(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور کسی ملک کی کوئی عدالت کسی قانون شکنی کرنے والے کا یہ عذر قبول نہیں کرتی کہ چونکہ اسے قانون کا علم نہیں تھا، اس لیے اس نے اس کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف قانون کے عمومی مطالعہ کی بنیاد پر عدالت عالیہ میں کھڑا ہو کر دستور و قانون کی تشریح اور اس پر ”آرگو“ کرنے کا حق مانگے گا تو وہ اسے نہیں ملے گا، اس لیے کہ اس کا معیار بالکل مختلف ہے اور اس کا پراسیس قطعی طور پر الگ ہے۔ اس کے لیے لاء کی ڈگری، بار کا لائسنس اور وکالت کا تجربہ درکار ہے، اس کے بغیر کسی کو قانون کے عام مطالعہ کی بنیاد پر قانون کی تشریح و تعبیر کا حق نہیں ملتا۔یہی صورت حال قرآن کریم کے حوالے سے ہے کہ اس کے عام امیج کو سمجھنا اور اس کے بنیادی احکام سے واقف ہونا ہر مسلمان کا حق اور اس کی ذمہ داری ہے، لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کی تعبیر و تشریح کے لیے بحث کرنا ہر شخص کا حق نہیں ہے اور اس کے لیے اسی طرح علوم دینیہ کی ڈگری اور تدریس و تعلیم کا تجربہ شرط ہے، جیسے قانون کی تعبیر و تشریح میں حصہ لینے کے لیے شرائط موجود ہیں۔
اس حوالے سے ہم بہت افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف یہ ذہن پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے سرے سے کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ جب تک پورا عالم دین نہیں ہو گا وہ قرآن کریم کو نہیں سمجھ پائے گا اور دوسری طرف یہ رجحان عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو شخص قرآن کریم کی چند آیات کا ترجمہ کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتا ہے، وہ دین کے ہر معاملے میں خود کو اتھارٹی تصور کرنے لگتا ہے اور ہر مسئلے میں ٹانگ اڑا کر اپنی تعبیر و تشریح کو دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔یہ دونوں انتہا پسندانہ رجحانات ہیں اور حق بات ان دونوں کے درمیان ہے، وہ یہ کہ قرآن کریم کے نفسِ مفہوم، پیغام اور احکام سے آگاہی حاصل کرنا ہر مسلمان کی ضرورت ہے، اس کی ذمہ داری ہے اور اس پر قرآن کریم کا حق ہے، جس سے کوئی مسلمان مرد یا عورت مستثنیٰ نہیں ہے، لیکن قرآنی آیات کی تعبیر و تشریح اور ان سے مسائل کا استنباط اور استخراج صرف اور صرف ان لوگوں کا حق ہے جو متعلقہ ضروری علوم پر دسترس رکھتے ہیں اور ان کے بغیر کی جانے والی تعبیر و تشریح ہمیشہ الجھنیں اور مسائل پیدا کرتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم پر ایمان، اس کے ساتھ محبت و عقیدت اور اس کی تلاوت و سماع کے ساتھ ساتھ اسے سمجھنے کی کوشش کرنا بھی ہر مسلمان پر قرآن کریم کا حق ہے اور اس حق کی ادائیگی سے بے پروائی برتنا قرآن کریم کی حق تلفی ہے۔امت مسلمہ کے معروف عالم اور محقق حافظ ابن القیمؒ نے قرآن کریم کے حقوق بیان کرتے ہوئے پانچ امور کا بطور خاص ذکر کیا ہے: قرآن کریم کی تلاوت اور اسے اہتمام کے ساتھ سننے کا معمول قرآن کریم کا حق اور جناب نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے۔ اگر کسی مسلمان کے معمولات میں قرآن کی تلاوت اور سننا شامل نہیں ہے تو وہ قرآن کریم کی حق تلفی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ قرآن کریم کو سمجھنا اور اس کے پیغام اور احکام و ہدایات سے واقف ہونا ہر مسلمان پر قرآن کریم کا حق ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اس کے لیے کسی بھی درجے میں کوشش نہیں کرتا تو وہ قرآن کریم کی حق تلفی کر رہا ہے۔ قرآن کریم کے احکام و ہدایات پر عمل کرنا اور قرآن کریم کا کوئی حکم سامنے آنے پر رک جانا اور اپنا جائزہ لینا بھی قرآن کریم کا حق ہے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کر رہا تو یہ قرآن کریم کی حق تلفی ہے۔ قرآن کریم کو اپنے معاملات اور تنازعات میں حکم اور فیصل تسلیم کرنا اور اس سے اپنے معاملات و تنازعات کا فیصلہ طلب کرنا بھی قرآن کریم کے حقوق میں سے ہے۔ اگر کوئی مسلمان فرد، خاندان، کمیونٹی یا قوم اس کا اہتمام نہیں کرتی تو یہ بھی قرآن کریم کی حق تلفی کی ایک صورت ہے۔ قرآن کریم روحانی بیماریوں کا علاج ہونے کے ساتھ جسمانی بیماریوں اور دنیاوی مشکلات کے لیے بھی شفا کی حیثیت رکھتا ہے اور برکت اور شفا کے لیے اس کی تلاوت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ اس لیے اگر کوئی مسلمان اس سے بے پروائی برتتا ہے تو وہ بھی قرآن کریم کی حق تلفی کا مرتکب قرار پاتا ہے۔حافظ ابن القیمؒ کا ارشاد ہے کہ یہ قرآن کریم کے وہ حقوق ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہو گا اور ان حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں درخواست گزار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے حقوق صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قرا ن کریم کا حق ہے قرا ن کریم کے حقوق کی ذمہ داری ہے بھی قرا ن کریم قرا ن کریم کو سے واقف ہونا ہے اور اس اور اس کے اگر کوئی نہیں کر کے لیے اس لیے
پڑھیں:
چینی کوسٹ گارڈ نے تھیئَے شیئن ریف پر اترنے والے فلپائنی افراد سے قانونی طور پر نمٹا
چینی کوسٹ گارڈ نے تھیئَے شیئن ریف پر اترنے والے فلپائنی افراد سے قانونی طور پر نمٹا WhatsAppFacebookTwitter 0 28 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چائنا کوسٹ گارڈ کے ترجمان لیو دہ جون نے بتایا کہ فلپائن کے چھ افراد چین کے انتباہ کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر تھیئے شیئن ریف پر اترے۔چینی کوسٹ گارڈ کے قانون نافذ کرنے والے افسران نے قانون کے مطابق ریف پر اتر کر اس معاملے سے نمٹا ۔
پیر کے روز ترجمان نے کہا کہ تھیئے شیئن ریف سمیت نان شا جزائر اور اس سے ملحقہ آبی علاقوں پر چین کو ناقابل تردید خودمختاری حاصل ہے۔فلپائن کا یہ اقدام چین کی علاقائی خودمختاری سمیت بحیرہ جنوبی چین میں فریقین کے طرز عمل سے متعلق اعلامیے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور بحیرہ جنوبی چین میں امن و استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین فلپائن پر زور دیتا کہ وہ فوری طور پر ایسی خلاف ورزیوں کو روکے۔ ترجمان لیو دہ جون نے کہا کہ چائنا کوسٹ گارڈ قانون کے مطابق چین کے دائرہ اختیار میں آبی علاقوں کے حقوق کے تحفظ اور قانون نافذ کرنے کی سرگرمیاں جاری رکھے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربیسویں چائنا فلم ہوابیاؤ ایوارڈز کا اعلان پہلگام حملے کی سازش رچنے والوں کو کڑا جواب دیں گے: مودی کا پیغام انتہا پسند ہندوؤں کا حملہ، موہالی میں کشمیری طالبہ کو ہراساں کیا کینیڈا: اسٹریٹ فیسٹیول کے دوران ڈرائیور نے ہجوم کو کچل دیا، متعدد افراد ہلاک ایران: بندر عباس پورٹ پر دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 25 ہوگئی بھارتی فوج کا کسانوں کو 48 گھنٹے میں سرحدوں پر موجود کھیت خالی کرنے کا حکم پاناما اور نہرسویزسے امریکی جہازوں کومفت سفرکی اجازت ہونی چاہیے، ٹرمپCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم