Nai Baat:
2025-01-18@07:36:07 GMT

اچھی معیشت گڈ گورننس کے لیے ناگزیر

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

اچھی معیشت گڈ گورننس کے لیے ناگزیر

معاشیات کا قدیم تصور یہ ہے کہ اسے دولت کا علم قرار دیا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں یہ تصور آج بھی کافی حدتک موجود ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی معیشت کے بنیادی عقائد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا علاوہ ازیں ریاستی ماہرین کی طرف سے معاشی معاملات کی وضاحت کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں وہ عوام الناس کے لیے ناقابل فہم ہیں لہٰذا کوئی سمجھنا چاہیے بھی تو یہ اس کے لیے آسان نہیں ہوتا بلکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ معیشت کی بات آتی ہے تو اعداد و شمار عام صارفین کا راستہ روک لیتے ہیں حالانکہ حکومتیں تحریف کردہ اعداد و شمار کے ذریعے عام آدمی کو قائل کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ عوامی نفسیات یہ ہے کہ انسان جب کنفیوژہو جاتا ہے تو پھر وہ غیر حقیقی معلومات کا بھی قائل ہو جاتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آج کے دور میں عوام کا معیشت کے بنیادی اصولوں سے واقف ہونا ناگزیر ہے تا کہ انہیں سرمایہ داروں کا رپوریٹ طبقے اور حکومتوں کی حیلہ بازیوں کا علم ہو سکے کہ کس کس طرح عوام کا استحصال جاری رہتا ہے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کے سابق پروفیسر ڈاکٹر فہد رحمن کا شمار ان ماہرین معاشیات میں ہوتا ہے جن کا فوکس یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے معیشت کی ABC سمجھے بغیر قطعی طور پر کوئی چارہ نہیں۔ جب تک وہ نہیں سمجھیں گے وہ سیاسی قیادت کی معاشی پالیسی اور سیاستدانوں کی عوام سے متعلق خیر خواہی کا پردہ چاک نہیں کر سکیں گے۔ ہر الیکشن کے موقع پر ووٹرز اگر پارٹیوں کی معاشی کارکردگی یا اگلے الیکشن کے لیے سیاسی منشور کی کسوٹی بنائیں تو یقینا اس سے ملک میں عوام دوست قیادت اقتدار میں آسکتی ہے۔
محترم ڈاکٹر فہد رحمن نے یونیورسٹی آف نیو ساو¿تھ ویلز آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ہے اس سے پہلے انہوں نے جاپان کی معتبر یونیورسٹی GRIPS سے پالیسی سٹیڈیز میں ماسٹرز کیا اور کافی عرصہ تک پاکستان کے سرکاری ادارے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی SMEDA میں فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی حال ہی میں شائع ہونے والی انگریزی کتاب "Pakistan Structural Economic Problems in the Era of Financial Globalization عکس پبلی کیشن لاہور نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب غیر روایتی انداز میں سادہ اور عام فہم زبان میں ہے جس میں بھاری بھر کم معاشی اصطلاحات سے گریز کیا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے قاری کا اکانومسٹ یا ریسرچر ہونا ضروری نہیں۔ کتاب کے شروع میں جی سی یونیورسٹی لاہور کے ہسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر محترم عرفان وحید عثمانی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی انڈیا کے پروفیسر امیت بہادری کے خیالات درج کیے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا فطری تجسس پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ Grips جاپان کے پروفیسر ڈاکٹر امداد حسین نے کتاب پر اپنا مختصر تجزیہ رقم کیا ہے۔
