مجموعی طور پر انسانوں کی اکثریت اپنی زندگی میں مشکلات کے مقابلے میں آسانیوں کو ترجیح دیتی ہے لیکن اپنی زبان سے اس بات کا اقرار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے کیونکہ کوئی انسان اگر محنت پسند نہ ہو تو بھی دنیا کے سامنے ’’ محنت میں عظمت ہے‘‘ کا راگ الاپنا بطورِ انسان اپنا فرض سمجھتا ہے۔
ہر انسان کو دنیا کی سرزمین پر اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑنے کے لیے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کی محنت درکار ہوتی ہے۔ ذہنی تھکاوٹ بہ نسبت جسمانی مشقت انسان کے اعصاب کو زیادہ متاثرکرتی ہے۔ انسان کی طاقت کا سارا انحصار اُس کے اعصاب پر منحصر ہوتا ہے، اعصابی طور پرکمزور انسان کو کسی صورت طاقتور تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اپنی پیدائش سے لے کر دنیا سے رخصت ہونے تک زندگی کے تمام ادوار میں انسان کے قابلِ توجہ ہر ادھورے کام کو تکمیلی مراحل تک پہنچانے کے لیے دو طرح کے راستے اُس کے منتظر ہوتے ہیں، ایک آسان تو دوسرا تندہی کا تقاضا کرنے والا۔
اکثر انسانوں کا ایسا ماننا ہے کہ صرف کٹھن راہوں کی منزل ہی کامیابی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب اُن کا کوئی مقصد یا مطلوبہ شے باآسانی حاصل ہو جائے تو اُنھیں اُس کو پانے کے عمل پر ہی شک ہونے لگتا ہے۔ دراصل قومِ انسانی کی بڑی تعداد کا دشواریوں سے پاک راستوں کی منزل کو ناکامی کی دلدل سمجھنا ایک غلط سوچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آسان اور مشکل راستے آگے قدم بڑھاتے ہوئے صحیح اور غلط میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ صحیح اور غلط یا اچھے اور برے راستوں کے کئی معنی نکلتے ہیں، ہر انسان کا صحیح اور غلط کے حوالے سے اپنا ایک الگ نظریہ ہوتا ہے جب کہ یہاں اخلاقی اعتبار سے کیا اچھا اورکیا برا ہے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انسان بن کر زندگی جینا، انسانی حدود کی خلاف ورزی سے گریز کرنا، اپنے ذاتی فائدے کے لیے دوسرے انسانوں کے حقوق کو ہرگز پامال نہ کرنا، انسانیت کی عالمگیر تعریف ہے۔ صحیح اور غلط دراصل ہر اچھائی اور برائی کی بنیاد بنتے ہیں، وجود کی خوبصورتی اور بدصورتی کا سارا دارومدار اُس کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔
صحیح اور غلط راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے، اس معاملے میں دوسرے کا دخل بالکل حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ انسان اپنی زندگی قاعدے اور ضابطے کے مطابق گزارنا چاہے تو راہوں کے کنکر بے معنی ہو جاتے ہیں، لیکن اگر وہ خاردار جھاڑیوں سے اپنے وجود کو زخمی کرنے پر تُلا ہو تو اُسے کوئی روک بھی نہیں سکتا ہے۔
انسان اپنی عادتوں کا غلام ہے، انسان کی عادات ہی اُس کی فطرت کو تشکیل دیتی ہیں۔ اچھی اور بری عادتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں اور ہر ایک قسم میں شدت کے اعتبار سے کمی اور زیادتی کا عنصر پایا جاتا ہے۔
صحیح اور غلط راستوں کو اچھے اور برے میں منتقل کرنے کی پہلی سیڑھی سچ اور جھوٹ ہے اور یہی دونوں انسانی زندگی میں رمق یا افلاس لانے کا باعث بھی ثابت ہوتے ہیں۔ سچ زندگی میں ہمیشہ خیر لاتا ہے، ہمارے دینِ اسلام میں سچ کہنا اور سچائی کا ساتھ دینا فرض قرار دیا گیا ہے۔
تلخ سچ محض آغاز میں انسان کے لیے دقت پیدا کرتا ہے مگر بعد میں راحت ہی راحت پہنچاتا ہے جب کہ جھوٹ صرف وقتی طور پر مصیبت سے بچاتا ہے لیکن زندگی بھر بے چینی اور بے سکونی اعصاب پر سوار رکھتا ہے۔ جس انسان کو جھوٹ کا سہارا لینے کی لت پڑ جائے تو وہ نادانستہ بات بہ بات بِلا ضرورت غلط بیانی کرتا پھرتا ہے۔
