بھارتی اداکارہ و ماڈل اروشی روتیلا کو سیف علی خان پر حملے کے حوالے سے دیے گئے غیر حساس بیان پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے سیف پر حملے کی مذمت تو کی، لیکن ساتھ ہی اپنے قیمتی زیورات کی نمائش بھی کی اور سیف کے بارے میں بات کرتے کرتے اپنی مہنگی ہیرے کی گھڑی اور انگوٹھیوں سے متعلق بات شروع کردی، اس انٹرویو کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لوگوں نے اداکارہ کے اس رویے کو نامناسب اور بے حسی قرار دے دیا۔

اروشی نے بعد ازاں ایک بیان جاری کرتے ہوئے اپنے الفاظ پر معافی مانگی اور کہا کہ وہ صورتحال کی سنگینی کو ابتدا میں نہیں سمجھ سکیں۔ انہوں نے کہا، ’سیف علی خان صاحب، میں اپنی لاعلمی اور غیر حساسیت پر شرمندہ ہوں۔ اب جب مجھے آپ کے کیس کی شدت کا اندازہ ہوا ہے، میں دل سے معذرت خواہ ہوں اور اپنی حمایت پیش کرتی ہوں۔‘

یاد رہے کہ سیف علی خان پر جمعرات کی صبح ایک شخص نے ان کے گھر میں گھس کر حملہ کیا تھا، جس میں ان کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی کے قریب چوٹیں آئیں۔ انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ کئی سرجریوں کے بعد اب خطرے سے باہر ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سیف علی خان

پڑھیں:

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتاؤ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو سب سے بڑا تحفہ کیا دیا تھا‘‘ وہ مسکرائے اور میری طرف دیکھا‘ میں سوچ میں پڑ گیا‘ وہ اس دوران میری طرف دیکھتے رہے‘ میں نے تھوڑی دیر سوچا اور عرض کیا ’’ شعور‘‘ انھوں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ میں نے عرض کیا ’’ عقل‘‘ وہ فوراً بولے ’’ شعور اور عقل دونوں ایک ہی چیز ہیں‘‘

میں نے مزید سوچا اور عرض کیا ’’ آکسیجن‘ سورج کی روشنی‘ پانی‘ خوراک اور جمالیاتی حس‘‘ انھوں نے ناں میں گردن ہلا دی‘ میں نے عرض کیا ’’تعمیر کا فن‘ انسان کائنات کی واحد مخلوق ہے جو پتھروں کو ہیرے کی شکل دے سکتی ہے‘ جو مٹی کا محل بنا سکتا ہے اور جو ریت کے ذروں کو شیشے میں ڈھال سکتا ہے‘‘

وہ مسکرائے اور انکار میں سر ہلا دیا‘ میں نے اس کے بعد انسان کی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کا نام لینا شروع کردیا لیکن وہ انکار میں سر ہلاتے رہے یہاں تک کہ میں تھک گیا اور بے بسی سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘

وہ مسکرائے اور نرم آواز میں بولے ’’ آپ نے انسان کی جن خوبیوں اور صلاحیتوں کا ذکر کیا وہ تمام اﷲ تعالیٰ کی دین ہیں اور جب تک اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے یہ خوبیاں قائم اور دائم رہتی ہیں لیکن جب اﷲ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے تو انسان فرعون ہو یا نمرود یا بش اس کی خوبیاں اس کی خامیاں بن جاتی ہیں اور وہ دنیا میں زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے‘‘

میں خاموشی سے سننے لگا‘ وہ بولے ’’ میں آپ کو اب اس سب سے بڑے تحفے کے بارے میں بتاتا ہوں جو اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا‘‘ میں ہمہ تن گوش ہوگیا‘ وہ بولے ’’ قدرت نے انسان کو اﷲ تعالیٰ کو خوش کرنے کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے‘ دنیا کی کوئی دوسری مخلوق‘ کوئی خاکی یا نوری پیکر اس خوبی کی مالک نہیں‘‘

میں نے حیرت سے پوچھا ’’ جناب میں آپ کی بات نہیں سمجھا ‘‘ وہ بولے ’’ مثلاً تم چاند کو لے لو‘ اﷲ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی تو اس نے چاند میں ایک پروگرام فیڈ کر دیا اور چاند اب اس پروگرام کے تحت چمک رہا ہے اور جب تک قدرت پروگرام نہیں بدلے گی یہ چاند اسی طرح چمکتا رہے گا‘

