Express News:
2025-01-19@00:13:03 GMT

غزہ جنگ بندی، مزاحمت کی فتح

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

سولہ جنوری کو تقریبا پندرہ ماہ کے بعد یہ خبر سامنے آئی ہے کہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں رضا مندی کا اظہارکیا ہے، یعنی جنگ بندی کا معاہدہ ترتیب پا چکا ہے اور اب دونوں فریق اس معاہدے کے مسودے پر رضا مند بھی ہیں۔

ابتدائی معلومات کے مطابق یہ معاہدہ تین مرحلوں میں انجام پذیر ہوگا، جس کا پہلا مرحلہ اتوار انیس جنوری کو شروع ہو کر آیندہ بیالیس دن تک جاری رہے گا۔ ان بیالیس دنوں میں قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا جب کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی یعنی دونوں اطراف سے کسی قسم کی کوئی عسکری کارروائی انجام نہیں دی جائے گی۔ ساتھ ساتھ غزہ کے علاقوں سے مرحلہ وار اسرائیلی غاصب فوج بھی باہر نکل جائے گی۔

 بہرحال یہ معاہدہ انجام پذیر ہوچکا ہے اور اس معاہدے کے عنوان سے پاکستان سمیت کچھ اور ممالک میں سیاسی تجزیہ نگار کہ جن کا جھکاؤ ہمیشہ امریکی سیاست یا امریکا کی جانب رہا ہے وہ سب اس بات پر بغلیں بجانے میں مصروف عمل ہیں کہ امریکی نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور امریکی سیاست سے مرعوب ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس معاہدے کا اصل چیمپئین امریکی حکومت یعنی موجودہ صدر بائیڈن اور آنے والا صدر ٹرمپ ہے۔ یہ تجزیہ بالکل حقائق کے منافی ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی جنگ جوکہ سات اکتوبر 2023 میں شروع ہوئی تھی۔ پندرہ ماہ مکمل ہونے کے بعد بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل سمیت امریکا اور ان تمام مغربی حکومتوں کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے کہ جو غزہ پر اسرائیل کے مکمل قبضے کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ حماس کو غزہ سے مکمل ختم کرنے کی بات کررہے تھے۔

پندرہ ماہ گزرنے کے بعد گزشتہ دو ماہ میں غزہ میں بڑھتی ہوئے مزاحمت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسماعیل ہانیہ اور یحییٰ سنوار جیسے قائدین کی شہادت کے بعد بھی حماس غزہ میں بھرپور مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حماس کے پاس 94 اسرائیلی قیدی بھی موجود ہیں جن کو پندرہ ماہ گزرنے کے باوجود امریکا اور اسرائیل کی تمام تر طاقت اور ٹیکنالوجی تلاش کرنے اور بازیاب کرنے میں ناکام رہی ہے۔

 حقیقت یہی ہے کہ غزہ کی حمایت میں آٹھ اکتوبر 2023 میں جنوبی لبنان کی سرحدوں پرکھلنے والا محاذ آج سے پچاس دن قبل اس لیے جنگ بندی کی طرف چلا گیا کیونکہ یہاں بھی اسرائیل مسلسل شکست پذیر ہوا اور نہ ہی حزب اللہ کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور نہ ہی ان لاکھوں صیہونی آباد کاروں کو شمالی فلسطین میں واپس لانے کی کامیابی حاصل ہوئی جن کو حزب اللہ نے اپنی کاروائیوں کے ذریعے شمالی فلسطین سے نکال باہرکیا تھا۔

یہ صیہونی آباد کار تاحال اپنے گھروں کو واپس نہیں آ پائے ہیں کیونکہ حزب اللہ کے شہید رہنما سید حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ اگر غزہ کے لوگ گھر سے بے گھر ہوں گے تو صیہونی آباد کاروں کو بھی گھروں میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ جنوبی لبنان کے محاذ پر شکست ایک اور بڑی وجہ ہے جس نے امریکا اور اسرائیل کو مجبورکیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کریں اور حماس کی شرائط کو تسلیم کریں۔

