ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس فیصلے سے کل دنیا کے سامنے شرمندگی ہوئی، علیمہ خان
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس فیصلے سے کل دنیا کے سامنے شرمندگی ہوئی، علیمہ خان WhatsAppFacebookTwitter 0 18 January, 2025 سب نیوز
لاہور:بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی بہنوں علیمہ خان نے 190 ملین پاؤنڈ کیس فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستان میں ہوتا رہا ہے کہ جب جس کو دل کرے مقدمہ میں نامزد کر دیں ، کل دنیا کے سامنے شرمندگی ہوئی ہے۔،
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے کہا کہ 9نو مئی اور 5اکتوبر کے 2کیسز میں یہاں اے ٹی سی آئے تھے، ہم نے جج سے گزارش کی کہ اس پر فیصلہ سنا دیں، ہمارے وکیل نے اپنا موقف پیش کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن اور تفتیشی افسر نے کہا کہ فائل نہیں ہے، تاریخ دے دیں، ہم 4 اکتوبر کو اسلام آباد میں گرفتار ہو گئے تو ہمیں پانچ اکتوبر کے مقدمہ میں ڈال دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان میں ہوتا رہا ہے کہ جب جس کو دل کرے مقدمہ میں نامزد کر دیں ، کل دنیا کے سامنے شرمندگی ہوئی ہے، ہمیں آئندہ کے لیے اچھا رسپانس چاہیے جو عوام کو تحفظ اور انصاف دیں، ہم سارے اس نظام کی ریفارمز چاہتے ہیں۔
علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بھائی سے ملاقات کرتے ہیں اور انکا پیغام لے کر آتے ہیں، ہم سب کو پہلے پتا تھا کہ اس میں سزا ہونی ہے، جج صاحب سے بہتر ہمیں پتا تھا، یہ 190 ملین پاؤنڈ کا کیس نہیں یہ القادر کیس ہے۔
انہوں نے کہا کہ 171 یا 170 ملین پاؤنڈ پاکستان آئے تھے، یہ فیصلے لکھے ہوئے آتے ہیں اور انکو سنا دیا جاتا ہے، ہمیں لا کی ڈگری دے دیں ہم نے جتنے عدالتوں کے چکر لگا لیے، رشوت کا کیس بانی پی ٹی آئی پر بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلاحی ادارے کو گورنمنٹ کے حوالے کر دیا گیا، ہم بانی پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف ہائیکورٹ جائیں گے۔
قبل ازیں انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں بانی پی ٹی کی بہنوں کے خلاف پانچ اکتوبر اور نو مئی کے دو مقدمات میں عبوری ضمانت پر سماعت ہوئی، علیمہ خانم اور عظمی خان اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت پیش ہوئیں۔
علیمہ خان اور عظمی کے وکیل رانا مدثر عمر ایڈوکیٹ نے دلائل دے دیے اور مؤقف اپنایا کہ یہ جس دن کا وقوعہ ہے اس دن درخواستگزار اسلام آباد میں تھیں ، یہ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں ہیں اس وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ بنایا گیا، وکیل نے مؤقف اپنایا عدالت ضمانتیں کنفرم کرنے کا حکم دے۔
پراسیکیوشن نے دلائل کے لیے مہلت طلب کی اور کہا کہ ہم نے صبح سے انتظار میں رکھا ہوا ہے کیس اب آپ تاریخ کی بات کر رہے ہیں، جناح ہاؤس کیس میں تفتیش تاحال مکمل نہیں ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی ملین پاو نڈ علیمہ خان نے کہا کہ تھا کہ
پڑھیں:
اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے!
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم تمام فیصلے اتحادیوں کی مشاورت سے کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت میں باہمی اعتماد سازی کی فضا خوش آیند ہے اور حکومت ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے یکسوئی سے کام کر رہی ہے۔
دریائے سندھ سے 6نہریں نکالنے کے اہم مسئلے پر سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی بھی اپنے سیاسی مخالفین کے بعد خود بھی اس صوبائی احتجاج میں بھرپور طور پر شریک ہو چکی ہے۔
صدر مملکت پارلیمنٹ میں 6 کینالز نکالنے کی مکمل طور پر مخالفت کر چکے ہیں جب کہ وفاق اور سندھ کے اس تنازع میں صورتحال مزید کشیدہ ہو چکی ہے جب کہ اس معاملے میں پنجاب کو خود کو دور رکھنا چاہیے تھا تاکہ صدر مملکت اور وزیر اعظم اس مسئلے کو خود حل کرنے کی کوشش کرتے، اس معاملے میں سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے وزرائے اطلاعات بھی خاموش نہیں رہے اور دونوں نے اس سلسلے میں بیان بازی کی۔
وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا ہے کہ کینالز منصوبہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد اعلان ہوا جس کے ثبوت موجود ہیں جب کہ وزیر اطلاعات سندھ نے اس سلسلے کے میٹنگ منٹس کو من گھڑت قرار دیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو آئین پڑھنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں جس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کینالز منصوبے کو نامنظور کرکے عوام کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان کر چکے ہیں جس کے بعد پنجاب حکومت نے جواب دینا نہ جانے کیوں ضروری سمجھا جس کا جواب سندھ نے دیا۔