آپ سورج ‘ ستاروں اور سیاروں کولے لیجیے‘ زمین کی حرکت کو لیجیے‘ ہواؤں‘ فضاؤں ‘ندیوں اور نالوں کو لے لیجیے‘ دریاؤں‘ سمندروں اور پہاڑوں کو لے لیجیے‘ زلزلوں‘ طوفانوں اور سیلابوں کو لے لیجیے‘ یہ تمام ایک پروگرام کے تحت چل رہے ہیں اور قدرت یہ پروگرام فیڈ کر کے ان سے لاتعلق ہو گئی‘‘ وہ خاموش ہوگئے۔

میں نے عرض کیا ’’ جناب میں اب بھی آپ کا نقطہ نہیں سمجھ سکا‘‘ وہ بولے ’’ دنیا کا کوئی پہاڑ‘ کوئی درخت‘ کوئی جانور‘ کوئی ستارہ اور کوئی سیارہ اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتا لیکن انسان کو اﷲ تعالیٰ نے اس خوبی سے نواز رکھا ہے کہ وہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے‘ وہ اسے راضی کر سکتا ہے‘‘

میں نے عرض کیا ’’ جناب میں یہی تو آپ سے پوچھ رہا ہوں‘‘ وہ مسکرائے اور بولے ’’ لیکن اس نقطے کو سمجھنے کے لیے مجھے پیچھے تاریخ میں جانا پڑے گا‘‘ میں خاموشی سے سننے لگا‘ وہ بولے ’’ آپ شیطان اور حضرت آدم ؑ کا واقعہ دیکھیے‘ اﷲ تعالیٰ نے شیطان کو حکم دیا وہ انسان کو سجدہ کرے‘ شیطان نے حکم عدولی کی ‘ اﷲ تعالیٰ اس سے ناراض ہوئے اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندئہ درگاہ کردیا‘ شیطان آسمانوں سے اترا اور کروڑوں سال سے زمین پر خوار ہو رہا ہے۔

جب کہ اس کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو گندم کا دانہ چکھنے سے منع فرمایا‘ حضرت آدم ؑ نے بھی اﷲ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی‘ اﷲ تعالیٰ ان سے بھی ناراض ہوئے اور انھیں بھی آسمان سے زمین پر بھیج دیا لیکن حضرت آدم ؑ کے رویے اور شیطان کے رویے میں بڑا فرق تھا‘‘ وہ دم لینے کے لیے رکے اور دوبارہ گویا ہوئے ’’ شیطان زمین پر آنے کے باوجود اپنی بات پر اڑا رہا۔

جب کہ حضرت آدم ؑ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرنے لگے‘ وہ سجدے میں پڑے رہتے تھے ‘روتے جاتے تھے اور اﷲ تعالیٰ سے اپنی کوتاہی‘ اپنی غلطی ‘ اپنے جرم اور اپنے گناہ کی معافی مانگتے جاتے تھے‘ حضرت آدم ؑ کی توبہ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول نہ کرلی اور مشیت ایزدی ان سے راضی نہ ہوگئی‘‘ وہ خاموش ہوگئے۔ 

ہمارے درمیان خاموشی کے بے شمار پل گزر گئے‘ جب یہ وقفہ طویل ہوگیا تو میں نے عرض کیا’’ جناب میں اب بھی آپ کی بات نہیں سمجھا‘‘ وہ مسکرائے اور نرم آواز میں بولے ’’ اﷲ تعالیٰ کا انسان کے لیے سب سے بڑا انعام توبہ ہے‘ انسان اس انعام ‘ اس تحفے کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی ذات کو راضی کر سکتا ہے اور وہ اﷲ جو اپنے بندے کی کسی خطا‘ کسی جرم‘ کسی کوتاہی اور کسی گناہ سے ناراض ہوتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ بندے کی توبہ سے مان جاتا ہے اور اس بندے پر اپنے رحم‘ اپنے کرم اور اپنی محبت کے دروازے کھول دیتا ہے اور یوں انسان سکون میں چلا جاتا ہے‘‘ ۔

وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’ جب تک انسان کو اﷲ کی محبت‘ کرم اور رحم نصیب نہیں ہوتا اس وقت تک انسان کو سکون‘ آرام‘ چین‘ خوشی اور مسرت حاصل نہیں ہوتی‘ خوشی ‘ خوش حالی اور سکون اﷲ کی رضا مندی سے منسلک ہے اور جو شخص‘ جو قوم اور جو طبقہ اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی سے محروم ہو جاتا ہے اس کا سکون‘ خوشی اور خوشحالی چھن جاتی ہے۔