ایک اور حقیقت جس کو امریکی سیاست سے مرعوب تجزیہ نگاروں نے نظر اندازکیا ہے، وہ یمن ہے۔ یمن نے سات اکتوبر کے بعد سے اعلان کیا تھا کہ غزہ کی حمایت کے لیے بحیرہ احمرکے راستوں کو امریکا اور اسرائیل سمیت برطانوی اور ہر اس ملک کے بحری جہازوں کے لیے بند کردیا جائے گا جو غزہ جارحیت میں اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔

یمن نے پندرہ ماہ سے بحیرہ احمر کے راستوں کو بلاک کر رکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی اور برطانوی جنگی جہازوں اور بحری بیڑوں کے ساتھ بھی نبرد آزما ہے۔ اسی طرح یمن مسلسل غزہ کی حمایت میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے اہم مراکز تل ابیب، ایلات اور دیگر مقامات پر اپنے جدید ترین میزائلوں اور ڈرون کی مدد سے کامیابی سے نشانہ بنا رہا ہے۔

حال ہی میں تل ابیب میں موجود وزارت جنگ کی ایک اہم عمارت کو یمن کے ہائپر سانک میزائلوں نے نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح امریکا کے جدید ترین ایم کیو نائن ڈرون بھی درجن بھر سے زیادہ مار گرائے ہیں، ایک جنگی جہاز ایف اٹھارہ بھی مارگرایا تھا۔ یمن کی بے مثال مزاحمت نے امریکا اور برطانیہ سمیت اسرائیل کو مجبورکیا ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کریں۔

 ایک حقیقت عراق کی مزاحمت ہے کہ جس نے مسلسل غاصب صیہونی حکومت کے اہم مقامات کو اپنے میزائلوں اور ڈرون کے ساتھ نشانہ بنایا۔ ایران کا اہم کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جس نے دو مرتبہ وعدہ صادق نامی آپریشن لانچ کیے اور براہ راست غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے اہم فوجی اور جنگی مراکزکوکامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔

ان تمام واقعات نے جنگ کی صورتحال کو غزہ کے حق میں اور حماس کے حق میں بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اس بات کا اظہار خود حماس کی قیادت نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد کیا ہے۔ حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے ایران، عراق، لبنان، یمن کی مزاحمت کا زبردست انداز میں شکریہ ادا کیا ہے اورکہا ہے کہ یہی وہ مزاحمت ہے جس نے حماس کی مزاحمت کو مضبوط کیا اور غاصب صیہونی حکومت کو جنگ بندی کے معاہدے پر مجبور ہونا پڑا۔

 ایک اور حقیقت جسے امریکی سیاست سے مرعوب تجزیہ نگار فراموش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ خود غزہ میں گزشتہ چند ماہ میں ہونے والی بے مثال مزاحمتی کارروائیاں ہیں جن کے بارے میں خود اسرائیلی ذرایع ابلاغ اعتراف کرتے رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج ان مزاحمتی کارروائیوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ چند ہفتوں میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں نے جنگ کے رخ کو بدلنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ حماس کی اس قوت اور مضبوطی کا ذکر خود امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو بھی کرنا پڑا۔

بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ اگرکچھ تجزیہ نگاروں کی بات کو مان لیا جائے کہ امریکی حکومت بہت طاقتور ہے، اسرائیل کے پاس بے پناہ طاقت اور ٹیکنالوجی ہے اور نہ جانے بہت کچھ تو پھر سوال تو بہت سے اٹھتے ہیں لیکن ایک سوال یہ ہے کہ اگرکوئی طاقتور ہو اور دنیا کی تمام تر ٹیکنالوجی اور قوت سے لیس ہو تو پھر وہ جنگ بندی کا معاہد ہ کیوں کرے گا ؟ ۔

آخر اس دنیا کی طاقت کو لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس سوال کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے یعنی مزاحمت ہے جس نے ان تمام طاقتوں کو مجبورکیا ہے کہ وہ جنگ بندی کا معاہدہ کریں ورنہ اگر ان کی قدرت ہوتی تو وہ جنگ بندی نہیں بلکہ فتح کا اعلان کرتے، لٰہذا اب چونکہ جنگ بندی ہوئی ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ غزہ اور مزاحمت کی کامیابی ہے کہ جس نے دنیا کی پوری طاقت کو اپنے سامنے جھکا دیا اور معاہدے پر مجبور کر دیا، یہ سب کچھ نہ تو بائیڈن کی سیاسی حکمت عملی ہے اور نہ ہی نئے امریکی صدر ٹرمپ کا کمال ہے۔ 

