کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے انٹر سالِ اوّل کے حالیہ متنازع نتائج اور ان میں سنگین بے ضابطگیوں کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو خط ارسال کیا ہے اور استفسار کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ جواب دیں کہ گزشتہ سال کی تحقیقاتی رپورٹ میں جن لوگوں کو بے ضابطگیوں کاذمہ دار قرار دیا گیا تھا آج وہ ترقی پا کر دوبارہ انٹر بورڈ میں
اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں ،ایک سال کے دوران ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے بجائے انہیں ترقی کیوں دی گئی ؟ منعم ظفر نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے ہزاروں طلبہ و طالبات کے ساتھ ہونے والی حق تلفی کا ازالہ اور ان کے تعلیمی مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جائے ۔ گزشتہ سال این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی 15 فروری 2024 کی تحقیقاتی رپورٹ میں بے ضا بطگی کے مرتکب افراد کوفوری طور پر بر طرف کر کے ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں۔ چیئر مین انٹر بورڈ کی قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی (6 جنوری 2025) کو فوری طور پر تحلیل کر کے کراچی کی جامعات کے سینئر پروفیسرز، اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین تعلیم پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے ‘جو اس سال امتحانی عمل میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیق کے بعد ذمہ داروں کا تعین کرے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے،نئی تحقیقاتی کمیٹی کارروائی کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کی کاپیوں کی جانچ پڑتال کے عمل میں اُمیدوار کے والدین یا اساتذہ کی موجودگی کو بھی یقینی بنائے اور اس عمل میں شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے جلد از جلد یہ کام مکمل کیاجائے۔موجودہ صورتحال ہزاروں طلباء اور ان کے والدین کے لیے نہ صرف سخت اذیت کا سبب بنی ہوئی ہے بلکہ ان طلبہ کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے جو شاندار تعلیمی کیرئیر رکھتے ہیں۔منعم ظفر خان نے اپنے خط کے ساتھ گزشتہ سال کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی کاپی اور دیگر دستاویزات بھی منسلک کی ہیں خط میں انہوں نے مزید کہا ہے کہ کراچی انٹر میڈیٹ بورڈ میں ایک سال میں پانچ چیئر مین تبدیل کیے جاچکے ہیں،موجودہ چیئر مین شرف علی شاہ نے ایک12 رکنی تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان کیا‘ جس کے کنونیئر ڈپٹی کنٹرولر امتحانات کے قریبی عزیز ہیں، جو پہلے آئی ٹی منیجر کمپیوٹر سیکشن تھے اور گزشتہ سال کی رپورٹ میں ان کو ان کی ذمہ داری سے فوری طور پر سبکدوش کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اسی طرح زرینہ راشد جو موجودہ کنٹرولر ایگزامینیشن ہیں ،پہلے ڈپٹی کنٹر ولر ایگزامنیشن تھیں کو بھی اسی رپورٹ میںمفرور (Absconder) قرار دیا گیا تھا،یہ کس طرح ممکن ہے کہ گزشتہ رپورٹ میں جن لوگوں کو بر اہ ر است بے ضابطگیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھاانہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کر دیا گیا ۔منعم ظفر خان نے کہا کہ 2024 کے انٹر کے امتحانات اور اس کے نتائج میں ایک مرتبہ پھر شدید بے ضابطگی کی گئی ہے جس کے نتیجے میں طلبہ وطالبات اور والدین میں نہ صرف بے چینی پائی جاتی ہے بلکہ کراچی کے امتحانی نظام پر عدم اطمینان بھی پایا جاتا ہے۔گزشتہ سال بھی اسی طرح کی صورتحال کے باعث نگراں حکومت کے وزیر اعلی جسٹس (ریٹائرڈ) مقبول باقر نے ایک اعلیٰ اختیاراتی (facts and finding committee)تشکیل دی تھی ، جس کے سربراہ وائس چانسلر این ای ڈی یونیورسٹی ڈاکٹر سروش حشمت لودھی اور ممبر ان میں ڈاکٹر ایس اکبر زیدی، معین الدین صدیقی، صفی احمد زکائی تھے۔ اس تحقیقاتی کمیٹی نے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ سے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا اور نہ صرف ان عوامل کا جائزہ لیا بلکہ ساتھ ہی ان وجوہات کی نشاندہی بھی کی جو کہ خرابی کا باعث بنیں۔مراد علی شاہ صاحب! یونیورسٹیز اور تعلیمی بورڈز کی وزارت اس وقت آپ کے پاس براہ راست ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے جو رپورٹ 15 فروری 2024 میں پیش کی اور اس میں جن لوگوں کو مور و الزام ٹھہرا یا گیا ،انہیں آئندہ بورڈ میں کسی بھی ذمہ داری کے لیے نا اہل قرار دیا گیا وہی لوگ ایک سال کے عرصے میں مزید ترقی پا کر دو بارہ بورڈ کے امتحانی عمل ونتائج اور بے ضابطگی میں براہ ِ راست ملوث پائے گئے ہیں اور ایک بار پھر کراچی کے طلبہ وطالبات اپنے والدین کے ہمراہ سڑکوں پر موجود ہیں اور اپنے مستقبل اور نتائج کے حوالے سے سخت پریشان اور ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تحقیقاتی کمیٹی قرار دیا گیا بے ضابطگیوں رپورٹ میں گزشتہ سال اور اس اور ان سال کی

