوریت اور جمہور کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا جسکے بعد ملک میں نہ تو سیاسی استحکام آ سکا ہے نہ ہی معاشی استحکام- ہم نے مذاکرات ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کرنے ہیں- پاکستان کو درپیش سیاسی و معاشی بحرانوں کے خاتمے، دہشت گردی کے مسئلے پہ قابو پانے اور ملک کو درپیش دوسرے سنجیدہ مسائل کے حل کے لئے سیاسی بحران کا خاتمہ ضروری ہے-