ویب ڈیسک — 

امریکہ کے منتخب نائب صدر جے ڈی وینس کی اہلیہ اوشا وینس امریکہ کی اگلی خاتونِ دوئم ہوں گی ۔ 20 جنوری کو جے ڈی وینس کی حلف برداری کے بعد ییل یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ اوشا اب تک کے کسی بھی امریکی نائب صدر کی پہلی جنوبی ایشیا ئی نژاد امریکی اہلیہ بن جائیں گی ۔

اوشا وینس ، ایک وکیل اور بھارتی تارکین وطن کی بیٹی، نائب صدر کی اہلیہ کے طور پر ایک تاریخی کردارسنبھالنے والی ہیں ۔ آئیے اب جب وہ واشنگٹن منتقل ہونے کے لیے تیار ہیں ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کا اپنے شوہر کے سیاسی کیرئیر اور دلچسپیوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے ۔

ری پبلکن منتخب نائب صدر جے ڈی وینس اور ان کی اہلیہ اوشا وینس، ملواکی میں15 جولائی 2025 کو ری پبلکن نیشنل کنونشن کے موقع پر ، فوٹو اے پی

اوشا وینس 1986 میں کیلی فورنیا میں بھارت سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئی تھیں ۔ وہ ییل یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ایک وکیل ہیں جو سپریم کورٹ کے دو قدامت پسند ججز کی کلرک رہ چکی ہیں ۔

ان دونوں کی ملاقات لاء اسکول میں ہوئی تھی۔ 2014 میں ان دونوں کی شادی ہوئی اور ان کے تین بچے ہیں ۔ جب سے ان کے شوہر سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں انہوں نے خود کو اس شعبے سے نسبتاً دور رکھا ہے ۔

وائٹ ہاؤس کے اسٹاف کی ایک سابق رکن ،اور امیریکن یونیورسٹی کی ایک ایکزیکٹیو انیتا میک برائڈ کہتی ہیں کہ خاتون دوئم اوشا وینس ایک رول ماڈل ہیں ۔

اوشا وینس یکم نومبر 2025 کو ایک انتخابی ریلی کے دوران، فوٹو اے پی

انیتا نے زوم پر ایک انٹر ویو میں کہا ،’’ ہمارے ملک کی سیاست اور سول سوسائٹی ، اور معاشرے اور قائدانہ کردار کے تمام پہلووں اور مختلف درجوں تک متنوع لوگوں کا پہنچنا ہمارے ملک کے لیے ایک اچھی بات ہے ۔

تاہم اوشا وینس کے عوامی طور پر نمایاں ہونے نے امیگریشن کے بارے میں بھر پور بحث مباحثوں کو بھی اجاگر کیا ہے ۔

منتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں پیدائش کے ساتھ شہریت دینے کے حق کو فوری طور پر بند کرنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی اداروں کو ہدایت دیں گے کہ وہ امریکہ میں پیدا ہونے والے کسی بھی بچے کو امریکی شہری قرار دیتے ہوئے یہ تقاضا کریں کہ اس کے والدین میں سے کم از کم ایک امریکی شہری ہو یا قانونی طور پر امریکہ کا مستقل رہائشی ہو۔




انہوں نے کہا تھا کہ آئندہ کسی بھی غیر قانونی تارکین وطن کے بچوں کو امریکی شہریت خود بخود نہیں مل جائے گی۔

ٹرمپ کے کیمپ میں اعلیٰ ہنرمند کارکنوں کے لیے ایچ۔ون۔ بی H1B نامی عارضی ویزوں پر،تند و تیز مباحثوں کے دوران اوشا وینس نے اپنا کردار ادا کیا ۔ یہ ویزے حاصل کرنے والے اکثرکارکن بھارتی شہری ہیں۔

ایچ ون بی ، ویزا پروگرام امریکی آجروں کو مخصوص شعبوں میں اعلیٰ ہنر مندغیر ملکیوں کو عارضی طور پر ملازمت دینے کی اجازت دیتا ہے ۔

اگرچہ پیدائش کے ساتھ شہریت کے حق سے متعلق یہ تجویز متوقع طور پر قانونی چیلنجوں کے سامنے کمزور پڑ جائے گی تاہم ٹرمپ کے ناقد کہتے ہیں کہ والدین سے یہ کہنا کہ وہ اپنی قانونی حیثیت ثابت کریں اور صرف مستقل رہائشیو ں کو یہ حق دینا مشکلات کا سبب بنے گا۔




اوشا وینس کو بھی امریکی سوسائٹی میں سفید فام نہیں سمجھا گیا ہے ، جن کے بارے میں ان کے شوہر جے ڈی وینس نے تسلیم کیا کہ یہ بات کچھ امریکیوں کےلیے ایک مسئلہ ہے ۔