پڑھیں:

کہتے تھے کیس کا فیصلہ آجائے اب رونا دھونا کیوں کررہے ہیں ، عظمیٰ بخاری

لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18 جنوری 2025)صوبائی وزیر اطلاعات ونشریات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ کہتے تھے کہ کیس کا فیصلہ آجائے اب رونا دھونا کیوں کررہے ہیں، بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اہلیہ بشریٰ بی بی کیساتھ مل کر اربوں کا ڈاکہ مارا، سابق وزیراعظم  کو انٹرنیشنل میڈیا بد دیانت اور کرپٹ قرار دے رہا ہے،لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا کہ ملک کا سابق وزیراعظم خیالی تنخواہ پر نہیں منصب پررہتے ہوئے چوری ڈکیتی کرتے پکڑا گیا ہے۔

190 ملین پاونڈز سکینڈل کے کل کے فیصلے نے عمران خان کی صداقت و امانت کے پرخچے اڑا دئیے ہیں۔ کل پاکستان کی تاریخ کا ایک انوکھا دن تھا۔ پاکستان کا سابق وزیر اعظم کسی خیالی تنخواہ پر نہیں باقاعدہ اپنے منصب پر رہتے ہوئے چوری ڈکیتی کرتے پکڑا گیا۔

(جاری ہے)

کل 190 ملین کیس میں بانی کو چوری کرنے پر سزا ہوئی تب سے پی ٹی آئی والوں کا رونا دھونا جاری ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس کیس کو بار بار موخر کیا جاتا رہا۔کیس کی 100 سے زیادہ سماعت ہوئیں اور ملزمان کو 15 مواقع دئیے گئے جبکہ نیب کی تفتیش اور وکیل کو جرح مکمل کرنے کیلئے 35 سماعتیں ہوئیں۔ برطانوی ایجنسی این سی اے نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا آپ کے پیسے واپس بھیجنے ہیں۔ حکومتی اکاونٹ میں پیسے منتقل کرانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں منتقل کرائے گئے۔

