بجلی صارفین کے لیے خوشخبری
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
بجلی صارفین کے لیے خوشخبری ، بجلی سستی ہونے کا امکان ہے۔ تفصیلات کے مطابق ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے تحت بجلی 1روپے3 پیسے فی یونٹ سستی ہونے کا امکان ہے۔ سی پی پی اے نے نیپرا میں دسمبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی درخواست دائر کردی۔ سی سی پی اے کے مطابق دسمبر میں بجلی کمپنیوں کو 7 ارب 51کروڑ 60لاکھ یونٹس بجلی فراہم کی گئی، بجلی کی فی یونٹ لاگت 9روپے 60پیسے فی یونٹ رہی۔ دسمبر کے لیے ریفرنس فیول لاگت10روپے63پیسے فی یونٹ مقرر تھی۔ نیپرا سی پی پی اے کی درخواست پر 30 جنوری کو سماعت کرے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
معیشت مضبوط ہونے کی خوشخبری
معیشت مضبوط ہونے کی خوش خبری آج کل زور و شور سے اہلِ وطن کو سنائی جارہی ہے کہ ’’ہم نے معیشت مضبوط کردی ہے، ملک میں اقتصادی استحکام پیدا ہوچکا ہے، پاکستان اقتصادی و سماجی لحاظ سے ایک طاقت ور اور خوش حال ترقی یافتہ ملک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔‘‘ شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ایسا ہو جس کا دل یہ اعلانات سن کر خوشی محسوس نہ کررہا ہو لیکن وہ اس بات پر یقین کرنا اپنے لیے مشکل پاتا ہے کہ ملک اس وقت بھی بے حساب بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا اور اب بھی بیرون ممالک، عالمی بنک اور آئی ایم ایف سے امداد لینے کی باتیں کی جارہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہمارے وزیرِ اعظم اپنی ان تھک کوششوں اور محنت سے اس کام میں پوری لگن کے ساتھ جُٹے ہوئے۔ اب اس میں وہ کتنی حد تک کامیاب ٹہرے یہ تو وہ، ان کے رفقاء یا ان کے سرپرست ہی جان سکتے ہیں کہ اس میں کتنی حقیقت ہے۔ اہلِ وطن کا تعلیم یافتہ طبقہ اکثر یہ سوال کرتا نظر آرہا ہوتا ہے کہ ’’اگر معیشت مضبوط اور مستحکم ہوگئی ہے تو پھر قرضہ کیوں لیا جارہے اور اہلِ وطن کے قرضوں کا بوجھ کیوں کم نہیں ہورہا؟‘‘ اب اس کا جواب کس کے پاس ہے اور کون جواب دہ ہے؟ روزانہ کی بنیاد پر ملکی اخبارات میں قرضہ لینے کی کوئی نہ کوئی لازمی خبر نظر آرہی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی قرضہ کا بوجھ کتنا بڑھ گیا ہے وطنِ عزیز پر، اس پر بھی بات چیت ہوتی نظر آرہی ہوتی ہے پر کوئی حل یا قرضہ میں کمی کی کوئی خبر یا بات چیت منظر عام پر نہیں آتی یا لائی نہیں جاتی۔ ایسا کیوں ہے یا کیوں کیا جارہا ہے؟ یہ معمہ ہے جس کا کوئی حل نہیں۔ صاحبِ اقتدار چاہے وہ وفاق میں ہوں یا صوبوں میں ہر طرف ہی شاہ خرچیاں ہی نظر آرہی ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی نوکر شاہی، افسر شاہی یا پھر جن کی سرپرستی میں یہ حکومت وجود میں آئی تھی وہ ہی پُر امن اور پُر سکون انداز میں عیاشی کے ساتھ زندگی گزارتے نظر آرہے ہوتے ہیں وہ بھی اس طرح جیسے وطنِ عزیز قرض لینے والا نہیں بلکہ قرضہ دینا والا ملک ہے۔ ہمارے ایک استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ ’’پاکستان وہ واحد ملک ہے جو غریب، مسکین اور قرض دار ہے اور یہاں کا ایک خاص طبقہ اور سیاست دان امیر بلکہ اتنا امیر ہے کہ ایک پل میں ہی پاکستان کا قرضہ اتار سکتا ہے اور انہیں کوئی فرق بھی نہیں پڑے گا‘‘ اور اگر ہم حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو استاد محترم کی یہ بات حق و سچ پر منبی ہی نظر آتی ہے۔ اگر ہم ایک نظر وطنِ عزیز کے بڑے شہروں میں رہائش پذیر امراء کو دیکھیں اور ان کے طرزِ زندگی کی طرف ایک نظر ڈالیں تو اس بات کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں رہے جاتا پر کیا کیجئے کہ ہمیں ملک سے کیا لینا دینا، ہمیں بس اپنے مفاد عزیز ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں ہونی چاہیے اپنے مفاد کے لیے اگر عام عوام کی چمڑی بھی ادھڑ جائے ان کی بلا سے۔ سیاست دان، امراء، کاروباری افراد کے ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ ہی کیوں نہ ہو اپنے مفاد کے حصول کے لیے قوانین میں ترامیم کے ساتھ رد و بدل کرنے کی سیاہ ترین تاریخ صرف ’’مملکتِ خداداد پاکستان‘‘ میں ہی ملتی ہے۔