اگرکسی کا کمال ہے تو صرف اور صرف اسلامی مزاحمت ہے جس کا مرکز و محور فلسطین اور اس کے ساتھی و مدد گار ایران، حشد الشعبی عراق، حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن ہیں، لٰہذا غزہ جنگ بندی اسلامی مزاحمت کی فتح ہے۔یہ مزاحمت ختم نہیں ہوئی‘ ظلم و جبر کے خلاف یہ مزاحمت ہمیشہ جاری رہے گی۔ اگر اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ جارحیت کی تو اسے پھر اسی مزاحمت کا زیادہ شدت سے سامنا کرنا پڑے گا‘ یہ بھی ممکن ہے کہ آیندہ اس مزاحمت میں مزید شدت آ جائے اور اور اسرائیل کو پہلے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے اور آج غزہ میں جو تباہی ہوئی ہے وہ آیندہ اسرائیل کا مقدر بن جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی سیاست اور اسرائیل جنگ بندی کا اسرائیل کے امریکا اور ادا کیا ہے مزاحمت ہے اس معاہدے پندرہ ماہ ہے کہ غزہ حزب اللہ کی حمایت یہ ہے کہ حماس کی کے ساتھ غزہ کے اور نہ کے بعد غزہ کی ہے اور اور اس

پڑھیں:

غزہ میں جنگ بندی معاہدہ اور فلسطینی کاز

حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدہ طے پاگیا، جس کا باقاعدہ اعلان قطر کے وزیراعظم نے کردیا۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 روز پر محیط ہوگا اور اسرائیل فورسز کی غزہ کے شہری علاقوں سے سرحد پر واپسی ہوگی اور قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ، زخمیوں اور مریضوں کو باہر لے جانے کی اجازت ہوگی، انسانی بنیاد پر پورے غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر امداد بھی فراہم کردی جائے گی۔

 اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ بندی پر دنیا بھر کے رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ غزہ میں جاری لڑائی کو پندرہ ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ امریکا، مصر اور قطر کئی مہینوں سے اسرائیل کو فائر بندی اور حماس کو یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم یہ مذاکرات گزشتہ کئی مہینوں کے دوران متعدد مرتبہ تعطل کا شکار ہوتے رہے تھے۔ امن معاہدہ طے پانے کے باوجود غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیاں جاری ہیں۔

تازہ اسرائیلی حملوں میں مزید بتیس فلسطینی شہید ہوگئے، یعنی اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی وحشت و بربریت اور انسانی قتل عام کا تسلسل ابھی بھی برقرار ہے۔ جنگ کے بعد غزہ کو کون چلائے گا؟ یہ ایک بہت بڑا جواب طلب سوال ہے۔ اسرائیل نے حماس کی کسی بھی شمولیت کو مسترد کردیا ہے جس کا جنگ سے پہلے غزہ پر قبضہ تھا لیکن یہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کا بھی تقریباً برابر مخالف رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی تین عشرے قبل اوسلو کے عبوری امن معاہدے کے تحت قائم کی گئی جو مغربی کنارے میں محدود حکمرانی کے اختیارات رکھتی ہے۔

اسرائیلی حکام فلسطینی اتھارٹی پر اسرائیل کے خلاف حملوں کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے اور کہتے ہیں کہ غزہ سے باہر فلسطینیوں میں حماس کی وسیع حمایت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فلسطینی ریاست لازمی طور پر گروپ کے قبضے میں چلی جائے گی۔ فلسطینی اتھارٹی پر الفتح دھڑے کا غلبہ ہے جو سابق فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے تشکیل دیا۔ اسے حریف حماس کی مخالفت کا بھی سامنا ہے جس نے اسے 2007 میں ایک مختصر خانہ جنگی کے بعد غزہ سے باہر نکال دیا تھا۔حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے ہونے کے بعد غزہ پٹی کے انتظام پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے قاہرہ کی میزبانی میں فلسطینی جماعتوں کے درمیان مذاکرات بھی دوبارہ شروع ہو رہے ہیں۔