ڈاکٹر فہد رحمن کہتے ہیں کہ عام طور پر کسی ملک کی معاشی پرفارمنس کا اندازہ لگانے کے لیے ملک کی جی ڈی پی یا فی کس قومی آمدنی کو ایک indicator سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اگر جی ڈی پی بڑھ رہی ہے تو ملک ترقی کر رہا ہے لیکن اس کے برعکس کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ درست نہیں ہے کیونکہ حکومتیں اعداد و شمار کے بارے میں سمجھ مبالغہ آمیزی کام لیتی ہیں لہٰذا اس کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی حکومت تعلیم صحت نکاسی¿ آب اور سماجی ڈھانچے پر کتنا خرچ کر رہی ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن کے مطابق انہوں نے کوشش کی ہے کہ فنانشل گلوبلائزیشن کے اس دور میں معیشت کے سٹرکچرل ایشوز کو منظر عام پر لایا جائے۔
مصنف کا خیال ہے کہ غیر مستحکم معاشی اور سیاسی حالات کی وجہ سے روزگار کے حصول کے لیے دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت سماجی ڈھانچے پر دو طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے ایک تو شہری زندگی پر دباو¿ بڑھتا جا رہا ہے دوسرا اہل افرادی قوت کی نقل مکانی سے دیہات میں ترقی اور بہتری کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن پہلے معیشت دان بھی جو برین ڈرین کے مقامی اثرات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
کتاب کے شروع میں معیشت کے روایتی اور غیر روایتی Formal & Informal شعبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملازمتوں کے ضمن میں 72 فیصد سے زیادہ افرادی قوت informal سیکٹر میں کام کر رہی ہے۔ یہ 2021 ءکے اعداد و شمار ہیں۔
ڈاکٹر فہد رحمن کی کتاب کا سب سے اہم موضوع فنانشل گلوبلائزیشن ہے جو ہماری قومی معیشت پر سب سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اس گلوبلائزیشن کا حصہ بن رہے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے لیے اس میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود اس کی مثالیں ہیں جو گلوبلائزیشن کی وجہ سے کافی تغیر پذیر ہیں اس سے زرعی شعبے میں منفی اثرات پڑتے ہیں۔
Multiple Financial Institutions یا MFIs کو مصنف نے کافی تفصیل سے ان کی معاشی مداخلت کو اجاگر کیا ہے ان سے مراد بین الاقوامی قرضہ دینے والے ادارے بشمول آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک شامل ہیں جو ایسی پالیسیاں زبردستی تھوپ دیتے ہیں جو طویل مدتی طور پر بجائے فائدے کے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ ڈاکٹر فہد رحمن کا کہنا ہے کہ قومی معاشی مسائل کے حل کے لیے ہمیں MFis کی بجائے مقامی ماہرین پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سٹرکچرل ریفارمز کے نتیجے میں عوام کی زندگی پر آنے والے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر فہد رحمن کہتے ہیں کہ ہر ملٹری اور سول حکومت آئی ایم ایف کے پاس قرضہ لینے پر مجبور ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حکومت قرضہ لیتی ہے تو اپوزیشن اس کی مخالفت کرتی ہے اور کشکول جیسے الفاظ استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ ان کے بغیر ادائیگیوں کا توازن ناممکن ہے البتہ میکرو اکنامک ریفارم کے نام پر کیے گئے اقدامات معیشت کی نشوونما کا عمل بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
کتاب کے دوسرے حصے میں انہوں نے پاکستان کے سٹرکچرل معاشی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے 5 شعبوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے جس میں ناقابل برداشت حد تک مہنگی بجلی، زوال اور جمود پذیری کا شکار زرعی شعبہ، اوسط درجے کا انڈسٹریل سیکٹر، زرمبادلہ کے حصول میں رکاوٹیں اور لاقانون رئیل سٹیٹ سیکٹر شامل ہیں۔ مذکورہ بالا ہر شعبے پر الگ سے تفصیلی بحث درکار ہے۔ ڈاکٹر فہد رحمن نے ان سب شعبوں پر اپنی گراں قدر تجاویز دی ہیں جن پر حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سٹرکچرل یا ڈھانچہ جاتی مسائل اور ان کے حل کے فقدان کے نتائج کو انہوں نے الگ چیپٹر میں رقم کیا ہے جس میں ادائیگیوں کا بحران، افراط زر اور جائیداد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ شامل ہیں۔
