کینیڈا، پاناما، میکسیکو، گرین لینڈٹرمپ کے نئے محاذ
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواںماہ عہدہ صدارت سنبھالنے والے ہیں ۔ ان کے بیانات اور انداز سے بالکل بھی نہیں لگتا کہ وہ 4سال کے وقفے کے بعد دوبارہ صدر بن رہے ہیں۔ اپنے گزشتہ دورکی طرح وہ ایک بارپھر جارحانہ عزائم کے ذریعے دنیا کو فکر مند کیے دے رہے ہیںاوراپنے نئے دور کی ڈور وہیں سے جوڑ رہے ہیں ،جہاں 2020ء میں منقطع ہوئی تھی۔ عالمی تنازع سے قطع نظر ٹرمپ نے اس بار جو نئے محاذ کھولے ہیں، ان میں کینیڈا، گرین لینڈ، پاناما نہر اور خلیج میکسیکو شامل ہیں۔ اس سے قبل ٹرمپ گرین لینڈ کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کرتے آئے ہیں،تاہم اس بار وہ دھمکیوںپر اتر آئے ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے گرین لینڈ اور پاناما نہر پر فوج کشی کرکے قبضہ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ ٹرمپ نے ان دونوں علاقوں کو امریکی اقتصادی سلامتی کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے،تاہم وہاں فوجی مداخلت کے امکان کے بارے میں بات کر کے دنیا میں بے چینی کی لہر دوڑ ادی ہے۔ پاناما، گرین لینڈ، ڈنمارک اور کینیڈا نے ٹرمپ کے ان بیانات پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب علاقے امریکا کے لیے اتنے اہم کیوں ہیں اور اِن کا کنٹرول سنبھالنے سے ٹرمپ انتظامیہ کو کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟
پاناما نہر
بیسویںصدی میں پاناما کینال کی تعمیر کا کام سنبھالنے اور کئی دہائیوں کے مذاکرات کے بعد 1999 ء میں امریکا نے اس نہرکا مکمل کنٹرول پاناما کے حوالے کر دیا تھا لیکن اب سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ٹرمپ اس اہم بحری گزرگاہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ پاناما کینال کا انتظام دراصل چین سنبھالے ہوئے ہے جبکہ ہم نے اس کا کنٹرول پاناما کو دیا تھا۔ انہوں نے پاناما کے حکام پر اس تحفے کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار ٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ پاناما نہر اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق اس نہر سے گزرنے والے ٹریفک میں امریکی کارگو کا حصہ 72 فیصد ہے جبکہ 22 فیصد حصے کے ساتھ چین دوسرے نمبر پر ہے۔ چین نے بھی ماضی میں پاناما میں بڑی اقتصادی سرمایہ کاری کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاناما نہر نہ صرف بحرالکاہل میں امریکی تجارت کے لیے بلکہ مستقبل میں چین کے ساتھ کسی بھی فوجی تنازع کی صورت میں بھی امریکا کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس سے قبل ٹرمپ نے پاناما اتھارٹی پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ اس بحری گزرگاہ کو استعمال کرنے کے عوض امریکی کارگو کمپنیوں سے زیادہ ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ پاناما سٹی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاناما کے وزیر داخلہ نے ٹرمپ کے بیان کے بعد کہا کہ پاناما کی خودمختاری پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔پاناما کا کنٹرول صرف اس کے باشندوں کے ہاتھ میں ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی رہے گا۔
خلیج میکسیکو
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کیخلیج امریکاکردیں گے۔ گلف آف میکسیکو کو امریکا کی تیسری بندرگاہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس کی ساحلی پٹی امریکا کی 5ریاستوں ٹیکساس، لوزیانا، مسیسپی، الاباما اور فلوریڈا سے ملتی ہے۔تاہم میکسیکو والے اس کے لیے ہسپانوی نام الگولفو دی میکسیکو ہی استعمال کرتے ہیں۔ گلف یا خلیج سمندر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو 3جانب سے خشکی سے گھرا ہو اور اس میں داخلے کا راستہ بھی ہو۔ عام طور پر خلیج میں داخلے کا راستہ تنگ ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی خطوں میں پائی جانے والی خلیج جغرافیے کے ساتھ اس خطے کے سیاسی اور اقتصادی حالات کا بھی تعین کرتی ہیں۔میکسیکو کے علاوہ خلیج فارس، خلیج عدن، خلیج عمان اور وغیرہ اس کی معروف مثالیں ہیں۔ خلیج میکسیکو کا یہ نام گزشتہ چار صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ نام اسے ایک مقامی امریکی شہر میکسیکو کے نام پر دیا گیا تھا۔ 2012ء میں مسیسپی کے ایک قانون ساز نے اپنی ریاست کے ساحل سے ملنے والے خلیج کے حصے کا نام تبدیل کر کے گلف آف امریکا کرنے کا بل پیش کیا تھا۔
