خیبر پختونخوا میں بارش اور برفباری کا امکان، پی ڈی ایم اے کی احتیاطی تدابیر جاری
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
پی ڈی ایم اے کے مطابق، چترال، دیر، سوات، کوہستان، شانگلہ، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، مالاکنڈ، بونیر، باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، وزیرستان، پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، صوابی، بنوں، کرک اور کوہاٹ سمیت مختلف اضلاع میں وقفے وقفے سے بارش اور برفباری متوقع ہے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے بالائی اضلاع میں آج 18 جنوری سے گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر شدید برفباری کا امکان ظاہر کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ 21 جنوری تک جاری رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق، چترال، دیر، سوات، کوہستان، شانگلہ، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، مالاکنڈ، بونیر، باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، وزیرستان، پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، صوابی، بنوں، کرک اور کوہاٹ سمیت مختلف اضلاع میں وقفے وقفے سے بارش اور برفباری متوقع ہے۔ پی ڈی ایم اے نے ضلعی انتظامیہ کو مراسلہ جاری کرتے ہوئے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے پیشگی نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو چھوٹی اور بڑی مشینری کی دستیابی یقینی بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ بارش کے دوران بجلی کی تاروں، بوسیدہ عمارتوں، سائن بورڈز، اور بل بورڈز سے دور رہیں۔
حساس بالائی علاقوں میں سیاحوں اور مقامی آبادی کو موسمی حالات سے باخبر رہنے اور احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ حساس اضلاع میں مقامی آبادی کو ان ہدایات سے آگاہ کرنے کے لیے پیغامات مقامی زبانوں میں پہنچائے جائیں گے۔ پی ڈی ایم اے نے سیاحوں کو تاکید کی ہے کہ وہ موسمی حالات اور سڑکوں کی بندش کے پیش نظر سیاحتی مقامات کا رخ کرنے سے پہلے معلومات حاصل کریں۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پی ڈی ایم اے کی ہیلپ لائن سے رابطہ کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا کے بالائی علاقوں میں موسم کی یہ پیشگوئی زندگی کے معمولات پر اثر ڈال سکتی ہے، لہذا عوام سے اپیل ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور ضلعی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کریں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اضلاع میں کی گئی ہے بارش اور
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کس مشکل میں پھنس گئے؟
خیبر پختونخوا حکومت کے معاملات کچھ زیادہ ہموار نہیں چل رہے، ناہمواری کی وجہ ویسے تو وفاق اور صوبے کے درمیان جاری سیاسی جنگ ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہے، اگر دیکھا جائے تو عمران خان کو عہدے سے ہٹائے جانے سے لے کر اب تک اگر وفاق اور صوبے کے درمیان مالی حالات میں بہتری آئی ہے تو وہ موجودہ دور میں آئی ہے، جس کا اعتراف مشیر خزانہ مزمل اسلم بھی کرچکے ہیں۔
وفاقی حکومت فنڈز کی فراہمی بھی کررہی ہے اور کئی امور پر رابطے میں بھی ہے، جس میں بلاشبہ مزید بہتری کی ضرورت ہے، تاہم خیبر پختونخوا کابینہ کے اندر جو ناہمواری ہے اس کی وجہ سوائے پاکستان تحریک انصاف کے اور کچھ نہیں۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے اقتدار کو تقریباً 12 سال ہونے کو ہیں اور ان 12 سالوں میں پی ٹی آئی کو سب سے مشکل اور سخت مخالفت پی ٹی آئی سے ہی رہی ہے، کوئی اور جماعت پی ٹی آئی کے قریب تک نہیں بھٹکی لیکن پارٹی کو نقصان پہنچانے کے لیے پی ٹی آئی کے اندر کافی لوگ موجود ہیں۔ اس بار بھی معاملہ کچھ مختلف نہیں ہے۔
26 نومبر کے احتجاج اور ڈی چوک واقعہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو خیبر پختونخوا کے انتظامی معاملات کا خیال آگیا، اور ڈیڑھ ماہ سے تمام انتظامی امور کو انتہائی سنجیدہ لیا جا رہا ہے۔
تاہم ان انتظامی معاملات میں اب مشکلات پیدا ہورہی ہیں، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے پشاور میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اچانک اپنی توپوں کا رخ قومی احتساب بیورو اور انٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ کی جانب موڑ دیا، جو بلا شبہ حیران کن تھا۔ وزیر اعلیٰ نے افسران کی لاچارگی پر بھی غصہ ظاہر کیا ہے اور قواعد و ضوابط پر تنقید کی ہے۔
علی امین گنڈاپور کی قومی احتساب بیورو (نیب) پر تنقید سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ نیب ایک وفاقی ادارہ ہے اور سیاسی منجن کے طور پر نیب پر تنقید کرکے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وفاق صوبائی حکومت کو کام کرنے نہیں دیتی اسی لیے نیب تنگ کررہا ہے۔ تاہم حقیقت اس سے مختلف ہے، نیب ذرائع کے مطابق موجودہ انتظامیہ کے نہ کسی افسر کو نیب نے طلب کیا ہے اور نہ ہی کابینہ کے کسی ممبر کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، بلکہ نیب کا دائرہ اختیار اب بیشتر مقدمات میں ہے ہی نہیں۔ لہٰذا نیب پر تنقید بنتی ہی نہیں۔