منتخب نائب صدر جے ڈی وینس نے قدامت پسند یو ٹیوبر میگن کیلی کے ساتھ ایک انٹر ویو میں اپنی اہلیہ اوشا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، کہ، ’’ ظاہر ہے وہ ایک سفید فا م خاتون نہیں ہیں اور سفید فام بالادستی کے کچھ حامیوں نے ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔لیکن میں اوشا سے محبت کرتا ہوں، وہ اتنی اچھی ماں ہیں ، وہ اتنی شاندار وکیل ہیں اور مجھے ان پر بہت فخر ہے۔‘‘

بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں واقع ان کے آبائی گاؤں ودلورو کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ ان میں سے ان کا کوئی اپنا اتنی بلندیوں تک پہنچا۔ ان کے شوہر ایک کیتھولک عقیدے کے حامل ہیں جب کہ وہ ایک پریکٹیسنگ ہندوہیں ۔




ودلوروکے ایک رہائشی سرینیواس نے کہا کہ ،’’ میں واقعی خوش ہوں اور میرے گاؤں کے لوگ بھی خوش ہیں ۔ اگر مستقبل میں اوشا امریکہ کی صدر بن گئیں تو پھر میں اس سے بھی زیادہ خوش ہوں گا۔‘

میک برائڈ نے وینس پر زور دیا کہ وہ اپنے تین امریکی بچوں پر توجہ مرکوز رکھیں جو اب عالمی توجہ کا مرکز رہیں گے ۔

زوم پر ایک انٹرویو کے دوران اوشا کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ان کے تین بچے ہیں ، ایک دو سال، دوسراپانچ اور تیسراسات سال کا اور میرا خیال ہے کہ وینس کو یہ یقینی بناناہوگا کہ وہ لوگوں کی نظر میں اس نئی زندگی میں ہم آہنگ دکھائی دیں ۔ ان کی ہر ممکن حفاظت کرنی ہوگی خاص طور پر اسکول کی عمر کے بچوں کی ۔ ‘‘

اوشا وینس بیس جنوری کو امریکی خاتونِ دوئم کے طور پر اپنا کردار سنبھالیں گی۔

انیتا پاول، وی او اے

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل کے بارے میں جے ڈی وینس اوشا وینس کی اہلیہ ہیں اور ہیں کہ پر ایک

پڑھیں:

ڈالر کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اپریل 2025ء) وائٹ ہاؤس کی کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز کے چیئرمین اسٹیفن میران عالمی تجارتی اور مالیاتی نظام میں بڑی تبدیلی کی وکالت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ڈالر کمزور ہونے سے امریکی معیشت زیادہ ترقی کرے گی۔

میران نے اپنی حکمت عملی 41 صفحات پر مشتمل ایک مضمون میں پیش کی ہے۔ ''عالمی تجارتی نظام کی تشکیل نو، صارفین کے لیے ایک گائیڈ‘‘ نامی اس مضمون میں انہوں نے استدلال کیا کہ محصولات عائد کرنا اور مضبوط ڈالر کی پالیسی سے پیچھے ہٹنا ایسی پالیسیاں ہیں، جو عالمی تجارتی اور مالیاتی نظام کو از سر نو ترتیب دے سکتی ہیں۔

‘‘

ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل میران کا یہ مضمون نومبر میں ٹرمپ کی انتخابی فتح کے بعد شائع ہوا تھا لیکن امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی نئی ''تجارتی جنگ‘‘ کے بعد یہ زیادہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

(جاری ہے)

المختصر، انہوں نے اپنی اس حکمت عملی میں اضافی محصولات اور کمزور ڈالر پر زور دیا ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مضمون امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ''تجارتی جنگ‘‘ کے لیے نظریاتی جواز فراہم کرتا ہے۔

میران کا کہنا ہے کہ مضبوط ڈالر امریکی برآمدات کو غیر مسابقتی جبکہ درآمدات کو سستا کرتا ہے، جس سے امریکی مینوفیکچررز کو نقصان ہوتا ہے کیونکہ اس طرح امریکہ میں کارخانے قائم کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

ڈالر ایک اہم عالمی کرنسی

ڈالر روایتی طور پر جنگوں یا بحرانوں کے دوران سرمایہ کاروں کے لیے ایک محفوظ کرنسی سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں پر خدشات کے باعث اس کی قدر میں کمی آئی ہے۔

دنیا بھر کی کمپنیاں اور حکومتیں تیل، ہوائی جہازوں اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے ڈالر کا استعمال کرتی ہیں۔

مضبوط ڈالر امریکی حکومت کے بانڈز کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بنا دیتا ہے، جس سے امریکہ کو تقریباً لامحدود ادھار لینے کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔

'پلازا ایکارڈ‘ جیسی ایک نئی ڈیل

میران نے پلازا ایکارڈ جیسا ایک معاہدہ کرنے کی تجویز دی ہے۔

یاد رہے کہ سن 1985ء میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، مغربی جرمنی اور جاپان نے نیویارک کے پلازا ہوٹل میں ایک ڈیل کو حتمی شکل دی تھی، جس کے تحت تب ڈالر کی قدر کو کنٹرول طریقے سے کم کیا گیا تاکہ امریکی تجارتی خسارہ کم کیا جا سکے۔

