پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی چینل نہیں کھلا، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ، راناثنااللہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
وزیراعظم پاکستان کے مشیر اور پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنے والی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن ثنااللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی چینل نہیں کھلا، سیاسی مذاکرات سیاسی جماعتوں کے لیول پر ہی پونے چاہئیں، اس کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کو اڈیالہ جیل سے کسی اور جگہ منتقل کرنے پر بات ہوسکتی ہے، رانا ثنااللہ
میڈیا رپورٹ کے مطابق راناثنا کا کہنا ہے کہ جمہوریت ڈیڈلاک سے نہیں ڈائیلاگ سے آگے چلتی ہے۔ پی ٹی آئی کو لکھ کر دینے کو تیار ہیں کہ زیر سماعت کیسز میں حکومت کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی چینل نہیں کھلا، سیاسی مذاکرات سیاسی جماعتوں کے لیول پر ہی ہونے چاہییں، اس کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ پشاور میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹرگوہر کے مابین ہوئی ملاقات کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اس کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے پاگئے ہیں، تاہم اسی روز آئی ایس پی آر نے ایک وضاحتی بیان جاری کر دیا تھا کہ یہ ملاقات صوبے میں سیکیورٹی صورتحال سے متعلق تھی۔ اس کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نیز اس ملاقات کے نتیجے میں نے ہونے والی چہ میگوئیوں پر وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللی نے بھی واضح کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ علی امین گنڈاپور کی ملاقاتیں ضرور رہتی ہیں لیکن یہ تاثر درست نہیں کہ ان کے ساتھ بھی مذاکرات چل رہے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹیبلشمنٹ پی ٹی ا ئی ڈائیلاگ مذاکرات اسٹیبلشمنٹ سے کوئی پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
بڑی بیک چینل پیشرفت، بیرسٹر گوہر اور علی امین کی 3 اہم ترین شخصیات سے ملاقات، مذاکرات اہم مرحلے میں داخل
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ’’حکومت‘‘ اور تحریک انصاف کے درمیان بیک چینل مذاکرات، جو دونوں فریقوں کے درمیان باضابطہ بات چیت کے عمل پر توجہ مرکوز کرنے کے درمیان چند ہفتے پہلے رک گئے تھے، دوبارہ بحال ہو کر ایک اہم مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ ایک باخبر ذریعے نے بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کے دو رہنما بیرسٹر گوہر اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے 3 انتہائی اہم شخصیات سے خصوصی ملاقات کی، یہ ملاقات پیر کو ہوئی، جس کا مقام اسلام آباد تھا اور نہ راولپنڈی۔ اس بیک چینل میٹنگ کی کوئی باضابطہ تصدیق ہوئی ہے اور نہ پی ٹی آئی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ بیرسٹر گوہر نے رابطہ کرنے پر کہا کہ ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی تاہم ذریعے کا اصرار ہے کہ یہ ملاقات بہت ہی اہم رہی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بیک چینل ملاقاتیں جاری رہیں گی۔ آئندہ ملاقات میں ایک وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کی طرف سے دو اہم شخصیات شامل ہوں گی۔ تاہم، ان ملاقاتوں کا نتیجہ تحریک انصاف کی مستقبل کی پالیسیوں اور اس کے طرز سیاست پر منحصر ہے۔ اسے نظام کو قبول کرنا ہوگا اور کشیدگی اور تصادم کی سیاست سے دوری اختیار کرنا ہوگی۔اس تازہ ترین بیک چینل میٹنگ سے قبل، پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما نے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک وفاقی وزیر اور ایک اہم عہدیدار سے ملاقات کی تھی۔
ایک ذریعے کے حوالے سے خبر دی تھی کہ تحریک انصاف کو پیغام دیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنی کشیدگی، تشدد اور فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت پر تنقید اور معیشت کو نقصان پہنچانے کی پالیسی جاری رکھے گی تو مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا لیکن اگر پارٹی مفاہمت کا انتخاب کرتی ہے تو اسے اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لانا ہوگی اور گزشتہ چند برسوں کے طرز سیاست سے علیحدگی اختیار کرنا ہوگی۔ ذریعے نے بتایا کہ بنیادی طور پر عمران خان کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر پی ٹی آئی سیاسی مقام چاہتی ہے اور معمول کی سیاست کی طرف لوٹنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ محاذ آرائی کو روکنا ہوگا اور کسی بھی طرح ایسی سیاست نہیں کرنا ہوگی جس سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے۔ اس کے بعد یہ بھی بتایا گیا کہ ان بیک چینل مذاکرات کا مستقبل اور ان کی کامیابی کا انحصار پی ٹی آئی کے اعتماد سازی کے اقدامات پر ہے۔گزشتہ ڈھائی سال کی پالیسی سے علیحدگی کے واضح آثار پی ٹی آئی کو بہت ضروری سیاسی مقام حاصل کرنے میں مدد کریں گے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں تحریک انصاف کو بھی بہتر تبدیلی نظر آئے گی۔ ذریعے کے مطابق، یہ تبدیلی ممکن ہے کہ فوراً نہ ہو لیکن اس میں بتدریج اضافہ ہوگا اور پائیدار ہوگی۔ ذریعے کے مطابق، کشیدگی کی سیاست، فوج پر تنقید اور معیشت کو نقصان پہنچانے کے اقدامات جاری رہے تو تحریک انصاف کو مشکلات کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر اور پی ٹی آئی کے 24 نومبر کے اسلام آباد کے احتجاجی مارچ کے موقع پر بھی بیک چینل رابطے فعال رہے۔ پی ٹی آئی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ڈی چوک پر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ تاہم دونوں فریقین کے درمیان بیک چینل رابطوں کے بعد پمز اسپتال کے ڈاکٹروں کو جیل میں عمران خان کے معائنے کی اجازت دے دی گئی۔ پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ عمران خان کا معائنہ شوکت خانم اسپتال سے ان کا ذاتی معالج کرے لیکن بیک چینل بات چیت میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ اگر پمز کے ڈاکٹروں کو عمران خان سے ملنے کی اجازت دی گئی تو بھی پی ٹی آئی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ڈی چوک احتجاج ختم کردے گی۔ بعد میں یہ بیک چینل رابطے اس وقت متحرک ہوئے جب پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو اسلام آباد مارچ کی آخری کال کا اعلان کیا۔ انہی بیک چینل مذاکرات کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں بشمول علی امین گنڈا پور، بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت ملی لیکن اس وقت عمران خان نے اپنی جیل سے فوری رہائی پر اصرار کیا۔ عمران خان نے سنگجانی (اسلام آباد کے مضافات میں) میں احتجاج روکنے کیلئے حکومت کی تجویز سے بھی اتفاق کیا تھا۔ تاہم، بشریٰ بی بی نے ڈی چوک تک مارچ کی قیادت کی اور یہ سب 26 نومبر کے واقعہ پر منتج ہوا۔ 26 نومبر کے واقعات ان بیک چینل مذاکرات کیلئے زبردست جھٹکا ثابت ہوئے، جنہیں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان رسمی بات چیت کے آغاز کے دوران روک دیا گیا تھا۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، جماعت اسلامی کاکل سے ملک گیر احتجاج کا اعلان