اسلام آباد:

رہنما مسلم لیگ (ن) خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں پی ٹی آئی رہنما اپنے بیانات میںکہتے رہے ہیں 190 ملین پاؤنڈ کے فیصلے سے قطع نظر ہم مذاکرات جاری رکھیں گے، دیکھتے ہیں کہ وہ مذاکرات جاری رکھتے ہیں یا ختم کر دیتے ہیں۔

مجھے اندازہ نہیں ہے، اپنے بیانات میں تو پی ٹی آئی کے مختلف رہنما یہ کہتے رہے ہیں کہ فیصلہ چاہے جو بھی ہو مذاکرات جاری رہیں گے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آپ سوال پوچھ رہے ہیں مجھے پتہ ہی نہیں ہے کہ عرفان صدیقی نے کیا کہا ہے جب اینکر نے بتایا کہ انھوں نے کیا بات کی ہے تو خواجہ آصف نے کہا کہ میرے خیال میں عرفان صدیقی نے بڑی مناسب بات کی ہے، الٹی میٹلی وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے تھے۔ 

بیرسٹر گوہر اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات کے حوالے سے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پھر میرا خیال ہے کہ مذاکرات معطل کردیں، ان کے سامنے معاملہ رکھا ہے تو جب تک ان کا رسپانس نہیں آتا تب تک میرا خیال ہے کہ مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے، میں تو یہی کہوں گا، الٹی میٹلی جہاں ان کی شدت سے خواہش تھی وہ وہاں پہنچ گئے ہیں۔

رہنما تحریک انصاف سلمان اکرم راجہ نے کہا یہ بات تو بالکل مانی ہوئی ہے کہ یہ فیصلہ بھی مانتا ہے کہ اس تمام معاملے میں ریاست پاکستان کو ایک پیسے کا نقصان نہیں ہوا، برطانیہ سے جو بھی رقم آئی وہ سپریم کورٹ کی تحویل میں آئی، سپریم کورٹ نے فیصلہ کرنا تھا کہ رقم دی جائے یا نہ دی جائے۔ 

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میں ایک بار پھر یہ عرض کررہا ہوں کہ یہ چیریٹیبل ہے اور یہ ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہے ہر سال اربوں ہا روپے شوکت خانم ٹرسٹ کو دیے جاتے ہیں، اسی طرح نمل یونیورسٹی بھی ہے یہ رقم عمران خان کی جیب میں تو نہیں جاتی۔

ایکسپریس کے پشاور کے بیورو چیف شاہد حمید نے کہا کہ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ صوبائی حکومت نے بڑی طریقے سے معاملات کو ہینڈل کرنے کی کوشش کی ہے، اپیکس کمیٹی کا اجلاس کیا گیا، اس کے بعد تین ہفتے تک جرگہ جاری رہا اور اس میں دونوں فریقین کے تمام بڑوں کو شامل کیا گیا، 

بنیادی طور پر مقصد یہی تھا کہ آپریشن کے بغیر، کسی کارروائی کے بغیر امن و امان کا قیام ممکن بنایا جا سکے اور علاقے میں جو مشکلات ہیں ان کا خاتمہ بھی کیا جا سکے لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ جب پہلا قافلہ گیا تو ڈی سی پر حملہ ہوا اور وہ زخمی ہوئے، پرسوں دوبارہ حملہ کیا گیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مذاکرات جاری نے کہا کہ انھوں نے نہیں ہے میں تو

پڑھیں:

فوجی عدالتوں سویلین ٹرائل کیس: کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟.جسٹس جمال مندوخیل

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل ۔2025 )سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل آج بھی مکمل نہ ہو سکے جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو 2 سے 3 دن کا وقت درکار ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟.

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں.

خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں، لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فئیر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں مکمل انصاف کے لیے آفیسر باقائدہ حلف لیتے ہیں دوران سماعت جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے.

خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ محرم علی اور لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے، وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانون بھی اسی اختیار کے تحت بنایا، یہ اختیار اور قانون تو 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تھا، تب آرٹیکل 175 اور 1973 کا آئین موجود نہیں تھا.

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں، خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالتیں، عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل میں غلطی اپیل میں دیکھی جاتی ہے، غلطی کی درستی کا فورم کونسا ہوگا؟ خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ جب ہائیکورٹ میں رٹ فائل کریں گے تو نشاندہی کریں گے.

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ گواہ کے قلمبند بیان کی کاپی فراہم نہیں کی جاتی، کیسے تعین ہوگا کہ گواہی درست ریکارڈ ہوئی ہے، ہو سکتا ہے غیر ارادی طور پر کوئی بات لکھنا رہ جائے خواجہ حارث نے کہا کہ تعصب کا نقطہ اوپر والی عدالت میں اٹھایا جا سکتا ہے، مفروضے پر بات تو نہیں ہو سکتی، ٹرائل میں تمام متعلقہ افسران حلف اٹھاتے ہیں، قلم بند بیان پر اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے.

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ غیر ارادی طور پر ٹرائل میں غلطی ہو سکتی ہے، عدالت کا سوال تعصب یا نیت یا اہلیت پر نہیں خواجہ حارث نے موقف اختیار کیاکہ رٹ میں کسی بھی غلطی کی نشاندہی ملزم کا وکیل کر سکتا ہے دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا 40 منٹ مزید درکار ہوں گے.

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں، جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ میں بھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو 2 سے 3 دن کا وقت درکار ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا کہ میں 10 منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پر ہی پیش ہونا ہے ورنہ وفاق کی وکالت خواجہ حارث کر رہے ہیں.

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟ بعد ازاں آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو کل تک جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت کردی جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28 تاریخ تک ملتوی کریں گے 28 تاریخ تک بینچ دستیاب نہیں ہوگا، 28 تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی.

متعلقہ مضامین

  • عالمی امن کیلئے اپنا بھر پور کردار جاری رکھیں گے، محسن نقوی
  • کیا 9 مئی پر ادارے نے کسی کا احتساب کیا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی
  • کسی کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کا اختیار نہیں دیا ، عمران خان کے ایکس اکائونٹ سے پیغام
  • کیا فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جج آئینی بینچ
  • فوجی عدالتوں سویلین ٹرائل کیس: کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟.جسٹس جمال مندوخیل
  • سویلین کا ملٹری ٹرائل: یہ کیا مذاق ہے، بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ جسٹس مندوخیل
  • 9مئی کیس کی سماعت: سازش کے الزام پر کسی فرد کو جیل میں نہ رکھیں. چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے،وکیل خواجہ حارث 
  • ویران ریلوے اسٹیشنز کی بحالی کا تسلسل جاری رکھیں گے: حنیف عباسی
  • کلبھوشن ہو یا کسی اور ملک کا شہری، کونسلر رسائی تو سب کے لیے ہونی چاہیے، سپریم کورٹ