ایک جھوٹ سو جھوٹ کی وجہ بنتا ہے اور زندگی سے خیرکو رخصت کرتا ہے ساتھ کئی دوسری برائیوں کو جنم دیتا ہے۔ سچ اور جھوٹ جب اپنی حدوں سے تجاوزکر جائیں تو وہ انسان کی فطرت کو ایمانداری یا بے ایمانی کا چوغہ پہنا دیتے ہیں۔ سچائی کے در سے گزرکر جب انسان ایمانداری کے اصول کو دل و جان سے اپناتا ہے تو اُس کے وجود پر ہمہ وقت سکون کا ڈیرا اور زندگی میں روشنی کا راج رہتا ہے۔
دوسری جانب جھوٹ کا کم مدتی سحر کب بے ایمانی کے اندھیرے میں ضم ہو جاتا ہے انسان کو معلوم ہی نہیں چلتا ہے اور جب اُسے ہوش آتا تب تک وہ اندھیرا وحشت ناک ذہنی اذیت میں بدل چکا ہوتا ہے۔
روشنی اور اندھیرے کی یہ جنگ ستائش اور حسد کی خلق کی وجہ بنتی ہے۔ ستائش کی شروعات رشک سے ہوتی ہے جو خالصتاً ایک مثبت احساس ہے۔ ستائش، رشک، سراہنا اور دوسروں کی خوشیوں میں مسرور ہونا انسانیت کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے جب کہ حسد انسان کا منتخب کیا گیا ہیجان خیز تجربہ ثابت ہوتا ہے جو اُس کے وجود میں آگ کو سُلگائے رکھتا ہے، دماغ میں آتش فشاں کو مسلسل دہکتا ہے اور وہ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔
اپنے ذات سے ہٹ کر ارد گرد کے لوگوں کی امنگوں کو اہمیت دینا انسان کے ظاہر و باطن کو معطر کرتا ہے، اس کے برعکس اپنا محل تیارکرنے کے چکر میں دوسروں کے مسکن کو تباہ و برباد کرنا خوشنما ظاہرکو بھی بدنما بنا دیتا ہے۔
قرآنِ پاک میں خالقِ کائنات انسانوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’ اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو اور جو شخص شیطان کے نقوشِ قدم پر چلتا ہے تو وہ یقیناً بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ محبوبِ ربِ جہاں اور خاتم النبیین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچ اور جھوٹ سے متعلق ارشادِ گرامی ہے، ’’ نیکی اور سچائی جنت میں لے جانے والی چیزیں ہیں جب کہ برائی اور جھوٹ جہنم میں لے جانے والی چیزیں ہیں۔‘‘
عظیم صوفی بزرگ، عالمی شہرتِ یافتہ فارسی شاعر اور مذہب اور فقہ کے بڑے عالم جلال الدین رومی کا جزوی و ابدی استراحت کے بارے میں ایک سنہری قول ہے، ’’ دنیا حاصل کرنا کوئی برائی نہیں لیکن جب دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جائے تو پھر سراسر خسارہ ہی ہے۔‘‘ حضرت رومی آسودگی اور دشواری کے موضوع پر شاعری کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
اے! تیری ملاقات ہر سوال کا جواب
بے شک تجھ سے ہر مشکل حل ہوتی ہے
مولانا رومی اچھائی اور برائی کے تضاد کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں
بے ادب خدا کے فضل سے محروم رہا
مختلف شکلوں کے صحیح و غلط کا درمیانی فرق اور اُن سے منسوب راحت و دشواری کی مثبت و منفی طبیعت جو زندگی میں اُجالے یا تاریکی لانے کا اصل فیصلہ کرتی ہے جس کی بدولت انسان کو کلی راحت یا اضطراب نصیب ہوتا ہے۔
انسان کو زندگی میں قدم قدم پر سیاہ اور سفید کی پہچان کروائی جاتی ہے، فائدے اور نقصان سے روبروکیا جاتا ہے، پھولوں کی نرمی اور کانٹوں کی چبھن کو محسوس کروایا جاتا ہے اور بار بارگرنے پر اُٹھنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود وہ جنت کی آرائش کے سامنے جہنم کی تپش کا انتخاب کرے تو اُس کی عقل پر ماتم کرنے کے علاوہ اور کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صحیح اور غلط زندگی میں اور جھوٹ انسان کو انسان کے کرتا ہے ہوتا ہے جاتا ہے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
پی ٹی آئی نے چارٹر آف ڈیمانڈ جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ان مطالبات کا تو کوئی جواب نہیں بنتا:رانا ثنا اللہ
وزیراعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے اپوزیشن کے تحریری مطالبات کا جواب دینے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی جبکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن نے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے اور وہ مینڈیٹ واپسی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے۔اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے رکن رانا ثنااللہ نے سینیٹر عرفان صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ آج ملاقات میں اپوزیشن نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے تحریری مطالبات کا جواب دینے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی. حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی کے مطالبات کا جائزہ لے کرجواب دے گی.کمیٹی میں تمام اتحادی اور پیپلزپارٹی کے اراکین بھی شامل ہیں. حکومتی کمیٹی مطالبات پر جو جواب دے گی وہ حتمی ہوگا۔وزیراعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ اپوزیشن کے 2 بنیادی مطالبات ہیں جن کا وہ پچھلے 10، 11 ماہ سے ذکر کرتے آرہے ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے. جس پر ہم انہیں کہتے ہیں کہ اس کے لیے قانونی طریقہ کار اختیار کیا جائے. آج اس سے وہ دستبردار ہوگئے ہیں اور آج کی ملاقات میں انہوں نے الیکشن کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ تمام مقدمات سیاسی طور پر بنائے گئے ہیں جس پر ہم نے انہیں کہا تھا کہ آپ ہمیں ایف آئی آر کے نمبرز فراہم کریں کہ کن سیاسی ورکز کے خلاف ایسے مقدمات بنائے گئے ہیں لیکن انہوں نے اس حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اپوزیشن نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا ’وفاقی حکومت 2 کمیشن قائم کرے اور ان کمیشن کی سربراہی یا چیف جسٹس آف پاکستان کریں یا پھر سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں کسی کو سربراہی دی جائے. یہ کمیشن انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت بنائے جائیں۔سابق وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ تحریری مطالبات میں 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کی بات کی گئی تو یہ معاملہ تو پہلے سے سپریم کورٹ میں ہے اور اس پر پہلے سے ہی جوڈیشل ریویو ہوچکا ہے تو اس میں دوبارہ چیف جسٹس کس چیز کی انکوائری کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ کی حدود میں رینجرز کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کی قانونی حیثیت اور ذمہ داران کے خلاف تحقیقات کا کہا گیا، یہ معاملے پر بھی پہلے ہی جوڈیشل ایکشن ہوچکا ہے. اس پر تو اسی وقت ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لے لیا تھا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کمیشن 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے وقت کے حالات کی تحقیقات کرے کہ کن حالات میں گروہوں یا افراد کو اعلیٰ سیکیورٹی مقامات تک رسائی ملی، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام کیسز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چل رہے ہیں جب کہ کچھ کے ملٹری کورٹس میں فیصلے ہوچکے ہیں۔مشیر وزیراعظم نے مزید کہا کہ یہ تمام کیسز تو پہلے ہی عدالتوں میں ہیں تو اب ان کا نئے سرے سے کمیشن بنانے کا تو مینڈیٹ بھی نہیں ہے کہ کیسز عدالتوں میں کسی بھی سطح پر چل رہے ہوں تو اس میں کمیشن کیا کرسکتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ کمیشن یہ بھی دیکھے کہ لوگوں کو کس حالات میں گرفتار کیا گیا.اس پر جتنے بھی کیسز چل رہے ہیں وہاں سب کچھ بتایا گیا ہے کہ کون کہاں سے اور کیسے حراست میں لیا گیا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے مطالبات پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں. پی ٹی آئی نے چارٹر آف ڈیمانڈ جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں ان مطالبات کا تو کوئی جواب نہیں بنتا. پی ٹی آئی نے مطالبات کے ساتھ کسی قسم کی تفصیلات اور ڈیٹا فراہم نہیں کیا. لہذا اس پر 2017 کے ایکٹ کے تحت جوڈیشل کمیشن کا قیام کا جواز نہیں بنتا۔