Express News:
2025-01-19@00:23:58 GMT

ہندوستان اور پاکستان تاریخ کے تناظر میں

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

کچھ دن قبل ہندوستانی فوج کے سربراہ نے یہ بیان دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ایسابیان کسی اہم بھارتی عہدیدار نے بہت عرصے بعد جاری کیا ہے لیکن امریکا میں نئی انتظامیہ آرہی ہے؟ اس موقع پرایسا بیان جاری کرنے کا مطلب ہے کہ ہندوستان، پاکستان کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری رکھے گا۔

میرا عوامی لیگ بنگلہ دیش سے گہرا تعلق ہے مگر انتہائی ادب کے ساتھ میں یہ کہتا ہوں کہ بنگلہ دیش میں پچھلے ادوار میں عوامی لیگ نے جس طرح سے 1971 کے بیانیے کو ابھارا تھا، اس سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہتر نہیں ہو پا رہے تھے۔

اس بات کا ذکر میں ہمیشہ وہاں کے عوامی لیگی کے دوستوں سے کرتا رہا، مگر میری کہی بات نگار خانے میں طوطی کی آواز جیسی تھی اور آج ملاحظہ کیجیے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور یہ بہتری ہندوستان کو ناگوارگزر رہی ہے۔

پاکستان کی تاریخ ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے، اگر ہم کچھ اپنی کوتاہیوں سے سیکھنا چاہیں۔ نہرو کے زمانے میں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات اس حد تک کشیدہ نہ تھے،کل ہی کی تو بات ہے کہ ہم ایک ہی ملک تھے۔

انتہائی احترام کے ساتھ میں یہ عرض کروں کہ کانگریس میں اکثریت ضرور ہندو ممبران کی تھی مگر اس پارٹی میں مولانا آزاد جیسے مسلمان لیڈر بھی تھے۔ جناح 1914 سے لے کر 1920 تک کانگریس کے اتنے ہی بڑے لیڈر تھے جتنے گاندھی۔

ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے پھر گیارہ اگست 1947کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ تھیوکریسی کو خیر باد کہہ چکے تھے۔یہ بات ایک حقیقت ہے کہ یہ نفرتیں جدوجہد کے وقت نہیں بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کے دوران خون خرابے سے بڑھیں۔

پاکستان خصوصاً مغربی پاکستان میں مسلم لیگی قیادت کی جڑیں نہیں تھیں تو وہ یہاں کس طرح سے الیکشن کروائیں اور یہاں آئیں کیسے؟ یوں اندرونی طور پر اقتدار کی جنگ شروع ہوئی۔ لیاقت علی خان کا قتل ہوا، پہلے سول بیوروکریسی نے قبضہ جمایا، ملک نہیں چلاسکے اور پھر سات سال بعد ملٹری بیورو و کریسی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

ہم امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گئے۔ یہ تمام حالات سرد جنگ کے پسِ منظر میں تھے۔ امریکا نے پاکستان کی اشرافیہ کے ساتھ اتحاد کیا، یہ سب کچھ انٹرنیشنل کیپٹل ازم کے مفادات کے لیے تھا، جس کے عوض یہاں کی حکمران اشرافیہ نے آمریتوں کی حمایت اور جمہوریت کا گلا کھونٹنے کا لائسنس مانگا۔

یہاں جو بھی جمہوریت کی بات کرتا ، اس پر غداری کا ٹھپہ لگا دیا جاتا۔ ہم نے فاطمہ جناح کو بھی اس الزام سے معاف نہ کیا۔ بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کو یہاں روند دیا گیا۔ ون یونٹ بنایا گیا، زبان، ثقافت اور تہذیبوں کو یہاں کچلا گیا۔

غزنوی ، غوری، خلجی، ابدالی، ترخانوں، ارغونوں اور عربوں کو ہمارا ہیرو بنایا گیا۔ غرض جو ہم نے کرنا تھا وہ تو ہم نے کیا ہی مگر ہمارے خطے کی ساری تاریخ کو ہندوستان کے حوالے کردیا گیا، یہاں شفاف انتخابات تو کرائے گئے مگر اس کے نتائج کو نہیں مانا گیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دو لخت ہوا، ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی، پھر ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ ملک کی باگ ڈور جنرل ضیاء کے حوالے کردی گئی۔ سوویت یونین افغانستان پر قابض ہوگیا۔ ہماری حکمران اشرافیہ اور افغانستان کے ملاؤں کے وارے نیارے ہوگئے جب کہ نام نہاد لبرل افغان اشرافیہ نے امریکا، مغربی یورپ ، عرب ممالک سے بطور خیرات اور امداد ملنے والے اربوں کھربوں ڈالر ہڑپ کیے۔

