اسلام آباد: رہنما عوام پاکستان پارٹی مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ مذاکرات کہیں اور ہوں گے حکومتی مذاکراتی کمیٹی اس کی توثیق کرے گی۔
نجی ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنی سیاست اقتدار کےلئے گروی رکھ دی ہے جبکہ بانی پی ٹی آئی کی غلطی یہ ہے کہ اقتدار چھوڑنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے لڑ پڑے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہمیں آئین کی بالادستی کےلئے جدوجہد کرنی چاہیے، موجودہ حکومت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، یہ ایک میٹنگ تک نہیں کروا سکتی تو مینڈیٹ کا اندازہ لگا لیں۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں پاکستان کی سمت بدلنی ہے اور عوام سے پوچھے بغیر ممکن نہیں، سمجھتا ہوں ہمیں ایک ڈیڑھ سال میں الیکشن کی طرف جانا ہوگا، پی ٹی آئی آئین کی حکمرانی کی بات کرے تو مناسب ہوگا لیکن صرف عمران خان کی رہائی کی بات کرے تو یہ مناسب نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

مذاکرات اور پس پردہ مذاکرات

عمومی طور پر جب قومی سیاست میں ڈیڈلاک کا پہلو غالب ہو تو اس میں سے ایک خاص مدت کے بعدمفاہمت یا مذاکرات کا راستہ سیاسی ضرورت کے تحت نکالا جاتا ہے۔ آج قومی سیاست میں پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے تو اس کے پیچھے بھی بااثر طاقتیں ہیں۔ مذاکراتی میز پر بیٹھنے سے پہلے بہت کچھ پس پردہ طے ہوا ہوگا۔

پی ٹی آئی میں بہت سے لوگ اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کے حامی ہیں اور جو اب مذاکراتی دربار سجا ہوا ہے، اس میںبانی پی ٹی آئی کو راضی کرنے اور ڈیڈلاک ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ بانی پی ٹی آئی براہ راست بڑی طاقتوں سے مذاکرات کے حامی تھے اور حکومت سے بات چیت نہیں کرنا چاہتے تھے۔

لیکن انھیں بھی اندازہ ہوگیا کہ بات چیت حکومت سے ہی ہوگی البتہ اس عمل کی سہولت کاری کو اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل ہوگی۔بنیادی مسئلہ حکومت، پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کا ہے۔ اس لیے ان حالات میں ان کا بیٹھنا اور بات چیت کرناخودایک بڑی پیش رفت ہے۔ ویسے بھی اب بہت لمبے عرصہ تک سیاسی ڈیڈ لاک کو برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا۔

حکومت کو بھی اندازہ ہے کہ مذاکرات کے بغیر کہانی نہیں چل سکے گی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مذاکرات کی کڑوی گولی ان کو بھی کھانی پڑ رہی ہے۔حالانکہ حکومتی مفاد اسی میںتھا کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کا ماحول نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ اس میں اور زیادہ شدت بھی پیدا کی جائے۔

اس وقت سب سے بڑا چیلنج پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان تعلقات کار کا ہے۔عمران خان اگر واقعی سیاسی ریلیف چاہتے ہیں تو ان کو نہ صرف سیاسی لچک سمیت درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا۔لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوگا کہ لچک کا مظاہرہ صرف بانی پی ٹی آئی یا پی ٹی آئی بلکہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی عملی طور پر دکھانا ہوگا۔ کیونکہ یکطرفہ شرائط پر بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔

پی ٹی آئی نے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی، مذاکراتی کمیٹی اور حکومت کو اپنے تحریری مطالبات سے آگاہ کردیا ہے۔ان میںنو مئی اور 27نومبر کے واقعات پر چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کی تشکیل،پی ٹی آئی کے سیاسی قیدیوں کی رہائی و مقدمات کا خاتمہ شامل ہے۔

پی ٹی آئی کے بقول اگر آنے والے دنوں میں فوری طور پر کمیشن کی تشکیل ممکن نہیں ہوتی تو پھر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔ بانی پی ٹی آئی آٹھ فروری کے انتخابات کی تحقیقات یا نئے انتخابات چاہتے ہیںجب کہ حکومت اور فیصلہ ساز ایسا نہیں چاہتے۔لیکن اگر مذاکراتی عمل مثبت طور پر آگے بڑھتا ہے اور پی ٹی آئی کچھ یقین دہانیاں کراتی ہے تو آگے جاکر اسی برس نئے انتخابات کا بھی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔

اس مذاکرات کا عمل ہمارے سامنے ہے جب کہ دوسر ا بیک ڈور ڈپلومیسی کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ جیسے جیسے بیک ڈور کی سطح پر پیش رفت ہوگی تو اس جھلک ہمیںنظر آنے والے مذاکرات کی سطح پر بھی دیکھنے کو ملے گی۔یہ بھی خبریں ہیں کہ آرمی چیف اور بیرسٹر گوہر اور علی امین کی بھی ملاقات ہوئی ہے اور اس کی تصدیق بانی پی ٹی آئی نے بھی کی ہے، اگر ایسا ہوا ہے تو یہ بڑا بریک تھرو ہوا ہے۔لیکن سیکیورٹی ذرایع کے بقول یہ ملاقات سیاسی معاملات کے بجائے سیکیورٹی سمیت دہشت گردی سے نمٹنے پر تھی۔

