تل ابیب میں قوم سے خطاب میں اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جنگ بندی ڈیل امریکی صدر جو بائیڈن اور نومنتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے تعاون سے ہوئی، ڈیل کے پہلے مرحلے میں جنگ بندی عارضی ہے۔ اُنکا کہنا تھا کہ ہم نے ایرانی مزاحمت کو نقصان پہنچایا ہے، آگے بھی پہنچا سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر ہمیں پھر لڑنا پڑا تو نئے اور زبردست طریقے سے حملہ کریں گے۔ تل ابیب میں قوم سے خطاب میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ تمام قیدیوں کی رہائی تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی ڈیل امریکی صدر جو بائیڈن اور نومنتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے تعاون سے ہوئی، ڈیل کے پہلے مرحلے میں جنگ بندی عارضی ہے۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ بے نتیجہ رہا تو جنگ کا دوبارہ آغاز کر دیں گے، اگر ہمیں لڑنا پڑا تو نئے اور زبردست طریقے سے پھر حملہ کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے ایرانی مزاحمت کو نقصان پہنچایا ہے، آگے بھی پہنچا سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

شیاطن کی شکست کا ڈومینو

اسلام ٹائمز: دوسرا اہم نکتہ جنگ بندی کے بعد مقبوضہ فلسطین کی اندرونی صورتحال کے بارے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بن غفیر اور اسموتریچ جیسے انتہاپسند صیہونی سیاست دان جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں اور عنقریب مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ان کے مستعفی ہونے کا نتیجہ موجودہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یوں مڈ ٹرم الیکشن کا انعقاد ہو گا اور موجودہ اتحاد کی دوبارہ کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لہذا نئی حکومت تشکیل پائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صیہونی فوج، موساد اور حکومتی کابینہ کے درمیان طاقت کی شدید رسہ کشی جاری ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے بہت حد تک اس رسہ کشی پر پردہ ڈال رکھا تھا کیونکہ رائے عامہ کی توجہ جنگ پر مرکوز تھی۔ لیکن اب جنگ ختم ہو جانے کے بعد یہ رسہ کشی اور اختلافات کھل کر منظرعام پر آئیں گے جن کا نتیجہ شدید سیکورٹی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: محمد علی زادہ
 
آخرکار اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں جنگ بندی قبول کرنے کا اعلان کر ہی دیا۔ صیہونی رژیم کے اندرونی حلقے جیسے وزیر سیکورٹی امور بن غفیر اس جنگ بندی کو فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے ساتھ جنگ میں شکست کا واضح مصداق قرار دے رہے ہیں۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے کیے گئے دعووں کی روشنی میں طے یہ تھا کہ حماس مکمل طور پر نابود ہو جائے اور غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالی بھی فوجی طاقت (نہ جنگ بندی) کے ذریعے آزاد کروا لیے جائیں، لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صیہونی حکمران جنگ بندی کے اس معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں جس کا مقابل فریق حماس ہے۔ گذشتہ دو دن میں مقبوضہ فلسطین میں انجام پانے والے سرویز سے پوری حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
 
61 فیصد اسرائیلی شہری نیتن یاہو کے اس وعدے پر اعتماد نہیں رکھتے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کی پٹی پر حماس کی حکومت ختم ہو جائے گی اور حماس تقریباً نابود ہو چکی ہے۔ اسی طرح صیہونی ٹی وی چینل 13 کی سروے رپورٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 61.5 فیصد اسرائیلی غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ہیں جبکہ 23.9 فیصد اسرائیلی اس کے مخالف ہیں۔ اس سروے رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 9.8 فیصد اسرائیلی شہریوں کا خیال ہے کہ معاہدے کا دوسرا مرحلہ یعنی غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ بھی انجام پانا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں، مقبوضہ فلسطین کے اکثر آبادکاروں کا عقیدہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ جنگ کے شروع میں جو دعوے کیے تھے ان کی کوئی حیثیت نہیں اور انہیں اہمیت نہیں دینی چاہیے۔
 
ایک اور اہم نکتہ جس پر توجہ ضروری ہے وہ نیتن یاہو کی کابینہ میں سیاسی بحران سے متعلق ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کے درمیان حالیہ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بیزالل اسموتریچ کی سربراہی میں صیہونزم مذہبی پارٹی نے اتحادی حکومت میں باقی رہنے کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ نیتن یاہو اس بات کی یقنی دہانی کروائے کہ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جانے کے بعد جنگ دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔ اس پارٹی نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "اپنے تمام یرغمالیوں کی واپسی کے شوق کے علاوہ صیہونزم مذہبی پارٹی اس معاہدے کی شدید مخالف ہے۔" مزید برآں، داخلہ سیکورٹی کے وزیر اور یہودی طاقت پارٹی کے سربراہ ایتمار بن غفیر نے بھی مخالفت کی ہے۔
 