اگر حکومتی وزراءیا مشیران حکومت میں سے کوئی شخصیت اس کتاب کا غیر جانبداری اور غیر سیاسی انداز میں مطالعہ کرتے تو اس میں مذکورہ تمام پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے واضح تجاویز دی گئی ہیں۔ معیشت حکمرانی کا اہم ترین شعبہ ہے۔ ملک میں معاشی حالت تبدیل کیے بغیر حقیقی تبدیلی کا تصور بے معنی ہے اور معیشت کو سمجھنے کے لیے آپ ماہرین کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کی معاشی معیشت کے انہوں نے یہ ہے کہ رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

معاشی کامیابیاں اور کچھ رکاوٹیں

کچھ عرصہ پہلے اور یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جاتی تھی لیکن خدائے بزرگ و برتر کا شکر ہے کہ موجودہ حکومت اور آرمی چیف کی کوششوں سے پاکستان اب اس خطر ناک صورت حال سے نکل کر معمول کی حالت میں آ چکا ہے ۔ پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور چند ماہ پہلے جو چالیس ہزار پوائنٹس پر تھی آج وہی ہنڈرڈ انڈیکس 1لاکھ سترہ اٹھارہ ہزار کو کراس کر چکا ہے اور ابھی چند دن پہلے عالمی بنک اور معاون اداروں نے10سالہ کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت 40ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت عالمی بنک اور معاون ادارے جن میں انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے ) اور انٹر نیشنل بنک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی بی آر ڈی) کے تحت بیس ارب ڈالر کی معاونت کی جائے گی جبکہ مجموعی طور پر 40ارب ڈالر دیئے جائیں گے ۔ یہ رقم تعلیم ، صحت ، توانائی اور دیگر شعبوں میں لگائی جائے گی اور یہ اس صورت حال میں کہ جب کچھ لوگ” صبح ڈیفالٹ شام ڈیفالٹ میری سیاست کا ہے کام ڈیفالٹ “ کاراگ الاپ رہے تھے اس میں یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ یہ بیرون ملک سے کامیابی ہے تو اندرون ملک بھی حکومت معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے لئے کوشاں ہے۔ گذشتہ ہفتہ وزیر اعظم نے کراچی میں کسٹم کلیئرنس کے حوالے سے فیس لیس سسٹم کا افتتاح کیا جس کی وجہ سے کسٹم کلیئرنس کا وقت 119گھنٹے سے کم ہو کر کم و بیش 20گھنٹے پر آ گیا ہے اور اس میں اصل بات کرپشن کے خاتمہ کی بھی ہے کہ کسٹم افسران کے سامنے جس کارگو کے جو بھی کاغذات کلیئرنس کے لئے کمپیوٹرکی سکرین پر آئیں گے تو ان کسٹم افسران کو بھی علم نہیں ہو گا کہ یہ کس امپورٹر کے ہیں لیکن کچھ لوگ حکومت کی ان تمام کاوشوں پر پانی پھیرنے کا کام بھی کر رہے ہیں ۔ کسٹم کلیئرنس کے حوالے سے مدر پورٹ کراچی ہے لیکن حکومت نے اندرون ملک درآمدی اور برآمدی مال کی کلیئرنس کی سہولت کے لئے بڑے شہروں میں ڈرائی پورٹس بنائے ہیں ۔جس کارگو کو اندرون ملک آنا ہوتا ہے اس کے لئے کراچی کسٹم میں ٹی پی یعنی ٹرانزٹ پاس فائل کی جاتی ہے اور اس کے بعد بانڈڈ کیریئرکے ذریعے اسے ڈرائی پورٹ پر لایا جاتا ہے ۔ سامان کی حفاظت اور کسی گڑبڑ سے بچنے کے لئے حکومت ہر گاڑی کے ساتھ ٹریکر سسٹم کا استعمال کر رہی تھی لیکن اب اچانک ٹریکر کمپنی سے معاہدہ ختم کر دیا اور ایک عجیب و غریب کانوائے سسٹم شروع کیا کہ پندرہ گاڑیاں ایک قافلے کی شکل میں جائیں گی ۔ اس سے یہ ہوا کہ ایک کنٹینرائزڈ کارگو جو جہاز لگنے کے چار دن بعد لاہور پہنچ جاتا تھا اب وہ دس دن میں پہنچ رہا ہے جس سے امپورٹرزکو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے ۔
