جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کا فلسطینی طلبا کی فیسیں معاف اور وظیفے دینے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
کراچی:
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن میں کامیاب ہونے والے 505 طالب علموں کو اسناد تفویض کردی گئیں جبکہ یونیورسٹی نے فلسطینی طالب علموں کی فیسں معاف اور انہیں وظیفے دینے کا بھی اعلان کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے چھٹے کاونوکیشن میں ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، ڈاکٹر آف فارمیسی، ماسٹر آف ہبلتھ، بیچلر آف سائنس نرسنگ سمیت مختلف شعبوں کے 505 فارغ التحصل طلبہ وطالبات کو گریجویٹس کی اسناد تفویض کی گئیں۔
تقریب میں بہترین ٹیچرز کو بھی ایوارڈز دئیے گئے۔
کاونوکیشن میں وائس چانسلر پروفیسر امجد سراج میمن، رجسٹرار ڈاکٹر اعظم خان سمیت تمام شعبوں کی فیکلٹی نے شرکت کی جبکہ کانووکیشن میں پہلی بار ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی کے فارغ التحصیل طلباء کو بھی ڈگریاں دی گئیں۔
کاونوکیشن میں ڈاکٹر محمد اعزاز الرحمٰن (ایم بی بی ایس) اور ڈاکٹر امیرہ عمر (بی ڈی ایس) کو بہترین گریجویٹس کا ایوارڈ دیا گیا۔
مجموعی طور پر 19 گولڈ، 7 سلور، اور 5 کانسی کے میڈلز دیے گئے۔ ڈاکٹر کرن فاطمہ (ایم ایس پی ایچ) نے بہترین گریجویٹ کا اعزاز حاصل کیا جبکہ مختلف پروگرامز میں دیگر ٹاپ پوزیشن ہولڈرز میں فبیحہ افضل (بی بی اے)، نیہا (بی ایس پی ایچ) اور ادیبہ شاہ (بی بی اے ایچ سی ایم) شامل ہیں۔
تقریب میں گریجویٹس ڈاکٹروں ودیگر سے حلف بھی لیاگیا۔ کانوکیشن سے وائس چانسلر پروفیسر امجد سراج میمن نے اپنے خطاب میں پاس آوٹ ہونے والے گریجویٹس سے کہا کہ صحت مند معاشرے کے قیام کے لئے آپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے 12 سال کے دوران ڈاکٹرسمیت دیگر شعبوں میں اب تک 3 ہزار افراد فارغ التحصل ہوکر پاکستان اوربیرون ممالک دکھی انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔
انھوں نے جناح یونیورسٹی میں زیر تعلیم فلطسین طالب علموں کی فیسیں معاف کرکے وظیفے جاری کرنے کا اعلان کیا جبکہ امسال غزہ سے جناح یونیورسٹی انے والے 25 فلسطینوں طالب علموں کو داخلے اور وظیفے دینے کا بھی اعلان کیا۔
وائس چانسلر نے یہ بھی اعلان کیا کہ وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے تعاون سے پہلا ویسکیولر سرجری کا یونٹ جناح اسپتال میں قائم کیا جارہا ہے۔
وائس چانسلر جے ایس ایم یو پروفیسر امجد سراج میمن نے متعدد شعبوں کے لیے پی ایچ ڈی پروگرامز کے آغاز کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی نے المنائئ کے تعاون سے پہلی جینٹک لیبارٹری قائم کردی ہے۔انھوں نے کامیاب ہونے والے ڈاکٹروں اور دیگر کو مبارک باد بھی دی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وائس چانسلر طالب علموں اعلان کیا
پڑھیں:
ہمیں کم ‘ سندھ کو زیادہ پانی دینے سے بے چینی بڑھ رہی ِ پنجاب کا ارساکو خط
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پنجاب حکومت نے پانی کی تقسیم پر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کو خط لکھ دیا۔ محکمہ آبپاشی پنجاب کی جانب سے ارسا کو لکھے گئے خط میں پنجاب کے حصے کا پانی سندھ کو دینے پر سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ربیع کی فصلوں کیلئے پانی کی مجموعی طور پر 16فیصد کمی تھی جس پر سندھ کو 19اور پنجاب کو 22 فیصد کم پانی دیا گیا۔ خط کے متن کے مطابق خریف کی فصلوں کے لیے پانی کی 43فیصد کمی ہے اور اس میں بھی پنجاب کے حصے کا پانی زیادہ اور سندھ کا کم روکا جا رہا ہے، سکھر بیراج پر رائس کینال کو غیرقانونی پانی دینے کے معاملہ کو بھی چھپایا گیا، مارچ میں ارسا کی ٹیکنیکل اور ایڈوائزری میٹنگز میں جو فیصلے کیے گئے ان پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ خط کے متن کے مطابق پنجاب کوحصے سے کم اور سندھ کو حصے سے زیادہ پانی دینے سے کسانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے، ناانصافی پر مبنی اقدامات سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ارسا یہ ناانصافیاں رکوائے اور فوری طور پر فیصلے کے مطابق پنجاب کو اس کے حصے کا پانی مہیا کیا جائے۔ دوسری جانب ابتدائی جائزے میں ارسا حکام نے سندھ کو زیادہ پانی دینے کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ارسا ہمیشہ پانی کی منصفانہ تقسیم کرتا ہے کسی کا حق لیا نہ کسی کو حق دیا۔ ارسا ترجمان کے مطابق حکام نے پنجاب حکومت کی جانب سے بجھوائے گئے خط کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے، خط کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لے گا۔ دریں اثناء ادھر وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے پنجاب حکومت کی جانب سے ارسا کو لکھے گئے خط کو مسترد کردیا۔ وزیر آبپاشی نے کہا سندھ کو 1991 کے آبی معاہدہ کے تحت حصے کا پانی دیا جائے۔ سندھ کے کینالز کو رواں ماہ اپریل کے دس دنوں میں 62 فیصد پانی کی قلت برداشت کرنی پڑی، جبکہ 1991 کے پانی معاہدہ کے تحت پنجاب کے کینالوں کو 54 فیصد پانی کی قلت برداشت کرنی پڑی۔ آبی معاہدہ 1991 کے تحت تمام صوبوں کو پانی کی کمی برابری کی بنیاد پر برداشت کرنی ہے، سندھ میں اس وقت کپاس اور چاول کی کاشت ہونی چاہیے، ہم صرف پینے کا پانی دے پا رہے ہیں، جبکہ اس وقت پنجاب میں گندم کی کٹائی کی جارہی ہے۔