چناںچہ جب بھی انسان کا رزق تنگ ہو جائے‘ اس کا دل مسرت اور خوشی سے خالی ہو جائے‘ وہ چین اور سکون سے محروم ہو جائے اور اسے زندگی میں ایک تپش ‘ڈپریشن اور ٹینشن کا احساس ہو تو اسے چاہیے وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور جھک جائے ‘وہ کثرت سے توبہ کرے اور وہ اﷲ تعالیٰ کو راضی کرے‘‘

میں خاموش رہا‘ وہ بولے ’’ یہ سکون کا ایک نسخہ ہے‘ سکون کا دوسرا نسخہ معافی ہے‘ ہم لوگ دن میں اوسطاً سو سے تین سو تک غلطیاں کرتے ہیں‘ اگر ہم ہر غلطی پر معذرت کو اپنی روٹین بنالیں‘ ہم نے جلدبازی‘ بے پروائی‘ نفرت‘ غصے‘ تکبر اور ہٹ دھرمی میں جس شخص کا حق مارا‘ ہم نے جس کو نقصان پہنچایا اور ہم نے جس کو ڈسٹرب کیا‘ ہم اگر فوراً اس شخص سے معافی مانگ لیں تو بھی ہماری زندگی میں سکون ‘ آرام اور خوشی آسکتی ہے‘ ہمیں معافی مانگنے میں کبھی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔

کیونکہ معافی وہ چٹان ہے جس کے نیچے سکون‘ خوشی اور خوشحالی کے چشمے چھپے ہیں اور جب تک ہم یہ چٹان نہیں سرکائیں گے‘ ہم خوشی‘ خوشحالی اور سکون کا ٹھنڈا پانی نہیں پی سکیں گے‘‘ وہ رکے اور دوبارہ بولے ’’ یاد رکھو دنیا میں صرف اور صرف شیطان توبہ اور معافی سے دور رہتا ہے جب کہ اﷲ کے بندے ان دونوں چیزوں کو اپنی روٹین بنا لیتے ہیں‘ ہٹ دھرمی‘ تکبر‘ ظلم‘ ضد‘ نفرت اور غصہ شیطان کی خامیاں ہیں اور جن لوگوں کی ذات میں یہ ساری خامیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں‘ تم کبھی ان کے منہ سے توبہ اور معافی کا لفظ نہیں سنو گے۔

چناںچہ تم کبھی ان لوگوں کو پرسکون‘ خوش اور خوش حال نہیں پاؤ گے‘ یہ دولت مند ہو سکتے ہیں لیکن یہ دولت انھیں خوشی اور سکون فراہم نہیں کرتی‘ تم ان لوگوں کا انجام بھی اچھا ہوتا نہیں دیکھو گے جب کہ معافی اور توبہ کرنے والے لوگوں میں تمہیں غصہ‘ نفرت‘ضد‘ ظلم‘ تکبر اور ہٹ دھرمی نہیں ملے گی اور تمہیں یہ لوگ کبھی پریشان‘ ڈپریس اور ٹینس نہیں ملیں گے چنانچہ ہر لمحہ لوگوں سے معافی مانگتے رہو اور اﷲ سے توبہ کرتے رہو‘ تمہاری زندگی سے کبھی سکون‘ خوشی اور خوش حالی کم نہیں ہوگی‘‘ وہ خاموش ہوگئے‘ میں نے ان کے گھٹنے چھوئے اور باہر آگیا۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: پتنگ بازوں کو گنجا کرنے پر پولیس نے عدالت میں معافی مانگ لی
  • ملائشیا میں خوفناک آتشزدگی سے درجنوں لوگوں کو بچانے والے 5 پاکستانی ہیروز کو خراج تحسین
  • مہرستان دہشتگردانہ حملے کے مرتکب افراد کو فی الفور شناخت کر کے قرار واقعی سزا دینگے، اسمعیل بقائی
  • ایران میں پاکستانی شہریوں پر دہشتگردانہ حملے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کر لی
  • ایک تصویر اور ہزاروں انمٹ درد، اسرائیلی حملے میں 6 فلسطینی بھائیوں کی ایک ساتھ شہادت
  • فیروز خان کے عالمی منصوبوں سے متعلق بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید
  • ریحام خان نے اپنی مادری زبان میں سُر بکھیر دیے، ویڈیو وائرل
  • ایران نے منجمد رقوم کی واپسی اور پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے، وال اسٹریٹ جرنل
  • معافی اور توبہ
  • رجب بٹ نے ماں کے نام پر ایک اور تنازعہ کھڑا کردیا