بہرحال پاکستان میں بابوؤں نے 1947 کے بعد قراردادِ مقاصد پاس کر کے قائد اعظم کے نظریات سے انحراف کیا، ملک کو مذہبی ریاست بنانے کی بات کی گئی۔ اس بات کو جنرل ایوب نے ضرور نظر انداز کیا مگر تھے وہ آمر۔ اس لیے وہ مذہبی رواداری کی بنیادیں مضبوط نہ کر پائے۔

جنرل ضیاء نے اس ملک کو بالکل اپنی طرز پر چلایا۔ افغانستان، افغان مہاجرین اور پاکستان کے درمیان سرحدیں نہ رہیں، اسمگلنگ، منشیات کا کاروبار اور غیر قانونی اسلحے کا کاروبار پروان چڑھا۔ جنرل ایوب کے زمانوں میں پاکستان کا دارالخلافہ منتقل کیا گیا لیکن سیاست کا اصل مرکز کراچی ہی رہا۔ معاشی اعتبار سے بھی کراچی پاکستان کا محور تھا پھر وقت کے ساتھ اس کی حیثیت میں بھی کمی آئی۔

ایسا بھی ہوا کہ جنھوں نے پاکستان بنایا، آزاد کروایا وہ خود اپنی شناخت ڈھونڈ رہے تھے، جن کو ان ز مانوں کی اسٹبلشمنٹ نے جمہوریت کے خلاف استعمال کیا، جو ماضی میں فاطمہ جناح کے ساتھ تھے وہ آج الگ تھے۔ آج ہم 2025 میں کھڑے ہیں۔

آج ہم نے معجزانہ طور پر پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشوں کو ختم کیا اور ان لوگوں کے مدمقابل ڈٹے رہے جن میں زلمے خلیل زاد جیسے سامراجی ایجنٹ شامل تھے۔ مودی کی سازشی سوچ تھی، طالبان میں ان کی سرمایہ کاری تھی اور جو لوگ اس سرزمین سے طالبان کو ہینڈل کرتے تھے وہ بھی ان سازشوں کا حصہ تھے۔

اس وقت پاکستان کو ایک اور موقع ملا ہے اپنی ساخت اور اپنی تاریخ کو سمجھنے کا۔ اپنی سمت کو درست کرنے کا۔ ریاست کی حیثیت کیا ہے؟ اس کا زاویہ کیا ہونا چاہیے؟ وفاق کے صحیح معنی کیا ہیں اور وفاق کو کیسے چلانا چاہیے؟ یہ بڑے نازک مرحلے ہیں۔ اس ریاست میں پختون نوجوان ایک سوالیہ نشان ہے؟ بلوچستان کا نوجوان سوالیہ نشان ہے؟ سندھ کے اندر چولستان کے حوالے سے کینالوں کا مسئلہ ایک نئی سوچ اور نظریے کو جنم دے رہا ہے۔

ان تمام مسائل میں ایک حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ ورلڈ بینک پاکستان کو بیس ارب ڈالر گرانٹ کرنے جا رہا ہے، جو آیندہ دس سالوں میں مختلف منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ ان گرانٹس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جو سازشیں بین الاقوامی طور پر پاکستان کے خلاف رچائی گئی تھیں وہ ناکام ہوگئیں۔

مودی صاحب کی پالیسی بھی ناکام رہی کیونکہ اب وہ مزید اپنی قوم کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ اب ہمیں بھی اقلیتوں کے خلاف تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ مشترکہ طور پر ہماری بھی تاریخ ہے۔ ہندوستان صرف مودی اور بی جے پی کا نہیں ہے، ہندوستان کانگریس ، بہوجن سماج وادی اور دیگر سیکولر جماعتیں، سیاستدان اور اروندھتی رائے جیسے لوگوں کا بھی ہے۔

پاکستان میں صوبائی اور مذہبی رواداری اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں صوبوں میں تکرار نہیں بلکہ وہ صوبے وفاق سے نالاں ہیں کہ صوبوں کے نوجوانوں کی سنوائی ہو، ان کے مسائل کو سنا جائے۔

احتجاج، ان کا بنیادی حق ہے۔ہم نے جھوٹ پر مبنی اور اپنی تاریخ کو مسخ کر کے جو بیانیہ بنایا اس نے ہمیں اندر سے کمزورکیا۔ اب ضرورت ہے اپنی حقیقی تاریخ کو اجاگر کرنے کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی اشرافیہ نے جو بیج بوئے تھے، آج ریاست ان کے خلاف نبرد آزما ہے۔ ان حالات کو ایک رات میں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ان بیجوں کو جڑوں سے نکالنا ہوگا۔ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک بھرپور حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کو سیاسی انداز میں نمٹا جا سکتا ہے۔

