گئی وہ قصّہِ عہدِ کہن کی بات گئی
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
جدید ٹیکنالوجی کے انتہائی عمل دخل نے انسانی زندگی پر نہایت گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔بہت سی آ سا ئشیں اور آسانیاں تو ہمارے حصے میں آئیں مگر زندگی کا حقیقی لْطف چھن گیا،رشتوں ناطوں اور خاندان کے ساتھ مل بیٹھ کر لطف اندوز ہونے کا احساس کہیں گْم ہو کر رہ گیا ، ہم گفتگو کافن بھول گئے ،دوسروں کوقائل کرنے، سمجھانے اور منانے کے ہْنرسے نا آشنا ہو گئے۔یہ اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ معاشرے کے دکھ، درد ، کرب اور انسانی احساس کے انت کی کہانی ہے۔
ہمارے علاقے میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کی بنا پر میرے بچے اندھیرے کے خوف اور سناٹے سے نا آشنا ہیں۔ اندھیرے کا لمس بذاتِ خود میرے ذہن کے نہاں خانوں سے محو سا ہو کر رہ گیا ہے۔ بچے اسکول، کالج، یونیورسٹی اور پھر ٹیوشن کے بعد کیبل ،موبائل اور سماجی روابط کی ویب سائٹس کی دلچسپیوں میں گْم ہو جاتے ہیں، میں اسے بْرا سمجھنے کے باوجودخود بھی کمپیوٹر ماؤس اور موبائل اسکرین کے لمس کو انگلیوں کی پوروں کے ارتعاش سے آشنا کرتے ہوئے لاشعوری طور پر مایاجال کی چکا چوند دنیا میں دھیرے سے اْتر جاتا ہوں اور مجھے اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔مغرب کے بعد گھر کی لائٹ چلی گئی۔ٹی وی بند ،کمپیوٹر بند ، وائی فائی بنداندھیرے کا راج ہر طرف پھیل گیا۔ سب بچے گھرپر ہی موجود تھے۔چھوٹی بیٹی نے موبائل کی ٹارچ جلا کر کتابوں کی شیلف پررکھ دی جس کی ہلکی روشنی نے کمرے کے ماحول کو دھندلادیا۔ دیواروں پر سائے لہرانے لگے، بچوں کے آدھے چہرے جگمگا اْٹھے۔ بیگم چائے بنا کر لے آئیں ۔میرا ذہن دہائیوں پیچھے گھر کے واحد کچے کمرے کاطواف کرنے لگا ،جہاں میرا بچپن چراغ کی تھرتھراتی لو کے گرد خاندان میں بیٹھ کردیواروں پر ڈراؤنے عکس بناتے اور کہانیاں سنتے گزرا تھا،مجھے بستروںپر کْودنے پھاندنے کا زمانہ یاد آنے لگا، دیے کی روشنی میں چرخہ کاتتی ماں کاجھریوں بھرا چہرہ یاد آنے لگا، چرخے کی تان، تکلے کی بھوں بھوں ، تکلے پر گھومتی روئی کے نرم گالوں سے بنی دھاگے کی چھلی کا گھومتا گھیرایاد آنے لگا، چراغ کیکپکپاتی لو کے پیچھے دیوار پر ہاتھوں کے ملاپ سے بنی مختلف شکلوں کے لہراتے پْراسرار سائے یا د آنے لگے، دیے کی لو سے نکلتے، بل کھاتے دھوئیں کے پیچ و خم یاد آنے لگے ،گھر کے بڑے سے صاف ستھرے صحن میں قد آور نیم کے پیڑ سے جھڑتے زرد پتے اور ڈوبتے سورج کے ساتھ نیمکی شاخوں پر چہچہاتی چڑیاں بھییاد آنے لگیں۔
میں بچوں کو پْرکھوں کی وہ کہانیاں سنانے لگاجو میرے اجداد کبھی مجھے سنایا کرتے تھے تا کہ گزرے لمحوں کا خوشگوار احساس کچھ اور تازہ ہو سکے۔وائی فائی کنکشن نہ ہونے کی وجہ سے بچے بھی میری گفتگو میں دلچسپی لے رہے تھے۔ میں نے جب گا?ں کے خالصتاً دیسی ماحول کی عکس بندی کی تو بچے سنبھل کر بیٹھ گئے اور بھرپور توجہ کے ساتھ میری باتیں سننے لگے۔اْن کا جوش و خروش بڑھ گیا ،وہ گفتگو کا حصہ بن گئے اور سوالات کرنے لگے ،میرے جوابات پر وہ اور بھی مسحور ہونے لگے ،وہ حیرانگی کا اظہار کرتے او ر کِھلکھلا کر ہنستے، اس قدر قْربت کایہ احساس میرے لیے بہت ہی قیمتی تھااور مانوس سا بھی، مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا کہ میرا ساراخاندان اکٹھا ہے ہم گْھل مل کر محوِ گفتگو تھے ایک دوسرے کو سْن رہے تھے جوابات دے رہے تھے اور براہِ راست کمنٹ کر رہے تھے، میں بچوں کے ساتھ اپنے والدین کی باتیں کرنے لگا، والدین کی قْربت کا احساس گفتگو کے راستے یادوں میں تازہ ہو کر میری روح کو نہال کررہا تھا۔