وطنِ عزیز میں جہاں مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی نے اہلِ وطن کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور معاشرہ اب واضح دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک انتہائی امیر اور دوسرا انتہائی غریب، عوام ایک تذبذب کا شکار ہوکر رہے گی ہے، یہ سن کر کہ ’’غریبوں کی حالت جلد بدلنے والی ہے‘‘ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا پر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا یا یوں کہا جائے کہ یہ ناممکنات میں سے تو درست ہوگا۔ ملک میں اگر کوئی تبدیلی آنی ہو تو اس کے کم از کم آثار ضرور ظاہر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں منفی علامتیں تو بہت نظر آرہی ہیں لیکن مثبت و امید افزأ نشانیوں کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ حکومتی اہل کاروں کے دلفریب نعرے سن سن کر لوگ اکتا گئے ہیں۔ غیر ترقیاتی کاموں، انتظامیہ اور تختیاں لگانے میں اس قوم کا سرمایہ بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور ایک بار نہیں کئی کئی بار ایک ہی جگہ اور کام پر تختیاں تبدیل کی جاتی ہیں جسے کہ مفت میں یہ کام سر انجام دیا گیا ہو۔ مہنگائی اگر نوٹس لینے، تقاریر کرنے یا احکامات جاری کرنے سے ضبط میں آجانا ہوتا تو یہ کام بہت پہلے ہو جاتا اور وطنِ عزیز میں ہر ایک شخص خوش حال اور پُر سکون زندگی گزار رہا ہوتا اور یہاں کوئی چوری چکاری، بد عنوانی، ذخیرہ اندوزی، ہیرا پھیری، اسٹریٹ کرائم اور مہنگائی جیسے کام وطنِ عزیز میں نہ ہورہے ہوتے، عوام خوش حال نہ ہو بس وہ اپنے مسائل میں گھری رہے تاکہ وہ ان کی طرف توجہ ہی نہ دے پائے کہ وہ کیا کیا کارنامہ ہائے انجام دے رہے ہیں۔ ویسے وطنِ عزیز میں دیکھا جائے تو بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ روز روز کی گرانی اور افراط زر میں اضافے کے باعث رہی سہی قوتِ برداشت بھی جواب دے جائے گی۔ بجٹ آنے میں ابھی چند ماہ باقی ہے پر ابھی سے کئی حلقے اس پر بحث و مباحثہ کرتے نظر آرہے ہیں لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو وطنِ عزیز روزانہ کی بنیاد پہ عام اشیاء کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مہنگائی کا سیلاب صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ باقی دنیا بھی اس کی لپیٹ میں ہے لیکن ہم میں اور ان میں بہت بڑا فرق ہے۔ وہاں مہنگائی کے ساتھ ساتھ اُجرت میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے وہاں کی عوام پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا جبکہ ہمارے منہگائی میں اضافہ چھپڑ پھاڑ کے ہوتا ہے اور اس حساب ہے اُجرت میں بھی کمی آجاتی ہے کیوں کہ سرمایہ دار کہتا نظر آتا ہے کہ نقصان ہورہا، نفع کم ہوگیا کہ ہم اپنا لگایا گیا سرمایہ بھی پوری طرح وصول نہیں کر پارہے تو ہم اُجرت میں اضافہ کیسے کریں اگر کارکنان زیادہ زور دیں تو ان کو فارغ کرکے بے روزگار کردیا جاتا ہے بغیر کسی لحاض کے۔ امریکہ میں آج بھی اجرت دس ڈالر فی گھنٹہ ہے جبکہ پاکستان میں اُجرت کا معیار یہ ہے کہ امریکہ میں جو شخص ایک دن میں کماتا ہے پاکستان میں یہ ایک ماہ کی کمائی بھی نہیں۔ اگر ہم دنیا میں اُجرتوں کا موازنہ کریں تو پاکستان میں ایک عام مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطنِ عزیز میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کر برابر رہ گی ہے وہ بھی ہمارے حکمرانوں کی بد عنوانی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اور جتنی بھی سرمایہ کاری ہورہی ہے اس سے آبادی کے ایک بہت خاص طبقہ ہی فائدہ حاصل کررہا ہے۔ پچانوے فیصد عوام اب بھی غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ پچیس کروڑ کی آبادی میں تقریباً دس کروڑ لوگ خط غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ معاشی ترقی کا دارو مدار صنعتی پیداوار پر ہے نہ کہ مہنگی گاڑیاں، بڑے بڑے محل نما مکانات، فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ، بیالیس ملین موبائل فون کے استعمال کو معاشی ترقی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ بقول وزیرِ اعظم گزشتہ برس فی کس آمدنی سولہ سو اسی ڈالر رہی جس سے پتہ چلتا ہے کہ معاشرہ کے تقریباً تمام طبقوں کا معیارِ زندگی خراب ہوا ہے۔ اس میں ’’وہ کیا اوڑھے گا، کیا پہنے گا، کیا کھائے گا‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں روزانہ سیکڑوں لوگ لٹ رہے ہیں، ان گنت ڈکیتیاں ہو رہی ہیں اور ان گنت ہی انسانی زندگی بھی ضائع ہورہی ہیں اور ساتھ ہی معاشرہ بہت تیزی کے ساتھ بے راہ روی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ آج کے دور میں معیشت کی ترقی جانچنے کے پیمانے تبدیل ہوچکے ہیں۔ محض یہ کہنے سے کہ جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے یا لوگ اگر ایک سو ساٹھ روپے کلو چینی خرید رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کا معیارِ زندگی بلند ہوگیا ہے۔ یہ ان کی مجبوری ہے۔ عوام کا معیارِ زندگی پرکھنا ہو تو چھوٹے شہروں، گائوں کا چکر لگائیں، بسوں میں بیٹھے مسافروں کی شکلوں کو دیکھیں، چلچلاتی دھوپ میں لوگوں کو بھیک مانگتے دیکھیں، اسپتالوں کا رخ کرکے وہاں کی حالتِ زار دیکھیں۔ بجلی کی فراہمی میں تعطل رہنے کی وجہ سے جو تباہی ہو رہی ہے، انسان ہلاک ہو رہے ہیں، ان کی طرف نظر دوڑائیں، سوکھی نہروں کو دیکھیں، اداس چہروں کو دیکھیں، معصوم بچوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھیں، کچرے کے ڈھیروں میں سے لوگوں کو کھانا تلاش کرتے ہوئے دیکھیں، گائوں، دیہاتوں میں آج بھی لوگ پھٹے ہوئے کپڑوں اور ننگے پیر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نہ تو کوئی حکمتِ عملی ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی۔ ہر کام ایڈہاک ازم کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ حکومت بے بس نظر آرہی ہے اس لیے کہ یہ لوگ بڑی پہنچ والے ہیں۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غیر ضروری و غیر ملکی دوروں میں خوامخواہ اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ان دوروں سے وطنِ عزیز کو آج تک کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔ خصوصی طیاروں کے بجائے عام طیاروں میں سفر کریں تو غریبوں کی حالت بدلی جاسکتی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پچھلے کئی سالوں میں مہنگائی اور تیل کی قیمتوں نے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم نے کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ خزانہ بھی کچھ بھرا ہے لیکن اس حقیقت کو جھٹلانا بھی مشکل ہے کہ اس زبردست معاشی ترقی کے ثمرات نچلی سطح تک نہیں پہنچ پائے ہیں اور یہ سب معاشی ترقی اس وقت تک بے معنی رہے گی جب تک اس کے فوائد نچلی سطح تک نہیں پہنچ پاتے۔ اب عملی اقدامات کرنے کا وقت ہے، نعروں اور تقریروں سے کام نہیں چلے گا۔ اب عوام کو حقیقی ریلیف چاہیے کیوں کہ عوام باشعور ہوگئی ہے اور وہ خالی وعدوں پر گزارا نہیں کرنے والی، اس بارے میں حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