موہن بھاگوت مہاتما گاندھی اور بی آر امبیڈکر کے نظریات کو مٹانے میں مصروف ہے، راہل گاندھی
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ہمارا آئین صرف ایک کتاب نہیں ہے، بلکہ یہ ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی آواز ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے پٹنہ میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کو پُرزور انداز میں ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے کہا کہ موہن بھاگوت بھارت کے ہر ادارہ سے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، مہاتما گاندھی کے نظریات کو مٹانے میں مصروف ہیں۔ راہل گاندھی بہار کی دارالحکومت پٹنہ "تحفظ آئین سمیلن" میں حصہ لینے پہنچے تھے۔ باپو آڈیٹوریم میں منعقد اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو 15 اگست 1947ء کو آزادی نہیں ملی، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہندوستانی آئین کو خارج کر رہے ہیں، وہ یہ بیان دے کر سماجی تانے بانے کو مٹا رہے ہیں۔
راہل گاندھی نے اپنے خطاب کے دوران ایک بار پھر آئین کی حفاظت کا عزم ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین صرف ایک کتاب نہیں ہے، بلکہ یہ ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا کہ موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ آزادی 15 اگست 1947ء کو نہیں بلکہ اس کے بعد ملی، اگر وہ ایسا کہتے ہیں تو وہ اسے (آئین) خارج کر رہے ہیں، وہ سوشل اسٹرکچر کو مٹا رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے موہن بھاگوت کے ساتھ ساتھ نریندر مودی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اور مودی حکومت اس آئین کو اٹھا کر پھینکنا چاہتی تھی، لیکن عوام نے انہیں بتایا کہ اگر آپ نے اسے اپنے سر پر نہیں رکھا تو ہم آپ کو پھینک دیں گے۔ بار بار ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرنے والے راہل گاندھی نے پٹنہ میں بھی اپنا یہ مطالبہ دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹی مردم شماری نہیں چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ رہے ہیں
پڑھیں:
محبت کا گھر: میانمار میں منشیات کے عادی افراد کے لیے ایک نئی امید
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جنوری 2025ء) ینگون میں واقع ایک ہاسٹل سے ہر روز صبح چھ بجے کے قریب ایک سو سے زیادہ مرد باہر نکلتے ہیں۔ ان سب کے سر منڈے ہوئے ہیں، اور یہ لوگ ایک مخصوص مقصد کے تحت اکٹھے ہوتے ہیں۔
ان کے دن کا آغاز سخت جسمانی مشقوں سے ہوتا ہے جن میں وزن اٹھانا، کراٹے کی مشقیں اور رقص شامل ہیں، جس کے بعد بودھ مت کی مذہبی دعائیں کی جاتی ہیں۔
یہ کوئی عام تربیتی کیمپ نہیں، بلکہ میانمار میں منشیات کے عادی افراد کے لیے بحالی کا ایک منفرد مرکز ہے۔
'محبت کا گھر' میں ایک اور دن کا آغاز'میٹا سینائین' میں ایک اور دن کا آغاز ہو چکا ہے۔ برمی زبان میں اس لفظ کا مطلب ہوتا ہے 'محبت کا گھر'۔اس بحالی مرکز میں منشیات کے عادی افراد کو سخت محنت اور محبت کے ذریعے نئی زندگی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
(جاری ہے)
یہاں آنے والے افراد کو منشیات کی عادت چھوڑنے میں مدد فراہم کی جاتی ہے، اور ان کو زندگی کے نئے راستے دکھائے جاتے ہیں۔میانمار طویل عرصے سے دنیا کے بڑے منشیات تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ منشیات کی یہ صنعت نہ صرف اربوں ڈالر کا کاروبار ہے بلکہ کئی دہائیوں سےجاری اندرونی جھگڑوں کی وجہ بھی رہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکام نے اس مسئلے کو زیادہ تر نظر انداز کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ بڑھتا ہی گیا۔
2021 کی فوجی بغاوت کا اثر
سن دو ہزار اکیس میں فوج کی بغاوتکے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار نے میانمار کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق، میانمار اب دنیا میں افیون پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک اور میتھمفیٹامین جیسی خطرناک منشیات کی تیاری کا اہم مرکز بن چکا ہے۔