میران کے مطابق نئے معاہدے کو ''مار اے لاگو ایکارڈ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مار اے لاگو دراصل فلوریڈا میں قائم صدر ٹرمپ کے ایک ریزارٹ کا نام ہے۔

محصولات، سودے بازی کا ایک آلہ

میران کے بقول صدر ٹرمپ محصولات کو سودے بازی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یورپ اور چین جیسے تجارتی شراکت داروں کو ایک نئی ڈیل کے لیے راضی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

میران نے تجویز دی کہ ڈالر کی قدر کو کم کرنے کے لیے امریکی پارٹنرز کو ڈالر کے ریزرو فروخت کرنا ہوں گے۔

ایک اور تجویز یہ ہے کہ امریکی خزانے کے بانڈز، جنہیں عموماً چند سالوں کے لیے خریدا جاتا ہے، انہیں 100 سال کی مدت والے قرض سے تبدیل کر دیا جائے۔

اس سے امریکہ کو بار بار قرض واپس کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور مارکیٹ میں ممکنہ مالی بحران کی وجہ سے شرحِ سود میں اضافے کے خدشات بھی کم ہو سکیں گے۔

میران نے یہ تجویز بھی دی کہ ایسے غیر ملکی سرکاری ادارے، جو امریکی خزانے کے بانڈز رکھتے ہیں، ان پر ''یوزر فیس‘‘ عائد کی جائے تاکہ حکومتی خزانے کو دوبارہ بھرا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ جو ممالک تعاون کریں گے، ان پر عائد محصولات کم کیے جا سکیں گے جبکہ وہ اپنی اپنی سلامتی کے لیے امریکی عسکری تحفظ پر انحصار جاری رکھ سکیں گے۔

اس منصوبے پر تنقید کی وجہ کیا ہے؟

برطانیہ میں قائم کیپیٹل اکنامکس کی سینئر اقتصادی مشیر وکی ریڈووڈ کا کہنا ہے کہ امریکی قرض دہندگان کو بانڈز کے تبادلے پر مجبور کرنا دراصل ''امریکی قرضوں پر عملاً ڈیفالٹ‘‘ ہو گا۔

سوئس بینک پکٹے کے ماہرین نے بھی اس حوالے سے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی ادائیگیوں پر ''یوزر فیس‘‘ عائد کرنا ’’انتہائی غیر حقیقی‘‘ ہے اور یہ معاہدے کی خلاف ورزی یا ڈیفالٹ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔

پیرس اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر ایرک مونے کے مطابق سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ اس نئے امریکی معاہدے کی شرائط کیا ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں کہا تھا، ''اگر امریکہ دیگر ممالک کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جائے تو قانونی طور پر یہ اقدام بغیر ڈیفالٹ کے ممکن ہے۔‘‘

ماہرین اقتصادیات نے میران کی تجاویز پر پر سخت تنقید کی ہے۔

ریڈووڈ نے کہا، ''اگر امریکہ واقعی اپنا تجارتی خسارہ کم کرنا چاہتا ہے، تو اس کے بہتر طریقے موجود ہیں۔‘‘

پکٹے کے ماہرین کے مطابق، ''ممکنہ مار اے لاگو معاہدہ نظریاتی اور عملی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔‘‘

برطانوی ادارے آکسفورڈ اکنامکس کے ماہرِ اقتصادیات ایڈم سلیٹر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر واقعی تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے تو ڈالر کی قیمت میں کم از کم 20 فیصد کمی ضروری ہو گی۔

ادارت: افسر اعوان

متعلقہ مضامین

  • سچ بولنے پر ویزا مسترد؟ بھارتی شہری کا امریکی ویزا 40 سیکنڈ میں ریجیکٹ
  • امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے فٹبال ٹرافی توڑ دی، دلچسپ ویڈیو وائرل
  • ڈالر کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے؟
  • امریکی سفارتخانہ کے وفد کی اڈیالہ آمد، امریکی نژاد قیدی تک قونصلر رسائی
  • امریکہ کی جانب سے یمن کے الحدیدہ پر 4 بار حملہ
  • فلم ’کافِر‘ کے ریپ سین سے الجھن اور کپکپاہٹ کا شکار تھی؛ دیا مرزا کا انکشاف
  • امریکی سفارتخانے کے وفد کی اڈیالہ جیل آمد
  •  امریکی سفارت خانے کا وفد اڈیالہ جیل پہنچ گیا
  • ایپل کا انوکھا قدم: بھارتی آئی فونز کو امریکی ٹیرف سے بچانے کا منصوبہ کامیاب
  • بھارتی خاتون نے سرکاری نوکری ہتھیانے کے لیے شوہر قتل کردیا