لیڈیز پولیس اہلکار اپنی کارکردگی بہتر بنائیں، ایس ایس پی
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) ایس ایس پی کی واحد بخش آڈیٹوریم میں لیڈیز پولیس اہلکاروں سے میٹنگ میں ایس ایچ او تھانہ وومن سکینہ بھٹی، انچارج ہیومن رائٹس سیل ماریہ ساریو سمیت ضلع کی تمام خواتین پولیس اہلکار موجود تھی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایس ایس پی حیدرآباد ڈاکٹر فرخ علی نے کہا کہ آج آپ تمام کو بلانے کا مقصد آپ تمام خواتین پولیس اہلکاروں کے مسائل کو سننا اور ان کو فوری حل کرنے کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آپ تمام اپنے فرائض کی ادائیگی بھرپور انداز سے ادا کریں گی، مرد پولیس اہلکاروں کی نسبت خواتین پولیس اہلکاروں کی کارکردگی غیر اطمینان ہے، لہذا اس بات کو واضح کر لیں کہ آپ تمام نے پولیس ڈپارٹمنٹ میں نوکری اپنی رضا مندی سے حاصل کی ہے، اپنی کارکردگی کو متاثر کن بنائیں، دوران ڈیوٹی مناسب یونیفارم پہنیں، ڈیوٹی اوقات کی پابندی کریں۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے آپ تمام یکساں اہمیت رکھتی ہیں، آپ تمام کے مسائل سنیں جس پر فوری عملدرآمد کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔ اُمید کرتا ہوں کہ آپ تمام اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں گی، اس کے علاوہ اگر کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو آپ براہِ راست ایس ایچ او وومن اور انچارج ہیومن رائٹس سے رابطہ کر سکتی ہیں یا میرے آفس آسکتی ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پولیس اہلکاروں
پڑھیں:
پاکستان میں عورتوں سے بدسلوکی میں اضافہ ہو رہا ہے، رپورٹ
پولیس کا دعوی ہے کہ اس نے 103 خواتین پر حملوں میں ملوث 110 مشتبہ افراد کے ساتھ ساتھ 15 خواتین کے قتل سمیت 40 مقدمات میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا اور 988 خواتین اغوا کاروں سے بازیاب کرایا، لیکن پنجاب میں ریپ کے 4,641 واقعات میں سے 20 کو سزا سنائی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اپنی ہی ذلت کے بوجھ تلے دبنے کے قریب ہے، اس کے باوجود ایسے عناصر کے خلاف عوامی غم و غصہ نظر نہیں آتا۔ سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی 2024 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں عالمی سطح پر 20 فیصد خواتین کو بدسلوکی کا سامنا ہے، وہاں پاکستان کی 90 فیصد خواتین تشدد کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ اعتدال پسندی اور ترقی کے نام پر قانون سازی کے باوجود خواتین کی سنگین صورتحال کو ریاست نے نظر انداز کیا ہے۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے لیے لاہور پولیس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق شہر میں 100 سے زائد خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کا دعوی ہے کہ اس نے 103 خواتین پر حملوں میں ملوث 110 مشتبہ افراد کے ساتھ ساتھ 15 خواتین کے قتل سمیت 40 مقدمات میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا اور 988 خواتین اغوا کاروں سے بازیاب کرایا، لیکن پنجاب میں ریپ کے 4,641 واقعات میں سے 20 کو سزا سنائی گئی۔