اب دوسرا ادارہ ہے انٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ، یہ ادارہ صوبائی ہے اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے ماتحت کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کا قلمدان مشیر وزیر اعلیٰ بریگیڈیئر ریٹائرڈ مصدق عباسی کو دیا گیا ہے جو وزیر اعلیٰ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ ہفتوں سے جو معاملات چل رہے ہیں وہ شاید وزیر اعلیٰ کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ مصدق عباسی دراصل عمران خان کی جانب سے قائم کردہ اندرونی احتساب کمیٹی کے بھی رکن ہیں، اس کمیٹی میں سابق گورنر شاہ فرمان اور سینئر قانون دان قاضی انور بھی شامل ہیں۔ انٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ کی جانب سے کئی بیوروکریٹس کے خلاف بڑی چھان بین شروع کر دی گئی ہے، جو خاموشی سے شواہد اور ثبوت اکٹھے کررہی ہے۔
اس چھان بین میں ایسے بڑے نام بھی شامل ہیں جن پر اب تک کسی نے بھی ہاتھ نہیں ڈالا، اور وہ اس وقت بھی کلیدی اور پرکشش عہدوں پر ہیں۔ پشاور کی تقریب میں وزیر اعلیٰ کی اصل شکایت اپنی اس انٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ سے تھی کہ وہ وزیر اعلیٰ کے قریبی افسران اور کابینہ ممبران کے خلاف ثبوت کیوں اکٹھی کررہی ہے۔
اسی لیے وزیر اعلیٰ مجبوری کے عالم میں عوامی اجتماع میں بھی اپنے الفاظ کنٹرول نہیں کرسکے اور اپنے ہی محکمہ پر بھڑاس نکال بیٹھے۔ پی ٹی آئی کی اندرونی احتساب کمیٹی کئی صوبائی کابینہ ممبران کو طلب کر چکی ہے، اور انہیں جواب دہ بنا چکی ہے۔ جبکہ محکموں کے اندر جاری کرپشن اور اقربا پروری پر ممبران کابینہ کو جواب دہ بنایا گیا ہے۔
کئی ممبرانِ کابینہ کی تو یہ حالت تھی کہ انہیں اپنے محکمے کا بھی پوری طرح علم نہیں تھا، تاہم وہاں بیٹھے سیکرٹری، ڈائریکٹر جنرل اور دیگر اہم بیوروکریٹس کی کارستانیاں انہیں سنائی گئیں اور فوری کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے، جو شاید وزیر اعلیٰ کو تلخ محسوس ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا کی بیورو کریسی کی کرپشن کے قصے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اپنے ممبران کی غیر قانونی بھرتیوں سے لے کر ادویات سکینڈل اور گندم سکینڈل پر بیوروکریسی رونا رو رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اب انہیں بیوروکریٹ افسران کو بچانے کیلئے کوشاں ہیں۔
متعدد انکوائریوں میں نامزد بیوروکریسی افسران کو تاحال اہم عہدوں پر بٹھایا گیا ہے، جس کے تانے بانے اعلی حکام سے مل رہے ہیں۔ انٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ نے جو کارروائیاں اور چھان بین شروع کی ہے اس کے بعد بیوروکریسی کی صفوں میں بھی ہلچل مچی ہے، اور اس کا اظہار خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ افسران دستخط کرنے سے گریزاں ہیں، اور قواعد میرے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اگر چور نہیں تو ڈر کیسا؟ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر چور نہیں تو قواعد کا ڈر کیسا؟
ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جن بیوروکریسی کے افسران کو انٹی کرپشن نے ریڈار میں لیا ہے انہوں نے اپنا شکوہ وزیر اعلیٰ کو پہنچا دیا ہے، اسی طرح جن افسران کے خلاف انٹی کرپشن کارروائی کرنے کیلئے چیف سیکرٹری سے رابطہ کر چکی ہے، اس پر بھی چیف سیکرٹری خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور ان فائلوں کو دبا دیا گیا ہے۔
20 سے زائد اعلی افسران کے خلاف کارروائی اب چیف سیکرٹری کی اجازت کی منتظر ہے، اور کئی ماہ بعد بھی وہ فائلیں میز پر رکھ کر بھلا دی گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے ساتھ کئی اجلاسوں میں بیوروکریسی اس ڈر اور خوف کا اظہار کر چکی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالا جائے گا، لیکن وزیر اعلیٰ ان کی ہمت بندھاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا، وہ ان کے ساتھ ہیں۔
وزیر اعلیٰ کی شہہ کے باوجود بھی بیوروکریسی قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کا اصرار کر رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بیوروکریسی اور وزیر اعلیٰ ایک صفحہ پر نظر آ رہے ہیں، جبکہ انٹی کرپشن اور پی ٹی آئی دوسری جانب کھڑی ہے۔ صوبے میں اس انتظامی رسہ کشی سے جو تناﺅ پیدا ہوا ہے وہ صوبے کیلئے زیادہ بہتر نہیں ہے۔
صوبائی حکومت کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، جس میں امن و امان سرفہرست ہے۔ اسی طرح مالی بحران، بے روزگاری، صنعتوں کی بحالی اور دیگر کئی حل طلب مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اگر حکومت آپس میں بھی جھگڑے گی تو بلا شبہ نقصان صوبے کا ہی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محمد فہیم