بن غفیر نے نیتن یاہو کو دھمکی دی ہے کہ اگر غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ انجام پا جاتا ہے تو وہ موجودہ کابینہ سے مستعفی ہو جائے گا۔ بن غفیر اور اسموتریچ کی پارٹیوں کے پاس کینسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کی کل 120 میں سے 14 سیٹیں ہیں اور یہ تعداد حکومت گرانے کے لیے کافی ہے۔ صرف بن غفیر کے پاس 6 سیٹیں ہیں۔ غزہ میں انجام پانے والا جنگ بندی معاہدہ کل 19 جنوری 2025ء کی صبح سے لاگو ہو جائے گا۔ مقبوضہ فلسطین میں سیاسی تجزیہ کاران کا خیال ہے کہ نیتن یاہو نے جنگ بندی مذاکرات میں جن تحفظات کا اظہار کیا تھا ان میں سے کسی کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ نیتن یاہو نیتساریم اور فیلاڈیلفیا سے فوجی انخلاء نہیں چاہتا تھا لیکن جنگ بندی معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ صیہونی فوج تین مرحلوں میں نیتساریم اور فیلاڈیلفیا سے باہر نکل جائے گی۔
 
دوسری طرف، حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو پہلے مرحلے میں ہی آزاد نہیں کرے گا بلکہ تمام یرغمالی صرف اس وقت آزاد کیے جائیں گے جب یہ یقین حاصل ہو جائے گا کہ جنگ بندی اپنے آخری مرحلے میں یعنی مستقل جنگ بندی کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دوحہ مذاکرات میں جو جنگ بندی معاہدہ حاصل ہوا ہے وہ حماس پر مسلط نہیں کیا گیا بلکہ اس کے برعکس یہ معاہدہ اہل غزہ اور اسلامی مزاحمت کی بہت بڑی کامیابی ہے اور غزہ میں شدید انسانی بحران سے عبور ہے۔ جنگ کے آغاز میں نیتن یاہو نے وعدہ کیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کر دے گا اور غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی آزاد کروا لے گا۔ لیکن تقریباً ڈیڑھ سال کی جنگ کے بعد بھی ان تینوں بنیادی اہداف میں سے ایک ہدف بھی حاصل نہیں ہو پایا۔
 
دوسرا اہم نکتہ جنگ بندی کے بعد مقبوضہ فلسطین کی اندرونی صورتحال کے بارے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بن غفیر اور اسموتریچ جیسے انتہاپسند صیہونی سیاست دان جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں اور عنقریب مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ان کے مستعفی ہونے کا نتیجہ موجودہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یوں مڈ ٹرم الیکشن کا انعقاد ہو گا اور موجودہ اتحاد کی دوبارہ کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لہذا نئی حکومت تشکیل پائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صیہونی فوج، موساد اور حکومتی کابینہ کے درمیان طاقت کی شدید رسہ کشی جاری ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے بہت حد تک اس رسہ کشی پر پردہ ڈال رکھا تھا کیونکہ رائے عامہ کی توجہ جنگ پر مرکوز تھی۔ لیکن اب جنگ ختم ہو جانے کے بعد یہ رسہ کشی اور اختلافات کھل کر منظرعام پر آئیں گے جن کا نتیجہ شدید سیکورٹی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کی صورت میں ظاہر ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • جنگ دوبارہ شروع کرنے کے بارے نیتن یاہو کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں، حماس
  • انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر بین گویر مستعفی
  • شیاطن کی شکست کا ڈومینو
  • اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی توثیق کردی
  • اسرائیلی کابینہ سے جنگ بندی ڈیل کی منظوری نہ لی جاسکی،نیتن یاہو کے حماس پر الزامات ۔غزہ پر بڑے حملے،13 فلسطینی شہید
  • اسرائیلی کابینہ سے جنگ بندی ڈیل کی منظوری نہ لی جاسکی، نیتن یاہو کے حماس پر الزامات
  • اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی بائیڈن اور ٹرمپ سے ٹیلیفونک گفتگو
  • اسرائیل نے حماس کے سامنے جھک کر معاہدہ کیا: حافظ نعیم الرحمٰن
  • اسرائیلی وزیراعظم کی جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفونک گفتگو