انہوں نے پیسوں کی بندر بانٹ کی۔ سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں پیسے بھیج کر 6 کروڑ کی ساڑھے 4 سو کنال زمین ، فرنیچر اور کمپیوٹر لئے گئے۔القادر ٹرسٹ کے اکاونٹ میں ساڑھے 25 کروڑ روپے کا کیش ٹرانسفر کروایا گیا۔ 28 کروڑ 40 لاکھ کی بلڈنگ بنائی گئی اور 51 لاکھ روپے کا فرنیچر مانگا گیا۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اپنی کابینہ کے لوگوں سے کس طرح بند لفافے میں منظوری لی گئی اس کے گواہ ان کے اپنے وزراءرہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے اپنے وزرا نے کہا کابینہ کی کارروائی ساڑھے 3 منٹ میں مکمل ہوئی اور ہم بند لفافے کی منظوری دے کر باہر آگئے۔مرزا شہزاد اکبر اور فرح گوگی کا اس میں کلیدی کردار ہے۔شہزاد اکبر کو باعزت طریقے سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔فرح گوگی کے نام پر زمین ٹرانفسر کس مد میں ہوئی۔ اس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد شہزاد اکبر کو باہر جانے کی اجازت دینے پر سوال اٹھتا ہے۔

آج بھی شہباز گل باہر بیٹھ کر سازشیں کررہا ہے۔ فرح گوگی کہہ رہی تھیں کہ پانچ کیرٹ سے کم کا ہیرا اچھا نہیں لگتا۔ خانہ کعبہ کی گھڑی بیچ کر کیش پیسے لانا بھی موصوفہ کا کمال ہے۔اس کیس پر بڑے بڑے دعوے کئے گئے۔ ظلم اور بیہودگی کی انتہا یہ ہے کہ مذہب کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔ ان کو اسلامی ٹچ دینے اور مذہب کو استعمال کرنے کی پرانی عادت ہے۔

عمر ایوب کہتے ہیں کرپشن کا پوچھنا ہے تو حسن نواز سے پوچھیں۔ این سی اے نے حسن اور حسین نواز کے اکاونٹس کی چھان بین کے بعد کلیئر قرار دیا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ اعلیٰ عدالتوں کے ترجمان بنتے ہیں۔ کہتے ہیں اعلیٰ عدالتوں میں پہلی پیشی پر ریلیف مل جائے گا۔ مجھے اس پر تشویش ہے عدالت کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ اعلیٰ عدالت کیسے کرسکتی ہے کہ190ملین پاونڈ کو پاکستان کے اکاونٹ میں آنا تھا وہ کیسے کلیئر ہوجائے گا۔

این سی کا لیٹر جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس بھیج رہے ہیں۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ لوٹی ہوئی دولت نہیں ہے۔ کوئی بھی عدالت کیا حقائق نظرانداز کرسکتی ہے۔پی ٹی آئی لیڈران کل شاہد خاقان عباسی کے ساتھ کھڑے قہقہے لگا رہے تھے۔ لگ نہیں رہا تھا کہ ان کے لیڈر کو سزا ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب: فتنہ الخوارج کے ہائی ویلیو ٹارگٹس کیخلاف آپریشنز  کی تیاریاں، مفصل رپورٹ وزیر اعلیٰ کو  ارسال
  • انٹربورڈ میں گزشتہ سال بے ضابطگیوں کے ذمے داروں کیخلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟منعم ظفر
  • کہتے تھے کیس کا فیصلہ آجائے اب رونا دھونا کیوں کررہے ہیں ، عظمیٰ بخاری
  • کشتی حادثہ: تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی ٹیم مراکش بھیجنے کا فیصلہ
  • مراکش کشتی حادثے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی ٹیم مراکش روانہ ہوگی
  • مراکش کشتی حادثے کی اعلیٰ سطح تحقیقات کا فیصلہ، وزیر اعظم نے 4 رکنی کمیٹی بنا دی
  • مراکش کشتی حادثے کی اعلیٰ سطح تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل
  • انٹڑ بورڈ کمیٹی 2 دن میں ختم کرکے نئی کمیٹی نہ بنائی گئی تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کرینگے،منعم ظفر خان
  • انٹر بورڈ کمیٹی 2دن میں ختم کر کے نئی نہ بنائی گئی تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع ہوگا، منعم ظفر