یہ چوتھی بار ہے کہ دونوں فلسطینی وفود مصر کے دارالحکومت میں ملے ہیں۔ اس سے قبل 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اسرائیلی جنگ کے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد مذاکرات میں دونوں پارٹیاں تباہ شدہ پٹی کے انتظام کے فارمولے پر اتفاق کرنے میں ناکام رہی تھیں، جب کہ امریکا اور بعض مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غزہ پر فلسطینیوں کا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے، جس کے لیے فلسطینی دھڑوں کے درمیان مفاہمت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اگر سب کچھ ٹھیک رہا، تو فلسطینیوں، عرب ممالک اور اسرائیل کو جنگ کے بعد غزہ کے لیے ایک وژن پر اتفاق کرنا ہوگا۔

 چند دن بعد ٹرمپ دوسری بار حلف اٹھانے جا رہے ہیں، ان کی موجودگی میں اسرائیل کے حوصلے بھی مزید بلند ہونگے۔ اس کے باوجود ہر فریق یہ جانتا ہے کہ جنگ اس کے مفاد میں نہیں۔ صرف شطرنج کی ایک بساط بچھائی گئی ہے جس پر مہرے آگے بڑھائے اور پیچھے ہٹائے جاتے رہیں گے۔ حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے اسے اپنے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ انھوں نے اسے ایک تاریخی موقع بھی قرار دیا۔ غزہ میں حماس کی نگرانی میں کام کرنے والی وزارت صحت کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک ساڑھے چھیالیس ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

 اسرائیل نے غزہ کو عملاً انسانی خون میں نہلا دیا ہے جہاں انسانیت اپنی بے بسی کا ماتم کر رہی ہے۔ اس دوران اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں ننگِ انسانیت وحشت و بربریت کے جو مناظر سامنے آئے ہیں وہ انسانیت کو تو شرما ہی رہے ہیں۔ اسرائیل نے جس بے دردی کے ساتھ غزہ میں حشر اٹھایا ہے وہ انسانی تاریخ کے سیاہ ابواب میں شامل ہوچکا ہے۔ غزہ میں بچوں اور خواتین سمیت کسی انسان کو بھی نہیں بخشا گیا۔

تعلیمی اداروں، مدارس، مساجد، مارکیٹوں اور اسپتالوں تک پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ بے رحمانہ بمباری کے ذریعے غزہ کی زمین کے چپے چپے کو ادھیڑ دیا گیا اور ہنستی بستی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا۔ اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں خاندانوں کے خاندان لقمہ اجل بن گئے اور زندہ بچنے والے انسان زخمی حالت میں بے یار و مددگار ہو کر کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے، علاج معالجہ اور ادویات و خوراک کی فراہمی کے بغیر ہی بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے اور دنیا کی جانب سے سوائے رسمی مذمتی بیانات اور قراردادوں کے، مظلوم فلسطینیوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہو پایا۔

اسرائیل کو مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ہر قسم کے اسلحے سے لیس کیا جا رہا ہے اور جنگی جنون کو آگے بڑھانے میں اس کا ہاتھ بٹایا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حماس نے اسرائیل پر میزائل حملوں کی منصوبہ بندی گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری اس کے ننگ انسانیت مظالم کے ردعمل کے علاوہ بعض مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عزائم و اقدامات کو بھانپ کر بھی کی تھی کیونکہ فلسطین کی سرزمین پر ایک صیہونی ریاست کا زبردستی اور ناجائز طور پر قائم ہونا ہی لمحہ فکریہ تھا۔

 جب بعض عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اقدامات اٹھائے جاتے نظر آئے تو حماس نے ایک مضبوط حکمت عملی کے ساتھ اسرائیل پر میزائل حملوں کا منصوبہ بنایا جس میں وہ سرخرو بھی ہوئی۔ کیونکہ اس کے ردعمل میں اسرائیل نے جس بے دردی کے ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا اور انسانیت کو شرمانے والے اقدامات اٹھائے، اس کے پیش نظر ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ٹھانے بیٹھی مسلم قیادتوں کو اپنے ممکنہ مشترکہ اور انفرادی فیصلے سے رجوع کرنا پڑا۔ یہاں یہ نقطہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ دنیا کی آبادی کا 0.2 فیصد ہونے کے باوجود اسرائیل یہودی کیسے دن بدن طاقتور ہو رہے ہیں۔

یہ جاننا بہت اہمیت کا حامل ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے اسرائیلی یہودیوں میں کیا خوبی ہے جو وہ اقوام متحدہ، امریکا اور اہل مغرب کو اپنے ہر فیصلے پر ہمنوا بنا لیتے ہیں اور مسلم ممالک پر قیامت برپا کیے ہوئے ہیں۔ یہودیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ جان و دل سے مخلص ہوتے ہیں۔ وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق کاروباری سوجھ بوجھ رکھنے کی خوبی انھیں دنیا کی دولت مند ترین قوم بناتی ہے۔

تعلیم، تحقیق اور جستجو کو اپنی ترجیحات میں رکھتے ہیں، اسی لیے تعداد میں بہت تھوڑے ہونے کے باوجود سائنس، معاشیات، سیاسیات اور دیگر علوم پر اِن کا کنٹرول ہے۔ آئی ٹی،میڈیا، بینکنگ اور اہم صنعتوں پر اجارہ داری رکھتے ہیں اور فزکس، کیمسٹری، اکنامکس، لٹریچر اور میڈیسن کے شعبوں میں 22 فیصد نوبل انعام اسرائیلی یہودی اپنے نام کرچکے ہیں۔ امریکا دنیا کی سپر پاور ہے لیکن اسرائیل امریکی حکمرانوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتا ہے۔فلسطین ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول، بیت المقدس، واقع ہے اور جہاں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کا سفرکیا تھا۔

فلسطین کی زمین مسلمانوں کے لیے نہ صرف مذہبی حیثیت رکھتی ہے بلکہ یہ ایک تاریخی اور ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کے عوام سراپا احتجاج ہوئے، حکمرانوں نے احتجاج کیا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیل دفاعی، معاشی، سیاسی اور میڈیا میں طاقتور ہوتا گیا اور اپنی حدود بڑھانے کے لیے طاقت کا استعمال بھی کرنے لگا۔ پچھلی ایک صدی سے فلسطینی عوام اپنی زمین اور حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن اسرائیل کی فوجی طاقت اور بین الاقوامی حمایت کے باعث فلسطینی عوام کو بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ غزہ کو بمباری سے تباہ و برباد کرنے کے بعد اسرائیلی افواج لبنان پر چڑھائی کر چکی ہیں۔ امریکا، فرانس، برطانیہ اور دوسرے مغربی ملک کھل کے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے اور یہ مسئلہ عالمی سطح پر ایک انسانی اور سیاسی بحران بن گیا۔

اسلامی تعاون تنظیم بس رسمی سے اجلاس منعقد کرتی رہی۔ دراصل کئی اسلامی ممالک کو داخلی مسائل، جیسے غربت، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی سطح پر فلسطین جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

مسلم امہ کی خاموشی کی بڑی وجہ معاشی مفادات، داخلی تنازعات اور عالمی دباؤ ہیں، لیکن سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مسلم امہ کی بے حسی ہے۔ بہت سے ممالک نے اقتصادی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، جو فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لیے ایک دھچکا ہے۔ اس تمام بے حسی کے باوجود فلسطینی عوام اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے حق خود ارادیت، آزادی، اور عزت کی جنگ لڑ رہے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی مظلوم کیوں نہ ہوں۔ فلسطینیوں کی مزاحمت نے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ ظالم کے سامنے خاموش رہنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل و حماس جنگ بندی
  • حماس کی مزاحمت نے اسرائیل اور امریکا کے گٹھ جوڑ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، سراج الحق
  • حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو مزاحمت ہو گی: حافظ نعیم
  • غزہ میں جنگ بندی معاہدہ اور فلسطینی کاز
  •  اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا بھی گیا تو زبردست عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، حافظ نعیم الرحمن 
  • جنگ بندی معاہدہ حق کی باطل اور خون کی تلوار پر فتح ہے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران
  • مزاحمتی محور کی عظیم فتح
  • غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات
  • بیشک اللہ کی پکڑ بڑی دردناک ہے