اب ہوتا کیا ہے کہ جب کوئی بھی جہاز درآمدی کارگو لے کر کراچی کی بندر گاہ پر پہنچتا ہے تو کراچی پورٹ پر چند دن فری ہوتے ہیں اور یہ چند دن چار چھ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ہوتے ۔ اس دوران اگر متعلقہ کارگو کی بر وقت کسٹم کلیئرنس ہو جائے تو ٹھیک ورنہ اگر کسی بھی وجہ سے مال پورٹ پر پڑا رہتا ہے تو فری دن گذرنے کے بعد اس کارگو پر بھاری سٹوریج پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور یہ مال کے حجم اور وزن کے حساب سے لیا جاتا ہے لیکن اگر کارگو کنٹینر کی شکل میں ہے اور یہ کسی بھی وجہ سے چاہے اس میں قصور کسٹم حکام کا ہی ہو ، فری ایام میں کلیئر نہیں ہوتا تو اس پر دوہرا سرچارج پڑنا شروع ہو جاتا ہے ایک تو وہ جو کراچی پورٹ ٹرسٹ اتھارٹی کی جانب سے یا جہاز جس برتھ پر لگا ہے وہ جس کے
پاس ہے ان کی جانب سے سرچاج لگتا ہے اور دوسرا کنٹینر جس شپنگ کمپنی کی ملکیت ہوتا ہے وہ بھی چند دن بعد اس کنٹینر پر ڈیٹینشن کے نام پر ڈالروں میں امپورٹر سے چارج کرنا شروع کر دیتی ہے جو بیس اور چالیس فٹ کنٹینر پر فری ایام کے بعد ابتدائی طور پر بیس ڈالر اور چالیس ڈالر یومیہ کے حساب سے چارج کئے جاتے ہیں جبکہ کارگو کی کلیئرنس میں اگر مزید تاخیر ہو جائے تو یہ سو ڈالر یومیہ تک بھی چلے جاتے ہیں ۔ چند دن پہلے تک جس دن جہاز کراچی پورٹ پر لگتا تھا تو اس سے اگلے دن ہی کنٹینر کراچی پورٹ سے ڈرائی پورٹس کے لئے نکل جاتا تھا اور تین دن میں لاہور پہنچ جاتا تھا لیکن اب کانوائے کی شرط کی وجہ سے کنٹینر ٹرک پر لوڈ ہو کر ایک ایک ہفتہ کانوائے بننے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جس سے کراچی پورٹ ، شپنگ کمپنی کے چارجز اور پھر ٹرک کا فالتو خرچ بھی مال درآمد کرنے والے کی جیب سے جاتا ہے ۔ اب آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاجر برادری کو کس طرح کروڑوں اربوں روپے کا نقصان پہنچا کر معیشت کے لئے بارودی سرنگیں کھودی جا رہی ہیں ۔
یہ صورت حال اس لئے خاص طور پر افسوس ناک بھی ہے اور فکر انگیز بھی کہ ایک جانب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت مل کر ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اور یہ جدوجہد کوئی معمولی نہیں ہے اس لئے کہ گذشتہ سال سری لنکا اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی اپنے ملک کو دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا سکا اور پھر وہاں پر مہنگائی اور بیروز گاری کا جو طوفان آیا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ پاکستان میں بھی یقینا کچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ خاکم بدہن پاکستان بھی دیوالیہ ہو جائے اور اس کے لئے انھوں نے کوشش بھی کی لیکن خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا اور ملک نہ صرف یہ کہ دیوالیہ ہونے بچ گیا بلکہ پاکستانی معیشت اب بہتری کی سمت اپنا سفر شروع کر چکی ہے لیکن یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اگر کاروباری برادری کے لئے مشکلات اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی تو یہ کسی بھی طرح ملکی معیشت کے لئے بہتر نہیں ہو گا بلکہ معیشت کی بہتری کے لئے جتنی کوششیں ہو رہی ہیں انھیں ریورس گیئر بھی لگ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پہلے سے پتا تھا سزا ہوگی، یہ سب صرف پی ٹی آئی کے پیچھے لگے ہیں، شوکت یوسفزئی
  • معاشی کامیابیاں اور کچھ رکاوٹیں
  • ایف بی آر کا انفارمیشن پالیسی کے تحت ڈیٹا گورننس آفس قائم کرنے کا فیصلہ
  • ایف بی آر نے ڈیٹا گورننس آفس تخلیق کردیا،نوٹیفکیشن جاری
  • جیل میں نہیں روئی،بغیر کسی قصور کے 5 ماہ جیل میں رہ کر آئی ہوں، مریم نواز
  • غزہ میں امن کی آڑ میں کوئی بھی غیر منصفانہ سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے،شیری رحمن
  • ’’ایک اچھی پیش رفت یہی ہے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں‘‘
  • نئے صوبوں سے معاشی، سیاسی اور اقتصادی بہتری آئیگی، ڈاکٹر سلیم حیدر
  • دھاندلی سے پاک انتخابات ناگزیر، سیاستدانوں کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے، مولانا فضل الرحمان