اگر صدر مملکت آصف زرداری نے کسی وجہ سے کینالز منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سندھ میں ان کے سیاسی مخالفین نے اس کی نہ صرف مخالفت شروع کی بلکہ صدر مملکت کو بھی اس میں شریک قرار دیا اور سندھ میں احتجاج پر وفاقی حکومت خاموش رہی اور بڑھتی مخالفت کے بعد پیپلز پارٹی کو بھی کینالز پر اپنی سیاست متاثر ہوتی نظر آئی تو اس نے بھی یوٹرن لیا اور اس طرح وہ بھی دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کی مخالف ہوگئی اور احتجاج میں شریک ہوگئی اور یہ سلسلہ سندھ میں دونوں طرف سے احتجاج بڑھاتا رہا اور اب یہ مسئلہ انتہا پر پہنچ چکا ہے اگر اتحادی حکومت کے فیصلے اتحادیوں کے مشوروں سے ہوتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اور کینالز منصوبے کا انجام بھی کالاباغ ڈیم جیسا نہ ہوتا۔
کالاباغ ڈیم کا پنجاب حامی اور باقی صوبے مخالف تھے اس لیے کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا اور اب کینالز منصوبے پر صرف سندھ مخالف ہے کیونکہ پانی نہ ملنے سے سندھ ہی متاثر ہوگا اور فائدہ پنجاب کا ہونا ہے اس لیے وفاق کے منصوبے کی وجہ سے سندھ اور پنجاب سامنے آگئے جس کے بعد حکومت کے مخالفین جن میں پی ٹی آئی پنجاب بھی شامل ہے پنجاب کی مخالفت میں سامنے آگئی اور ملک کے تمام قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کو پنجاب کی مخالفت کا موقعہ مل گیا ہے۔
سندھ میں پی پی کے مخالفین کی مخالفت کے بعد اگر صدر مملکت اور وزیر اعظم باہمی مشاورت سے کوئی فیصلہ کر لیتے تو سندھ اور پنجاب حکومتوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہ ہوتی۔اتحادی حکومت سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ بلانے پر پیپلز پارٹی شکایت کرتی آ رہی ہے جس کے بعد ایم کیو ایم دوسری وزارت ملنے پر بھی نہ خوش ہے اور حکومت کی حمایت ترک کرنے کی دھمکی بھی دے چکی ہے تو وزیر اعظم کیسے کہہ رہے ہیں کہ ہم تمام فیصلے اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے کرتے ہیں؟ کہنے کو حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے جو پیپلز پارٹی کے ساتھ عہدوں کی تقسیم سے بنائی گئی تھی جس میں تیسری بڑی پارٹی ایم کیو ایم ہے اور دونوں کو شکایت ہے کہ اتحادی حکومت اہم فیصلوں میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیتی اور فیصلے پہلے اپنے طور کر لیتی ہے اور مشاورت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں سے پہلے بھی اس کے اتحادیوں کو مشاورت نہ کرنے کی شکایت ماضی میں بھی رہی ہے جب کہ اس وقت وہ صرف چھوٹے اتحادی تھے جن کے الگ ہونے سے (ن) لیگی حکومت قائم رہی تھی مگر اب صورت حال 2008 جیسی نہیں جب (ن) لیگ، پی پی حکومت سے الگ ہوئی تھی اور پی پی حکومت نے نئے اتحادی ملا کر اپنی مدت پوری کر لی تھی اب وہ صورتحال نہیں اور پیپلز پارٹی جب چاہے (ن) لیگی حکومت سے اتحاد ختم کرکے حکومت ختم کراسکتی ہے اور (ن) لیگ پی پی کو ملے ہوئے آئینی عہدے ختم نہیں کرا سکتی اور پی پی پی، پی ٹی آئی کو نیا اتحادی بنا سکتی ہے۔ اتحادیوں کو نظرانداز کرکے یکطرفہ فیصلے کرنا درست نہیں۔
ماضی میں پی ٹی آئی حکومت کی حمایت اختر مینگل نے ختم کی تھی کیونکہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے تھے۔ آصف زرداری میں اپنے چھوٹے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ضرور ہے وہ اپنی قرار دی گئی قاتل لیگ کو نائب وزیر اعظم بنا دیتے تھے مگر (ن) لیگ کسی اتحادی عہدہ دینے سے کتراتی ہے اور وہ ماضی میں آصف زرداری کو ناراض کرکے اپنی بلوچستان حکومت ختم کرا چکی ہے۔
حکومت بنانے کے لیے وعدے کرکے اپنے اتحادی بڑھانا اورحکمران بن کر اتحادیوں سے کیے گئے وعدے بھول جانا ماضی میں بھی ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے اور دعویٰ ہے کہ ہم اتحادیوں کی مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت سے پی پی مطمئن ہے نہ ایم کیو ایم مگر کوئی مجبوری ضرور ہے کہ یہ ایک سال بعد بھی حکومت کے اتحادی ہیں مگر اب سندھ میں پی پی کی سیاست واقعی خطرے میں ہے اور لگتا ہے کہ پنجاب حکومت بھی کچھ مختلف چاہتی ہے، اس لیے کینالز کے تنازعے میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے کر معاملہ سلجھانے کے بجائے مزید الجھایا جا رہا ہے۔