آج پاکستان ، مضبوطی اور رواداری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اس پاکستان کے ساتھ یقیناً دنیا مطمئن ہوگی۔ پاکستان اس وقت تاریخ کی درست سمت پر ہے، لہٰذا ضرور اس کی منزل آسان ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے بنگلہ دیش تاریخ کو کے ساتھ کے خلاف ساتھ ا رہا ہے

پڑھیں:

اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافی کی ہے،حماس کیساتھ معاہدے پر کار بند نہیں رہے گا

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافی کی ہے‘ حماس کیساتھ معاہدے پر کار بند نہیں رہے گا‘غالباًنیتن یاہوعالمی دبائو کی وجہ سے معاہدے کی پاسداری پر مجبور ہوںگے ‘صیہونی فوج میں بغاوت ہوسکتی ہے ‘حماس کو شکست نہیں دی جاسکی‘ طاقتور جب چاہے سمجھوتا توڑ سکتا ہے‘ یہودیوں ،عیسائیوںنے اپنی توانائی کومجتمع کرنے کے لیے سمجھوتا کیا، مسلم ممالک بھی فائدہ اٹھائیں۔ان خیالات کا اظہار تحریک حماس پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما، چترال سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی‘اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد زبیر‘ معروف صحافی، سینئر تجزیہ کار میاں منیر احمد‘ معروف تجزیہ کار اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اور ویمن اسلامک لائرز فورم کی سابق چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا اسرائیل حماس سے معاہدے پر کاربند رہے گا؟‘‘ ڈاکٹر خالد قدومی نے کہا کہ دیکھیں اسرائیل کی ایک لمبی داستان ہے کہ وہ کبھی ا فہام و تفہیم یا مذاکرات پر عمل نہیں کرتا‘ اگرچہ اس نے معاہدے پر دستخط بھی کردیے ہیں‘ حماس کو معاہدے سے 2،3 دن پہلے اس کی تیاری کرنے کے لیے وقت دیاگیا تھا اور اسرائیل نے بھی اسے قبول کیا اور اس معاہدے کی شرائط کی قطر، مصر اور امریکا نے بھی گارنٹی دی ہے ‘ معاہدے سے پہلے حماس نے بتادیا تھا کہ کوئی نسل کشی اورکوئی حملہ نہیں ہوگا لیکن ہوا یہ کہ جس دن حماس نے پریس کانفرنس کی اور معاہدہ کا اعلان کیا اس روز حماس کے 82 افراد کو اسرائیل نے بمبارمنٹ میں شہید کردیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی نیت خراب ہے‘ اسرائیل پر عالمی دباؤ اور مجاہدین کی کامیابی اور فلسطینیوں کے ثابت قدم رہنے کی وجہ سے شاید اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں ہوگا کہ وہ معاہدے کے مطابق خاص طور پر اپنے اس پہلے مرحلے پر مکمل طور پر عمل درآمد کریں‘ فلسطین القدس کے وقت مطابق اتوار کے روز 4بجے دوپہر کو معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوگا اب دیکھیں گے کہ یہ اپنے وعدے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں‘ اگر اسرائیل معاہدے عمل نہیں کرے گا تو اسرائیلی یرغمالی کبھی رہا نہیں ہوں گے‘ عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس مقام پر جہاں اسرائیل نے ہمارے 82 افراد شہید کیے تھے‘ اس بمباری میں ایک یہودی یرغمالی خاتون بھی ہلاک ہو گئی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت کو اپنی عوام کی بھی کوئی فکرنہیں ہے وہ اپنے شہریوں کو بھی قتل کر سکتے ہیں اور کرے بھی رہے ہیں‘ ہم اچھی نیت سے معاہدے کے لیے گئے تھے تاکہ حماس فلسطینیوں کو جو اسرائیلی کی قید میں ہیں انہیں واپس لا سکے‘ حماس تحریک مزاحمت اور جدوجہد کو جاری رکھے گا‘ اسرائیل قابل شکست ہے‘ ان تمام افراد کو سلام پیش کرتے ہیں جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے ۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ یہ اسرائیل کی اب مجبوری ہے کہ وہ حماس سے معاہدے پر کاربند رہے کیونکہ وہ حماس کو شکست نہیں دے سکے اور 15ماہ تک انہوں نے جنگ لڑی اور انہوں نے حماس کے خلاف ہر قسم کے ہتھیار استعمال کیے‘ فضائی اور زمینی حملے کیے اور ان کے گھروں کو تباہ کیا ان کے اسپتالوں کو جس طرح نست ونابود کیا اس کے باوجود بھی حماس کے لوگوں کی ہمت اور جرأت کسی صورت کم نہ ہو سکی ہے‘ ایک تو وجہ یہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی کچھ بغاوت کی خبریں آ رہی ہیں اگر یہ مصدقہ ہیں تو یہ اسرائیل کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ جنگ کا آغاز کرتا ہے تو اس کی فوج میں بغاوت ہو سکتی ہے ‘ تیسری بات یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونے کے بعد پھر اس کو توڑنا ان کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا۔