اگرچہ بانی پی ٹی آئی اور ان کے ساتھیوں کی رہائی عدالتوں سے ہی ممکن ہوگی ۔لیکن اس کے لیے بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب پراسیکیوشن مقدمات کی پیروی سے ہاتھ اٹھائے گی تو عدالتوں کے پاس مقدمات ختم کرنے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہے گا۔

یوں کچھ عرصے میں بانی پی ٹی آئی اور دیگر اسیران کی رہائی کا قانونی پراسیس مکمل ہوجائے گا۔ ادھر پی ٹی آئی یہ بھی سمجھتی ہے اور بانی پی ٹی آئی کی مزاحمتی سیاست ان کے حق میںہے اور اسی بنیاد پر ان کی سیاست مقبولیت کی بنیاد پر کھڑی ہے، اس لیے اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کوئی ایسا سمجھوتہ کریں گے جس سے ان کی مقبولیت یا سیاسی ساکھ متاثر ہوگی ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ بھی ایسا راستہ چاہے گی جو اس کی کمزوری کے پہلو کو نمایاں نہ کرے۔کیونکہ یہ تاثر جانا کہ کسی کی شکست یا کسی کی جیت ہوئی ہے، معاملات زیادہ خراب کرے گا۔

پاکستان کی سیاسی کہانی اور اس میںکھیلے جانے والا عمل ہمیشہ سے بیک ڈور ہی چلتا ہے۔

ان مذاکرات کامقصد اگر محض ایک نیا سیاسی بندوبست کرنا ہے اور اسی طرز کا کھیل ماضی اور حال میں بھی غالب ہے تو اس سے قومی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔کیونکہ چہرے بدلنے کی سیاست سے ہم کچھ مثبت حاصل نہیں کرسکے۔

بنیادی مسئلہ اس ریاستی نظام کو ہم نے درست سمت میں لانا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم آئین،قانون کی حکمرانی،جمہوریت اور ادارں کی بالادستی کو اپنی ریاستی اور سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔یہ تاثر اب ختم ہونا چاہیے کہ ہم کنٹرولڈ بنیادوں پر نظام چلانا چاہتے ہیں۔کیونکہ یہ تاثردنیا بھر میں ہمارے جمہوری مقدمہ کو کمزور بھی کررہا ہے اور ہم پر سوالات بھی اٹھارہا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ جو لوگ بھی مذاکرات کے مخالف تھے یا ان کی کوشش تھی کہ یہ عمل ناکام ہو ، ان کو ناکامی کا سامنا ہوا ہے۔سیاست اور جمہوریت میں مذاکرات کا عمل لچک دارہوتا ہے اور سب کو اپنے پہلے موجود موقف میں لچک پیدا کرکے آگے بڑھنا ہوتا ہے۔

اس لیے ابھی کس کے کیا مطالبات ہیں، اس سے زیادہ اہم اس نقطے پر اتفاق کرنا ہے کہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہے۔جب یہ سوچ غالب ہوگی تو پھر درمیانی راستہ بھی نکل آئے گا۔ یہ موقع سب کے لیے اچھا ہے کہ ہم قومی مفاہمت کی طرف بڑھیں اور اسی میں ریاست اور نظام کا مفاد بھی ہے۔اگر یہ موقع ضایع ہوتا ہے یا ہم اپنی اپنی سیاسی اناؤں کا شکار ہوتے ہیں یا ایک دوسرے کے لیے ہم گنجائش پیدا نہیں کرتے تو سیاست کا ڈیڈلاک بدستور ہمارے لیے مسائل پید ا کرے گا۔

اس لیے مذاکرات اور مفاہمت کی کنجی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھ میں ہے کیونکہ ان ہی کے پاس کچھ دینے کا اختیار ہے۔لیکن یہاں پی ٹی آئی پر بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بھی اس وقت حالات کی درستگی میں جذباتیت کے بجائے لچک پیدا کرے۔

کیونکہ سیاسی راستہ کی تلاش میں اسے بھی سیاسی لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ہنگامہ خیز سیاست سے گریز کرکے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔کیونکہ اگر ہم نے مضبوط اور مستحکم سیاست اور معیشت کو بنیاد بناکر آگے کی طرف بڑھنا ہے تو ہماری موجودہ روش اور طور طریقے ریاستی مفاد کے خلاف ہے۔

اسی طرح یہ بات بھی طے ہے کہ سیاسی استحکام کی عدم موجودگی کے بغیرمعیشت کی ترقی بھی ممکن نہیں۔یہ اسی صورت میںممکن ہے جب ہم اجتماعی طور پر مہم جوئی کی سیاست سی گریز کریں۔ کیونکہ اس طرز کی سیاست نے قومی سیاست سمیت جمہوری عمل کو نقصان پہنچایاہے اور اس کھیل کو بگاڑنے میں سب فریقوں اپنا اپناکم یا زیادہ حصہ ڈالا ہے۔اس کا کفارہ ادا ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • خواب ایک ایسے معاشرے کا
  • مذاکرات اور پس پردہ مذاکرات
  • دردِ دل رکھنے والے مسلمانوں کے نام ایک پیغام
  • حکومت نااہل لوگوں کے پاس ہے، آج سیاست کا مقصد کرسی اور اقتدار کا حصول ہے، مولانا فضل الرحمٰن
  • اِنَّ بَطشَ رَبِّکَ لَشَدِید
  • اقتدار و اختیار کا ہلاکت خیز لالچ
  • سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار
  • پاکستان مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا، مسرت چیمہ
  • اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیکھنا ہوگا