جیلیں انڈر ٹرائل ملزمان سے بھرگئیں، گنجائش سے 152 فیصد زائد قیدی ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)پاکستان کی جیلوں میں گنجائش سے 152 فیصد زائد قیدیوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، ان میں سے 75 فیصد ٹرائل کے منتظر ہیں یا ان کا ٹرائل چل رہا ہے۔نجی چینل رپورٹ کے مطابق 2024 میں ’پاکستان کی جیلوں کا منظر نامہ: رجحانات، اعداد و شمار اور ترقی‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ قیدیوں کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی، مضر صحت زندگی کے حالات، صاف پانی تک ناکافی رسائی، غذائیت سے بھرپور خوراک اور صحت کی دیکھ بھال، استحصالی مزدوری، اہل خانہ اور قانونی مشیروں کے ساتھ محدود رابطہ اور شکایت کے مؤثر طریقہ کار کا فقدان شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ منشیات سے متعلق جرائم والے افراد کو زیادہ قید میں رکھنا اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر)، نیشنل اکیڈمی آف جیل ایڈمنسٹریشن اور جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد میں معمولی اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جو گزشتہ سال کے 3 ہزار 604 کے مقابلے میں 2024 میں بڑھ کر 3 ہزار 646 ہوگئی۔رپورٹ میں جامع عدالتی اصلاحات اور سزا کے متبادل اقدامات کو اپنانے کی سفارش کی گئی ہے، اس میں جیلوں کے گہرے بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان جیل قوانین کو بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
جیلوں میں رش
رپورٹ کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں میں قیدیوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 2 ہزار 26 ہے جنہیں 128 آپریشنل مراکز (جیلوں) میں رکھا گیا ہے، جن میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے قیدی بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد 152.
دریں اثنا، اس وقت ملک بھر کی جیلوں میں ایک ہزار 580 سے زائد نابالغ قیدی قید ہیں، جن میں خواتین نابالغ قیدی کل نابالغ قیدیوں کی تعداد کا صرف 0.7 فیصد ہیں۔اپریل 2024 تک ملک کی جیلوں میں 1100 سے زائد غیر ملکی قیدی تھے، جن میں سب سے زیادہ تعداد افغان شہریوں کی ہے، اس کے علاوہ بھارتی ، بنگالی اور نائجیریا کے شہری بھی قید ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی سینٹرل جیل میں سرکاری گنجائش صرف 2 ہزار 400 ہونے کے باوجود 8 ہزار 518 قیدی موجود ہیں، جو اس کی گنجائش سے ڈھائی سو فیصد زائد ہے۔رپورٹ میں خواتین اور نابالغ قیدیوں کے لیے خصوصی سہولتوں کا ذکر کیا گیا ہے، خواتین کے لیے 4 جیلوں میں سے 3 سندھ (کراچی، حیدرآباد اور سکھر) میں ہیں، جب کہ پنجاب میں خواتین کے لیے صرف ایک جیل ہے، بصورت دیگر، خواتین کو مردوں کی جیلوں کے اندر الگ بیرکوں میں رکھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ نابالغ قیدیوں کے لیے ایسے 5 مراکز میں سے 3 سندھ میں اور 2 پنجاب میں ہیں۔
نوجوان بھارتی اداکار کار حادثے میں جاں بحق
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قیدیوں کی تعداد نابالغ قیدی میں خواتین جیلوں میں رپورٹ میں کی جیلوں گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