تاہم بعد میں خود ہی اسے ایک مذاق قرار دے دیا تھا۔ یہ بل ریاست کے قانون ساز ایوان کی کمیٹی کو جائزے کے لیے بھجوایا گیا تھا لیکن اس کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔ انٹرنیشنل ہائیڈروگرافک آرگنائزیشن دنیا میں سمندروں اور قابل سفر واٹر باڈیز یا آبی خطوں کے سروے کرنے والی تنظیم ہے اور ان میں سے کئی کو نام بھی دیتی ہے۔ امریکا اور میکسیکو دونوں ہی اس کے رکن ہیں۔نو منتخب صدر اپنے اعلان کے مطابق یک طرفہ طور پر تو گلف آف میکسیکو کو گلف آف امریکا قرار دے سکتے ہیں لیکن دیگر ممالک پر یہ فیصلہ تسلیم کرنا لازمی نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کی جانب سے نام کی تبدیلی کے اعلان کے فوری بعد ایوانِ نمائندگان کی جارجیا سے تعلق رکھنے والی رکن مارجری ٹیلر گرین نے ایک پوڈ کاسٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے عملے کو گلف آف میکسیکو کا نام بدلنے کے لیے قانون سازی کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت جاری کریں گی۔اس موقع پر میکسیکو کی خاتون صدر کلاڈیا شین بوم نے امریکا کو سخت جواب دیتے ہوئے کہاکہ دنیا کو چاہیے کہ امریکا کا نام میکسیکن امریکا رکھ دے۔انہوںنے اپنی معمول کی پریس بریفنگ میں سترہویں صدی کا نقشہ پیش کرتے ہوئے کہا ازراہ تمسخر کہا کہ امریکا کا یہ نیا نام کیا رہے گا؟
گرین لینڈ
گرین لینڈ ڈنمارک کا ایک خود مختار خطہ اور دنیا کے سب سے کم آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت کے دوران 2019 ء میں گرین لینڈ کو خریدنے کی بات کی تھی۔ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹ فریڈریکسن نے اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار تو کیا ہے تاہم انہوں نے اس بات بھی زور دیا کہ گرین لینڈ پر صرف اس کے لوگوں کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ گرین لینڈ میں خود پر فخر محسوس کرنے والے لوگ ہیں، جن کی اپنی زبان اور ثقافت ہے۔ ٹرمپ کے عزائم جاننے کے لیے گرین لینڈ کی اہمیت معلوم کرنا بہت ضروری ہے۔
گرین لینڈ معدنیات سے مالا مال ملک ہے، تاہم اپنے دو تہائی مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈنمارک پر انحصار کرتا ہے۔ ان معدنیات میں کوئلہ، تانبا اور زنک وغیرہ شامل ہیں۔جزیرے کی برف پوش تہوں کے نیچے قیمتی معدنیات کے خزانے بھی موجود ہیں، جن میں یورینیم اور بڑی مقدار میں تیل اور قدرتی گیس شامل ہیں۔گرین لینڈ کا رقبہ 21 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ آبادی 57 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ زیادہ تر لوگ ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ جزیرے میں گرین لینڈ کی مقامی زبان کے ساتھ ساتھ ڈینش اور انگریزی بھی بولی جاتی ہے۔
یورپ اور شمالی امریکا کے راستے میں واقع گرین لینڈ پر امریکا کی اس جزیرے کے اہم دفاعی محل وقوع کی وجہ سے نظر ہے۔ امریکا نے سرد جنگ کے آغاز پر اس جزیرے پر ایک فضائی اور راڈار اڈا قائم کیا تھا جو اب خلا پر نظر رکھنے کے لیے اور امریکا کے انتہائی شمالی حصوں پر ممکنہ بلاسٹک میزائلوں کے بارے میں خبردار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت میں اضافے کے باعث قطب شمالی کا منجمد سمندر جہاز رانی کے قابل ہوتا جا رہا ہے اور اس طرح یہ سمندری راستہ بھی کھل رہا ہے۔ اقتصادی پہلو سے اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے، کیونکہ قدیم چٹانیں ظاہر ہونے کے بعد کان کنی سے نئی صنعتیں اور نئے کاروبار قائم ہوں گے اور تجارت کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آئیں گے۔اس کے علاوہ نایاب دھاتوں کی موجودگی گرین لینڈ کو خاصا اہم بناتی ہے۔ ورلڈ بینک کی پیشگوئی کے مطابق عالمی طلب کو پورا کرنے کے لیے 2050 ء تک ان معدنیات کو نکالنے میں 5گنا اضافہ کرنے کی ضرورت ہو گی ۔ اس لیے صرف امریکا ہی نہیں بلکہ چین بھی ان دھاتوں کی تلاش میں ہے۔ روس بھی اس خطے کو اپنے اور امریکا کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے اسٹریٹجک لحاظ سے انتہائی اہم سمجھتا ہے۔
کینیڈا
حالیہ چند ہفتوں میں ٹرمپ کا تازہ شکار کینیڈا ہے ،جس کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اقتصادی پالیسیاںناکام ہونے کے باعث اپنی ہی پارٹی کے دباؤ پر مستعفی ہوچکے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے متنازع بیان میں کہا کہ کینیڈا کو امریکا میںضم ہوکر امریکی ریاست بن جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کینیڈا کی حفاظت کے لیے امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں جبکہ کینیڈا کی کاروں، لکڑی اور دودھ کی مصنوعات کی درآمد کا مسئلہ بھی حل کیا۔ میکسیکو کی طرح کینیڈا کو بھی ٹرمپ کے آئندہ دور صدارت میں امریکا برآمد کی جانے والی اپنی اشیا پر 25 فیصد تک ٹیرف عائد ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ میکسیکو اور کینیڈا کی سرحدوں سے منشیات امریکا میں داخل ہو رہی ہیں۔ تاہم امریکی اعدادوشمار کے مطابق امریکی اور کینیڈا کی سرحد پر پکڑی گئی فینٹینیل کی مقدار امریکا کی جنوبی سرحد کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ گوکہ کینیڈا نے امریکا کے ساتھ اپنی سرحد پر سیکورٹی کے حوالے سے نئے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ منظم جرائم کو کم کیا جا سکے،تاہم ٹرمپ کے متنازع بیانات پر سخت برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔
ٹرمپ کے بیانات کے نتائج کا نتیجہ تو اسی وقت سامنے آئے گا،جب وہ اپنے جارحانہ خیالات کو عملی روپ دینے کی کوشش کریں گے،تاہم ماہرین ایک بار پھر ٹرمپ کو دنیا بلکہ خود امریکا کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ برطانوی اخباردا انڈیپینڈنٹ کے مدیر برائے سیاسی امور ڈیوڈ میڈوکس کا کہنا ہے کہ دنیا کو چاہیے کہ ٹرمپ کی باتوں کو سنجیدگی سے لے۔ یہ ٹرمپ کا سامراجی رویہ ہے، وہ دنیا بھر میں امریکا کے قدم جمانا چاہتے ہیں جو سنگین خطرہ ہے۔ ہم ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کو ان کے پہلے دور حکومت سے بہت مختلف انداز میں دیکھیں گے،جو باقی دنیا کے لیے بہت تشویش ناک ہو گا۔دوسری طرف امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جیمز جیفری کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اپنے بین الاقوامی اتحادیوں اور ملک میں اپنے حامیوں کو سگنل دے رہے ہیں۔ امریکی شہریوںمیں یہ خیال پنپتا جارہا ہے کہ امیر یورپی اتحادی بین الاقوامی سیکورٹی کے تحفظ کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔ تاہم جیمز جیفری نے امریکا کی جانب سے اس ضمن میں کسی بھی فوجی کارروائی یا مداخلت کے امکان کو مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم گرین لینڈ میں مارچ نہیں کریں گے، ہم کینیڈا میں مارچ نہیں کریں گے، ہم پاناما کینال پر قبضہ نہیں کریں گے، لیکن اس سے کتنا ہنگامہ ہو گا یہ ایک الگ سوال ہے۔ جیمز جیفری نے کہا کہ بین الاقوامی نظام کو خطرہ ڈونلڈ ٹرمپ سے نہیں بلکہ روس اور چین سے ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ پاناما نہر پاناما کی امریکا کی کینیڈا کی امریکا کے گرین لینڈ نے کہا کہ انہوں نے کا اظہار کے مطابق کریں گے رہے ہیں کرنے کے کے ساتھ ٹرمپ کے کرنے کی ٹرمپ کا نہیں کر رہا ہے ہے اور کا نام کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
ایران جوہری ہتھیار کا خواب ترک کرے ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار رہے، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو سخت الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران اگر جوہری ہتھیار بنانے کا خواب نہیں چھوڑتا تو امریکا فوجی کارروائی سمیت ہر ممکن آپشن استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران بظاہر امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے پر پیشرفت میں تاخیر کررہا ہے اور اگر اس نے اپنے عزائم ترک نہ کیے تو امریکا سخت ردعمل دے گا۔
مزید پڑھیں: ایران نے معاہدہ نہ کیا تو ایسی بمباری ہوگی جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی، ٹرمپ کی کھلی دھمکی
ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار کا خیال چھوڑ دینا ہوگا، انہیں یہ واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایران نے معاہدہ نہ کیا تو کیا امریکا فوجی حملے کا راستہ اختیار کرے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یقیناً، ہمارے پاس تمام آپشنز موجود ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے کافی قریب پہنچ چکا ہے اور اسے جلد فیصلے لینے ہوں گے تاکہ امریکا کے سخت ردعمل سے بچا جا سکے۔
ادھر عمان میں حالیہ دنوں امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات کا پہلا دور ہوا، جسے فریقین نے مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ دوسرا دور آئندہ ہفتے اٹلی کے دارالحکومت روم میں متوقع ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا سے بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار، ایران نے ٹرمپ کے خط کا جواب دیدیا
ذرائع کے مطابق ان مذاکرات کا مقصد ممکنہ معاہدے کے فریم ورک پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔ یاد رہے کہ سابق صدر باراک اوباما کے دور میں 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کو ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 میں ختم کر دیا تھا، جبکہ بائیڈن دور میں بھی ایران کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں مگر خاطر خواہ پیشرفت نہ ہو سکی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران ٹرمپ