مفتی محمد زبیر نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کا معاہدہ اس اعتبار سے تو قابل تحسین ہے کہ ایک لمبے عرصے سے حماس اور بالخصوص غزہ کے عوام پر جس طرح آگ کی بمباری جاری تھی اس میں کمی آئے گی لیکن لگتا نہیں ہے کہ اسرائیل اس معاہدے پر کاربند رہ سکے کیونکہ اسرائیل کی تاریخ ہمیشہ وعدے توڑنے کی رہی ہے‘ پوری اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے ان سے کوئی زیادہ خوشگمانی کرنا مناسب نہیں ہوگا‘ جنگ کے محاذ پر غزہ کے لوگوں نے بھرپور فتح کے جھنڈے گاڑے اور خوب داد تحسین پائی ہے‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے تاہم اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر عرب ممالک کی کانفرنس اور او آئی سی کانفرنس بلائی جائے اور وزرائے خارجہ کی سطح پر مستقل اور پائیدار حل کی طرف جایا جائے‘ القد س کو دارالحکومت قرار دیا جائے ‘ فلسطین میں حماس کی حکومت کو حقیقی طور پر تسلیم کیا جائے۔میاں منیر احمد نے کہا کہ اسرائیل، حماس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے امریکا کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جہاں اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ آچکا ہے اور 4سالہ میعاد پوری کرکے رخصتی کی تیاری کرنے والے صدر جوبائیڈن اور نومنتخبڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی تشویش کا باعث بننے والی صورتحال کے خاتمے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اسرائیل امن معاہدے کی پاسداری کے وعدے پر کس حد تک اور کتنی مدت تک قائم رہے گا؟ اس کے ماضی کے کردار کی روشنی میں حتمی طور پر کچھ کہنا آسان نہیں تاہم واشنگٹن کو عالمی امن کے مفاد میں کردار کرنا چاہے گا تو معاہدہ موثر ہوسکتا ہے‘ اس معاہدے سے 15 سے زاید عرصہ سے جاری جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ محمد عارف صدیقی نے کہا کہ اسرائیل میں بنیادی طور پر 2 طرح کے صیہونی آباد ہیں ان میں سے ایک گروہ جس کی تعداد نسبتاً کم ہے وہ تو الٹرا آرتھو ڈوکس یہودی ہیں جن کا تعلق یہود کے 12 قبائل کی جو شاخیں ہیں ان سے ہے دوسرے وہ غیر یہود جو بنیادی طور پر صیہونی ہیں‘ یہ اشک نازی یہود یا وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ یہود کہلاتے ہیں یہ دونوں قبائل وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ یا اشک نازی بنیادی شیطان کی پوجا کرنے والے قبائل تھے جنہوں نے صیہون کا مذہب اوڑھا اور یہودیوں میں آ ملے دوسری طرف آرتھوڈوکس یہودی ہیں‘ اب اگر آپ ان دونوں یہودیوں و صیہونیوں کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ اس قوم نے ہمیشہ بد عہدی کی، انہوں نے پیغمبروں تک سے بد عہدی اور بے وفائی کی یہ وہ قوم ہے جن کی تاریخ اس بات سے عبارت ہے کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جانا چاہیے‘ آپ کو یاد ہوگا کہ مدینہ میں موجود قبائل بھی رسول کریم ؐ کے ساتھ معاہدے پر قائم نہیں رہ سکے تھے اور مسلمانوں کے خلاف اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے انہوں نے بارہا عہد شکنی کی جس کے نتیجے میں رسول اللہ کے دور میں بھی ان کی سرزش و تعدیب کی گئی‘ اس کے بعد کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب اس قوم نے کسی دوسری قوم