Daily Ausaf:
2025-01-18@12:59:05 GMT

قرآن کریم کے حقوق

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور کسی ملک کی کوئی عدالت کسی قانون شکنی کرنے والے کا یہ عذر قبول نہیں کرتی کہ چونکہ اسے قانون کا علم نہیں تھا، اس لیے اس نے اس کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف قانون کے عمومی مطالعہ کی بنیاد پر عدالت عالیہ میں کھڑا ہو کر دستور و قانون کی تشریح اور اس پر ”آرگو“ کرنے کا حق مانگے گا تو وہ اسے نہیں ملے گا، اس لیے کہ اس کا معیار بالکل مختلف ہے اور اس کا پراسیس قطعی طور پر الگ ہے۔ اس کے لیے لاء کی ڈگری، بار کا لائسنس اور وکالت کا تجربہ درکار ہے، اس کے بغیر کسی کو قانون کے عام مطالعہ کی بنیاد پر قانون کی تشریح و تعبیر کا حق نہیں ملتا۔یہی صورت حال قرآن کریم کے حوالے سے ہے کہ اس کے عام امیج کو سمجھنا اور اس کے بنیادی احکام سے واقف ہونا ہر مسلمان کا حق اور اس کی ذمہ داری ہے، لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کی تعبیر و تشریح کے لیے بحث کرنا ہر شخص کا حق نہیں ہے اور اس کے لیے اسی طرح علوم دینیہ کی ڈگری اور تدریس و تعلیم کا تجربہ شرط ہے، جیسے قانون کی تعبیر و تشریح میں حصہ لینے کے لیے شرائط موجود ہیں۔
اس حوالے سے ہم بہت افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف یہ ذہن پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے سرے سے کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ جب تک پورا عالم دین نہیں ہو گا وہ قرآن کریم کو نہیں سمجھ پائے گا اور دوسری طرف یہ رجحان عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو شخص قرآن کریم کی چند آیات کا ترجمہ کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتا ہے، وہ دین کے ہر معاملے میں خود کو اتھارٹی تصور کرنے لگتا ہے اور ہر مسئلے میں ٹانگ اڑا کر اپنی تعبیر و تشریح کو دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔یہ دونوں انتہا پسندانہ رجحانات ہیں اور حق بات ان دونوں کے درمیان ہے، وہ یہ کہ قرآن کریم کے نفسِ مفہوم، پیغام اور احکام سے آگاہی حاصل کرنا ہر مسلمان کی ضرورت ہے، اس کی ذمہ داری ہے اور اس پر قرآن کریم کا حق ہے، جس سے کوئی مسلمان مرد یا عورت مستثنیٰ نہیں ہے، لیکن قرآنی آیات کی تعبیر و تشریح اور ان سے مسائل کا استنباط اور استخراج صرف اور صرف ان لوگوں کا حق ہے جو متعلقہ ضروری علوم پر دسترس رکھتے ہیں اور ان کے بغیر کی جانے والی تعبیر و تشریح ہمیشہ الجھنیں اور مسائل پیدا کرتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم پر ایمان، اس کے ساتھ محبت و عقیدت اور اس کی تلاوت و سماع کے ساتھ ساتھ اسے سمجھنے کی کوشش کرنا بھی ہر مسلمان پر قرآن کریم کا حق ہے اور اس حق کی ادائیگی سے بے پروائی برتنا قرآن کریم کی حق تلفی ہے۔امت مسلمہ کے معروف عالم اور محقق حافظ ابن القیمؒ نے قرآن کریم کے حقوق بیان کرتے ہوئے پانچ امور کا بطور خاص ذکر کیا ہے: قرآن کریم کی تلاوت اور اسے اہتمام کے ساتھ سننے کا معمول قرآن کریم کا حق اور جناب نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے۔ اگر کسی مسلمان کے معمولات میں قرآن کی تلاوت اور سننا شامل نہیں ہے تو وہ قرآن کریم کی حق تلفی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ قرآن کریم کو سمجھنا اور اس کے پیغام اور احکام و ہدایات سے واقف ہونا ہر مسلمان پر قرآن کریم کا حق ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اس کے لیے کسی بھی درجے میں کوشش نہیں کرتا تو وہ قرآن کریم کی حق تلفی کر رہا ہے۔ قرآن کریم کے احکام و ہدایات پر عمل کرنا اور قرآن کریم کا کوئی حکم سامنے آنے پر رک جانا اور اپنا جائزہ لینا بھی قرآن کریم کا حق ہے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کر رہا تو یہ قرآن کریم کی حق تلفی ہے۔ قرآن کریم کو اپنے معاملات اور تنازعات میں حکم اور فیصل تسلیم کرنا اور اس سے اپنے معاملات و تنازعات کا فیصلہ طلب کرنا بھی قرآن کریم کے حقوق میں سے ہے۔ اگر کوئی مسلمان فرد، خاندان، کمیونٹی یا قوم اس کا اہتمام نہیں کرتی تو یہ بھی قرآن کریم کی حق تلفی کی ایک صورت ہے۔ قرآن کریم روحانی بیماریوں کا علاج ہونے کے ساتھ جسمانی بیماریوں اور دنیاوی مشکلات کے لیے بھی شفا کی حیثیت رکھتا ہے اور برکت اور شفا کے لیے اس کی تلاوت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ اس لیے اگر کوئی مسلمان اس سے بے پروائی برتتا ہے تو وہ بھی قرآن کریم کی حق تلفی کا مرتکب قرار پاتا ہے۔حافظ ابن القیمؒ کا ارشاد ہے کہ یہ قرآن کریم کے وہ حقوق ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہو گا اور ان حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں درخواست گزار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے حقوق صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قرا ن کریم کا حق ہے قرا ن کریم کے حقوق کی ذمہ داری ہے بھی قرا ن کریم قرا ن کریم کو سے واقف ہونا ہے اور اس اور اس کے اگر کوئی نہیں کر کے لیے اس لیے

پڑھیں:

بیرسٹر گوہر آرمی چیف کی سیاسی قیادت سے ملاقات میں موجود تھے، گورنر خیبر پختونخوا


گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ وہ تصدیق کرتے ہیں  بیرسٹر گوہر آرمی چیف کی سیاسی قیادت سے ملاقات میں موجود تھے۔

اپنے بیان میں  فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ دن دیہاڑے ملاقات میں موجودگی پر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں، میں نہیں تھا۔

گورنر خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ بعد میں بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے الگ سے ملاقات ہوئی یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جانوروں پر ظلم کرنے والوں کیلئے سخت سزا ہونا ضروری ہے: جسٹس عائشہ اے ملک
  • پہلی مسلمان مدیرہ محمدی بیگم اور پہلی خاتون پائلٹ حجاب امتیاز علی کا آپس میں کیا رشتہ تھا؟
  • پی ٹی آئی نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دیدی
  • اپوزیشن جماعتوں کا آئین و قانون کی بالادستی کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کا اعلان
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلسل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • آزاد کشمیر کے آئین میں کوئی بھی قانون قرآن و سُنہ کے منافی نہیں ہو گا، صدر ریاست
  • مسلمان ملک میں تمام طبقات سے برادرانہ تعلقات استوار کریں، جماعت اسلامی ہند
  • علی امین گنڈاپور کو ہمیشہ میدان سے بھاگنے کی عادت ہے، گورنر فیصل کریم کنڈی
  • بیرسٹر گوہر آرمی چیف کی سیاسی قیادت سے ملاقات میں موجود تھے، گورنر خیبر پختونخوا