یہ منشیات زیادہ تر دوسرے ایشیائی ممالک، آسٹریلیا اور یورپ اسمگل کی جاتی ہیں۔
تاہم، ملک کے تجارتی مرکز اور اہم بندرگاہ ینگون کی گلیوں میں منشیات حاصل کرنا نہایت آسان ہے۔ آنگ کی کہانیبتیس سالہ آنگ، جنہوں نے پیشہ ورانہ وجوہات کی بنا پر اپنا مکمل نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، ایک ٹرینڈ ڈاکٹر تھے اور اپنا کلینک چلا رہے تھے۔ لیکن جب انہوں نے پہلی بار میتھمفیٹامین کا استعمال کیا، تو ان کی زندگی کا رخ بدل گیا۔
تین سال کے اندر یہ لت ان کی زندگی پر اس قدر غالب آ گئی کہ انہوں نے سب کچھ کھو دیا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ "میں نے سب کچھ کھو دیا۔ منشیاتنے مجھے ایک کامیاب انسان سے ایک گمشدہ نوجوان میں بدل دیا۔" انہیں تین بار ہسپتال میں داخل کیا گیا، اس کے بعد ان کے والدین انہیں گھر لے آئے۔
انگ کا کہنا تھا، 'میٹا سینائین' میں "مختلف قسم کی جسمانی مشقوں جیسے کراٹے طرز کی تربیت، رسہ کھینچنے کے مقابلے اور مراقبہ کی نشستوں میں شرکت کرنا خاص طور پر اس وقت مشکل تھا جب نشے کی طلب ابھی تک باقی تھی۔
" شروع میں یہاں رہنا ذرا مشکل تھا۔انگ بتاتے ہیں، "وہ ہمیشہ ہمیں کسی نہ کسی سرگرمی میں مشغول رکھتے ہیں، لیکن بعد میں میں اس کا عادی ہو گیا۔ اب میرے پاس بے وجہ رہنے کا وقت نہیں ہے۔"
ماہرین کی رائےانگون پٹاراکورن، تھائی لینڈ میں پرنسس مدر نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ڈرگ ایبیوز ٹریٹمنٹ کے ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سخت طریقے عارضی طور پر مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن ان کو ہر فرد کی ضروریات کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔
انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا اگر کسی کو دل کی بیماری ہو، تو اسے زیادہ ورزش کرنے کے لیے کہنے سے اس کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔ اور جو لوگ ذہنی مسائل سے دوچار ہوں، وہ مراقبے کے طریقے پر اچھا ردعمل نہیں دے سکتے۔"
'محبت کا گھر' کا طریقہ کارمرکز کے منتظم سان شین نے کہا کہ منشیات ہر جگہ دستیاب ہیں کیونکہ انہیں کنٹرول کرنے میں کچھ مشکلات ہیں، جو موجودہ تنازعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرکز کا ورزش اور مراقبے پر زور دینے والا طریقہ مریضوں کو "جسمانی اور ذہنی طور پر بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔" ان میں سے بعض کے تو اب سکس پیک ایبز بھی بن گئے ہیں۔
یہ طریقہ 26 سالہ زاؤ وان کے لیے ایک نیا راستہ بن چکا ہے، جو چار سال پہلےہیروئنکی عادت چھوڑنے کے لیے مرکز میں داخل ہوئے تھے اور اب وہ اس مرکز میں نگران کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
جب وہ یہاں آئے تو وہ 40 مریضوں میں سے ایک تھے، جن میں سے بیشتر ماریجوانا، میتھمفیٹامین کی گولیاں یا ہیروئن کے عادی تھے۔اب مرکز میں مریضوں کی تعداد تین گنا بڑھ چکی ہے۔
علاج کی قیمت اور مرکز کا کردارمریضوں کے رشتہ دار "محبت کا گھر" میں ان کے علاج کے لیے ادائیگی کرتے ہیں، جو مریض کی حالت کے مطابق 400,000 سے ایک ملین میانماری کیات یا 90 سے230 ڈالر تک ہوتی ہے۔
کِن کِن ون، جو میانمار ڈرگ ایڈکٹس ری ہیبلیٹیشن ایسوسی ایشن (سنٹرل) کی سیکریٹری ہیں، نے کہا کہ اس مرکز نے پچھلے سال میں 200 سے زائد افراد کا علاج کیا ہے۔
یہ مرکز منشیات کے عادی افراد کو نیا آغاز دینے کے لیے ایک اہم مقام بن چکا ہے، جہاں علاج کے اخراجات مریضوں کی حالت کے مطابق ہیں۔
آنگ کا نیا آغازسالوں کی اذیت کے بعد، آنگ اب مرکز میں بطور رضاکار ڈاکٹر کام کر رہے ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپلائیڈ سائیکالوجی میں ڈگری حاصل کریں۔
انہوں نے کہا کہ اب ان کے خاندان کو ان کے بارے میں کچھ امید نظر آنے لگی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ، "میں اب دوبارہ نشہ نہیں کرنا چاہتا۔ یہ میرے لیے ایک خوفناک تجربہ رہا ہے۔"