کے ساتھ معاہدہ کیا تو یہ صرف اس وقت تک اس معاہدے پر کاربند رہے جب تک وہ معاہدہ ان کے حق میں بہتر رہا اور جب ذرا سی بھی ان کے مفادات پر ضرب پڑی تو اس معاہدے کو یہ لوگ بلا جھجک توڑ ڈالتے تھے‘ اس کی وجہ ان کی مذہبی کتب ہیں اگر آپ ان کی مذہبی کتب کا مطالعہ کریں تو وہاں غیر یہودیوں کو جنٹائل اور گوئم کے نام سے پکارا گیا ہے یعنی 2 ٹانگوں والے جانور اور ان کی مذہبی کتب کے مطابق غیر یہود کا خون، جان مال سب کچھ ان پر حلال ہے اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ‘ یہ وہ بدبخت قوم ہے جو پیغمبروں تک سے بے وفائی اور عہد شکنی کر چکی ہے تو ہمارے ساتھ بھی یہی کرے گی‘ ہم دوسری بات عہد حاضر میں دیکھتے ہیں اس کے مطابق طاقتور اور کمزور کے درمیان جب معاہدہ ہوتا ہے تو طاقتور جب چاہے معاہدہ اس لیے توڑ ڈالتا ہے‘ اس سے اس پر عمل درآمد کروانے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی‘ اب اس معاہدے پر عمل درآمد کروانے کی طاقت کیا مسلم حکمرانوںمیں ہے‘ توجواب ہے کہ وہ تو صرف اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف ہیں‘ انہیں فلسطین اہل فلسطین یا غزہ کے شہدا و مظلوموں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ اس کے بعد اگر آپ بین الاقوامی اداروں کو دیکھیں تو وہ ہمیشہ سے صیہونی اور صلیب کی لونڈی بنے نظر آتے ہیں‘ اقوام متحدہ کے معاملات اور قراردادیں سب کے سامنے ہیں‘ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے ردی کی ٹوکری میں پڑے ہیں‘ اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کی کسی میں جرأت نہیں ہے‘ اگر آپ اسی تناظر میں اس معاہدے کو دیکھیں تو یہ معاہدہ صرف وقتی طور پر جنگ بندی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ دشمن یعنی صیہون اور صلیب ایک مرتبہ پھر سے اکٹھے اور اپنی توانائی کو مجتمع کر سکیں‘ غزہ میں موجود سرنگوں کے جال کو توڑنے کی کوئی تدبیر سوچ سکیں‘ مسلم ممالک پر دباؤ ڈال کر انہیں فرنٹ مین کے طور پر اسرائیل کے حق میں اور اہل غزہ کے خلاف استعمال کرنے کی پلاننگ کر سکیں یہ معاہدہ اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ اسرائیل وقت لینے کے لیے یہ معاہدہ کر رہا ہے اور بہت جلد اس معاہدے سے پھر جائے گا اب یہ ہم مسلمانوں پر ہے کہ وہ بھی اس وقفے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اپنی طاقت کو مجتمع کریں‘ مسلم حکمرانوں کو غیرت دلوائیں اور ایک اور بات بہت اہم ہے کہ جنگ بندی کے بعد ہمیں اہل غزہ کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد اکٹھی کرنی چاہیے۔ طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جہاں تک اسرائیل کی تاریخ ہے تو اسرائیل حماس سے معاہدے پر بالکل بھی کار بند نہیں رہے گا‘ کوئی نہ کوئی بہانہ وہ ڈھونڈے گا‘ بلاشبہ وعدہ خلافی اور کہہ مکرنی کی تاریخ اسرائیل سے زیادہ اچھی کس کی ہو گی ۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافی کی ہے،حماس کیساتھ معاہدے پر کار بند نہیں رہے گا
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ ہے:عطا تارڑ
  • ایران اور پاکستان کے تعلقات مذہب، تاریخ پر استوار: ایاز صادق، سفیر سے گفتگو
  • فائیو جی پاکستان میں کب آئے گا؟ تاریخ سامنے آگئی
  • انصاف کا بول بالا ہوا، عمران خان اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرسکے، وفاقی حکومت
  • 190 ملین پاؤنڈ پاکستان کی تاریخ کا میگا کرپشن کیس تھا، عطاءاللہ تارڑ
  • انصاف کا بول بالا ہوا، بانی پی ٹی آئی اپنی بیگناہی ثابت نہیں کر سکے: وفاقی حکومت
  • بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور کی ملاقات سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی معاملات کے تناظر میں ہوئی،سیاسی رنگ غلط دیا گیا:ذرائع
  • پاکستان اور ترکیہ کی دوستی کی طویل تاریخ ہے،عطاءاللہ تارڑ