میں بہن بھائیوں کے لرزتے خدوخال آنسو?ں سے ڈبڈبائی آنکھوں میں جذب کرنے لگا۔ میں زندگی سے بھرپور لمحات جی رہا تھا ،میرے بچے میرے گرد بیٹھے میرے چہرے کو تک رہے تھے۔وہ باہم سرگوشیاں بھی کر رہے تھے۔میں آج طویل عرصے بعد بہت قریب سے اْن کے چہروں کی معصومیت کو تک رہا تھا جن پر سوشل میڈیا کی کرخت اور بھیانک ہولناکیوں کے آثار ہویدا ہونا شروع ہو چکے تھے۔میں چاہتا تھاکہ وقت رْک جائے اور لائٹ نہ آئے اور ہم اسی طرح ہنستے کھیلتے اور دکھ درد سمیٹتے رہیں۔لیکن وقت کاپلّْو دھیرے دھیرے میرے ہاتھوں سے سرک ر ہا تھا۔ لائٹ آجانے کا ہولناک سا اندیشہ میرے دل میں گھر کرنے لگا اور پھروہی ہوا، اچانک جھماکاسا ہوااورہر شے روشن ہو گئی ماحول کا دلنشیں منظر بالکل بدل گیا، پنکھے اور ٹی وی کی آوازیںبلند ہونے لگیں، وائی فائی کے سگنل آنا شروع ہو گئے، میرے والدین کے جھریوں زدہ چہرے دھندلا گئے، نیم کے پیڑ سے چہکتی چڑیاںاْڑ گئیں، چرخے کی تان خاموش اور تکلے کی بھْوں بھْوں ساکت ہو چکی تھی۔ تیز روشنی میں دیے کی تھرتھراتی لو نے سہم کردم سادھ لیا تھا ،یادوں کی کہکشاں خیالوں سے اوجھل ہو چکی تھی اور اسوج کا پورا چاند گہرے بادلوں کی اوٹ میں کہیں چھپ گیا تھا۔ایک لمبا سانس لے کر بچے اپنے اپنے سیل فونز کی طرف بڑھے ،بیوی نے چائے کے برتن سمیٹے اور کچن کی طرف بڑھ گئیں ،چھوٹی بیٹی نے خاموشی کا حصار توڑا ’’شکر ہے زندگی لوٹ آئی‘‘۔مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی حقیقی زندگی کے تصور سے نکل کر لوٹ آناپڑا۔کمرہ خالی تھا ،میں نے بھی اپنا سیل فون اْٹھایا، انگلیوں کی پوروں کے لمس سے سکرین روشن ہو گئی ،مایا جال کی مصنوعی دنیاکے کواڑ وا ہو چکے تھے، موصول شدہ پیغامات دیکھتے ہوئے میں بھی خاموشی کے ساتھ اس وحشت ناک دنیا کی چکا چوندنی میں دھیرے سے سرایت کر گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کرنے لگا کے ساتھ رہے تھے نے لگا نے لگے
پڑھیں:
روزانہ شوکاز سے تنگ آگیا ہوں بانی نے نکالنا ہے تو نکال دیں، شیر افضل مروت
ویب ڈیسک: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ میں روزانہ کے شوکاز نوٹسز سے بہت تنگ آگیا ہوں، بانی نے نکالنا ہے تو بےشک نکال دیں میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ ایک یوٹیوبر نے میرے بارے میں جو کہا وہ سراسر جھوٹ ہے، مجھے نکالنے کا فیصلہ پہلے سے کردیا گیا ہے تو پھر شوکاز ایک فارمیلٹی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر چھ ماہ بعد کوئی شوکاز آجاتا ہے کہ آپ نے یہ بیان دیا ہے۔ میں نے کوئی بیان نہیں بلکہ جواب دیا ہوتا ہے۔ اگر مجھے پارٹی میں رکھتے بھی ہیں تو میں جواب دیتا رہوں گا۔
طلبہ کے روشن مستقبل کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا، مریم نواز
انکا کہنا تھا کہ کوئی سمجھتا ہے کہ وہ میرے خلاف بات کرے گا اور میں خاموش رہوں گا یہ ممکن نہیں۔ میں جس قبیلے سے ہوں وہ اپنے مرشد اپنے لیڈر کیلئے جان دینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی شک نہیں کہ بانی جن لوگوں کے نرغے میں ہے وہ ان کے کان بھر رہے ہیں، کچھ لوگ بانی پی ٹی آئی سے جاکر غلط بیانیاں کرتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ میں کل بیرسٹر گوہر کو اپنا مؤقف دے رہا ہوں، پارٹی کے لوگوں نے میرے خلاف بیانات دیے، اس کے بعد میں نے جواب دیا۔
لاکھوں مالیت کی منشیات کی ترسیل ناکام ، 2ملزم گرفتار